HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

خور و نوش میں حلت و حرمت (۱)

دین چونکہ ہر پہلو سے نفسِ انسانی کا تزکیہ چاہتا ہے ، اس لیے اُسے اس بات پر ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ باطن کی تطہیر کے ساتھ کھانے اور پینے کی چیزوں میں بھی خبیث و طیب کا فرق ہر حال میں ملحوظ رہنا چاہیے ۔ سدھائے ہوئے جانوروں کے شکار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اللہ تعالی نے بطور قاعدہ کلیہ کے فرمایا ہے کہ : ’احل لکم الطیبات[1]، (  تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں)۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوئی کہ خبائث ہر حال میں ممنوع ہیں ۔ یہودونصاریٰ نے اس معاملے میں افراط و تفریط کا جو رویہ اختیار کیا ، اس کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انھیں ایمان کی دعوت دیتے ہوئے یہی حقیقت اس طرح بیان فرمائی ہے :

وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ. (الاعراف ۷ : ۱۵۷)
’’(یہ پیغمبر) اُن کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھیراتا ہے اور اُن کے وہ بوجھ اتارتا اور بندشیں توڑتا ہے جو اب تک ان پر رہی ہیں۔‘‘

ان طیبات وخبائث کی کوئی جامع ومانع فہرست شریعت میں   کبھی پیش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت اس معاملے میں بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ کیا چیز طیب اور کیا خبیث ہے ۔ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے کہ شیر ، چیتے ، ہاتھی ، چیل ، کوے ، گد ، عقاب ، سانپ ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ گھوڑے اور گدھے دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں ، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے ۔ نشہ آور چیزوں کی غلاظت کو سمجھنے میں بھی اس کی عقل عام طور پر صحیح نتیجے پر ہی پہنچتی ہے ۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے اس معاملے میں انسان کو اصلاً اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے[2]   پرندوں ، جلالہ[3] اور پالتو گدھے[4] وغیرہ کا گوشت کھانے کی جو ممانعت روایت ہوئی ہے ، وہ اسی فطرت کا بیان ہے ۔ شراب کی ممانعت سے متعلق قرآن کا حکم بھی اسی قبیل سے ہے۔ لوگوں نے جب زمانۂ نزولِ قرآن میں اس سے متعلق بعض فوائد کے پیشِ نظر بار بار پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا گناہ ان فوائد سے زیادہ ہے[5]خ۔   پھر سورۂ مائدہ میں پوری صراحت کے ساتھ یہ حقیقت واضح کر دی کہ یہ شیطان کی نجاست ہے جس سے ہر صاحبِ ایمان کو بچنا چاہیے۔

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ. (۵: ۹۰)
’’ایمان والو، یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

یہ سب بیانِ فطرت ہی ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی ۔ چنانچہ شریعت نے بھی اس طرح کی کسی چیز کو اپنا موضوع نہیں بنایا ۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسانوں کے لیے ممکن نہ تھا ۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے ، لیکن وہ درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے ، پھر اسے کیا کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں ، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا حکم کیا ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال و طیب قرار دیا جائے گا ؟ یہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کر دیے جائیں تو کیا پھر بھی حل ہی رہیں گے ؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اس معاملے میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں ۔ قرآن نے بعض جگہ ’قل لا اجد فیما اوحی الی‘ اور بعض جگہ ’ا نما‘کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ ذیل میں ہم اس باب کے نصوص کی وضاحت کریں گے۔

قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖﵐ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(الانعام ۶: ۱۴۶)
’’کہہ دو، میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے، حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون یا سؤر کا گوشت، اس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کے نام کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ۔‘‘

یہی حکم الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ بقرہ ( ۲) کی آیات ۱۷۳ - ۱۷۴ اور نحل (۱۶)   کی آیت ۱۱۵  میں بھی بیان ہوا ہے ۔ پھر سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کے بعض پہلوؤں کی وضاحت فرمائی ہے۔

 اس میں پہلی چیز ’میتة‘ ہے ز اس کے بارے میں یہ شبہ بعض ذہنوں میں پیدا ہو سکتا تھا کہ طبعی موت سے مرئے ہوئے اور ناگہانی حوادث سے مرے ہوئے جانور میں کیا کچھ فرق کیا جائے گا یا دونوں یکساں مردار قرار پائیں گے ؟ قرآن نے جواب دیا ہے کہ دونوں کا حکم ایک ہی ہے ۔ اسی طرح کسی درندے کا پھاڑا ہوا جانوربھی مردار ہے الا یہ کہ تم نے اسے زندہ پاکر ذبح کر لیا ہو ۔ ارشادفرمایاہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَا٘ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَا٘ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ. (المائدہ ۵: ۳)
’’تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے اور (اِسی کے تحت) وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو اوپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جسے کسی درندے نے پھاڑ کر کھایا ہو سوائے اُس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کر لیا۔‘‘

 (باقی)

____________

[1]۔ المائدہ ۵: ۴۔

[2]۔ مسلم، کتاب الصید، باب ۳۔

[3]۔ النسائی، کتاب الضحایا، باب ۴۳۔ اس سے مراد وہ جانور ہے جو گندگی کھانے کی عادت کے باعث بدبودار ہو گیا ہو۔

[4]۔ بخاری، کتاب الذبائح، باب ۲۸۔

[5]۔ البقرہ ۲: ۲۱۹۔ 


B