محمد بلال
فروری ۱۹۲۳ء کی ۲ تاریخ تھی ۔ مولانا حکیم عبدالحئی بسترِ علالت پر دراز تھے ۔ ان کا نو دس برس کا بچہ ان کے پاؤں داب رہا تھا۔اس دوران میں اس بیمار کی آواز بند ہو گئی۔ قریب بیٹھی اس بچے کی بہنوں کو تشویش ہوئی۔ وہاں موجود بیمار کے ایک دوست نے جو حکیم ہی تھے، اس تشویش کو دکھ میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ مولانا عبد الحئی وفات پا چکے ہیں۔ شہر میں فوراً یہ خبر پھیل گئی۔ مرحوم سے محبت اور عقیدت رکھنے والے جوق در جوق آنے لگے۔ ان سب لوگوں کی ہمدردی اور دل جوئی کا مرکزو محور وہی نو دس سالہ بچہ تھا۔ کوئی اسے شفقت سے اپنے پاس بٹھا لیتا، کوئی سینے سے لگا لیتا، کوئی سر پر ہاتھ پھیرتا، سب کی آنکھیں اشک بار تھیں، لیکن وہ بچہ نہیں جانتا تھا کہ ان تعزیت کرنے والوں کی باتوں کا کیا جواب دینا ہے۔ اس بچے کا بڑا بھائی ان باتوں کا مناسب جواب دینے کی صلاحیت رکھتا تھا، مگر وہ اس سانحہ سے بالکل بے خبر اور بہت دور تھا۔
یہ بچہ کون تھا جو نو دس سال کی عمر ہی میں یتیم ہوگیا ؟ یہ بچہ ابو الحسن علی تھا جس نے سید ابوالحسن علی ندوی کے نام سے عالم گیرشہرت حاصل کی اور’’علی میاں‘‘کے نام سے لوگوں کے دلوں میں جگہ پائی۔ علی میاں خود اپنے والد کی وفات سے اپنے بڑے بھائی جناب عبد الحئی کی بے خبری اور باخبر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’بھائی صاحب جنھوں نے یہ خبر اتفاقیہ بمبئی میں والد صاحب کے ایک دوست سے سنی تھی، جب لکھنؤ واپس ہوئے اور رائے بریلی پہنچے تو سیدھے قبر پر گئے۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ ان کا قبر پر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا اِس وقت آنکھوں کے سامنے ہے اور کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔ بس اسی وقت سے ان کے اندر ہم سب لوگوں نے ایک انقلاب محسوس کیا، اب وہ نرے بڑے بھائی نہ تھے جو اپنی تعلیم کی تکمیل میں ہمہ تن مشغول، یکسو اور گھر کے قصوں سے بے تعلق و فارغ تھے۔ اب وہ ہم چھوٹے بھائی بہنوں کے شفیق باپ اور والدہ صاحبہ کے ایک سعادت مند فرزند، بلکہ خادم تھے۔ میں نے ان سے صرف شفقتِ پدری کا اظہار ہوتے نہیں دیکھا بلکہ شفقتِ مادری کا بھی صاف صاف ظہور ہوتا تھا ۔‘‘ (کاروانِ زندگی، ص ۷۸- ۷۹)
واقعی، زندگی ایسی ہی ہے۔ اس کی باتوں کو ایک طویل عرصہ گزر جائے تب بھی وہ ’’کل کی بات معلوم ہوتی ہیں ۔‘‘ جو ’’سادہ لوح‘‘ لوگ زندگی کی بے ثباتی کو سمجھ نہیں پاتے، وہ خدا اور آخرت سے بے نیاز زندگی گزارتے ہیں اور جو ’’دانا‘‘ اس حقیقت کا شعور حاصل کر لیتے ہیں وہ خدا اور آخرت کے لیے زندگی گزارتے ہیں۔ علی میاں بھی ’’دانا‘‘ لوگوں میں سے تھے بلکہ وہ ’’دانا‘‘ لوگوں میں بھی غیرمعمولی مقام پر فائز لوگوں میں سے تھے۔ علی میاں کے بڑے بھائی والد کی وفات کے بعد جس طرح ایک گھر کے ’’سعادت مند خادم‘‘ بن گئے اسی طرح علی میاں شعور کی آنکھ کھولنے کے بعد برصغیر پاک و ہند، اس کے بعد عرب کے بھی اور پھر عالمِ اسلام کے ’’سعادت مند خادم‘‘ بن گئے تھے اور آپ نے آخری سانس تک اس خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔
آہ! ۱ ۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کو علی میاں وفات پا گئے۔ آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔
علی میاں کے بعض علمی اور سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن یہ بات کہ انھوں نے بڑے خلوص کے ساتھ دین کی بے پناہ خدمت کی، اس سے اختلاف کی رتی برابر بھی گنجایش نہیں ہے۔
علی میاں کا تعلق حسنی سادات کی ایک شاخ سادات قطبیہ سے تھا۔ آپ کے جدِ اعلیٰ کبیر الشیخ قطب الدین المدنی (وفات ۶۷۷ ہجری) ساتویں صدی ہجری کے نصف اول میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بغداد سے غزنی (ہندوستان) تشریف لائے۔ بغداد میں اس وقت تاتاریوں نے حملہ کر دیا تھا اور اپنی روایتی لوٹ مار کا بازار بھی گرم کر رکھا تھا ۔
یہاں اس وقت خاندانِ غلاماں کی ترک اسلامی حکومت قائم تھی۔ اپنے خاص خاندانی پس منظر کے باعث شیخ قطب الدین یہاں ’’شیخ الاسلامی‘‘ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ نے جنگ میں بھی حصہ لیا۔ آپ کی قیادت میں ضلع الہ آباد میں کرناٹک پور کا علاقہ فتح ہوا جو سلطانِ دہلی نے آپ کو بطور جاگیر عطا کیا۔ آپ کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے ۔
اسی خاندان میں پھر زاہد اور درویش شخصیت الشیخ علم اللہ پیدا ہوئی۔ اس خاندان میں الشیخ علم اللہ کے تقریباً ایک سو سال بعد سید احمد شہید رائے بریلوی جیسی ہستی پیدا ہوئی ۔
اس خاندان میں علم و فضل کا سلسلہ جاری رہا۔ علی میاں کے دادا سید فخر الدین خیالی شاعر اور مصنف تھے۔ علی میاں کے والد گرامی مولانا حکیم عبد الحئی مؤرخ اور ادیب تھے۔ مولانا حکیم عبد الحئی مولانا سید شبلی نعمانی کے رفقا میں سے تھے اور ندوۃ العلما کے تاحیات ناظم رہے۔ علی میاں نے بھی اس درس گاہ سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۶۱ ء میں والد کی وفات کے بعد علی میاں ندوۃ العلما (جس کو اختصار کے ساتھ ’’ندوہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے) کے ناظم مقرر ہوئے اور آخر تک یہ ذمہ داری پوری کرتے رہے۔ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ’’ندوۃ‘‘ کے بارے میں کچھ وضاحت کر دی جائے ۔
برصغیر میں دارالعلوم دیوبند کا مقصد لوگوں کو دینی تعلیم اور علی گڑھ کالج کا مطمح نظر دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنا تھا، مگر اس سے دینی اور دنیوی تعلیم میں ایک خلیج حائل ہونا شروع ہو گئی، اس وقت کے دلِ دردمند اور دیدۂ بینا رکھنے والے لوگوں کو احساس ہوا کہ ایک ایسی درس گاہ قائم ہونی چاہیے جہاں دینی اور دنیوی علوم کو یکجا کر دیا جائے۔ اس خواب کو صورت پذیر کرنے میں مولانا حکیم عبدالحئی اور مولانا شبلی نعمانی نے نمایاں کردار ادا کیا ۔
۱۸۹۸ ء میں اس دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی۔ ابتداً یہ ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا جو آج ایک عظیم اسلامک عریبک یونیورسٹی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ندوہ‘‘ نے جو ترقی علی میاں کے دورِ نظامت میں کی، وہ ترقی اور کسی دور میں نہ ہو سکی۔ ’’ندوہ‘‘ کیا تھا اور کیا بن گیا ؟ اس کے بارے میں خود علی میاں لکھتے ہیں:
’’ندو العلما کی تحریکِ اصلاحِ نصاب اور دینی تعلیم کی ترقی اور اس کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق بنانے (تطویر) کی مہم کوئی محدود مقامی اور وقتی تحریک نہ تھی، وہ ایک مستقل ’’دبستانِ فکر‘‘ تھا جو عقائدِ صحیحہ سے لے کر تعلیمی نظریہ، تاریخ کے خاص تصور، تہذیب و ثقافت، علم و ادب کے خاص معیار، سب کو اپنے وسیع دامن میں لیے ہوئے تھا۔ اکتوبر، نومبر ۱۹۷۵ ء میں جب ندوۃ العلما کا وہ پچاسی سالہ تعلیمی جشن منعقد ہوا جو اپنی مقصدیت اور افادیت، مختلف طبقات کی نمائندگی اور عرب فضلا و اہلِ فکر کی اتنی بڑی تعداد کی شرکت کی وجہ سے (جو اس سے پہلے اس برصغیر میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی) ایک یادگار اور تاریخی اجتماع تھا، اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ندوۃ العلما کے مسلک کو موقر شرکاے اجلاس کے سامنے واضح اور آیندہ نسلوں کے لیے متعین کر دیا جائے تاکہ کسی قسم کا التباس باقی نہ رہے تو راقمِ سطور نے ندوۃ العلما کے محرکِ اول (مولانا سید محمد علی مونگیری رحمہ اللہ) اور ان کے روشن ضمیر رفقاے کار اور بانیانِ ندوۃ العلما کی تحریروں اور تقریروں، ان کے مسلک و خیالات اور ان کے مقاصد و دلی جذبات کو سامنے رکھ کر تحریکِ ندوۃ العلما کی فکری بنیادوں، اس کے اعتقادی اور فکری حدود اربعہ اور اس کے نمایاں خط و خال کو اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اور اس تحریر کو دارالعلوم کے صدر دروازہ پر نمایاں طریقہ پر مرتسم کر دیا گیا جو ابھی تک باقی ہے۔‘‘ ( کاروانِ زندگی، ص ۱۴۰ )
اس تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دین و عقائد کے معاملہ میں ندوۃ العلما کے مسلک کے بنیاد دینِ خالص پر ہے جو ہر قسم کی آمیزش اور آلایش سے پاک، تاویل اور تحریف سے بلند، ملاوٹ اور فریب کی دسترس سے دور اور ہر اعتبار سے مکمل اور محفوظ ہے ۔
دین کے فہم اور اس کی تشریح اور تعبیر میں اس کی بنیاد اسلام کے اولین اور صاف و شفاف سرچشموں سے استفادہ اور اس کی اصل کی طرف رجوع پر ہے ۔
اعمال و اخلاق کے شعبہ میں دین کے جوہر ومغز کو اختیار کرنے، اس پر مضبوطی سے قائم رہنے، احکامِ شرعیہ پر عمل، حقیقتِ دین اور روحِ دین سے زیادہ قربت اور تقویٰ و صلاحِ باطن پر ہے ۔
تصورِ تاریخ میں اس کی بنیاد اس پر ہے کہ اسلام کے ظہور اور عروج کا دورِ اول سب سے بہتر اور قابلِ احترام دور اور وہ نسل جس نے آغوشِ نبوت اور درس گاہِ رسالت میں تربیت پائی اور قرآن و ایمان کے مدرسہ سے تیار ہو کر نکلی، سب سے زیادہ مثالی اور قابلِ تقلید نسل ہے اور ہماری سعادت و نجات اور فلاح و کامرانی اس بات پرمنحصر ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں ۔
نظریۂ علم و فلسفۂ تعلیم میں اس کی اساس اس پر ہے کہ علم بذاتِ خود ایک اکائی ہے جو قدیم و جدید اور مشرق و مغرب کے خانوں میں تقسیم نہیں کی جا سکتی اگر اس کی کوئی تقسیم ممکن ہے تو وہ تقسیم صحیح اور غلط، مفید اور مضر اور ذرائع اور مقاصد کے اعتبار سے ہو گی، استفادہ اور افادہ اور ترک و قبول کے شعبہ میں اس کا عمل اس حکیمانہ نبوی تعلیم پر ہے کہ ’’حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں بھی وہ اس کو پائے وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔‘‘ نیز قدیم حکیمانہ اصول ’خذ ما صفا ودع ماکدر‘ پر (یعنی جو صاف و نظیف ہو اس کو لے لو، اور جو آلودہ وکثیف ہو اس کو چھوڑ دو )۔‘‘ ( کارونِ زندگی، ص ۱۴۱- ۱۴۲ )
علی میاں کا گھرانا غیر معمولی طور پر مذہبی اور علمی گھرانا تھا۔ یہاں تصنیف و تالیف کا بھی بہت رجحان تھا۔ علی میاں کی والدۂ محترمہ سیدہ خیر النساء حافظۂ قرآن، شاعرہ اور مصنفہ تھیں۔ اپنی اولاد کی تربیت کے معاملے میں آپ بہت حساس تھیں۔ آج کل کی مائیں بھی اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہیں، مگر ان کا بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا بچہ روانی سے انگریزی بول سکے اور بہت اچھی تنخواہ، اختیارات اور مراعات کی حامل ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہو سکے، مگر علی میاں کی والدہ آج کی ماں کی طرح ’’سادہ لوح‘‘ نہ تھیں۔ وہ ایک ’’دانا‘‘ خاتون تھیں۔ وہ انسان اور کائنات کی وجۂ تخلیق سے بہت اچھی طرح آگاہ تھیں۔ ان کے نزدیک اولاد کے معاملے میں بڑا مسئلہ کیا تھا ؟ علی میاں کی زبانی سنیے:
’’گھر میں کسی بڑے مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ ہی میری نگرانی، اخلاقی و دینی تربیت کی ذمہ دار تھیں، مجھے قرآنِ مجید کی بڑی بڑی سورتیں انھوں نے اسی زمانہ میں یاد کرائیں، باوجود اس کے کہ ان کی شفقت خاندان میں ضرب المثل تھی اور والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے وہ میری دل داری اور ایک حد تک ناز برداری قدرتاً دوسری ماں سے زیادہ کرتی تھیں لیکن دو باتوں میں بہت سخت تھیں ایک تو نماز کے بارے میں مطلق تساہل نہیں برتتی تھیں، میں عشا کی نماز پڑھے بغیر کبھی سو گیا، خواہ کیسی ہی گہری نیند ہو اٹھا کر نماز پڑھواتیں اور نماز پڑھے بغیر ہرگز سونے نہ دیتیں، اسی طرح فجر کی نماز کے وقت جگا دیتیں اور مسجد بھیجتیں اور پھر قرآنِ مجید کی تلاوت کے لیے بٹھا دیتیں۔ دوسری بات جس میں وہ قطعاً رعایت نہ کرتیں اور اس میں ان کی غیر معمولی محبت و شفقت حارج نہ ہوتی، یہ تھا کہ اگر میں خادم کے لڑکے یا کام کاج کرنے والے غریب بچوں کے ساتھ کوئی زیادتی، ناانصافی کرتا یا حقارت اور غرور کے ساتھ پیش آتا تو وہ نہ صرف مجھ سے معافی منگواتیں بلکہ ہاتھ تک جڑواتیں۔ اس میں مجھے کتنی ہی اپنی ذلت اور خفت محسوس ہوتی مگر وہ اس کے بغیر نہ مانتیں۔ اس کا مجھے اپنی زندگی میں بہت فائدہ پہنچا اور ظلم و تکبر و غرور سے ڈر معلوم ہونے لگا اور دل آزاری اور دوسروں کی تذلیل کو کبیرہ گناہ سمجھنے لگا۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنی غلطی کا اقرار کر لینا ہمیشہ آسان معلوم ہوا ۔‘‘( کاروانِ زندگی، ص ۸۱ )
علی میاں کے اپنے الفاظ ہیں کہ ایک موقع پر انھیں انگریزی پڑھنے کا دورہ پڑا۔ ان کے انگریزی میں غیرمعمولی اور غیر متوازن انہماک کا علم ان کی والدہ صاحبہ کو ہوا ـــــــــ والدہ صاحبہ انگریزی زبان اور علمِ دین کا فرق بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں ـــــــــ تو انھوں نے علی میاں کو خط لکھا:
’’علی، تم کسی کے کہنے میں نہ آؤ، اگر خدا کی رضا مندی حاصل کرنا چاہتے ہو اور میرے حقوق ادا کرنا چاہتے ہو تو ان مردوں پر نظر کرو جنھوں نے علمِ دین حاصل کرنے میں عمر گزار دی، ان کے مرتبے کیا تھے، شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ عبد العزیز صاحب، شاہ عبد القادر صاحب، مولوی محمد ابراہیم صاحب اور تمھارے بزرگوں میں خواجہ احمد صاحب اور مولوی محمد امین صاحب جن کی زندگی اور موت اس وقت قابلِ رشک ہوئی کس شان و شوکت کے ساتھ دنیا برتی اور کیسی کیسی خوبیوں کے ساتھ رحلت فرمائی، یہ مرتبے کیسے حاصل ہو سکتے ہیں، انگریزی مرتبے والے تمھارے خاندان میں بہت ہیں اور ہوں گے، مگر اس مرتبہ کا کوئی نہیں ..... علی، اگر میرے سو (۱۰۰) اولادیں ہوتیں تو میں یہی تعلیم دیتی، اب تم ہی ہو، اللہ تعالیٰ میری خوش نیتی کا پھل دے کہ سو (۱۰۰) کی خوبیاں تم سے حاصل ہوں اور میں دارین میں سرخ رو اور نیک نام ہوں اور صاحبِ اولاد کہلاؤں، آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔‘‘ ( کاروانِ زندگی، ص ۱۲۲ - ۱۲۳ )
علی میاں کو انگریزی زبان میں مناسب استعداد حاصل ہو چکی تھی۔ چنانچہ انھوں نے لکھا:
’’والدہ صاحبہ کی دعاے نیم شبی اور آہ سحر گاہی کا اثر تھا کہ میرا دل اچانک انگریزی کی مزید تعلیم سے اچاٹ ہو گیا اور میں نے کورس کی ساری کتابیں زبردستی لوگوں کے گلے لگائیں۔‘‘ (کاروانِ زندگی، ص ۱۲۳ )
سید رضوان علی ندوی کا علی میاں کے ساتھ تعلق ۵۳ سال پر محیط ہے۔ یہ تعلق ۱۹۴۷ء سے قائم ہوا اور علی میاں کی وفات تک کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا۔ رضوان علی صاحب علی میاں کی زندگی کے تصنیفی، عملی اور درویشانہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا مرحوم کی اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز سولہ سال کی عمر میں ہوا جب آپ نے سید احمد شہید رحمہ اللہ پر عربی میں ایک مقالہ لکھا اور یہ مقالہ کتابی شکل میں مصر میں چھپا اور وہاں کے علما نے اس کی داد دی۔ مولانا مرحوم کی پہلی اردو کتاب ’’سیرت سید احمد شہید‘‘۱۹۳۹ ء میں چھپی جب آپ کی عمر صرف ۲۵ برس تھی اور اس نے ملک کے مشہور علما و بزرگانِ دین سے خراجِ تحسین حاصل کیا جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں اس کے بعد سے تو مولانا مرحوم کے قلم سے تصانیف کا ایک سیلِ رواں تھا جو زندگی کے آخری ایام تک موجیں مارتا رہا ۔
آپ کی زندگی کے علمی و عملی و روحانی پہلو اتنے متنوع اور کثیر تعداد میں ہیں کہ ایک دو مضمونوں میں ان کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کی زندگی میں ان پر اردو و عربی میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور آیندہ لکھی جائیں گی۔ مولانا محشاد علی قاسمی کی کتاب ’’مولانا ابو الحسن علی ندوی ـــــــــ مشاہیر امت کی نظر میں‘‘طبع ہو چکی ہے اور اسی طرح گزشتہ سال دمشق سے عربی زبان میں ایک نوجوان ہندوستانی مصنف عبدالماجد الغوری الندوی کی ’’ابوالحسن علی الحسنی الندوی، الامام المفکر والداعیہ الادیب‘‘ چھپی ہے، تازہ ترین کتاب مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی کے قلم سے ’’میرِ کارواں‘‘ ہے، جس میں مولانا مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ..... مولانا کی تصنیفات کی تعداد ۱۷۶ ہے۔ ایک نوجوان ندوی مصنف طارق زبیری نے مولانا کی ایک فہرست گزشتہ سال (۱۹۹۸ ء) میں شائع کی ہے جس میں یہ تعداد و تفصیل مذکور ہے۔ ( روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ۸۰ تصنیفات کی بات غلط ہے ۔)
مولانا کی مشہور ترین تصنیف وہ ہے جو آپ نے ۱۹۴۷ء میں عربی زبان میں لکھی تھی۔ یعنی ’’ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین‘‘، اس کا اردو ترجمہ ’’مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہنچا‘‘، عربی اصل سے قبل چھپ چکا تھا جو مولانا مرحوم ہی کے قلم سے تھا۔ اصلی عربی کتاب مصر کے ایک مشہور علمی ادارے ’’لجنتہ التالیف و الترجمہ و النثر‘‘ کی طرف سے ۱۹۵۰ء میں چھپی اور اس نے سارے عالمِ عرب سے خراجِ تحسین حاصل کیا۔ بہت سے عرب مصنفین کے بقول ۲۰ ویں صدی کی یہ سب سے زائد چھپنے والی عربی کتاب ہے۔ ’’میرِ کاروان‘‘ کے مصنف کے بقول اب تک اس کے ۷۰ قانونی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ غیرقانونی اس کے علاوہ ہیں۔ یہ کتاب مولانا مرحوم کے بقول مصر، شام وسوڈان کے پہلے سفر میں ان کا وزٹنگ کارڈ تھا۔ مولانا کی دیگر تصانیف کی طرح یہ کتاب بہت سے ممالک کی عرب یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل ہے۔ اس کا انگریزی، فارسی، ترکی، انڈونیشی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ انگریزی ترجمہ کا نام ’’اسلام اینڈ دی ورلڈ‘‘ ہے۔ حقیقت ہے کہ یہ تاریخ ساز کتاب ہے ۔
مولانا کی دوسری انتہائی اہم اور حوالہ (ریفرنس) کی کتاب اردو میں ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ ہے جو سات جلدوں میں اور چھ اجزا میں لکھنو و کراچی سے شائع ہوئی ہے اور برابر چھپ رہی ہے۔ اس میں مولانا مرحوم نے عالمِ اسلام کی ان ہستیوں کا ذکر کیا ہے جنھوں نے ہر دور میں اسلام کی خدمت اور اس کے پیغام کو تازہ کرنے کا کام انجام دیا۔ یہ عمر بن عبد العزیز سے لے کر سید احمد شہید رحمہ اللہ پر ختم ہوتی ہے۔ اس آخری جزو کی دو جلدیں ہیں یہ عربی زبان میں بھی چار جلدوں میں دمشق سے شائع ہو چکی ہے۔ مولانا مرحوم نے اپنی تصنیفات میں تحقیق و جستجو کا وہ معیار قائم رکھا ہے جس کی بنا شبلی و سلیمان ندوی نے ڈالی تھی بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق اس کو کچھ مزید ترقی دی ہے۔ مولانا مرحوم نے اپنے زمانے اور ماقبل کے بہت سے بزرگوں کی سوانح عمریاں بھی لکھی ہیں جن میں ’’تذکرہ مولانا فضل گنج مراد آبادی‘‘،’’سوانح حضرت عبدالقادر رائے پوری‘‘، ’’مولانا الیاس احمد اور ان کی دینی دعوت‘‘،’’سوانح مولانا محمد یعقوب‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
آپ کی کتاب ارکان اربعتہ (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) بھی اپنے موضوع پر منفرد کتاب ہے اس کا بھی عربی ترجمہ ہو چکا ہے۔ پرانے چراغ (تین جلدیں) ان لوگوں کے سوانحی خاکے ہیں، جن کو مولانا نے دیکھا اور جن سے رفاقت رہی۔ تاریخ کے علاوہ یہ ادب کی انتہائی معیاری کتاب ہے۔ مولانا مرحوم کی عربی نثر کی دل آویزی اور اثر انگیزی کے سارے عرب ادیب معترف ہیں۔ اور اسی طرح اردو نثر کے معترف آل احمد سرور اور مرحوم ڈاکٹر ابواللیث جیسی شخصیات رہی ہیں ۔
مولانا نے یورپ، امریکہ اور عالمِ عرب کے سفر نامے بھی خاصے کی چیز ہیں۔ آخر میں مولانا نے خود آپ بیتی کا سلسلہ ’’کارروانِ زندگی‘‘ کے نام سے شروع کیا تھا جس کی سات جلدیں چھپ چکی ہیں۔ وفات سے ماہ ڈیڑھ ماہ قبل مولانا مرحوم نے مجھے ساتویں جلد کی اشاعت کی خبر دی تھی۔ مجلسِ نشریاتِ اسلام کا ادارہ جس نے مولانا مرحوم کی بیشتر اردو کتابیں شائع کیں ’’کاروانِ زندگی‘‘ کی چھ جلدیں شائع کر چکا ہے۔
مولانا مرحوم کی آپ بیتی صرف اپنی ذات کی داستان نہیں بلکہ یہ عالمِ عرب، ہندوستان، یورپ و امریکہ اور خاص کر پورے عالمِ اسلام اور مسلمانانِ عالم کی داستان ہے۔ ہندوستان کے اسلامی مؤرخ کے لیے تو اس میں بے انتہا علمی سرمایہ ہے ..... مولانا عالمِ اسلام کی تنظیموں کے رکنِ اساسی یا ممبر تھے۔ آپ رابطہ عالمِ اسلامی ، مسلم ورلڈ لیگ، مکہ و مدینہ اسلامک یونیورسٹی کے فاؤنڈرممبر تھے۔ اسی طرح دمشق کی عرب اکیڈمی، اسلامی انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد فقہ اکیڈمی جدہ وغیرہ۔ آپ کا یورپ میں اہم کارنامہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی ریسرچ سینٹر قائم کرانا تھا جو ۱۴ سال قبل بعض عرب شخصیات اور یونیورسٹی کے تعاون سے قائم ہوا اور جس کے مولانا چئیرمین رہے۔ اسی طرح آپ نے رابطۂ ادبِ اسلامی قائم کیا جس کے جلسے ترکی، اردن، پاکستان وغیرہ میں ہوتے رہے۔ (ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کراچی، ۱۲ جنوری ۲۰۰۰ء ص ۲۳ )
اب آخر میں علی میاں کی تقریروں اور تحریروں سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ ان اقتباسات سے علی میاں کے طرزِ فکر اور اسلوبِ بیان سے آگاہی حاصل ہو گی ۔
’’انسانیت کے مسائل اور مشکلات کا حل نہ لباس کی یکسانی ہے، نہ زبان اور تہذیب کا اشتراک، نہ ملک و وطن کی وحدت، نہ علم و دولت، نہ تہذیب و تنظیم، نہ وسائل و ذرائع کی کثرت، ان سب میں کوئی ایک بھی ایسی طاقت نہیں جو دنیا کو بدل دے، جب تک دل کی دنیا نہیں بدلتی، باہر کی دنیا نہیں بدل سکتی، پوری دنیا کی باگ ڈور دل کے ہاتھ ہے، زندگی کا سارا بگاڑ دل کے بگاڑ سے شروع ہوا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے، میں کہتا ہوں انسان دل کی طرف سے سٹرتا ہے، یہاں سے بگاڑ شروع ہوتا ہے اور ساری زندگی میں پھیل جاتا ہے ۔..... پیغمبر یہیں سے اپنا کام شروع کرتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ سب دل کا قصور ہے، انسان کا دل بگڑ گیا ہے، اس کے اندر چوری، ظلم، دغا بازی کا جذبہ اور ہوس پیدا ہو گئی ہے، اس کے اندر خواہش کا عفریت ہے جو ہر وقت اس کو نچا رہا ہے، اور وہ بچے کی طرح اس کے اشارے پر حرکت کر رہا ہے پیغمبر کہتے ہیں کہ ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ انسان پاپی ہو گیا ہے، اس کے اندر برائی کا جذبہ اور اس کا زبردست میلان پیدا ہو گیا ہے اس لیے سب سے ضروری اور مقدم کام یہ ہے کہ اس کے دل کی اصلاح کی جائے اور اس کے من کو مانجھا جائے ۔‘‘ ( تعمیرِ انسانیت، ص ۹ - ۲۰)
’’پیغمبر انسان کے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہیں، وہ نظام بدلنے کی اتنی کوشش نہیں کرتے، جتنا مزاج بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، نظام ہمیشہ مزاج کے تابع رہا ہے، اگر دل نہیں بدلتا، مزاج نہیں بدلتا تو کچھ نہیں بدلتا، لوگ کہتے ہیں کہ دنیا خراب ہے، زمانہ خراب ہے، میں کہتا ہوں یہ کچھ نہیں، بلکہ انسان خراب ہے، کیا زمین کی حالت میں فرق پڑ گیا، کیا ہوا کا اثر بدل گیا، کیا سورج نے گرمی اور روشنی دینی چھوڑ دی کیا آسمان کی حالت تبدیل ہو گئی ..... پیغمبر دلوں میں انجیکشن لگاتے ہیں، لوگ باہر کی ٹیپ ٹاپ کرتے ہیں اور اسی پر سارا زور صرف کرتے ہیں، پیغمبر اندر کے گھن کی فکر کرتے ہیں، آج ساری دنیا میں یہی ہو رہا ہے، انسانیت کا درخت اندر سے خشک ہوتا چلا جا رہا ہے، کیڑا اس کے گودے کو کھائے چلا جا رہا ہے، لیکن زمانہ کے بقراط اوپر سے پانی چھڑکوا رہے ہیں، درخت کے اندر کی سرسبزی اور اس کی نشوونما کی جو قوت تھی، وہ ختم ہو چلی ہے، لیکن پتیوں کو سرسبز کرنے کو ہوائیں (Gases) پہنچائی جا رہی ہیں، پانی چھڑکا جا رہا ہے کہ خشک پتے ہرے ہوں، پیغمبروں نے انسان کو انسان بنانے کی کوشش کی، انھوں نے اسے ایمانی انجیکشن دیا اور کہا کہ اے بھولے ہوئے انسان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان اور سوتے جاگتے، چلتے پھرتے اسے نگراں مان ’لا تاخذه سنة ولا نوم‘نہ اس پر اونگھ کا غلبہ ہوتا ہےو نہ اسے نیند آتی ہے ۔‘‘ ( تعمیرِ انسانیت، ص ۲۳- ۲۴)
’’آپ سے پہلے جو قومیں دنیا میں تباہ ہوئیں ان پر کسی مرض یا وبا سے تباہی نہیں آئی بلکہ وہ اپنے اخلاق کی خرابی، دولت پرستی اور کریکٹر کی گراوٹ سے تباہ ہوئیں، سیاسی پارٹیاں چاہے جو مرض اور بیماری بتلائیں مگر میں تو یہی کہتا ہوں کہ اصل بیماری انسانیت کی تباہی اور اخلاقی پستی ہے ۔‘‘ ( تعمیرِ انسانیت، ص ۲۶)
’’میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ماہر اقتصادیات یہ ثابت کرے کہ جتنی پیداوار ہے اس سے زیادہ آبادی ہے، کیونکہ اللہ نے جس انسان کو پیدا کیا ہے، اس کا رزق بھی پیدا کیا ہے، مگر آج انسان کی ہوس اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ چاہے ایک سیر نہ کھا سکے، مگر اپنے پاس ایک من دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ آنکھوں کی ہوس کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ آج فرضی ضرورتوں کی فہرست اتنی طویل ہو چکی ہے کہ جس کی تکمیل کبھی ہو ہی نہیں سکتی ۔‘‘(تعمیرِ انسانیت، ص ۶۲ - ۶۳)
’’انسانی ضروریات کی فہرست بہت لانبی نہیں، فضولیات (Luxuries) کی فہرست بہت لانبی ہے، سب نے اپنی بنیاد ’Luxuries‘ پر ر کھی ہے، زندگی کے تعیش کو مقصود بنا لو۔ معدہ اور نفس کو معبود مان لو، خدا کو نہ مانو، اس کی بالادستی کا انکار کرو، انسانوں کو ایک ترقی یافتہ جانور تسلیم کرو اور اس کی زیادہ سے زیادہ خواہشات کو پورا کرو، یہ سب اسی کا فساد ہے، جب تک یہ بنیاد باقی ہے ہزار کوششوں کے باوجود سدھار نا ممکن ہے، کسی شہر اور ملک کی تو کیا ایک میونسپلٹی کے رقبہ کی بھی اصلاح نہیں ہو گی ۔‘‘ ( تعمیرِ انسانیت، ص۷۴ - ۷۵)
’’انسانیت تہذیبوں سے بالاتر ہے، یہ سب تہذیبیں مل کر بھی آدمیت کو جنم نہیں دیتیں، آدمیت تہذیبوں کو جنم دیتی ہے، آدمیت کسی مخصوص زمانے اور کسی مخصوص مقام سے مخصوص نہیں۔ تہذیبیں اس کا لباس ہیں اور اپنا لباس بدلتی رہتی ہے اور اپنے سن اور اپنے ذوق کے مطابق اپنے کو آراستہ کرتی رہتی ہے اور یہ بالکل قدرتی اور ضروری ہے۔ جو بچہ ہے وہ بچوں کا لباس پہنے گا، جو جوان ہے وہ جوانوں کا چولا پہنے گا، بچوں کا لباس جوان کو نہیں پہنایا جا سکتا۔ انسانیت کو کسی خاص دور یا کسی خاص ملک کے کلچر کا پابند نہ کیجیے۔ انسانیت کو بڑھنے دیجیے۔ انسانیت آبِ حیات کا چشمہ ہے اسے ابلنے دیجیے، یہ صحرا، ریگستان اور میدانوں میں دوڑنا چاہتا ہے، اسے بڑھنے اور پھیلنے دیجیے۔ مذہب کے عالم گیر اور زندہ اصولوں اور اپنی ذہانت اور ذوق سے انسانیت کا ایک نمونہ اور ایک نیا پیکر پیدا کیجیے۔ انسانیت کا اخلاق کا ایک نیا گلدستہ بنائیے وہ تازہ اور شاداب گلدستہ ہو گا، جو پھول سوکھ گئے، مرجھا گئے ان کو گلے کا ہار بنانے پر اصرار نہ کیجیے۔
مذہب اور تہذیب کا راستہ الگ ہے، مذہب روح دیتا ہے اور کلچر ایک ڈھانچہ (Modle) ۔ مذہب طریقۂ حیات اور زندگی کا ایک ضابطہ دیتا ہے، کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے، پھر آزاد چھوڑ دیتا ہے، مثال کے طور پر تہذیب کہتی ہے کہ سیٹھے کا قلم مقدس ہے اور مذہب کو اس سے بحث نہیں کہ لوہے کے قلم سے لکھا جائے یا فونٹن پن سے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جائے وہ سچ ہو اور اچھا، مذہب مقصدِ حیات عطا کرتا ہے اور زندگی کو روح دیتا ہے، وہ انسانی زندگی پر کنٹرول قائم رکھتا ہے مگر اس سے حرکت اور نشوونما کی صلاحیت نہیں چھینتا کلچر کا احیا انسان کی نجات نہیں، چاہے یہ کام ہندو کرے یا مسلمان یا عیسائی ۔‘‘ ( تعمیرِ انسانیت، ص ۸۴- ۸۵)
’’پیغمبروں کا کام یہ نہیں کہ اپنے اپنے زمانہ میں نئی نئی ایجادیں کریں اور آلات اور مشینیں تیار کریں، وہ اس طرح کہ انسان پیدا کرتے ہیں جو ان مصنوعات اور وسائل کو صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے پر استعمال کرسکیں، یورپ وسائل پیدا کرتا ہے، پیغمبر مقاصد عطا کرتے ہیں، انھوں نے مشینیں نہیں ڈھالیں، آدمی ڈھالے تھے، یورپ نے مشینیں بنائیں مگر انھیں استعمال کون کرے ؟ درندہ صفت انسان ؟ آج ساری مصیبت یہ ہے کہ وسائل بہت ہیں، ایجادات بہت ہیں، سامان بہت ہے مگر صحیح طریقے پر استعمال کرنے والا آدمی نایاب ہے ۔‘‘( تعمیرِ انسانیت، ص۸۶)
’’یورپ اور امریکہ کے بڑے بڑے مفکر اب اس کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ تہذیبِ جدید نے وسائل پیدا کیے مگر مقاصد نہیں دیے، وسائل بغیر مقاصد کے بے کار ہیں ہم ایشیا کے رہنے والے یورپ سے کہہ سکتے ہیں کہ تمھارے وسائل اور تمھاری ترقیاں اور تمھارے انکشافات ناقص ہیں۔ سو ذریعے ایک مقصد کی بھی خانہ پری نہیں کر سکتے، تمھاری تہذیب، تمھارا فلسفۂ زندگی، تمھاری ترقیاں، اچھے مقاصد اور نیک خواہشات پیدا کرنے سے قاصر ہیں، تم یہ تو کر سکتے ہو کہ اچھے سے اچھے کام کے ذرائع پیدا کر دو مگر اچھے کام کرنے کا رجحان پیدا نہیں کر سکتے۔ رجحان کا تعلق دل سے ہے اور تمھارے وسائل اور تمھاری ایجادات کی وہاں تک رسائی نہیں اور جب تک اچھے کام کا رجحان نہ ہو، ذرائع اور کام کے امکانات کچھ نہیں کر سکتے۔ اچھے کام کا رجحان اور اس کا شدید تقاضا پیدا کرنا پیغمبروں کا کام تھا اور ان کی تعلیم اب بھی اس کا واحد ذریعہ ہے، انھوں نے بہت بڑے پیمانہ پر اس کو پیدا کر کے دکھا دیا، لاکھوں انسانوں کے دل میں نیک کام کی خواہش، خدمت کا جذبہ، ظلم اور بدی کی نفرت پیدا کر دی اور انھوں نے اپنے محدود ذرائع سے وہ کام کر کے دکھا دیے جو آج وسیع ذرائع سے نہیں ہو رہے ہیں ۔‘‘ (تعمیرِ انسانیت، ص۱۲۴- ۱۲۵)
د ’’اہلِ نظر جانتے ہیں کہ انسانی وجود کی طرح نظامِ تعلیم بھی اپنی ایک روح اور ضمیر رکھتا ہے، یہ روح اور ضمیر دراصل اس کے واضعین و مرتبین کے عقائد و نفسیات، زندگی کے متعلق ان کے نقطۂ نظر مطالعۂ کائنات و ’’علمِ اسما‘‘ کی اساس و مقصد اور ان کے اخلاق کا عکس اور پرتو ہوتا ہے، جو اس نظام کو ایک مستقل شخصیت، ایک مستقل روح اورضمیرعطا کرتا ہے..... یہی معاملہ مغربی نظامِ تعلیم کا ہے وہ اپنی ایک روح اور اپنا ایک منفرد ضمیر رکھتا ہے، جو اپنے مصنفین و مرتبین کے عقیدہ و ذہنیت کا عکس، ہزاروں سال کے طبعی ارتقا کا نتیجہ، اہلِ مغرب کے مسلمہ افکار و اقدار کا مجموعہ اور ان کی تعبیر ہے، یہ نظامِ تعلیم جب کسی اسلامی ملک یا مسلمان سوسائٹی میں نافذ کیا جائے گا تو اس سے ابتداً ذہنی کش مکش، پھر اعتقادی تزلزل، پھر ذہنی اور بعد میں (الا ماشاء اللہ) دینی ارتداد قدرتی ہے ..... اقبال ان معدودے چند خوش قسمت افراد میں سے ہیں جو مغربی نظامِ تعلیم کے سمندر میں غوطہ لگا کر ابھر آئے اور نہ صرف یہ کہ صحیح سلامت ساحل پر پہنچے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے موتی تہ سے نکال کر لائے اور ان کی خوداعتمادی، اسلام کی ابدیت اور اس کے وسیع مضرات پر ان کا یقین اور زیادہ مستحکم ہو گیا، اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے مغربی تعلیم اور مغربی فلسفہ کا مطلق اثر قبول نہیں کیا اور ان کا دینی فہم کتاب و سنت اور سلفِ امت کے بالکل مطابق ہے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس ’’آتشِ نمرود‘‘ نے ان کے ہزاروں معاصرین کی طرح ان کی خودی اور شخصیت کو جلا کر خاک نہیں کیا ۔‘‘ (مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش، ص ۲۴۲ - ۲۴۸)
’’موجودہ عالم اسلام کے رہنما و حکمران طبقہ کے (جس نے عام طور پر اعلیٰ مغربی تعلیم گاہوں میں تعلیم پائی ہے یا مغربی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے) دماغوں میں اسلام کے ماضی کی طرف سے بدگمانی، اس کے حال کی طرف سے بیزاری، اس کے مستقبل کی طرف سے مایوسی، اسلام و پیغمبرِ اسلام اور اسلامی مآخذ (Sources) کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور ’’اصلاحِ مذہب‘‘’’اصلاحِ قانونِ اسلامی‘‘ کے اس طرز پر آمادہ کرنے میں بہت بڑا حصہ ان علماے مغرب کا ہے، جنھوں نے اسلامیات کے مطالعہ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ان کو عام طور پر مستشرقین (Orientalist) کہا جاتا ہے اور جو اپنے علمی تبحر ، تحقیقی انہماک اور مشرقیات سے گہری واقفیت کی بنا پر مغرب و مشرق کے علمی و سیاسی حلقوں میں بڑی عظمت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور ان مشرقی اسلامی مباحث ومسائل میں ان کی تحقیق و نظریات کو حرفِ آخر اور قولِ فیصل سمجھا جاتا ہے ۔
اس استشراق کی تاریخ بہت پرانی ہے، وہ واضح طریقہ پر تیرھویں صدی مسیح سے شروع ہو جاتی ہے، اس کے محرکات دینی بھی تھے، سیاسی بھی، اقتصادی بھی، دینی محرک واضح ہے اس کا بڑا مقصد مذہبِ عیسوی کی اشاعت و تبلیغ اور اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنا ہے کہ مسیحیت کی برتری اور ترجیح خودبخود ثابت ہو اور نئے تعلیم یافتہ اصحاب اور نئی نسل کے لیے مسیحیت میں کشش پیدا ہو۔ چنانچہ اکثر استشراق اور تبلیغِ مسیحیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں، مستشرقین کی بڑی تعداد اصلاً پادری ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد نسلاً و مذہباً یہودی ہے ۔‘‘ (مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش، ص ۲۵۵ - ۲۵۶)
’’جہاں تک مغرب کا تعلق ہے، وہ عالمِ اسلام کے بارے میں کبھی مخلص اور نیک نیت نہیں ہو سکتا یہ اس پچھلی تاریخ کا بھی تقاضا ہے جس پر صلیبی جنگوں کے گھنے سائے پھیلے ہوئے ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ اور مغربی ممالک کی طویل اور خوں ریز آویزش کی گہری چھاپ پڑی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت پسندی اور عقلِ عملی کا بھی تقاضا ہے کہ صرف عالمِ اسلام ہی میں مغرب کے عالم گیر اقتدار کو چیلنج کرنے اور ایک ایسا نیا بلاک بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے جس کی بنیاد جداگانہ فلسفۂ زندگی اور عالم گیر دعوت پر ہو، یہ ان قدرتی وسائل اور ذخائر کی قدروقیمت کے احساس کا بھی نتیجہ ہے جو عالمِ اسلام کے مختلف گوشوں میں بڑی افراط اور فراوانی کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور جو مغرب کے صنعتی و تجارتی، نیز سیاسی اقتدار کے لیے بڑی اہمیت اور بعض اوقات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ..... اس وقت جتنی تہذیبیں یا قیادتیں ہیں یا مغربی تہذیب کی لکیر کی فقیر اور اس کی ایک رو کھی پھیکی تصویر ہیں یا اتنی کمزور اور شکست خوردہ ہیں کہ اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتیں۔ اب اگر اسلامی ممالک اور عالمِ اسلام مجموعی طور پر اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکے جو مغربی تہذیب کے خاتمہ سے عالمِ انسانی میں پیدا ہو گا تو اس کو دنیا کی امامت کا دوبارہ منصب تفویض کیا جا سکتا ہے .....اب ان قائدین کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا مغرب کی دائمی حاشیہ برداری اور کشکولِ گدائی مناسب ہے یا دنیا کی رہنمائی کا منصبِ عالی اور عالم انسانی کی ہدایت کی مسندِ رفیع ۔‘‘(مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش، ص ۳۰۸ - ۳۱۴)
یہ باتیں پڑھ کر یہ احساس شدت اختیار کر لیتا ہے اسلام اور اہلِ اسلام اپنے کتنے بڑے ’’سعادت مند خادم‘‘ سے محروم ہو گیا۔ اس عظیم ہستی کے لیے لب دعا گو ہیں کہ:
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو تیرا
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
___________