HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

انسانی عظمت و کردار کا پیکر

انسانوں کے بارے میں تاریخ بڑی مردم شناس ہے۔ یہ اپنے دامن میں کبھی خزف ریزوں کو نہیں سمیٹتی، اسے صرف موتیوں ہی سے غرض ہوتی ہے۔ خزف ریزوں کو یہ ماضی کے اس اندھیرے سمندر میں پھینک دیتی ہے، جس کے اندر اترنے والی ہر شے معدوم ہو جاتی ہے۔

ہماری تاریخ نے اپنے دامن میں جن موتیوں کو سمیٹا ہے، ان میں امام احمد بن حنبل کا نام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ انسانی عظمت و کردار کا یہ پیکر اس امت کی یادداشت میں ایک ناقابل فراموش ہستی ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کی زندگی کے جس گوشے کو بھی دیکھیے، بہت حیرت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات، ان کے کردار کی عظمت اور بلندی کی داستان سناتے اور چھوٹے چھوٹے واقعات، ان کی مروت اور تواضع کی کتھا بیان کرتے ہیں۔ لیکن شاید یہ کہنا صحیح ہے کہ بڑے لوگوں کی زندگی میں آنے والا کوئی واقعہ بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ بارش کا جو قطرہ بھی دریا میں گرتا ہے، دریا ہو جاتا ہے۔

یہ واقعہ امام احمد پر فتنۂ خلق قر آن کے سلسلے میں آنے والی کڑی آزمایش سے بعد کا ہے۔ ابوحاتم محمد بن حبان کہتے ہیں: بغداد میں ہمارا ایک پڑوسی ہوا کرتا تھا، ہم اسے ’’طبیب القراء‘‘ یعنی علما کا معالج کہتے تھے۔ وہ علما کے علاج معالجے کے حوالے سے ہر وقت ان کی خدمت میں لگا رہتا۔ کبھی ایک عالم کے پاس جاتا، کبھی دوسرے کے پاس، ان کی خیریت دریافت کرتا اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کرتا۔ علم کا یہ خادم امام احمد کے پاس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ شدید کرب میں مبتلا ہیں۔ پوچھا: خیریت تو ہے۔ کہنے لگے: ہاں، خیریت ہی ہے۔ میں نے کہا: خیریت کے باوجود یہ کرب، رنج و غم۔ کہنے لگے: تم جانتے ہی ہو مجھ پر یہ آزمایش جو آئی تھی۔ ان لوگوں نے مجھے کوڑے مارے، میں زخمی ہو گیا، پھر انھوں نے میرا علاج کیا۔ میرے سارے زخم تو صحیح ہو گئے، لیکن کمر میں ایک جگہ مجھے شدید درد ہوتا ہے۔ میں نے کہا: آپ ذرا مجھے کمر تو دکھائیے۔ انھوں نے کمر سے کپڑا ہٹایا۔ میں نے دیکھا، اس پر صرف مارکے نشان تھے، کوئی زخم وغیرہ نہ تھا۔ میں نے کہا: مجھے اس درد کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہورہی، لیکن خیر میں اس کے بارے میں معلوم کروں گا۔پھر میں ان کے ہاں سے نکلا اور سیدھا اس جیل گیا، جہاں امام احمد کو قید رمیں رکھا گیا تھا۔اس جیل کے نگران کے ساتھ میرے اچھے روابط تھے۔ میں نے اس سے کہا: میں اپنی ایک ضرورت کے لیے جیل کے اندر جانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا چلے جاؤ۔ میں جیل میں داخل ہوا۔ وہاں کے سب قیدیوں کو جمع کر لیا، ان میں کچھ درہم تقسیم کیے اور ان سے بات چیت کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ جب وہ مجھ سے مانوس ہو گئے تو میں نے ان سے پوچھا: تم میں سے مار کھانے کے معاملے میں سب سے بہادر کون ہے؟ پہلے تو وہ آپس میں بحث کرنے لگے، لیکن پھر سب ایک قیدی کے بارے میں متفق ہو گئے کہ ہم میں سے مار کھانے میں وہ سب سے آگے ہے۔ میں نے اس سے کہا: مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے۔ اس نے کہا: پوچھیے۔ میں نے کہا: ایک بوڑھا آدمی ہے، جس کے کام تمھارے کاموں جیسے نہیں۔ اسے بھوک کی حالت میں شدید کوڑے مارے گئے۔ وہ شخص مرا تو نہیں، لیکن شدید زخمی ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس کا علاج کیا اور وہ شفایاب ہو گیا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اس کی کمر میں ایک جگہ پر شدید درد ہوتا ہے، جسےوہ برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ میری بات سن کر ہنس دیا۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ کہنے لگا: جس نے اس کا علاج کیا تھا، وہ معالج نہیں کوئی جولاہا تھا۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟ اس نے کہا: اس نے اس کی کمر میں مردہ گوشت کا ایک ٹکڑا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے پوچھا: اب کیا کرنا چاہیے؟کہنے لگا: کسی جراح کو اس کی کمر سے وہ ٹکڑا نکال کر پھینک دینا چاہیے۔ ورنہ اس کا اثر اس کے دل تک جا پہنچے گا اور اسے ہلاک کر دے گا۔ وہ معالج کہتا ہے: میں جیل سے نکلا اور امام احمد کے پاس واپس آیا۔ وہ اسی تکلیف میں مبتلا تھے۔ میں نے انھیں ساری بات بتائی۔ انھوں نے کہا: جراحی کون کرے گا: میں نے کہا: میں کروں گا۔ انھو ں نے پوچھا: تم جراحی کر لو گے؟ میں نے کہا: ہاں۔ چنانچہ امام احمد اٹھے، گھر میں داخل ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد باہرآئے۔ ان کے ہاتھ میں دو تکیے اور کاندھے پر ایک تولیہ تھا۔ ایک تکیہ مجھے دیا اور ایک اپنے لیے رکھا۔ کہنے لگے: اللہ سے خیر کی دعا کرو۔ میں نے ان کی کمر سے کپڑا ہٹایا اور کہا: مجھے درد کی جگہ بتائیں: انھوں نے کہا: کمر پر اپنی انگلی رکھو تو میں تمھیں بتاؤں گا۔ میں نے اپنی انگلی رکھی، پوچھا: یہاں درد ہے؟ کہنے لگے: یہاں اللہ کی عافیت ہے اور میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں نے انگلی تھوڑی سی آگے رکھی، پوچھا: یہاں درد ہے؟ کہنے لگے: یہاں بھی اللہ کی عافیت ہے اور میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں نے انگلی تھوڑی سی اور آگے رکھی، پوچھا: یہاں درد ہے؟ کہنے لگے: یہاں میں اللہ سے اس کی عافیت چاہتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ درد یہیں پر ہے۔ چنانچہ میں نے اپنا نشتر اس جگہ پر رکھا۔ جونہی انھوں نے اپنی کمر پر نشتر کو محسوس کیا، اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ دیا اور کہنے لگے، اے اللہ، معتصم کی مغفرت کر دے۔ اے اللہ، معتصم کی مغفرت کر دے۔ وہ مسلسل یہی دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے مردہ گوشت کا ٹکڑا نکال کر باہر پھینک دیا، زخم پر پٹی باندھ دی۔ پھر انھیں سکون آ گیا۔کہنے لگے: میں گویا کسی شے سے لٹکا ہوا تھا اور اب اتار دیا گیا ہوں۔ میں نے کہا: اے ابوعبداللہ (امام احمد)، لوگوں کو جب کوئی تکلیف دی جاتی ہے تو وہ اپنے اوپر ظلم کرے والے کے خلاف بددعا کرتے ہیں۔ میں نے آپ کو اس حالت میں معتصم کے لیے دعائیں کرتے دیکھا ہے۔ کہنے لگے:میں نے یہ بات سوچی تھی، جو تم کہہ رہے ہو۔ لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا رضی اللہ عنہ کی اولاد ہے، چنانچہ مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں قیامت کے دن اس طرح اٹھوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی رشتہ دار کے ساتھ میری کوئی دشمنی ہو۔ میں نے معتصم کو معاف کر دیا ہے، وہ میری طرف سے آزاد ہے۔

ا یہ ہے امام امت۔ کیسا ظرف، کیسی عظمت اور کیسی وفا۔ خدا سے یہ تعلق کہ رُویں رُویں پر اس کی عافیت کا احساس اور نبی سے یہ تعلق کہ اپنے اوپر انتہائی ظلم کرنے والے کے لیے بھی دعاے مغفرت۔ امت اخلاص و وفا کے اس پیکر کو اپنی یادداشت سے کیسے فراموش کر سکتی ہے۔

اے اللہ امام احمد کی مغفرت فرما۔ اے اللہ، امام احمد کے درجات کو بلند فرما۔ آمین ثم آمین۔

___________

B