مناجات
اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى. اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوئِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ۔
اے اللہ، ہم اس سفرکے لیے برو تقویٰ کا زادِ سفر طلب کرتے ہیں اور تیرے پسندیدہ عمل کی توفیق چاہتے ہیں ۔
اے اللہ، ہمارے لیے یہ سفر آسان کردے، اس کی طوالت کو کم کردے۔
اے اللہ ، تو سفر میں ہم مسافروں کا رفیق اور ہمارے پیچھے ہمارے گھر والوں کا محافظ و نگران ہے۔
اے اللہ ،ہم سفرکی مشقت سے، غم ناک مناظرسے اور ایسی واپسی جس سے گھر میں اہل و عیال اور مال و دولت میں کوئی بھی خرابی اور کمی ہو ، تیری پناہ چاہتے ہیں۔
__________________
نبی ﷺ نے اس دعا کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ اے اللہ ہمیں زادِ راہ کے طور پر بروتقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند فرما۔نبی ﷺ نے یہ دعا قرآنِ مجید کی ہدایت کے مطابق کی ہے۔ قرآن ِمجید نے حج کے سفر کے لیے حج میں رفث و فسوق سے روکتے ہوئے یہ فرمایا کہ حج پر جاتے ہوئے فسق و فجور اور رفث و فساد کا عزم و ارادہ نہ کرو ۔ بلکہ تقویٰ و نیکی کا زادِ راہ اختیار کرو۔ تزودا فإن خیر الزاد التقوی۔ (البقرۃ ۲ : ۱۹۷)۔ تقویٰ کو زاد راہ بناؤ، اس لیے کہ یہ سب سے بہتر زادِ راہ ہے۔
افسوس ہے کہ اس وقت اکثر حاجی اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا خیال نہیں کرتے اور حج کرتے وقت بھی صحیح معنی میں تقویٰ اختیار نہیں کرتے ۔ اس زادِ راہ کی کمی کا منظر دیکھنا ہو تو حجرِ اسودکے پاس استلام کے موقع پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ کس طرح کمزوراور بوڑھے حاجیوں کے لیے نہایت تکلیف کا باعث بنتے اور نہایت مصروفیت کے وقت حجرِ اسود پر قبضہ کیے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ سب تقویٰ کے خلاف ہے۔
نبی ﷺ نے اسی ہدایت کے مطابق حج کے سفر کے علاوہ اسی زاد ِسفر کی دعا ہے۔
اس دعا کا مزاج بھی تعلیمی ہے۔ اس میں تقویٰ کا زاد ِراہ اپنانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ جب آدمی گھر سے لمبے سفر کے لیے نکلتا ہے تو اس کے عزائم کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سفر اچھے امکانات کے ساتھ برے امکانات کے پیدا کرنے کا وسیع ذریعہ بھی بنتا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت آدمی کے عزائم جیسے بھی ہوں سفرکے پیدا کردہ یہ امکانات ان عزائم میں تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
دوسرے شہروں یا ملکوں میں ایک خاص طرح کی آزادی بھی آدمی کو حاصل ہو جاتی ہے۔ نہ اس کے عزیزوں میں سے اسے کوئی دیکھنے والا ہوتا ہے اور نہ گھر والوں میں سے ۔ ان وجوہ سے لوگ برائی کو اختیار کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں ۔ اس لیے نبی ﷺ نے تقویٰ کو زاد ِراہ بنانے کی اس دعا کے ذریعے سے ہمیں تلقین کی ہے۔ اللہ کی پسند کے عمل اختیار کرنے کی دعا مانگی ہے۔
اس کے بعد نبی ﷺ نے یہ دعا کی ہے کہ اے اللہ، ہمارے لیے یہ سفر آسان کردے، اس کی طوالت کو کم کردے۔ دینی پہلو سے دعا کرنے کے بعد، یہ دعا سفر کے دنیوی پہلو کے متعلق سکھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس سفر کو آسان کردے۔ ایسی دعاؤوں میں اگر ترتیبِ زمانی ہو تو ’’دین‘‘ اور ’’آخرت‘‘ بعد میں آئیں گے اور اگر ان کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب ہو تو دین و آخرت پہلے آئیں گے ۔ اسی لحاظ سے اس دعا میں دنیوی پہلو کے بجائے پہلے دینی پہلو سے دعا کی گئی ہے۔ یعنی اپنی اہمیت کے اعتبار سے نیکی کا زادِ سفر ، سفر کی آسانی کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔ یعنی اگر نیکی چلی گئی تو اس سے دونوں جہانوں کا نقصان ہے اور اگر سفر مشکل ہوا تو یہ صرف سفرکی ناکامی ہو گی۔
اس کے بعد نبی ﷺ نے یہ دعا کی ہے کہ ـاے اللہ تو سفر میں ہم مسافروں کا رفیق اور ہمارے پیچھے ہمارے گھر والوں کا مالک و آقاہے۔ یہ الفاظ اس احساس کی وجہ سے زبان سے نکلے ہیں، جو آدمی لمبے سفر پر نکلتے ہوئے اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں محسوس کرتا ہے۔ سفر میں مسافر تنہا جارہا ہوتا ہے یا کم سے کم اپنے اہل خانہ سے جدا ہونے کا احساس اسے کمزور کردیتا ہے۔ اور اپنی عدم موجودگی میں اسے اپنے اہلِ خانہ کے بارے میں اندیشہ رہتاہے کہ نہ جانے میرے بعد ان کے ساتھ کیا ہو۔ ان احساسات کو زائل کرنے اور اس خوف سے امن و اطمینان پانے کے لیے وہ اپنے گھر والوں اور اپنے آپ کو خدا کی سپرداری میں دے دیتا ہے۔ اس طرح سے کہ وہ اللہ سے اپنے لیے سفر میں ہمراہی طلب کرتا ہے اور گھر والوں کے لیے محافظت و نگرانی کی فریاد کرتاہے۔
آخر میں نبی ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ہم سفرکی مشقت، غم ناک مناظر، اور واپسی پر گھر میں اہل و عیال اور مال و دولت میں ہر طرح کیخرابی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
سفر کی مشقت سے صرف جسم کو تھکادینے والی مشقت ہی مراد نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ ذہنی تکان بھی شامل ہے، جو آدمی کو بڑے ارادوں کے باندھنے اور طویل سفر جیسے ہمت آزما معاملات میں دل شکستگی کا باعث بنتی ہے۔ غم ناک مناظر سے مراد سفر کے دوران میں پیش آنے والے حادثات ہیں، جن کا تعلق مسافر ،اس کے اہلِ خانہ اور اس کے ہم سفروں سے ہے۔ اور واپسی پر اہلِ خانہ کی طرف سے کسی اندوہ ناک خبر کا پانا یا امر کا دیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔
واپسی پر گھر کی خرابی کی وضاحت خود دعا ہی میں کردی گئی ہے کہ ہم اہلِ خانہ اور مال و منال میں واپسی پر کوئی خرابی نہ پائیں اور ان کے بارے میں کوئی نقصان کی خبر نہ سنیں۔ یہ خرابی یا نقصان اللہ کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور واپسی کے لیے ہمارے غلط فیصلے اور طریقے کی وجہ سے بھی۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں اس سفر سے اس وجہ سے واپس نہ آنا پڑے کہ ہمیں گھر سے کسی کی وفات کی خبر ملے ۔ یا پردیس میں کاروباری نقصان کی وجہ سے واپس جانا پڑے یا ہماری واپسی کا طریقہ اور فیصلہ ایسا ہو کہ ہمیں یہ نقصانات اٹھانا پڑیں۔
سفر کے موقع پر یہ دعا نہایت جامع و مانع ہے۔ اس میں سفر سے متعلق کم و بیش ہر پہلو سے دعا مانگی گئی ہے۔ دینی و دنیوی شر سے خدا کی پنا ہ طلب کی گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سفر پر نکلتے وقت مسافر کے ذہن کی تیاری کی گئی ہے کہ کیسے مسائل سفر میں پیش آسکتے ہیں اور ان سب میں سہارا اگر کوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات کاہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ