HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۷۴-۸۲ (۱۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۣ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةًﵧ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُﵧ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُﵧ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ٧٤
(تم یہی کرتے رہے ا[188] یہاں تک کہ) اِس کے بعد پھر تمھارے دل سخت ہو گئے، اِس طرح کہ گویا وہ پتھر ہیں یا اُن سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹتی ہیں اور ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور اُن سے پانی بہ نکلتا ہے اور ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں[189]۔(یہ حقیقت ہے کہ تم یہی کرتے رہے ہو)،  اور جو کچھ تم کرتے رہے ہو ، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے[190]۔ ۷۴
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۣ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ٧٥ وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْ٘ا اٰمَنَّاﵗ وَاِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰي بَعْضٍ قَالُوْ٘ا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٧٦ اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ٧٧ وَمِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّا٘ اَمَانِيَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ ٧٨ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْهِمْﵯ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًاﵧ فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ ٧٩ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا٘ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةًﵧ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗ٘ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٨٠ بَلٰي مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيْٓـَٔتُهٗ فَاُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٨١ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٨٢ﶒ
ل اِس[191]  کے باوجود ، مسلمانو) کیا تم اِن سے یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری بات مان لیں گے، اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) اِن میں سے ایک گروہ اللہ کا کم سنتا رہا ہے اور اِسے اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد جانتے بوجھتے[192]، اِس میں تحریف[193] کرتا رہا ہے۔ اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) جب مسلمانوں سےملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے مان لیا ہے[194]  اور جب آپس میں اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: کیا تم اِن کو وہ بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولا ہے کہ وہ اِس کی بنیاد پر تمھارے پروردگار کے پاس تم سے حجت کریں۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ اُن سب باتوں سے باخبر ہے۔ اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) اِن میں بن پڑھے عامی[195] بھی ہیں جو کتابِ الہٰی کو صرف اپنی آرزوؤں [196] کا ایک مجموعہ سمجھتے ہیں اور اپنے گمانوں ہی پر چلتے ہیں ـــــــــ سو تباہی ہے اُن کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شریعت تصنیف کرتے ہیں[197]، پھر کہتے ہیں : یہ اللہ کی طرف سے ہے ، تاکہ اِس کے ذریعے سے تھوڑی سی قیمت حاصل کر لیں ۔ سو تباہی ہے اُن کے لیے اُس چیزکے باعث جو اُن کے ہاتھوں نے لکھی اورتباہی ہے اُن کے لیے اُس چیز کے باعث جو (اِس کے ذریعے سے) وہ کماتے ہیں ـــــــــ  اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) اِنھوں نے دعوی کیا ہے کہ دوزخ کی آگ اِنھیں صرف گنتی کے چند دنوں ہی کے لیے چھوئے گی[198]۔ ان سے پوچھو ، کیا اللہ سے تم نے کوئی عہد لیا ہے کہ اللہ کسی حال میں اپنے اُس عہد کی خلاف ورزی نہ کرے گا یاتم اللہ پرایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کے بارےمیں تم کچھ نہیں جانتے [199]۔ ہاں[200]، کیوں نہیں، جن لوگوں نے کوئی بدی کمائی ہےاور اُن کے گناہ نے اُنھیں پوری طرح گھیر لیا ہے ، وہی دوزخ والے ہیں[201]۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ، وہی جنت والے ہیں[202]۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔۷۵ -۸۲


[188]۔ یعنی دین و شریعت کے ساتھ اسی طرح حیلہ بازی ، کٹ حجتی اور ڈھٹائی کا معاملہ کرتے رہے۔

[189]۔ مطلب یہ ہے کہ پتھر تو پتھر ہو کر بھی اُن صلاحیتوں سے محروم نہیں ہوتے جو قدرت کی طرف سے اُن کے اندر ودیعت ہوتی ہیں۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ طورکس طرح لرزہ براندام ہوا اور تمھارے لیے کس طرح ایک چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ، لیکن یہ تم ہو کہ اخلاقی بگاڑ نے تمھارے دل کی تمام سوتیں اس طرح خشک کر دی ہیں کہ تمھارے سینے میں دھڑکتا ہوا گوشت کا یہ لوتھڑا پتھر بن گیا ہے ، بلکہ اس کی سختی پتھروں اور چٹانوں کی سختی سے بھی بڑھ گئی ہے۔

[190]۔ یعنی وہ تمھارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ، اُس کے سامنے اپنے تقدس اور بزرگی کی حکایت نہ بڑھاؤ۔

[191]۔ یہود سے خطاب کے بیچ میں یہ مسلمانوں کی طرف التفات ہے ۔ اِسی طرح کا ایک التفات اِس سے پہلے آیات ۲۱- ۲۹ میں یثرب کے مشرکین کی طرف گزر چکا ہے ۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ اطمینان دلانا بھی ہے کہ وہ یہود کی مخالفت سے بددل نہ ہوں اور یہود کی بعض پسِ پردہ حرکتوں سے انھیں آگاہ کرنا بھی ہے تاکہ سادہ لوح مسلمان اُن کے ایمان کے دعووں سے متاثر ہو کر اُن کے فریب میں نہ آ جائیں۔

[192]۔ تحریف کے ساتھ یہ قید اس بات کو واضح کرتی ہے کہ تحریف پر تحریف کا اطلاق اُسی وقت ہوتا ہے جب وہ جانتے بوجھتے ہوئے کی جائے۔ یہی چیزتحریف کو ایک  سنگین جرم بناتی ہے اور اس کے مرتکبین کو اُس روشنی سے یک قلم محروم کر دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے ذریعے سے انسانوں کو بخشتا ہے۔

[193]۔ تحریف کے معنی کسی بات یا کلام کو بدل دینے کے ہیں ۔ اہلِ کتاب اس کی جن صورتوں کے مرتکب ہوئے ، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں:

’’ایک بات کی دیدہ و دانستہ ایسی تاویل کر دی جائے جو قائل کے منشا کے بالکل خلاف ہو۔
   کسی لفظ کے طرزِ ادا اور قراءت میں ایسی تبدیلی کر دی جائے جو لفظ کو کچھ سے کچھ بنا دے ۔ مثلاً مروہ کو بگاڑ کر مورہ یا مریا وغیرہ کر دیا گیا ۔
 کسی عبارت میں یا کلام میں ایسی کمی بیشی کر دی جائے جس سے اس کا اصل مدعا بالکل خبط ہو کر رہ جائے مثلاً ، حضرتِ ابراہیم کے ہجرت کے واقعے میں یہود نے اِس طرح ردوبدل کر دیا کہ خانہ کعبہ سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہ ہو سکے ۔
 کسی ذومعانی لفظ کا وہ ترجمہ کر دیا جائے جو سیاق وسباق کے بالکل خلاف ہو ۔ مثلاً عبرانی کے ابن کا ترجمہ بیٹا کر دیا گیا ، دراں حالیکہ اس کے معنی بندہ اور غم کے بھی آتے ہیں ۔
 ایک بات کا مفہوم بالکل واضح ہو ، لیکن اس کے متعلق ایسے سوالات اٹھا دیے جائیں جو اس واضح بات کو مبہم بنا دینے والے یا اس کو بالکل مختلف سمت میں ڈال دینے والے ہوں۔‘‘(     تدبرِ قرآن ج ۱ ص ۲۵۲ )

[194]۔ یہود یہ اقرار جس مفہوم میں کرتے تھے ، اس کی وضاحت ہم اس سے پہلے حاشیہ ۲۶ کے تحت کر چکے ہیں ۔ یہاں اتنی بات مزید واضح ہوتی ہے کہ اپنے اس خاص مفہوم میں وہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے تو اس موقع پر بعض اوقات وہ پیشین گوئیاں بھی بیان کر دیتے تھے جو آپ کے متعلق ان کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں۔

[195]۔ اصل میں لفظ ’امیون‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ ’امی‘ کی جمع ہے جس کے معنی ان پڑھ کے ہیں ۔ اس آیت میں جس طرح ان کا ذکر ہوا ہے ، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اوپر کلامِ الہٰی میں تحریف کرنے والے جس گروہ کا بیان ہے اس سے یہود کے علما اور پڑھے لکھے لوگ مراد ہیں۔

[196]۔ یعنی مثال کے طور پر یہ آرزوئیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں گنتی کے چند روز ہی کے لیے چھوئے گی اور جنت میں صرف یہودی اور نصرانی ہی جائیں گے اور آخرت کی فوزوفلاح صرف ہمارے لیے ہی خاص ہے اور ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں۔

[197]۔ اس سے مراد وہ طبع زاد اور من گھڑت فتوے ہیں جو یہود کے علما محض اپنی دنیوی اغراض کو پورا کرنے اور اپنے پیرووں کو خوش کرنے کے لیے جاری کرتے تھے۔

[198]۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے معاملے میں ان کا سارا اعتماد عقیدہ و عمل کے بجائے صرف اپنی گروہی نسبت ہی پر رہ گیا تھا۔

[199]۔ یعنی جس کی کوئی سند تمھاری کتاب میں موجود نہیں ہے ۔ تم نے یہ بات محض اپنے جی سے گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دی ہے۔

[200]۔ پچھلی فصل کے آخر میں جس طرح ’ان الذین آمنوا والذین ھادوا‘والی آیت آئی تھی ، اسی طرح دوسری فصل کے آخر میں یہ آیت وارد ہوئی ہے ۔ دونوں کا موقع و محل اور مقصد ایک ہی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے مضامین کس خوب صورتی کے ساتھ اس کے نظم میں پروئے ہوئے ہیں۔

[201]۔ مطلب یہ ہے کہ جوشخص کسی برائی کا ارتکاب کرے اور وہ برائی اس کی زندگی کا اس طرح احاطہ کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں پیشی کے شعور اور توبہ و ندامت کی توفیق ہی سے محروم ہو جائے تو اس کے لیے ہمیشہ کی جہنم ہے خواہ اس کا تعلق کسی گروہ سے ہو   ۔

[202]۔ یعنی خواہ ان کا تعلق کسی گروہ سے ہو ، وہ بہرحال جنت میں جائیں گے۔

[باقی]

______________

B