کالم نویس جناب منو بھائی ایک دفعہ دو دوستوں کے ہمراہ ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین صاحب کو ملنے ان کے گھر گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب نے جس انداز سے ہمارا استقبال کیا اور جس قدر تواضع کی، اس نے ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ہم کوئی بہت اہم اور بڑے آدمی ہیں اور خواجہ صاحب کو ہم سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے، مگر وہاں بیٹھے بیٹھے کورنگی سے ایک رکشا والا خواجہ صاحب سے ملنے آگیا۔ خواجہ صاحب نے اس کی بھی ویسی ہی خاطر تواضع کی اور اسی توجہ سے باتیں سنیں، جس توجہ سے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ بڑے آدمی ہم نہیں، خواجہ صاحب ہیں[1]مسل۔
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم مسلمان دین مساوات کو ماننے کے باوجود مساوات کے عملاً قائل نہیں ہیں۔ ایک خاص قسم کی ’’برہمنیت‘‘ ہمارے رویے سے کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ ہم محض تقویٰ کی بنیاد پر کسی شخص کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا فیصلہ نہیں کرتے۔ ذات پات کے حوالے سے سوچیں تو موچی، نائی، لوہار، کمہار، تیلی، ترکھان، جولاہے جو دینیوی نظام چلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ہمارے ہاں حقیر لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ دور حاضر میں نئے پیشے وجود میں آئے ہیں، ان میں ویلڈر، پلمبر، ڈرائیور بھی، جن کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی، ہمارے معاشرے میں کمتر انسان خیال کیے جاتےہیں۔ دفتروں میں کلرک، چپڑاسی اور خانساماں کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ گھروں میں صورت حال یہ ہے کہ بچے بھی اپنی عمر سے بڑے ملازمین کو واحد کے صیغے میں مخاطب کرتے ہیں۔
م اسی طرح وہ لوگ جنھیں عزت، شہرت، دولت یا کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر خدا کے شکرگزار عاجز بندے بننے کے بجاے اسے اپنی قابلیت اور کوشش کا نتیجہ خیال کرنے لگتے ہیں اور یوں اترانے اور تکبر کرنے لگتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اس عزت، شہرت، دولت یا نعمت سے محروم ہوتے ہیں انھیں حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔
یہ رویہ محض ایک معاشرتی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ دین و شریعت کے اعتبار سے بھی ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھنے کو تکبر قرار دیا[2] اور قرآن مجید میں ہے کہ جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا محال ہے اسی طرح جنت کے دروازے سے متکبر کا گزرنا ناممکن ہے[3]ا۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن صاحب اصلاحی تکبر کا دولت کے ساتھ تعلق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ن ’’انجیل میں ہے’’اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا: میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو۔‘‘ (متی ۱۹: ۲۳ – ۲۴) قرآن اور انجیل کی تعبیر میں بس یہ فرق ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سبب استکبار یعنی دولت کا حوالہ دیا ہے اور قرآن نے اصل جرم یعنی استکبار کا......سیدنا مسیح علیہ السلام کا ارشاد ہے مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں، آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔‘‘ (تدبر قرآن، ج ۳، ص ۲۵۸)
دین م تکبر کی اسی سنگینی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا[4]۔
یہ تکبر عام لوگوں کے ہاں تو پایا ہی جاتا ہے جیسے کہ اوپر مذکور واقعہ میں جناب منو بھائی نے ایک ڈرامہ نگار کو تو ’’خواجہ معین الدین صاحب‘‘ لکھا جبکہ رکشا والے صاحب کو ’’رکشا والا‘‘ ہی کہا۔ مگر افسوس ہے کہ دین دار اور بعض دین کا علم رکھنے والے بھی اس ’’برہمنیت‘‘ میں پوری طرح مبتلا نظر آتے ہیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں آتی ہے کہ دین کا علم رکھنے والے بعض افسر یا مالک اپنے دفتر کے ڈرائیور یا چپڑاسی یا گھر کے ملازم کو ’’آپ‘‘ کہہ کر نہیں پکارتے۔ خواہ وہ ڈرائیور، چپڑاسی یا ملازم عمر میں ان سے بڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس معاملے میں شاید وہ یہ قطعی راے قائم کر چکے ہیں کہ یہ لوگ ان سے حقیر ہیں۔ حالانکہ اہل علم وہ لوگ ہیں جنھیں دین مساوات پر دوسروں سے بڑھ کر عمل کرنا چاہیے۔
ـــــــــ محمد بلال
___________
۱۔ جنگ سنڈے میگزین، ۲۷ دسمبر ۱۹۹۸ء۔ شخصیت، کچھ یادیں، کچھ باتیں۔
۲۔ ابوداؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی الکبر۔
۳۔ الاعراف ۷: ۴۰۔
۴۔ ابوداؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء فی الکبر۔