HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

غیرمسلم حکومت میں مسلم اقلیت کا دعوتی کردار (۲)

سید وصی مظہر ندوی

 

اس موضوع سے متعلق ’’اشراق‘‘ کا نقطۂ نظر ہمارے قارئین پر واضح ہے ۔ مولانا وصی مظہر صاحب ندوی نے اپنے اس مضمون میں ایک دوسری رائے پیش فرمائی ہے ۔ اپنے قارئین کی تعلیم کے لیے ہم اسے بغیر کسی نقد کے یہاں شائع کر رہے ہیں۔ (مدیر )


 دعوت پھیلانے کے وسائل

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعوت کو پھیلانے اور پہنچانے کے لیے اپنے زمانے کے تمام وسائل کو استعمال کیا اور اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن طریقے کو آزمایا ۔ چنانچہ آپ نے:

( الف) اپنے رشتہ داروں اوراحباب سے تنہائی میں ملاقاتیں کرکے ان کے سامنے اپناپیغام پیش کیا۔

( ب) اجتماعی طور پر ان کو کھانے پر بلا کر اپنی دعوت پیش کی ۔

(ج) مختلف معاشرتی اجتماعات میں پہنچ کر حتیٰ کہ میلوں ، ٹھیلوں اور بازاروں میں جا کر اسلام کی دعوت پہنچائی ۔

(د) عام اجتماعات کے ذریعے سے بھی آپ نے پوری قوم کے سامنے اپنی دعوت کو پیش کیا، جس کی مثال ابوقبیس پہاڑ کے دامن میں قریش کے اجتماعِ عام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب ہے۔

(ح) مدینہ پہنچ کر آپ نے خطوط اور سفیروں کے ذریعے سے بھی اپنی دعوت پہنچائی ۔

دورِ حاضر کے حالات اور وسائل کو دیکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ کے مطابق غیر مسلم حکومتوں میں بسنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ :

۱۔ اپنی جملہ سرگرمیوں میں اسلام کی دعوت کو سب سے زیادہ اہمیت دیں۔

 ۲۔ ہر مسلمان اپنے علم اور ذاتی صلاحیت کے مطابق دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کرے۔

۳۔ اجتماعی طور پر مبلغین کو تیار کرنے کے ادارے قائم کیے جائیں۔

۴۔ حالات اور ماحول کے مطابق مختلف طبقات کے لیے تبلیغی لٹریچر تیار کر کے پھیلایا جائے۔

۵۔ آڈیو اور وڈیو کیسٹوں سے کام لیا جائے ۔ جہاں ممکن ہو ریڈیو اور ٹی وی کے چینل حاصل کیے جائیں اور انٹر نیٹ سے بھی استفادہ کیا جائے۔

۶۔ مختلف علاقوں اور طبقوں کے لیے دعوتی وفود ترتیب دیے جائیں۔

۷۔ چھوٹے بڑے دعوتی اجتماعات منعقد کئے جائیں ۔

 تاہم اس دعوت کے پھیلانے کا کوئی مادی معاوضہ طلب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کسی نوع کا معاوضہ لینے کے بعد داعی کی آواز بے اثر یا کم اثر ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں اکثر انبیا علیہم السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:

وَمَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍﵐ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. (الشعراء۲۶: ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۴۵، ۱۶۴ ،۱۸۰ )
’’میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجر یا بدلہ نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف رب العالمین کے ذمہ ہے۔‘‘

مادی معاوضہ نہ سہی بعض حضرات کے سامنے شہرت ، نام وری ، قوم کی ستایش یا ووٹوں کا حصول وغیرہ مقاصد ہو سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی دنیوی اجر کے طلب کی مختلف شکلیں ہیں ۔ داعی کو ان سب چیزوں سے اپنا دامن پاک رکھنا چاہیے۔

 اجتماعیت کی ضرورت

دعوت کے اس عظیم الشان کام کے لیے ظاہر ہے کہ اجتماعی جدوجہد ضروری ہے نہ تو اس کام کو انجام دینے والے انفرادی طور پر اس کا حق ادا کر سکتے ہیں اور نہ کوئی فردِ واحد تنہا اس کام کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے ۔ لیکن اس اجتماعی جدوجہد کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے کام کا آغاز جماعت سازی یا تنظیم بنانے کی دعوت سے نہیں کیا بلکہ آپ نے صرف اپنی دعوت کو صاف صاف لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ۔ اس کی صداقت کے روشن دلائل دیے ۔ اور اس دعوت کو پیش کرنے میں کسی کی مخالفت کی پروا نہ کی ۔ اس کے نتیجہ میں گنتی کے جو چند لوگ آپ پر ابتدا میں ایمان لائے ان سب کے اندر کم و بیش چند اوصاف موجود تھے۔

۱۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاقی کردار بالخصوص صداقت و امانت سے متاثر تھے۔

۲۔ ان کے اندر حق کو پہنچاننے کی صلاحیت اور پہچان کر اس کو قبول کرنے کی ہمت موجود تھی۔

 ۳۔ وہ جاہلی معاشرے سے وابستہ اپنے مفادات کو چھوڑ کر اس کی طرف سے ہر طرح کی مزاحمت اور مخالفت کو برداشت کرنے کا عزم رکھتے تھے ۔

 ان اوصاف کے ساتھ جب انھوں نے اسلام کی دعوت قبول کی تو معاشرے کی طرف سے ان پر لعنت ملامت ، سب وشتم ، تشدد اور ظلم و ستم کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ۔ ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ تسلی کے لیے رجوع کرتے تو آپ ان کو کامیابی کی نوید سناتے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں دیتے ۔ مصائب میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ۔ اور باہمی اخوت و محبت اور ایثار و غم خواری کی تعلیم دیتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا محبت اور محبت کے ساتھ اطاعت کا تعلق قائم اور مستحکم ہوتا چلا گیا۔ اس سلسلہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ ایثار ناقابلِ فراموش ہے کہ انھوں نے ایمان لانے والے متعدد مظلوم غلاموں کو منہ مانگے داموں پر خرید کر آزاد کیا تاکہ ان کو ناقابلِ برداشت مظالم سے بچایا جاسکے۔

علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مٹھی بھر ان ایمان لانے والوں کے ساتھ پہاڑوں اور گھاٹیوں میں نکل جاتے جہاں ان کے ساتھ نمازِ اشراق ادا کرتے یا یہ ایمان لانے والے دارِ ارقم میں مخفی طور پر آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ان کی اجتماعیت قائم اور مضبوط ہوتی چلی گئی ۔

 کسی ایسے معاشرے میں جہاں صرف ایک یا چند مسلمان ہی ہوں جماعت سازی کا یہی فطری طریقہ کار مناسب ہے اور اسی قسم کی اجتماعیت دعوت و تبلیغ کے فریضہ کو کامیابی سے ادا کر سکتی ہے ۔ تاہم اگر دعوت کا کام کسی ایسے مسلم معاشرے میں کیا جائے جو اپنے فرائض سے منہ موڑ چکا ہو تو ان میں سے بہتر افراد کو تلاش کر کے ان کی جماعت بنانے میں مضائقہ نہیں تاکہ یہ جماعت دعوت کا کام انجام دے۔

 جیسا کہ قرآنِ مجید سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت ابتدا میں بنی اسرائیل کے صرف چند نوجوان کارکنوں پر مشتمل تھی۔

فَمَا٘ اٰمَنَ لِمُوْسٰ٘ي اِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۠ئِهِمْ اَنْ يَّفْتِنَهُمْ. (یونس ۱۰: ۸۳)
’’موسیٰ پر اس کی قوم کے صرف چند نوجوانوں نے اعتماد کر کے ان کا ساتھ دیا جبکہ ان کو فرعون اور خود اپنے ان سرداروں کی طرف سے (جو فرعون کے مقرب تھے) ڈر تھاکہ وہ (فرعون) ان کو ابتلا میں نہ ڈال دے۔‘‘

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے چنانچہ وہ اسرائیل کی تمام ’’کھوئی ہوئی بھیڑوں‘‘ (گمراہ اسرائیلیوں) کو راہِ راست پر لانا چاہتے تھے ۔ لیکن صرف چند حواری آپ پر ایمان لائے اور ’من انصاری الی اللہ‘، (اللہ کی راہ اختیار کرنے میں میرا کون مددگار بنے گا؟) کے جواب میں صرف ان حواریوں نے ہی کہا تھا ’نحن انصار اللہ‘(ہم اللہ کے کام میں مدد کرنے والے ہیں) اور انھی مختصر افراد کو ساتھ لے کر ان دونوں اولوالعزم پیغمبروں نے اپنا فریضہ ادا کیا ۔

 تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج اس طرح کی کسی جماعت بن جانے کے بعد یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ جو مسلمان اس جماعت میں شامل نہ ہوئے ہوں ان کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھ کر ان سے علیحدگی اختیار کر لی جائے ، اپنے اور ان کے درمیان غیریت کی دیوار کھڑی کر لی جائے ۔ یا ان کے مسائل سے صرفِ نظر کر لیا جائے کیونکہ اول تو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی کا یہ مقام و مرتبہ ہی نہیں ہے کہ اس کا ساتھ نہ دینے والوں کو اسلام سے خارج سمجھا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم حضرت موسیٰ اورحضرت عیسی ٰ علیہما السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے بنی اسرائیل کی طرف سے ہر زیادتی کے باوجود ان سے علیحدگی اختیار نہ کی ۔ چنانچہ:

۱۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے اگرچہ صرف چند نوجوان تھے اور فرعون کے عوہ خود بنی اسرائیل کے بڑے بڑے سردار بھی ان نوجوانوں کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔ مگر حضرت موسیٰ نے تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجے سے نکالنے کی کوشش جاری ر کھی اور بالآخر سب کو ساتھ لے کرمصر سے نکلے ۔

۲۔ فرعون سے نجات پانے کے بعد جاہل اسرائیلیوں کی طرف سے عبادت کے لیے کوئی بت مہیا کرنے کے مطالبے کے باوجود حضرت موسیٰ نے ان سے اعلانِ برأت نہیں کیا ۔

 ۳۔ حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی میں بہت سے اسرائیلیوں نے گئوسالہ پرستی اختیار کی ۔

۴ ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ نے احکامِ الہٰی کی تعمیل میں ان کی حیل و حجت کے باوجود جس کا مظاہرہ گائے ذبح کرنے کے حکم پر کیا گیا ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔

اور جب تمام اسرائیلیوں نے بیت المقدس فتح کرنے کے لیے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے ساتھ جانے سے صاف صاف انکار کر دیا اور حضرت موسیٰ نے سخت ناراض ہو کر ان سے علیحدگی کی درخواست بارگاہِ الہٰی میں پیش کر دی (فافرق بیننا و بین القوم الفسقین) تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے یہ تفرِیق  قبول نہ فرمائی بلکہ صحرانوردی کے چالیس سال میں حضرت موسیٰ کو بھی اپنی قوم ہی کے ساتھ رہنا پڑا۔

۵۔ اسی طرح سیدنا مسیح علیہ السلام نے بھی اسرائیل اور بالخصوص ان کے علما اور راہبوں کی طرف سے سخت مخالفت کے باوجود خود ان سے اعلانِ برأت  نہیں کیا ۔

 اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آج اسلامی دعوت کو پھیلانے اور اس کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے کوئی تنظیم قائم ہو اور ظاہر ہے تنظیم کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا تو:

۱۔ اس تنظیم کو دوسرے مسلمانوں سے نہ علیحدگی اختیار کرنی چاہیے نہ غیریت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

 ۲۔ بلکہ اگر کچھ دوسرے لوگ یا تنظیمیں دعوتِ اسلامی کے لیے خود اپنے طور پر کام کر رہے ہوں تو ان کے خلاف محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے ۔ بلکہ ان کے کام کو بھی اپنا کام سمجھ کر اس کی قدر کرنی چاہیے کہ یہ لوگ دعوت کے ان پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں یا ان طریقوں کو استعمال کر رہے ہیں جن پہلوؤں پر یا جن طریقوں سے ان کی تنظیم کام نہیں کر رہی ہے۔

  مسلمانوں کی مختلف جماعتیں جو دعوتِ اسلامی کا کام کرتی ہوں اگر اس جذبہ اور اس ذہنیت کے ساتھ کام کریں گی جن کا ابھی ذکر کیا گیا تو توقع یہ ہے کہ ان کے درمیان اتحاد و تعاون کا تعلق قائم ہو گااور اس کی وجہ سے ان کے درمیان بہت جلد اتحاد سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو جانے کا عمل شروع ہو جائے گا۔

 تربیت

دعوت اور تنظیم کے بعد تنظیم میں شریک ہونے والوں کی تربیت کی ذمہ داری بہت اہم ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ داعی کے لیے دعوت کو قبول کرنے والے افراد بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی برترعقلی صلاحیت کی وجہ سے باطل کے گھٹاٹوپ اندھیرےمیں حق کو پہچان کر قبول کیا اور جنھوں نے نظامِ باطل سے وابستہ مفادات کو ٹھکرا کر حق کو قبول کیا نیز جس حق پر وہ ایمان لائے ہیں اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہو گئے۔

اس لیے داعی ان ایمان لانے والوں کی تیاری اور تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیتا ہے کہ یہی وہ پنیری ہے جس سے اسلام کا سرسبز باغ تیار ہو گا ۔ اس تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خصوصی ہدایات جاری فرمائی اور اہلِ ایمان کی تربیت کے لیے جو مفصل پروگرام حوالے کیا اس کے اہم اجزا درج ذیل ہیں:

  توجہ اور صحبت

اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی کہ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں تاکہ ان کی تربیت کا کام اچھی طرح ہو سکے ۔ ارشاد ہوا:

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْﵐ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا. (الکہف ۱۸: ۲۸)
’’اور اللہ کی رضا چاہتے ہوئے جو لوگ اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ ان کے ساتھ خود کو روکے رکھو اور دنیا کی زینت کی طلب میں اپنی آنکھیں ان سے آگے نہ لے جاؤ۔‘‘

اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی وادیوں اور پہاڑوں میں اہلِ ایمان کے ساتھ نمازِ اشراق اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا ۔ قرآنِ مجید کے نازل ہونے والے حصوں کو پڑھ کر سنایا اور ان کو زبانی یاد کرنے کی ترغیب دی ۔ علاوہ ازیں دارِارقم میں طویل قیام کر کے اہلِ ایمان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا ۔

 نماز

تربیتی ہدایات کا دوسرا جزنماز ہے اس سلسلہ میں جو ہدایات دی گئی اس میں نمازِ تہجد کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی۔ جو رات کے پچھلے حصہ میں اٹھ کرپڑھی جاتی ہے اس نماز کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ نفس کے دبانے اورکچلنے میں بہت زیادہ موثر ہے۔ اس ہدایت پرایمان لانے والے صحابہ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح عمل کرتے تھے اس کا ذکر قرآنِ مجید میں یوں کیا گیا ہے:

اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰي مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَنِصْفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ. (المزمل ۷۳: ۲۰)
’’بے شک تمھارا رب جانتا ہے کہ تم اور جو لوگ تمھارے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف رات یا ایک تہائی رات (نماز میں) کھڑے رہتے ہیں۔‘‘

زکوٰۃ

 تربیتی پروگرام کا تیسرا جز زکوٰۃ کی ادائیگی یا اللہ کی راہ میں مالی قربانی دینا ہے اس کی بھی بڑی تاکید ہے۔ کیونکہ انسان کا مال جہاں ہوتا ہے وہیں اس کا دل ہوتا ہے اگر وہ اپنا مال اللہ کے ہاں جمع کرے گا تو اس کا دل بھی اللہ ہی کی طرف لگا رہے گا ۔

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ.(البقرہ ۲: ۸۳)
’’اور لوگوں سے بھلی بات کہو (توحید کی دعوت دو) اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘

قرآنِ حکیم کی تعلیم

تربیتی پروگرام کا چوتھا جز قرآنِ حکیم کی تعلیم ہے ۔ اس سلسلہ میں ارشاد ہے:

 وَاتْلُ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ.(الکہف ۱۸: ۲۷)
’’اور اپنے رب کی کتاب جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے پڑھ کر سناؤ۔‘‘

اسی طرح فجر کے وقت قرآنِ مجید پڑھنے کی اہمیت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے ۔

وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِﵧ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۸)
’’اور فجر کے وقت قرآن پڑھو بے شک فجر کے وقت قرآن پڑھنا حضوری والا ہے۔‘‘

سب سے اہم بات یہ ہے کہ تعلیمِ کتاب (قرآن) وتعلیمِ حکمت کو اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں مقاصدِ بعثت میں شامل فرمایا ہے۔ مثلاً :

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ .(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’وہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول انھی میں سے اٹھایا وہ ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

اہلِ خاندان کی تربیت

تربیتی پروگرام کا ایک پانچواں جز بھی ہے ۔ مکہ میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے ابتدائی زمانے میں جس کی زیادہ ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی ۔ لیکن بعد میں جب اسلامی معاشرہ قائم ہو گیا تو اس کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور وہ ہے اولاد اور دیگر اہلِ خاندان کی اسلامی تربیت تاکہ وہ بھی اچھے مسلمان بن کر اٹھیں ۔ اس سلسلہ میں قرآنِ مجید نے حکم دیا ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْ٘ا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ.(التحریم ۶۶: ۶)
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘

علاوہ ازیں قرآن کی متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر اولاد ، والدین ، بیوی اور شوہر اچھے اور نیک ہوں گے تو جنت میں ان کو ایک ہی جگہ رکھا جائے گا ۔

ایک موقع پر حامل عرش فرشتوں کی دعا ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ اِۨلَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ.(المؤمن ۴۰: ۸)
’’اے ہمارے رب اور ان کو ہمیشگی کے باغات میں داخل کر اور ان کو بھی جو صالح بن جائیں۔ ان کے باپ ان کی ازواج اور اولاد میں سے۔‘‘

اس تربیتی پروگرام سے غیر مسلم حکومتوں میں بسنے والی مسلم اقلیت کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ:

  بچوں اور خواتین کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا جائے  ۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نبوت سے پہلے کی اپنی زندگی کو بھی تمام لوگوں کے سامنے پیش فرمایا ہے ۔

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ. (یونس ۱۰: ۱۶)
’’تو یقیناً میں تمھارے اندر اس سے پہلے بھی ایک عمر گزار چکا ہوں تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔‘‘

دعوت پہنچانے کے سلسلہ میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کی صداقت ثابت کرنے کے لیے معجزات کا سہارا نہیں لیا . بلکہ دعوت کے ہر پہلو کو دل نشیں دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا چنانچہ لوگوں کی عقل و فہم کی قوت و صلاحیت کو مخاطب کرتے ہوئے بار بار فرمایا :

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ.(الرعد ۱۳: ۳)
’’بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کریں۔‘‘
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ. (الانبیا ۲۱: ۶۷)
’’تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔‘‘
فَاَنّٰي يُؤْفَكُوْنَ. (الزخرف ۴۳: ۸۷)
’’پھر تم کو کدھر بھٹکایا جا رہا ہے۔‘‘

کفار کی طرف سے معجزات کے مطالبے کے جواب میں آپ نے قرآنِ حکیم کو بطور معجزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا :

اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّا٘ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰي عَلَيْهِمْ.(العنکبوت ۲۹: ۵۱)
’’کیا ان (کافروں) کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ داعی کو تشدد سے اجتناب کرنا چاہیے اور جس معاشرے میں وہ رہ رہا ہو اس کے قانون کی پابندی کرنی چاہیے چنانچہ:

  تشدد سے اجتناب اور قانون کی پابندی

مکی زندگی میں مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے ان میں سے ایک اہم حکم یہ تھا کہ ان پر خواہ کتنے مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں مگر وہ صبر ، درگزر اور تحمل سے کام لیں ۔ ان کو طاقت کے جواب میں طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ حالانکہ ان کے اندر حضرت حمزہ اور حضرت عمیر جیسے بہادر بھی موجود تھے ۔ اور مسلمانوں کے پاس وہی ہتھیار بھی تھے جو ان کے دشمنوں کے پاس تھے ۔ اس زمانے میں تیر ، تلوار ، اور خنجر ایسے ہتھیار تھے جو تمام عرب بالعموم رکھتے تھے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کسی قائم شدہ حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس کے خلاف طاقت کا استعمال فساد فی الارض کا موجب ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

لَتُبْلَوُنَّ فِيْ٘ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْﵴ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْ٘ا اَذًي كَثِيْرًاﵧ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ. (آل عمران ۳: ۱۸۶)
’’تمھارے مالوں اور جانوں کے سلسلہ میں تمھاری ضرور آزمایش کی جائے گی۔ اور تم کو اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے نہایت تکلیف دہ (باتیں) سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یہی پختہ عزم کی بات ہے۔‘‘

اسی قسم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر اور ان کے اہلِ خاندان پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر ان سے کہا تھا:

اصبرو آل یاسر فان موعدکم الجنة.
’’اے آل یاسر، صبر سے کام لو کیونکہ تم سے ملاقات جنت میں ہو گی۔‘‘

مکہ میں صبر و تحمل کی یہ ہدایت اسی قسم کی ہدایت ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کو دی تھی کہ:

’’اگر کوئی تمھارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی پیش کر دو اور اگر کوئی تم کو بیگار میں ایک کوس لے جانا چاہے تو تم دو کوس چلنے کے لیے تیار ہو جا ؤ۔‘‘

مصائب اور تکالیف پر صبر کرنے کے سلسلہ میں سابقہ امتوں کو بھی اسی قسم کے احکام دیے گئے تھے۔

آدابِ دعوت 

اسلام کی دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقۂ کار اختیار فرمایا ، اس کے اہم اور بنیادی نکات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور جس ماحول میں کوئی داعی فرد یا دعوت دینے والی تنظیم کام کررہی ہو اس میں حتی الوسع ان نکات کو اپنے طریقۂ کار کا جز بنانا چاہیے ۔ میں یہاں صرف چند اہم ترین نکات کی طرف اشارہ کروں گا۔

۱۔ ذاتی نمونہ و کردار

ان میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ باطل نظریات پھیلانے کے لیے خواہ جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا جا سکتا ہو مگر اسلامی دعوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ داعی کا کردار اس کی دعوت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور کردار کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ جس دعوت کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہے اس کی سچائی پر وہ خود دل کی گہرائی سے یقین رکھتا ہو ۔ اور اس دعوت کے خلاف کسی قسم کی ترغیب سے متاثر نہ ہو ۔ نہ کسی کو راضی کرنے کے لیے اس دعوت سے انحراف کی کوئی صورت قبول کرے ۔ اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی۔

فَلِذٰلِكَ فَادْعُﵐ وَاسْتَقِمْ كَمَا٘ اُمِرْتَﵐ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْﵐ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ. (الشوریٰ ۴۲: ۱۵)
’’لہٰذا اسی دین کی طرف تم دعوت دو۔ اور جس طرح تم کو حکم دیا گیا ہے اسی پر ثابت قدم رہو اور کہو کہ اللہ نے جو کتاب نازل کی میں اس پر ایمان لایا ہوں۔‘‘

اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کفار نے کئی مصالحتی فارمولوں پر بات کی اور آپ کو اپنی دعوت کے سلسلہ میں کچھ نہ کچھ مداہنت یا نرمی پر راضی کرنا چاہا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ.(القلم ۶۸: ۹)
’’انھوں نے چاہا تھا کہ تم مداہنت اختیار کرو تو بھی مداہنت سے کام لیں۔‘‘

اسی طرح قرآنِ مجید نے کفار کی طرف سے دعوتِ دین اور حق کی تبلیغ میں ترمیم کرنے کے مطالبہ کا بھی ذکر کیا ہے:

قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هٰذَا٘ اَوْ بَدِّلْهُﵧ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ. (یونس ۱۰: ۱۵)
’’اور جو لوگ ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے، انھوں نے کہا کہ کوئی دوسرا قرآن لے آؤ یا اسی میں تبدیلی کر دو۔ کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں ہے کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کر دوں۔‘‘

دعوت کی سچائی پر داعی کے پختہ ایمان کے بعد ذاتی کردار اور ذاتی عمل کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام نے مختلف انداز میں اپنی قوم کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ:

وَمَا٘ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَا٘ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ.(ہود ۱۱: ۸۸)
’’میں یہ نہیں چاہتا کہ جس چیز سے تم کو میں منع کر رہا ہوں اس کی خلاف ورزی میں خود کروں۔‘‘

اپنے ذاتی نمونے کے ذریعے سے دعوت پیش کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ’’شہادت‘‘ (گواہی) سے تعبیر فرمایا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

 وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا.(البقرہ ۲: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (بہترین امت) بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔‘‘
اَلَمْ تَرَ اِلَي الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ كُفُّوْ٘ا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ. (النساء ۴: ۷۷)
’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں رہے نہ آپ نے اپنا کوئی قانون الگ بنایا نہ الگ عدالتیں قائم کیں بلکہ اس قبائلی معاشرے میں جن احکام و قوانین پر عمل ہوتا تھا آپ نے کوئی مداخلت نہیں کی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط رسوم و رواج پر سخت تنقید ضرور فرمائی مگر آپ نے کسی کو قانون شکنی کی ترغیب نہیں دی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ کسی غیرمسلم حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کو قانون شکنی کا راستہ اختیار نہ کرنا چاہیے اور جب تک وہ کسی ملک میں رہ رہے ہوں وہ اس کے ملکی قوانین کا احترام کریں۔

البتہ اگرکسی سرزمین میں اظہارِ رائے کی آزادی سرے سے سلب کر لی جائے ۔ مذہب اور عقیدے کی بنا پر لوگوں کو ناقابلِ برداشت ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے اور مذہبی فرائض ادا کرنے سے بذریعہ طاقت روکا جائے تو مسلمان کو ایسی سرزمین میں رہتے ہوئے طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے بجائے اس سرزمین کو چھوڑ دینا چاہیے ۔

ترکِ وطن یا ہجرت

اس ترکِ وطن یا ہجرت کی تین شکلیں ممکن ہیں :

۱۔ کسی غیر مقبوضہ علاقے کی طرف ہجرت 

مثلاً مومن جبر وظلم سے بچنے کے لیے کسی جنگل ، پہاڑ یا وادی کی طرف چلا جائے جہاں پر کسی کا اقتدار نہ ہو یعنی وہ ’No Man's Land‘ہو جیسا کہ اصحابِ کہف نے پہاڑ کے غار میں پناہ لینے کو ترجیح دی تھی۔ قرآنِ مجید میں اصحابِ کہف کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ اس سلسلہ میں اصحابِ کہف کے باہمی مشورے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ:

وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗ٘ا اِلَي الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَيُهَيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا.(الکہف ۱۸: ۱۶)
’’اور جب ہم نے ان سے اور اللہ کے سوا ان کے جو معبود ہیں ان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو چل کر غار میں پناہ لے لیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اپنی رحمتوں سے ڈھانک لے گا۔ اور ہمارے کام میں آسانی پیدا فرمائے گا۔‘‘

جن حالات میں اصحابِ کہف ہجرت پر مجبور ہوئے اس کا ذکر اصحابِ کہف کی زبان سے اس طرح کیا گیا ہے۔

اِنَّهُمْ اِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوْكُمْ اَوْ يُعِيْدُوْكُمْ فِيْ مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْ٘ا اِذًا اَبَدًا. (الکہف ۱۸: ۲۰)
’’بے شک وہ اگر ہمارا پتا لگانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ ہم کو سنگ سار کر دیں گے یا ہمیں اپنی ملت کی طرف واپس جانے پر مجبور کر دیں گے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قسم کے حالات میں اجازت دی ہے کہ مسلمان اپنی بھیڑ بکریاں لے کر پہاڑوں کی طرف نکل جائے تاکہ ظالموں کے شر سے محفوظ رہے اور اپنے دین کی حفاظت کرے۔

 ۲۔ دارالامن کی طرف ہجرت

ہجرت کی دوسری صورت یہ ہے کہ غیر مسلم اکثریت ہی کا کوئی ایسا ملک موجود ہو جہاں مسلمان آزادی سے اپنے دین پر عمل کر سکیں اور پر امن زندگی گزار سکیں ۔ اس ہجرت کی مثال ہجرتِ حبشہ ہے جبکہ مکہ کے بعض مسلمانوں کے لیے ظلم و ستم ان کی برداشت سے باہر ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے عادلانہ اندازِ حکمرانی کی تعریف کرتے ہوئے ان کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔ چنانچہ مختلف اوقات میں تھوڑے تھوڑے کر کے ستر سے زائد مسلمان حبشہ ہجرت کر گئے۔

۳۔ دارالاسلام کی طرف ہجرت

ہجرت کی تیسری صورت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی سرزمین موجود ہو یا مہیا ہو جائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو ۔ جہاں اسلامی احکام جاری ہوں یا ہو سکتے ہوں اور جہاں آزادی کے ساتھ ہر شخص اپنے عقیدے کے مطابق اپنے رب کی عبادت بجا لائے ۔ اس کی مثال مدینہ منورہ کی سرزمین ہے جہاں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے گئے تھے ۔

 اس ہجرت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حج کے موقع پر مدینہ کے نوجوان خفیہ طور پر آتے رہے اور یہاں اسلام قبول کر کے مدینہ میں اسلام کی دعوت پھیلاتے رہے ۔ حتیٰ کہ وہاں کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مسلمان ہو گیا ۔ آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو ان کے ساتھ مدینہ بھیجا تاکہ وہ ان مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔

پھر جب مدینہ کے حالات پوری طرح سازگار ہو گئے تو مکہ کے تمام مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے سب سے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ تشریف لے آئے ۔ نیز جو مسلمان حبشہ چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے ۔

 نوٹ: ہجرت کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں ان کے بارے میں بھی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کی  جا سکتی ہے مگر ان مراحل پر بحث اس وقت میرے موضوع میں شامل نہیں ہے    ۔

___________

B