’’دین ایک نظام ہے اور اس نظام کو ریاست کی سطح پر نافذ کرنا افضل ترین فرض ہے‘‘۔ یہ اسلام کی ایک تعبیر ہے جو دور حاضر میں پیش کی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس تعبیر دین کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر اس تعبیر کے قائل علما اور عام لوگوں میں اس طرز فکر کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ہاں ریاست کے مسائل، سب سے بڑے مسائل کی حیثیت اختیار کر گئے۔ ایسے علما کی تقریریں سنیں، تحریریں پڑھیں، سرگرمیاں دیکھیں تو ان کے اندر علم اور آخرت کے مسائل نمایاں نظر نہیں آتے۔ اسی طرح اس تعبیر پر مبنی جماعتوں سے وابستہ عام لوگ بھی سب سے زیادہ ریاست ہی کے ظاہری اور قانونی مسائل میں الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک ایسے ہی آدمی نے مجھے اپنی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی اور قائل کرنے کے لیے پہلے ملکی حالات کی خرابی بیان کی اور پھر حکمرانوں کے عیب گنوانے شروع کر دیے۔ حالانکہ دین کے سادہ مطالعہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ کسی ریاستی نظام کی تبدیلی نہیں، بلکہ اخروی کامیابی کا حصول ہے اور اسی طرح انسان کا سب سے بڑا دشمن کوئی سیکولر حکمران نہیں، بلکہ شیطان ہے۔
اس تعبیر دین پر تنقید کرنے والے علمان نے کئی دلائل دیے۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی زندگی ان باتوں اور سرگرمیوں سے بالکل خالی ہے جو مذکورہ تعبیر دین کے قائل علما نے اختیار کر رکھی ہیں۔
اس وقت ’’رفتہ و حاضر‘‘ کے ذیل میں ہمارے اسلاف میں سے ایک بڑی علمی شخصیت امام احمد حنبل رحمہ اللہ پر دو تحریریں شائع کی گئی ہیں۔ ایک تحریر تفصیلی ہے اور ایک مختصر۔ ان تحریروں کے مطالعے سے یہ بات نکھر کر سامنے آئے کہ ریاست کی سطح پر غیر اسلامی امور موجود ہوں تو عالم دین کا صحیح کام یہ ہے کہ وہ کلمۂ حق بلند کرے، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کو برداشت کرے اور خود کو علم اور دعوت تک محدود رکھے نہ کہ ان غیراسلامی امور کی اصلاح کے لیے علم اور دعوت کو بالاے طاق رکھ کر مسند اقتدار کے حصول کے لیے سرگرداں ہو جائے۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ امام احمد کے دور میں ریاست کی سطح پر شخصی استبداد، ملوکیت اور آمریت جیسے منکرات کا غلبہ تھا۔ حکمران اگرچہ بعض خوبیوں کے مالک تھے، مگر وہ اپنے حریفوں کے معاملے میں غیر انسانی تشدد حتیٰ کہ خون ریزی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ جس بےباکی اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے تھے، اس کی تفصیل پڑھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ کند چھری سے اپنے مخالف یا ناپسندیدہ شخص کے ٹکڑے کرادیتے۔ اسے زندہ جلا دینے کا حکم دیتے۔ اس کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیتے۔ حلق سے اس کی زبان کھنچوا دیتے۔ اسے زندہ دیوار میں چنوا دیتے۔ اقتدار کی خاطر اپنے ہی بھائی کا سر کٹوا دیتے اور اس پر کامیابی کا جشن مناتے۔ امام احمد کے زمانے میں المتوکل علی اللہ بھی مسند اقتدار پر بیٹھا۔ اس کی شقاوت قلبی کا ایک واقعہ سنیے۔ اس نے اپنے بیٹوں، معتر اور موید کے استاد یعقوب بن سکیت کو چت لٹا کر چند لڑکوں کو حکم دیا کہ اس کے پیٹ پر اس وقت تک کودتے رہیں جب تک یہ مر نہیں جاتا۔ یہ سزا اس لیے دی گئی تھی کہ متوکل نے ان سے یہ پوچھا تھا کہ تمھارے نزدیک میرے دونوں بیٹے افضل ہیں یا حضرت حسن و حسین؟ اس کے جواب میں استاد یعقوب نے یہ کہہ دیا تھا کہ ان سے تو حضرت علی کا غلام بھی افضل ہے۔
تفصیلی تحریر میں ایک مقام پر یہ بتایا گیا ہے کہ امام احمد نے اپنے مجموعۂ احادیث ’’المسند‘‘ کے لیے ساتھ لاکھ پچاس ہزار میں سے تیس ہزار کے قریب احادیث کا انتخاب کیا، لیکن اس کے باوجود یہ بات کہیں پڑھنے کو نہیں ملتی کہ کسی شخص نے امام احمد کو منکر حدیث قرار دے دیا ہو، بلکہ علم حدیث کے معاملے میں ان کے لیے تعریفی کلمات ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ جبکہ آج کوئی شخص جب کسی حدیث پر محدثین ہی کے اصولوں کی بنیاد پر کوئی تنقید کر دے تو اسے منکر حدیث قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس جہت سے غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ صحیح علمی رویہ اختیار کرنے کے معاملے میں ہمارا دور قدیم، ہمارے دور جدید سے کس قدر بہتر تھا۔
’’رفتہ و حاضر‘‘ ہمارا ایک نیا سلسلہ ہے۔ اس سلسلے کے تحت ہم ماضی اور حال کی بڑی شخصیات یا اہم واقعات سے متعلق ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً اہل علم کی تحریریں شائع کرتے رہیں گے۔ ’’وفیات‘‘ کے ضمن میں ابوالحسن علی ندوی پر تحریر لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارف نبوی‘‘، ’’مناجات‘‘، ’’دین و دانش‘‘، ’’یسئلون‘‘ اور ’’خیال و خامہ‘‘ کے سلسلے حسب سابق موجودہیں۔
ـــــــــ محمد بلال
___________