HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ


لفظ ’’ کافر‘‘ کا لغوی استعمال


سوال: کیا قرآنِ مجید میں کسی جگہ لفظ ’کافر‘اپنے لغوی معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ؟ (محمد صفتین، راولپنڈی)

جواب: کافر کے معنی ہیں: انکار کرنے والا۔ قرآن میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بالعموم اس کامفعول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکار ہے۔ بعض آیات میں آخرت کے انکار کی تصریح ہے۔ وہ آیات بھی ہیں جن میں اس سے صرف قریش کے منکرین مراد ہیں، مثلاً دیکھیے سورۂ صف کی آیت ۸ ۔


عصمتِ انبیا 

سوال: ہمارے ہاں یہ خیال رائج ہے کہ انبیا معصوم ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر انبیا سے کسی گناہ کا سرزد ہونا محال ہے تو پھر حضرت آدم اور حضرت یونس علیہما السلام کے افعال کی ہم کیا توجیہ کر سکتے ہیں؟ (محمدصفتین راولپنڈی)

جواب: انبیا کی عصمت کے معنی یہ ہیں کہ وہ نفس کے کسی داعیے کے تحت غلطی نہیں کرتے۔ البتہ بعض واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کے جذبے کے تحت ہی حدود سے تجاوز ہوا ۔ عام آدمی اگر اس طرح کا کوئی معاملہ کرے تو اس پر گرفت نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ انبیا کی اتباع بھی کی جاتی ہے چنانچہ ان پر گرفت کی گئی ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کے مسلسل انکار پر دین کی غیرت میں اپنی قوم کو وقتِ موعود سے پہلے خیرباد کہا ہے۔ لہٰذا ان کے اس عمل کو درست قرار نہیں دیا گیا۔ بالکل واضح ہے کہ ان کے اس عمل کے پیچھے کوئی ذاتی مفاد یا خواہش، محرک کی حیثیت سے موجود نہیں۔ حضرت آدم کے واقعے میں خود خدا کی گواہی موجود ہے کہ وہ بھول گئے تھے۔ بھول جانے کی صورت میں ہونے والا عمل ظاہر ہے اپنی نوعیت ہی کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اسے وہ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا جو ذاتی مفاد یا خواہش کے محرک کے تحت کی گئی نافرمانی پر مبنی ہو ۔


دیگر انبیا کے پیرووں کو غیر مسلم کہنا

سوال: قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیا کو ایک ہی دین دے کر دنیا میں بھیجا اور حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت یوسف، حضرت عیسیٰ کے پیرووں کو مسلم کہا ہے۔ آج ان کو غیرمسلم کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ (محمد صفتین راولپنڈی)

جواب: ہر نبی کی امت کے لیے لازم ہے کہ وہ دوسرے انبیا کی نبوت کا اقرار کرے۔ خدا کے اتارے ہوئے دین کو ماننے والی امتوں کے لیے لازم رہا ہے کہ وہ نئے آنے والے نبی پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ مسلم کہلانے کے حق سے محروم ہو جاتی ہیں۔ پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کے بعد اب وہ تمام لوگ غیر مسلم ہیں جو آپ پر ایمان نہیں لاتے ۔


سنت اور فرض 

سوال: سنت کی آئینی حیثیت کیا ہے ؟ فرض اور سنت میں کیا فرق ہے ؟ ’’اشراق‘‘ نومبر ۱۹۹۹ء میں استاد جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنے مضمون ’’اصول و مبادی‘‘ میں نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور قربانی کو سنن کا درجہ دیا ہے۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج فرض ہیں۔ کیا سنت پر عمل کرنا بھی فرض کی طرح ضروری ہوتا ہے ؟ (محمدصفتین راولپنڈی)

جواب: آپ نے جس مضمون کے حوالے سے یہ سوال کیا ہے اس میں سنت کا لفظ ہمارے ہاں رائج معنی میں استعمال نہیں ہوا۔ استادِ گرامی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنا دین جاننے کے لیے دو ماخذوں سے رجوع کرتی ہے۔ ایک ماخذ قرآنِ مجید اور دوسرا ماخذ سنت ہے۔ یعنی دین کے کچھ مشمولات ہم اصلاً قرآن سے پاتے ہیں اور کچھ اصلاً سنت سے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ ایک عمل ہمیں اصل میں سنت سے ملا ہو لیکن اس کا تذکرہ قرآنِ مجید میں بھی ہو۔ مزید برآں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ قرآنِ مجید کے احکام میں فرائض بھی ہیں اور نوافل و آداب بھی، اسی طرح سنت میں لازمی امور بھی ہیں اور نفلی بھی۔ آپ جاوید صاحب کے مضمون کو دوبارہ پڑھیں اور ان نکات کو پیش نظر رکھیں۔ امید ہے آپ مضمون کے اصل مدعا کو پالیں گے۔


تنسخ و منسوخ 

سوال: کیا قرآنِ پاک میں بعض ایسی آیات بھی موجود ہیں جو منسوخ ہو چکی ہیں ؟ اگر یہ بات درست ہے تو کیا یہ بات قرآنِ حکیم کو ساقط الاعتبار کر دینے کے لیے کافی نہیں ؟ کیا کوئی ایسی دستوری دستاویز بھی دنیا میں کہیں موجود ہے جس میں ایسی بات ہے ؟ منسوخ آیات کو بیان کرنے میں کیا حکمت پنہاں ہے ؟ کیا کسی آیت میں تبدیلی بھی کی گئی ہے ؟ جیسا کہ بخاری شریف میں موجود حدیث سے پتا چلتا ہے؟ (محمدصفتین راولپنڈی )

جواب: اس میں تو شبہ نہیں کہ قرآنِ مجید میں منسوخ آیات موجود ہیں۔ مثلاً روزہ کے احکام میں ناسخ و منسوخ آیات ساتھ ساتھ درج ہیں۔ ان سے قرآنِ مجید ہر گز ساقط الاعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ آیات بھی موجود ہیں جن سے کوئی حکم منسوخ ہوا ہے۔ منسوخ آیات کو باقی رکھنے کی وجہ اس حکمت کو واضح کرنا ہے جو حکم کو تبدیل کرنے کا باعث بنی۔ اس سے ہم شریعت کے نفاذ میں تدریج کے اصول سے واقف ہوتے ہیں جو ایک ناگریز ضرورت ہے ۔


بائیبل میں تحریف 

سوال: بائیبل کے متعلق ہمارے علما کی رائے یہ ہے کہ اس میں لفظی تحریف ہوئی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ تحریف سے مراد لفظی تحریف ہے یا معنوی تحریف ؟ قرآن نے بیسیوں مقامات پر اس تورات اور انجیل کی تصدیق کی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت اہلِ کتاب کے پاس موجود تھیں۔ اگر تحریف سے مراد لفظی تحریف ہے تو پھر ہمیں ان غلط صحائف پر ایمان لانے کا حکم کیوں دیا گیا ؟ اہلِ کتاب کو تورات و انجیل پر عمل کرنے کی دعوت کیوں دی گئی ؟ ان غلط صحائف کے حاملین کو ’امة مقتصدہ‘ اور ’یھدون الی الحق‘ کیوں کہا گیا؟

امام بیضاوی اپنی مشہور تصنیف میں فرماتے ہیں کہ تحریف سے مراد یہود کی غلط تفاسیر و تاویلات ہیں۔ کسی کتاب میں لفظی تحریف بہت مشکل ہے۔ ہر زمانے میں تورات کے بے شمار نسخے موجود تھے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جنھیں اپنی کتاب سے انتہائی عشق تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بدنیت نے تورات کے ذاتی نسخے میں تحریف کر دی اور اسے خواص و عوام یعنی تمام پیروانِ تورات نے تسلیم کر لیا۔ میری رائے میں نصاریٰ کی تثلیث، یہود کا ابنیتِ عزیر کا عقیدہ، زرتشتیوں کی آتش پرستی اور ہندوؤں کا فلسفۂ حلول تحریفِ معنوی کا نتیجہ تھا۔ میری بات کی تصدیق سورۂ بقرہ کی آیت ۷۵ سے ہوتی ہے۔

اگر اللہ ہمیں لفظی تحریف سے آگاہ کرنا چاہتا تو صاف فرماتا:’’وہ تورات کے الفاظ کو بدل کر سنایا کرتے تھے۔‘‘  یہ پہلے سمجھنا اور پھرتحریف کرنا معنوی تحریف کے معنوں میں آتا ہے۔ دوسری طرف بائیبل میں بعض ایسے مفہوم کی حامل آیات سے بھی سابقہ پیش آتا ہے جو صریحاً کلامِ الہٰی نہیں ہو سکتیں۔ اس تضادکو کیسے رفع کیا جائے براہِ کرم جواب وضاحت سے دیں؟ (محمد صفتین راولپنڈی )

جواب: آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کے تحت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے تحریف کی صورتوں کی توضیح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’’حرف الشئی عن وجھه‘ کے معنی ہیں کسی شے کو اس کے صحیح رخ سے موڑ کر دوسری سمت میں کر دیناز اسی سے ’ حرف القول‘ یا ’ حرف الکلام‘ ہے، جس کے معنی بات یا کلام کے بدل دینے کے ہیں۔ اس بدل دینے کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً ایک بات کی دیدہ دانستہ ایسی تاویل کر دی جائے جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہو۔ کسی لفظ کے طرزِ ادا اور قراءت   میں ایسی تبدیلی کر دی جائے جو لفظ کو کچھ سے کچھ بنا دے۔ مثلاً مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا وغیرہ کر دیاگیا۔ کسی عبارت یا کلام میں ایسی کمی بیشی کر دی جائے جس سے اس کا اصل مدعا بالکل خبط ہو کر رہ جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کے ہجرت کے واقعہ میں یہود نے اسی طرح کا ردوبدل کیا کہ خانہ کعبہ سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہ ہو سکے۔ کسی ذومعنی لفظ کا وہ ترجمہ کر دیا جائے جو سیاق و سباق کے بالکل خلاف ہو مثلاً عبرانی کے ابن کا ترجمہ بیٹا کر دیا دراں حالیکہ اس کے معنی بندہ اور غلام کے بھی آتے ہیں۔ ایک بات کا مفہوم بالکل واضح ہو لیکن اس کے متعلق ایسے سوالات اٹھا دیے جائیں جو اس واضح بات کو مبہم بنا دینے والے یا اس کو بالکل مختلف سمت میں ڈال دینے والے ہوں۔ اہلِ کتاب تحریف کی ان تمام قسموں کے مرتکب ہوئے۔ اور قرآن نے ان کو ان سب کامجرم گردانا ہے ۔‘‘ ( تدبرِ قرآن ج ،۱ ص۲۵۲)

مولانا کی تصریحات سے واضح ہے اور خود یہودو نصاریٰ کے اپنے اعترافات سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بائیبل میں بہت سی لفظی اورمعنوی تحریفات ہوئی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کسی کتاب میں لفظی تبدیلی آسان نہیں ہے۔ لیکن تورات کی تاریخ کافی مخدوش ہے۔ اصل کتاب صدیوں پہلے نایاب ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے پاس مختلف تراجم ہیں اور ترجمہ کرنے والوں کے لیے ہر طرح کی تبدیلی کرنا ایک سہل کام ہے۔ مزید یہ کہ ترجمہ نگاروں کا کام رائج ہونے میں کوئی اصل کتاب رکاوٹ کے طور پر موجودنہیں رہی ۔

___________

B