HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

غلبۂ اسلام

(مشکوٰۃ،کتاب الایمان: حدیث ۴۲: ۴۳)

 

وعن المقداد رضی اللہ عنه انه سمع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول : لا یبقی علی ظهر الأرض بیت مدر و لا وبر الا أدخلہ اللہ کلمة الاسلام ، بعز عزیز و ذل ذلیل ۔ إما یعزھم اللہ فیجعلھم من اھلھا أو یذلھم فیدینون لھا ۔ قلت : فیکون الدین کله للہ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

’’حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اس سرزمین کی پشت پر کوئی جھونپڑا اور کوئی مکان نہیں بچے گامگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا ، کسی کو عزت دے کر اور کسی کو ذلیل کر کے ۔ وہ جنھیں اللہ معزز کرے گا انھیں اس کلمے کا اہل ٹھیرائے گااور جنھیں ذلیل کرے گاوہ اسے (مجبوراً) مان لیں گے۔ (اس پر ) میں نے کہا : پھر توسارے کا سارا دین اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے گا۔‘‘

لغوی بحث

الارض:سرزمینِ عرب ۔ ’ارض‘ یعنی زمین اگرچہ عام لفظ ہے ،لیکن اس پر الف لام عہد کا ہے ۔ چنانچہ اس روایت میں اس سے اہل ِعرب کی سرزمین ہی مراد ہے ۔

مدر: یہ ’مدرۃ‘ کی جمع ہے ۔ اس کے معنی اینٹ کے ہیں ۔ ’بیت مدر‘ سے مراداینٹ گارے سے بنے ہوئے مکان ہیں ۔اس سے شہری اور دیہاتی آبادیاں مراد ہیں۔

وبر: اون، ’بیت وبر‘ سے مراد خیمہ ہے ۔ اس سے عرب کے بدو مراد ہیں ۔ ’بیت مدر و وبر ‘ سے اہل ِعرب کے شہری ، دیہاتی اور خانہ بدوش تمام قبائل کا احاطہ ہو جاتا ہے ۔

فیدینون: ماننا ، تسلیم کر لینا ۔

متون

یہ روایت صاحبِ مشکوٰۃ نے مسندِاحمد سے لی ہے ۔ بعض سابقہ روایات کی طرح اس میں بھی ہمارے ہاں متداول نسخے سے فرق ہے۔ صاحب ِ مشکوٰۃ نے روایت کے آخر میں ’قلت: فیکون الدین کله للہ[1] کا جملہ درج کیا ہے۔ لیکن متداول نسخے میں یہ جملہ نہیں ہے ۔ مسندِ احمد میں یہ روایت ایک اور صحابی تمیم داری رضی اللہ عنہ سے بھی درج کی گئی ہے ۔ اس روایت کے الفاظ سے زیرِبحث روایت کے بعض پہلوؤں کی وضاحت ہوتی ہے :

عن تمیم الداری رضی اللہ عنه قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول: لیبلغن ھذا الأمر مابلغ اللیل و النھار ۔ و لا یترک اللہ بیت مدر و لا وبر الا أدخله ھذا الدین بعز عزیز و بذل ذلیل۔ عزا یعز اللہ به الإسلام و ذلا یذل اللہ به الکفر ۔ و کان تمیم الداری یقول قد عرفت ذلک فی أھل بیتی ۔ لقد أصاب من أسلم منھم الخیر و الشرف و العز و لقد أصاب من کان منھم کافرا الذل و الصغار و الجزیة۔
  ’’حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ یہ معاملہ گردشِ لیل و نہار کے ساتھ (اپنے انجام کو ) پہنچے گا۔اللہ تعالیٰ کسی مکان اور کسی خیمے کو اس میں اسلام داخل کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ معزز کے لیے عزت کا ذریعہ اور رسوا کے لیے رسوائی کا باعث۔ عزت جو اللہ نے اسلام کو دی ہے۔ رسوائی جو اللہ نے کفر پر مسلط کی ہے۔ حضرت تمیم داری کہا کرتے تھے کہ میں نے یہ بات اپنے گھر میں (پوری ہوتی دیکھ کر ) پہچان لی تھی ۔ وہ شخص جس نے اسلام کو اختیار کر لیا اسے بھلائی ، شرف اور مرتبہ حاصل ہے ۔ جو کفر کی راہ پر قائم رہا ذلت، کمتری اور جزیہ کا قانون اس کا مقدر ہے۔‘‘

ان روایتوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حضرت مقداد کی روایت میں ذلت کا شکار ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو مجبورا ً ایمان لائے ہوئے ہیں ۔ جبکہ حضرت تمیم داری کی روایت میں ذلت کا اطلاق اس گروہ پر کیا گیا ہے جو ایمان نہیں لایا اور اور اس نے جزیہ ادا کرکے کم تر حالت کوقبول کیا ہے ۔

معنی

یہ روایت بنیادی طور پر ایک پیشین گوئی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب سر زمین ِ عرب میں کوئی غیر مسلم باقی نہیں بچے گا ۔ ہر گھر اسلام کی تعلیمات سے بہرہ مند ہو جائے گا ۔ کسی کے لیے اس کا امکان باقی نہیں رہے گا کہ وہ حالت ِ کفر میں زندہ رہے ۔ وہ ہرحال میں اسلام قبول کرے گا ۔ خواہ یہ بہ رضا و خوشی ہو اور خواہ بے دلی اور مجبوری کے ساتھ ۔ پہلی صورت میں یہ صاحبِ ایمان کے لیے باعثِ شرف و مرتبہ ہو گا اور دوسری صورت میں وہ اپنے ضمیر کے آگے بھی اور معاشرے میں بھی رسوا ہو گا ۔

عام طور پر اس پیشین گوئی کو تمام دنیا سے متعلق مانا گیا ہے ۔ چنانچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ قیامت کے قریب پوری ہوگی ۔ ہمارے نزدیک اس پیشین گوئی کا تعلق صرف تمام اہلِ عرب سے ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورۂ توبہ میں جہاں اہلِ عرب کے کفار کو مار دینے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہود و نصاریٰ کے لیے جزیہ دے کر رہنے کی صورت بیان ہوئی ہے ۔


حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کی روایت نے البتہ ایک مسئلہ پیدا کیا ہے ۔ انھوں نے اس پیشین گوئی کا اطلاق تمام غیر مسلموں پر کیا ہے ۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے: قرآنِ مجید میں واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بحیثیتِ پیغمبر اتمامِ حجت کے بعد آپ کے مخاطبین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں ۔ ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں ورنہ انھیں زندگی سے محروم ہونا پڑے گا ۔یہ صورت یہودونصاریٰ کے سوا تمام اہلِ عرب کے لیے تھی ۔ دوسری صورت یہ کہ وہ جزیہ ادا کر کے ماتحت ہو کر رہیں ۔ یہ صورت صرف اہلِ کتاب کے لیے تھی ۔

اوپر روایت میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے ، وہ بھی اسی قانون سے متعلق ہے ، جس کا نفاذ حجۃ الوداع کے موقع پر کیا گیا تھا ۔ حضرت مقداد کا ذہن بجا طور پراس آیت کی طرف گیا ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت تمیم داری کے سامنے پیشین گوئی کا یہ پہلو نہیں تھا ۔ لہٰذا انھوں نے جس پہلو کو نمایاں کیا ہے اسے درست قرار دینا ممکن نہیں ۔

صاحبِ مشکوٰۃ نے اسے اس فصل میں ایمان کی اس برکت کے پہلو سے لیا ہے کہ یہ باعثِ عزت و شرف ہے ۔ بے شک اس روایت سے یہ پہلو بھی نکلتا ہے لیکن یہ ایک ضمنی پہلو ہے اور اس کا تعلق بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ ِراست مخاطبین سے ہے ۔ روایت کا اصل موضوعپیشین گوئی ہے ، جسے ہم نے واضح کر دیا ہے۔

کتابیات

مسندِ احمد عن المقداد وعن تمیم داری۔

_________

 

جنت کی چابی

عن وھب بن منبه، قیل له : ألیس لا إله إلا اللہ مفتاح الجنة ؟ قال : بلی ۔ و لکن لیس مفتاح إلا وله أسنان ۔ فان جئت بمفتاح له أسنان فتح لک ۔ و إلا لم یفتح لک۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

’’حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کیا ’لا إله إلا اللہ ‘جنت کی چابی نہیں ہے ۔ انھوں نے جواب دیا : کیوں نہیں ۔ لیکن کوئی چابی ایسی نہیں ہوتی جس کے دندانے نہ ہوں ۔ چنانچہ اگر تم ایسی چابی لائے جس کے دندانے ہوئے تو وہ تمھارے لیے کھول دے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو نہیں کھولے گی ۔ ‘‘

لغوی بحث

مفتاح الجنة: جنت کی چابی ، یہ جنت کو پانے کا سبب بننے والی شے کے لیے ایک بلیغ تعبیر ہے ۔

أسنان : ’سن‘ کی جمع ہے ، جس کے معنی دانت کے ہیں ، عربی میں چابی کے دندانوں کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے۔حضرت وہب بن منبہ نے چابی کے استعارے کو آگے بڑھاتے ہوئے اعمالِ صالحہ کے لیے چابی کے دندانوں کو علامت بنا لیا ہے۔

متون

 یہ روایت حضرت وہب بن منبہ رحمہ اللہ مشہور تابعی کا قول ہے ۔ جسے بخاری نے کتاب الجنائز میں پہلے باب کے عنوان کے ساتھ بطور تعلیق درج کیا ہے ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ صحاح، مؤطا ،دارمی یا مسند احمد میں سے کسی کتاب میںاسے اس حیثیت سے روایت کیا گیا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اقوال میں یہ تعبیر نماز کے لیے اختیار کی گئی ہے ۔

وہب بن منبہ کے قول کی حیثیت سے بھی اسیحدیث کی متداول کتب میں صرف بخاری نے نقل کیا ہے ۔ چنانچہ اس کے دوسرے کسی متن کا کوئی وجود نہیں ہے ۔

معنی

حضرت وہب نے دین کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا ہے کہ محض ایمان یقینی نجات کا باعث نہیں ہو گا ۔ سچے ایمان کے ساتھ صالح اعمال کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ ایمان کے شعبوں والی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو بڑی اچھی طرح واضح کیا ہے کہ جس دل میں ایمان کی حقیقت اترتی ہے اس کا اثر کردار پر بھی پڑتا ہے ۔ اگر ایمان کے ساتھ کردار تبدیل نہیں ہوا تو یہ ایمان کے رسوخ میں کمی کا نتیجہ ہے ۔ بلکہ کردار کی بعض خرابیاں ایسی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نفاق کی علامت قرار دیا ہے ۔ہمارا اشارہ ’آیات منافق ثلاث‘ والی روایت کی طرف ہے ۔حضرت وہب نے بھی چابی کے دندانوں کی تعبیر سے اسی حقیقت کو واضح کیا ہے ۔ جس طرح کوئی چابی دندانوں کے بغیر نہیں ہوتی اسی طرح اعمال کے بغیر ایمان کا بھی کوئی تصور نہیں ۔ جس طرح تالا کھولنے میںوہی چابی مؤثر ہے جس کے دندانے ہوں اسی طرح جنت میں داخل ہونے کے لیے وہی ایمان مفید ہوگا جس کے ساتھ نیکیاں ہوں گی ۔

کتابیات

بخاری ، کتاب الجنائز ، باب ۱۔

___________

[1]۔ یہ سورۂ انفال کی آیت ۳۹ کا حوالہ ہے جس میں کفار ِمکہ کے خلاف کارروائی کی غایت بتائی گئی ہے ۔


B