HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

امام احمد بن حنبل

محمد ساجد خان خاکوانی

 

سرکاری جاسوس ، محکمہ شرطہ کے عمال اور کوتوالِ شہر کے کارندے گلی گلی ، بازار بازار ، کوچہ کوچہ اور گھر گھر ایسے افراد کی بو لیتے پھر تے ہیں جو خلیفۂ وقت کے عقیدہ خلقِ قرآن کی ذرا سی بھی مخالفت کرتا ہو ۔ ایسے افراد ہر بستی اور ہر شہر سے گرفتار کر کے بے دریغ قتل کیے جا رہے ہیں ۔ بغداد کا قاضی خلیفہ مامون الرشید کو لکھتا ہے کہ یہاں ایک عالمِ دین اس عقیدہ کو قبول کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ بڑی شد و مد سے اس کی مخالفت بھی کرتا ہے ۔ خلیفہ اس عالمِ دین کو دربارِ خلافت میں پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔

۵۷ سالہ عالمِ پیری ، جسم پر بڑھاپے کا غلبہ ، چہرے پر نورانیت کی بارش ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ، آہنی زیور سے آراستہ اور قدموں میں پہاڑ جیسی استقامت، ’’شاہی مجرم‘‘ کی حیثیت سے امامِ عزیمت امام احمد بن حنبل سرکاری اہل کاروں کے جلو میں پھانسی کا پھندا چومنے جا رہے ہیں ۔ پورا شہر اس منظر کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے۔

امام احمد بن حنبل مسلمانوں میں رائج مکاتبِ فکر میں سے دبستانِ حنبلی کے بانی ہیں ۔ امت میں آپ کا تعارف فقیہ اور محدث دونوں حیثیتوں سے پایا جاتا ہے ۔ فقہ میں آپ کا کارنامہ فقۂ حنبلی کا آغاز ہے، جبکہ مسندِ احمد آپ کی محدثانہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ فقۂ حنبلی کی ابتدا بغداد سے ہوئی ، ساتویں صدی ہجری تک یہ مصر میں بھی پھیل چکی تھی ۔ اس کے بعد امتِ مسلمہ کے تقریباً ہر خطے میں اس کا نمو ہوا آج یہ فقہ جزیرۃ العرب میں رائج ہے۔

امام احمد بن حنبل ربیع الاول ۱۶۴ ہجری میں پیدا ہوئے ۔ آپ کی تاریخِ وفات ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ ہجری ہے۔ اس طرح ۷۷ سال کا عرصہ آپ نے اس عالمِ فانی میں گزارا ۔ آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور بغداد ہی میں دفن ہوئے ۔ آپ کا جنازہ جمعہ کے روز پڑھا گیا اور ایک روایت کے مطابق ۷ لاکھ افراد اس میں شریک ہوئے ۔ یہ متوکل علی اللہ عباس کا دورِ خلافت تھا ۔ آپ کی وفات عالمِ اسلام کے لیے سانحۂ عظیم تھی ۔

امام احمد قبیلہ عدنان کے شیبانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، اس طرح آپ کا نسب نامہ نزار بن معد ابنِ عدنان کے واسطے سے محسنِ انسانیت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔ عہدِ جاہلیت میں یہ خاندان عراق کے قرب و جوار میں آباد تھا ۔ امیر المومنین ابی حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب شہر بصرہ آباد کیا تو یہ خاندان اس شہر میں آن بسا ۔ چنانچہ روایت ہے کہ آپ بصری کہلاتے تھے اور جب بھی بصرہ جاتے تو اپنی آبائی مسجد میں نماز ادا کرتے۔

احمد بن حنبل سے شبہ ہوتا ہے کہ حنبل آپ کے والد کا نام ہے ، یہ نام آپ کے دادا حنبل بن ہلال کا تھا جو اموی اقتدار میں صوبہ سرخس کے گورنر رہے تھے اور بعد میں عباسی تحریک سے منسلک ہو گئے ۔ آپ کے والدِمحترم محمد بن حنبل بنیادی طور پر مجاہد تھے اور فوج میں بحیثیتِ کمان دار فرائض ادا کرتے رہے ۔ امام احمد کی پیدایش سے قبل یہ خاندان بغداد منتقل ہو گیا ۔ امام صاحب دو سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ وراثت میں ملنے والی جائداد کے وسیلے سے والدہ نے آپ کی پرورش کی۔

امام صاحب کی سیرت و کردار میں حسبِ ذیل پانچ خصوصیات نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

ا۔ حسب و نسب کا شرف

آپ ماں باپ دونوں کی طرف سے خالص عربی تھے۔

ب۔ یتیمی

ابتدا ہی سے یتیمی کے کڑے امتحان نے آپ کو اعتمادِ نفس عطا کیا۔

ج۔ شجاعت

یہ آپ کے قبیلہ کا خاصہ تھا۔

د۔ قناعت

جس نے آپ کے اندر فکر و نظر کی بلندی پیدا کی۔

 و۔ تقویٰ

جس کی وجہ سے آپ بہت مشکل وقت میں بھی ثابت قدم رہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کی پرورش ، تربیت اور ابتدائی تعلیم بغداد ہی میں ہوئی ۔ آپ کا خاندان بالعموم اور والدہ محترمہ بالخصوص آپ کو عالمِ دین بنانا چاہتے تھے ۔ بہت چھوٹی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور پھر تحریر و کتابت کے فن سے آشنائی حاصل کی ۔ چودہ سال کی مختصر عمر میں آپ اس مرحلے میں داخل ہو گئے جہاں باقاعدہ کسی ایک میدان میں علم و فن کا انتخاب کرنا تھا  ۔

بغداد دنیاے علم کا مرکز و محور تھا ۔ یہاں دینی اور دنیوی دونوں علوم رائج تھے ۔ دنیوی علوم میں لغت ، طب، نجوم ، فلسفہ ، جغرافیہ ، ہندسہ ، الجبرا ، تاریخ ، سیاحت اور خطابت وغیرہ تھے ۔ جبکہ دینی علوم میں تفسیر ، حدیث ، اصول ، فقہ ، کلام ، افتا اور روایت وغیرہ شامل تھے ۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنی طبیعت اور تربیت کے پیشِ نظر دینی علوم کی طرف توجہ کی اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے حلقہ میں فقہ کا درس لینے لگے  ۔

کچھ ہی عرصہ بعد (۱۷۹ ہجری میں ) آپ فقہ سے حدیث کی طرف آ گئے اور بغداد کے محدثین کے ہاں جانے لگے ۔ حدیث اور روایتِ حدیث میں اس قدر ڈوب گئے کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ حدیث کا جتنا ذخیرہ بغداد میں موجود تھا آپ نے حتی الوسع اسے قلم بند کیا اور ۱۸۶ ہجری میں طلبِ حدیث کی خاطر بصرہ کی طرف پہلا سفر کیا  ۔

طلبِ حدیث میں آپ نے گلی گلی ، کوچہ کوچہ ، قریہ قریہ اور بستی بستی پیدل سفر کیا ۔ پانچ دفعہ بصرہ گئے اور پانچ دفعہ حجازِ مقدس ۔ اس کے علاوہ یمن ، کوفہ اور مصر نے بھی اس طالبِ حدیث کی قدم بوسی کی ۔ رے کا ارادہ تھا کہ تنگ دستی آڑے آ گئی اور زادِ سفر میسر نہ آ سکنے کی وجہ سے عازمِ منزل نہ ہو سکے ۔ ایک مقام پر مہینوں قیام کرتے اور جب تک علم کی پیاس بجھ نہ جاتی ، واپس نہ آتے ۔ اکثر ایسا ہوا کہ سامانِ سفر ختم ہو جاتا ، ایسے موقعوں پر آپ کے دوست معقول رقم کی پیش کش کرتے ، لیکن آپ انکار کر دیتے ۔ محنت مزدوری سے رزقِ حل کما کر اپنے وطن لوٹتے۔

اس سفرو سیاحت میں آپ نے بہت سے شیوخ سے کسبِ فیض کیا ۔ ان سب کے بارے میں معلومات حاصل ہونا یقیناً ناممکن ہے ۔ تاہم فنِ حدیث و فقہ میں آپ کے اساتذہ کی تعداد ایک سو سے زائد بتائی جاتی ہے ۔ آپ سب سے پہلے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے حلقۂ درس سے وابستہ ہوئے لیکن یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہو گیا اور حدیث سے تعلق قائم کر لیا ۔

امام احمد رحمہ اللہ کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرات حافظ ہشیم بن بشیر بن ابی حازم (۱۰۴ ہجری تا ۱۸۳ ہجری ) کے تھے ۔ سولہ برس کی عمر میں وہ حافظ ہشیم کی شاگردی میں آئے اور ان کی وفات تک زیرِ تربیت رہے۔ حافظ ہشیم کے بعد امام صاحب نے سفرِ حجاز کے دوران میں امام شافعی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا اور ایک طویل عرصہ ان کی خدمت میں رہے ۔ حافظ ہشیم سے امام صاحب نے محدثانہ ذوق حاصل کیا اور امام شافعی سے فقیہانہ طرزِ فکر پایا۔

امام صاحب کے دو اہم اساتذہ سفیان ثوری اور عبد اللہ بن مبارک رحمہما اللہ ہیں ۔ ان کے علاوہ آپ نے سفیان بن عیینہ ، ابوبکر بن عیاش ، وکیع بن الجراح ، عبد الرحمٰن بن محمد یحییٰ بن سعید القطان اور دوسرے بہت سے اکابر ائمہ سلف سے علم حاصل کیا ۔ یہ سب لوگ اپنے علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔

آپ کا علم و حلم ، دور دراز کے سفر ، عبادت و ریاضت اور کتابتِ حدیث کا جب ڈنکا بجنے لگا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے آپ سے احکام و مسائل پوچھنے شروع کر دیے ۔ آپ کے حزم و احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ حتی الامکان عوام سے دور رہتے ، لیکن آخر کب تک ؟ اتباعِ سنت میں عمر کے چالیس سال مکمل ہونے کے بعد جامع مسجد بغداد میں درس و املا کا آغاز کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں طالب علم اس مجلس میں شریک رہتے اورسیکڑوں طالب علم سپردِقلم کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔

امام احمد رحمہ اللہ کے درس کی دو مجالس ہوتی تھیں ۔ ایک گھر ہی پر منعقد ہوتی جس میں آپ کے قریبی اور خاص شاگرد اور صاحب زادے شریک ہوتے ۔ مسندِ احمد کی املا زیادہ تر یہیں ہوئی ۔ یہ مجلس محدود اور مخصوص تھی ۔ دوسری مجلس جامع مسجد کے صحن میں بعد نماز عصر منعقد ہوتی جس میں عام افراد شریک ہوتے ۔ آپ کے درس کی چند قابلِ ذکر خصوصیات یہ ہیں:

ا۔ درس و افتا کی مجالس میں خاص طور پر اور امام صاحب کی نجی مجالس میں عام طور پر سنجیدگی ، وقار اور متانت کا غلبہ رہتا۔

ب۔ درس سے قبل خوب خوب مطالعہ کرتے اور اکثر اوقات کتب بھی ہمراہ لاتے ۔ اپنے شاگردوں کو بھی صرف حافظے کی بنا پر درس دینے سے منع کرتے تاکہ نقل وبیان میں فرق نہ ہو۔

ج۔ آپ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی املا کراتے اور آپ کے شاگردِ رشید اسے لکھتے۔

د۔ آپ اپنے فتاویٰ نقل کرنے سے منع کرتے۔

ہ۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے ہاں قرآن و سنت کے بعد صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کی بہت اہمیت تھی۔

و۔ آپ خیالی مسائل اور بے مقصد امور سے احتراز فرماتے۔

امام صاحب سے یقیناً ہزاروں لوگوں نے کسبِ فیض کیا لیکن آپ کے چند شاگردوں ہی نے نام کمایا ۔ ان کے نام یہ ہیں:

۱۔ ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری (۱۹۴ ہجری تا ۲۵۶ ہجری ) مولف صحیح بخاری۔

ب۔ مسلم بن حجاج نیشا پوری (۲۰۲ ہجری تا ۲۶۱ ہجری) مولف صحیح مسلم۔

ج۔ صالح بن احمد بن حنبل (متوفی ۲۶۶ ہجری) یہ امام صاحب کے بیٹے تھے کثیر العیالی اور قرض کی وجہ سے طرطوس کے قاضی کا منصب قبول کیا ۔ فقیہ تھے اور بحیثیتِ قاضی سب سے پہلے فقۂ حنبلی کا نفاذ کیا۔

د۔ ابوبکر احمد بن احمد (متوفی ۲۷۳ ہجری) محدث تھے۔

ہ۔ عبد الملک بن عبد الحمید المیمونی (متوفی ۲۷۴ہجری )۔ امام صاحب کے اقوال کی جمع و نقل کا وسیع پیمانے پر اہتمام کیا۔

و۔ احمد بن محمد المہزوری (متوفی ۲۷۵ ہجری)۔ ان کا میدانِ خاص فقہ تھا۔

ز۔ ابو داؤد سلیمان بن اشعث (۲۰۲ ہجری تا ۲۷۵ ہجری ) ۔مولف سنن ابو داؤد۔

ح۔ عبد اللہ بن احمد بن حنبل (۲۱۳ ہجری تا ۲۹۰ ہجری )۔ یہ امام صاحب کے بیٹے تھے اور ان کا میدانِ خاص روایتِ حدیث تھا ۔ مسندِ احمد انھی کی کاوش و اضافہ کا نتیجہ ہے۔

ت۔ ابوبکر الخلال (متوفی ۳۱۱ ہجری )۔ بہت سی کتب کے مصنف ہیں۔ فقۂ حنبلی کی تدوین و اشاعت دراصل الخلال ہی کا کارنامہ ہے۔ ان کے شاگرد غلام الخلال کے نام سے مشہور ہیں جن کی فقۂ حنبلی میں وہی حیثیت ہے جو فقۂ حنفی میں امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر کی ہے۔

۱۸۔ امام صاحب کی زندگی غربت و افلاس ، فقر و فاقہ اور افلاس سے عبارت تھی ۔ آپ نے کبھی فراغت اور بے فکری نہ دیکھی۔ موروثی جائداد سے کل سترہ درہم ماہانہ کرایہ آتا تھا جس میں بمشکل گزارہ ہوتا۔ مزدوری ، باربرداری اور اجرت پر لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے اور اشد ضرورت پر قرض بھی لے لیتے تھے۔

خیر خواہوں نے بہت موقعوں پر مالی معاونت کی کوشش کی، لیکن آپ نے ہمیشہ انکار کر دیا۔ ایک مرتبہ کھانے میں کچھ نہ تھا آپ نے اپنا جوتا رہن رکھ کر روٹیاں خریدیں ۔ کرایہ داروں کا کرایہ اکثر معاف کر دیتے ۔ کپڑا بننے کا فن جانتے تھے اور بوقتِ ضرورت سوت سے کپڑا بن کر رزقِ حلال حاصل کرتے۔

غربت و افلاس اور علمی مشاغل کے باوجود دن اور رات میں تین سو نوافل پڑھتے ، رات کے نوافل میں قرآنِ مجید کی کثرت سے تلاوت کرتے اور پھر سات دن میں ایک قرآنِ مجید ختم کر لیتے ۔ حقوق العباد کا بہت خیال تھا چنانچہ ہر مریض کی عیادت کا اہتمام کرتے ۔ آپ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال مبارک تھا۔ آپ اکثر اس کو بوسہ دیتے اور آنکھوں سے لگاتے۔

امام صاحب کی طبیعت میں زہد و تقویٰ اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عالم تھا جس نے فتنہ خلقِ قرآن میں آپ کو ثابت قدم رکھا ۔ یہ فتنہ اس وقت پیدا ہوا جب عباسی خلیفہ مامون الرشید نے معتزلہ کے کہنے پر قرآنِ مجید کو مخلوق قرار دیا اور اس فلسفہ کو عقیدہ بنا کر بزور نافذ کرنا چاہا۔ امام صاحب نے اس خود ساختہ عقیدہ کی مخالفت کی اور قرآن کو خالق کا کلام قرار دیا۔ آپ پابجولاں دربارِ خلافت میں لائے جارہے تھے کہ مامون الرشید راہیِ ملکِ عدم ہوا خلیفہ معتصم باللہ نے آپ پر قہر و جبر کی انتہا کر دی۔ ایک جلاد تھک جاتا تھا تو دوسرا کوڑے برسانا شروع کر دیتا، کوڑوں میں اس قدر شدت ہوتی کہ ہاتھی پر پڑیں تو وہ بھی بلکنے لگے، لیکن امام صاحب کی قوتِ ایمانی نے یہ ظلم صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا۔ اگربے ہوش ہو جاتے تو تلوار کی نوک چبھا کر ہوش میں لایا جاتا۔ یہ مشقِ ستم ڈیڑھ سال تک روزانہ جاری رہی۔

استبداد مایوس ہوا تو آپ کو اس حال میں گھر بھیجا گیا کہ جسم لہو لہان، زخموں سے چور اور مسلسل مار پیٹ اور جیل کی سختیوں کی وجہ سے آپ صاحبِ فراش تھے۔ حصولِ صحت کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تو خلیفہ واثق باللہ عباسی نے درس پر پابندی لگا دی حتیٰ کہ آپ کو نماز کے لیے بھی گھر سے نکلنے نہ دیا جاتا۔ واثق باللہ کے انتقال سے امام صاحب کی تکلیف اور آزمایش کا سلسلہ جو تقریباً پانچ سال جاری رہا ، بالآخر ختم ہوا۔

’’المسند‘‘ آپ کی تصنیفات میں سے مقبول عام ہوئی ۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مجموعہ مسند کہلاتا ہے جس میں ہر صحابی کی روایت کردہ احادیث اس کے نام سے ایک جگہ درج کر دی گئی ہوں۔ امام صاحب نے سولہ سال کی عمر (۱۸۰ ہجری) میں اس تالیف کا آغاز کیا اور رحلت تک اس میں مشغول رہے۔ آخری عمر میں آپ نے اہلِ خانہ کو اس کتاب میں درج تمام احادیث سنائیں۔ مسودہ ابھی بے ربط اوراق کی صورت میں موجود تھا کہ پیغامِ اجل آن پہنچا ۔ آپ کے بیٹے عبد اللہ نے اس مسودہ کو ترتیب و اضافہ کے ساتھ مدون کیا۔

’’المسند‘‘ کے اٹھارہ حصے ہیں، امام صاحب نے سات لاکھ پچاس ہزار احادیث میں سے صرف تیس ہزار کا انتخاب کیا، امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے ان پر دس ہزار احادیث کا مزید اضافہ کیا۔ اس طرح اس تالیف میں کل چالیس ہزار[1] احادیث ہیں۔ اس کا شمار احادیث کی اہم کتب میں ہوتا ہے ’’المسند‘‘ کی چند خصوصیات یہ ہیں:

۱۔ پہلے عشرہ مبشرہ کی مرویات ہیں پھر ان کے قریب کے صحابہ کی۔

ب۔ تابعی کی روایت جس میں صحابی کا نام نہ لیا گیا ہو تابعی کے نام سے درج ہیں۔

ج۔ صرف ثقہ راوی کی حدیث قبول کی گئی۔

د۔ کسی حد تک کمزور حافظے کے مالک متقی لوگوں کی روایت قبول کر لی گئی۔

ہ۔ راوی کی ثقاہت کی تردید ہونے پر قبول کی گئی حدیث مسودہ سے خارج کر دی گئی۔

و۔ صحیح حدیث سے ٹکرا جانے والی حدیث قبول نہیں کی گئی۔

ز۔ سند و متن پر نقد و جرح کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم متن پر بہت کم۔

ح۔ ضعفِ سند یا علتِ متن کی بنیاد پر روایت ترک نہ کی جاتی جب تک اس کی حدیثِ صحیح سے مخالفت ثابت نہ ہو جاتی۔

ت۔ منفرد راوی کی حدیث قبول نہ کی گئی، الاّ یہ کہ علماے حدیث اس کی توثیق کر دیں۔

ی۔ صرف فقہی قاعدے کی مخالفت پر حدیث رد نہ کی جاتی۔

علما کے نزدیک ’’المسند‘‘ میں صحیح ، حسن اور غریب قسم کی احادیث درج ہیں جبکہ بعض کے نزدیک موضوع احادیث بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔ ’’المسند‘‘ کے علاوہ امام صاحب سے اور بھی متعدد تصنیفات منسوب ہیں ، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

۱۔ التاریخ               ب۔ الناسخ و المنسوخ          ج۔ المقدم والموخر فی کتاب اللہ 

د۔فضائلِ صحابہ          ہ۔ المناسک الکبیر             و۔ المناسک الصغیر 

ز۔ کتاب الزہد           ح۔ الرد علی الجہمیہ            ی۔ کتاب الرد علی الزنادقہ 

قرآنِ مجید کی ایک تفسیر بھی آپ سے منسوب کی جاتی ہے۔

امام صاحب کی محدثانہ حیثیت اس قدر مسلمہ ہے کہ بعض علما آپ کو صرف محدث ہی مانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب مجتہد مطلق فقیہ بھی تھے۔ اگرچہ فقہ یا اصولِ فقہ پر آپ کی کوئی باقاعدہ تصنیف موجود نہیں اور آپ نے اپنے فتاویٰ کی نقل سے بھی منع کیا تاہم امت کا ایک بڑا حصہ آپ کے زمانے سے آپ کی فقیہانہ دانش کا پیرو کار رہا ہے امام صاحب کے فقہی اصولوں کی بنیاد پر آپ کے شاگردوں نے پوری ایک فقہ مرتب کی جو آج تک فقۂ حنبلی کے نام سے موجود ہے۔ امام صاحب کے فقہی اصولوں میں سے چند یہ ہیں:

۱۔ دین کے معاملات میں بدعت کو سخت ناپسند فرماتے۔

۲۔ فتویٰ دے دینے کے بعد قوی تر دلیل کی بنیاد پر رجوع کر لیتے۔

۳۔ بعض اوقات کسی مسئلہ کے دو حل بھی بتا دیتے اور کسی کو ترجیح نہ دیتے۔

۴۔ حدیثِ ضعیف پر صحابی کے فتوے کو ترجیح دیتے۔

۵۔ صحابی کے فتویٰ کی موجودگی میں اجتہاد نہ کرتے۔

۶۔ صحابہ کے اختلاف میں سکوت فرماتے یا قرآن و سنت سے قریب تر رائے کو اختیار کرتے۔

۷۔ صحابہ کے اختلاف میں بلند پایہ صحابہ کی رائے کو فوقیت دیتے۔

۸۔ کسی تابعی کا فتویٰ اگر قرآن و سنت کے قریب ہوتا تو قبول کر لیتے۔

۹۔ اجماع کو محال خیال کرتے اور اجماعی فتاویٰ کی قبولیت میں تردد پیش کرتے تاہم اکثر علمی معاملات میں اجماع کی مطلق نفی نہ کرتے۔

۱۰۔ اجماعِ صحابہ کو حجت مانتے۔ اگر کوئی حدیث اجماعِ صحابہ سے ٹکرا جاتی تو اس حدیث کو شاذ گردانتے۔

۱۱۔ عہدِ تابعین کے مشہور قول کو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کم اور قیاس سے بہتر سمجھتے۔

۱۲۔ قیاس سے حتی الامکان دور رہتے۔

۱۳۔ قیاس پر حدیثِ ضعیف کو ترجیح دیتے۔

۱۴۔ استصحاب کے قائل تھے۔ استصحاب یہ ہے کہ جس بات پر ماضی سے عمل ہوتا چلا آ رہا ہو وہ حال و مستقبل میں بھی جاری رہے گی، بشرطیکہ اس کے خلاف کوئی واضح نہ حکم ہو۔

۱۵۔ مصالح مرسلہ کو فقہی اصول قرار دیتے تھے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوام الناس کو بے جا تکلیف سے بچایا جائے۔

۱۶۔ ذرائع کے قائل تھے۔ یعنی شارع نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے اس کی تکمیل کے لیے سارے راستے کھول دیے، ان پر چلنا ضروری ہے اور جس کام سے منع کیا اس کے تمام راستے بند کر دیے چنانچہ ان پر چلنا ممنوع ہے۔

۱۷۔ مسئلے کی صورت جو پہلے سے چلی آ رہی ہو اسے اس وقت تک نہ چھیڑتے جب تک حالات تبدیلی کا تقاضا نہ کریں۔

۱۸۔نصوص و آثار کی غیر موجودگی میں عرف و عادت پر فتویٰ دیتے ۔

امام صاحب کے ان اصولوں کی بنا پر فقۂ حنبلی میں ان ماخذوں کو بالترتیب تسلیم کیا گیا ہے:

۱۔ نصوص (قرآن و سنت)

ب۔ فتاویٰ صحابہ (کتاب و سنت کے بعد صحابہ کا اجماع )

ج۔ اختلافِ صحابہ (کسی رائے کی فوقیت یا سکوت )

د۔ مرسل اور ضعیف روایت (مرسل اور صغیف روایت کی رائے پر فوقیت ۔

ح۔ قیاس

و۔ استصحاب

ز۔ مصالح مرسلہ

ح۔ ذرائع  

امت میں فقۂ حنبلی کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ چنانچہ مشاہیر میں سے علامہ ابن العربی (مولف احکام القرآن)، شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ، علامہ ابنِ جوزی، شیخ محمد بن عبد الوہاب، علامہ ابن رجب ، ابنِ قدامہ اور شیخ عبد القادر جیلانی جیسے لوگ فقۂ جنبلی کے پیروکار تھے۔ ’’المسند‘‘ کی متعدد شروح لکھی گئیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر مصطفی الاعظمی نے ’’المسند‘‘ کوکمپیوٹر میں محفوظ کیا ہے۔ خدا کرے امتِ مسلمہ کی کوکھ سرسبز و شاداب رہے اور اسلاف جیسے اخلاف جنم لیتے رہیں۔ (آمین )

 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا   

______________

[1]۔ واضح رہے کہ متداول ’’مسند‘‘ میں ۲۷ ہزار احادیث ملتی ہیں۔ (ادارہ)

B