HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ


جہاد کی تمنا

سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ جو شخص بغیر جہاد یا شہادت کی تمنا کیے فوت ہوا اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں؟ (سید بلیغ الدین، کراچی)

جواب: آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں بعینہٖ اس معنی کی روایت مجھے سردست نہیں ملی۔ ممکن ہے صحاح، مسند احمد، موطا اور دارمی کے علاوہ کسی اور کتاب میں یہ الفاظ بھی ہوں۔ بہرحال اس سے ملتے جلتے مضمون کی روایت حسب ذیل ہے:

عن ابی ھریرہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علی شعبۃ من نفاق۔(مسلم، کتاب الامارہ، باب ۴۷)   
  ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مر گیا لیکن کسی جنگ میں شرکت نہ کی اور اس کے دل میں بھی اس کا خیال نہ تھا وہ نفاق کے ایک جز پر مرا۔‘‘

مسلم نے یہاں اس حدیث کے بارے میں عبداللہ بن مبارک کی رائے بھی درج کی ہے۔ ’قال عبد اللّٰہ بن المبارک فنری ان ذلک کان علی عھد رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (عبداللہ مبارک کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ معاملہ عہد رسالت سے متعلق ہے) اس روایت کے الفاظ پر غور کریں تو عبداللہ بن مبارک کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال جہاد کے افضل ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور شہادت کی موت بہترین موت ہے۔ بشرطیکہ جہاد اسلامی قانون کے مطابق کیا جائے۔


بیعت کے مسائل

سوال: بیعت سے کیا مراد ہے؟ اس کی کتنی قسمیں؟ (سید بلیغ الدین ، کراچی)

جواب: بیعت اپنے عرف میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی بات کا عہد و اقرار کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک عام لفظ ہے یہ کوئی اصطلاح نہیں اور نہ اس کی کوئی دینی حیثیت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے اپنے زمانے میں یہی طریقہ اپناتے ہوئے بیعت سمع و طاعت لی ہے۔ موجودہ زمانے میں اسی غرض کے لیے حلف برداری کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس کے لیے کوئی اور طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیعت یا عہد حکمران کے سوا کوئی اور نہیں لے سکتا۔ بیعت کی ایک قسم ہمارے ہاں بھی بیعت ارشاد کے نام سے رائج ہے۔ یہ اصطلاح خودساختہ ہے اور اس کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بیعت اگر غور کریں تو پیغمبر ہی لے سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ہادیِ برحق ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ عام علما و مصلحین درحقیقت معلمین ہیں اور ان کا اپنے سننے والوں سے تعلیم و تعلم کے سوا کوئی اور تعلق نہیں۔ اس کے لیے ظاہر ہے کسی بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔


جاہلیت کی موت

سوال: کیا بیعت کے بغیر موت جاہلیت کی موت ہے؟ (سید بلیغ الدین ، کراچی)

جواب: یہ ایک بدیہی امر ہے کہ اسلامی ریاست کے شہریوں کو اپنے نظام کا پابند ہونا چاہیے۔ یہی حقیقت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اسالیب میں واضح کیا ہے۔ بخاری میں ہے ’من خرج من السلطان شبراً مات میتۃ الجاھلیہ‘ (’’جو اقتدار سے بالشت برابر بھی باہر نکلا وہ جہالت کی موت مرا۔‘‘ کتاب الفتن، باب ۲) یہی بات ’من فارق الجماعہ‘ (’’جس نے نظم اجتماعی سے علیحدگی اختیار کی۔‘‘ ایضاً) کے الفاظ میں بھی ہے۔ اسی طرح مسلم میں ہے: ۔۔۔ من خلع یداً من طاعۃ لقی اللّٰہ یوم القیامۃ لاحجۃ لہ ومن مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ۔ (’’جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا وہ اللہ سے قیامت کے دن اس طرح ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی جس کے گلے میں بیعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ کتاب الامارہ، باب ۱۳)

یہ بھی درحقیقت اسلامی ریاست کی وفاداری کی تعلیم اور اس کے خلاف بغاوت اور انتشار کی مذمت ہے۔ اس کا کسی پیر کی بیعت یا کسی انقلابی جماعت کی بیعت سمع و طاعت سے کوئی تعلق نہیں۔


روحانی عمل

سوال: بچپن میں روحانی بزرگوں کے معجزات سنتے آ رہے ہیں۔ ایک بزرگ مٹی میں گر گئے، مٹی ان کے منہ شکر بن گئی۔ ایک بزرگ نے چھڑی ماری وہاں سے پانی پھوٹ پڑا۔ کئی صدیوں سے چشمہ بہ رہا ہے ایک موروں والے پیر ہیں۔ وہاں مور ہی مور ہیں جو ان کو پکڑنا چاہتا ہے، اندھا ہو جاتا ہے۔ کسی کے پاس مؤکل ہے وہ اس کو حاضر کر کے آپ کی مشکل یا گم ہونے والی چیز بتا دے گا۔ ستاروں کی مدد سے زائچے بنائے جاتے ہیں۔ ہاتھوں کی لکیروں سے مستقبل کے حالات بتا دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر خدا کا وجود، روح، تقدیر، رزق کا معاملہ، فرشتوں کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ سب باتیں شرک کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ لوگوں کو جنوں کا چمٹنا، جادو کا اثر، تعویزوں کا موثر ہونا، موکلوں اور ستاروں کا علم سب فراڈ ہیں۔ یہ میری سوچ ہے۔ لیکن بعض تاریخی واقعات میری سمجھ میں نہیں آتے۔ مثلاً حضرت عمر کے رقعے سے دریاے نیل میں پانی آ جانا۔ نبی پاک پر تعویز کا اثر ہونا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے لوگوں کے پاس ستاروں اور فلکیات کا علم ہونا، فرعون کے پاس حضرت موسیٰ کے ہاتھوں تباہ ہونے کی پیشین گوئی ہونا۔ میرے نزدیک یہ علم تھا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ چھین لیا گیا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ (راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ چیزوں کی حقیقت الگ الگ سمجھ لی جائے۔ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں اللہ کی کتاب ہے۔ اس کی مدد سے ہم بآسانی اس طرح کی الجھنوں کو حل کر سکتے ہیں۔ غیر معمولی واقعات کا ظہور، غیب دانی، شعبدہ بازی، کلمات کی تاثیر، جادو، ٹونے ٹوٹکے، ستارہ شناسی، دست شناسی، علم جفر اور علم اعداد وغیرہ سب کے بارے میں ہمیں الگ واضح رائے قائم کر لینی چاہیے اور ایسا کرنا جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے قرآن مجید کی مدد سے بآسانی ممکن ہے۔

بطور اصول قرآن مجید یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی ہستی (سوائے اللہ تعالیٰ کے) ماوراے اسباب، موثر اور کارفرما نہیں ہے۔ قرآن مجید کے نزدیک ’الٰہ‘ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور ’الٰہ‘ عربی زبان میں اس ہستی کو کہتے ہیں جو اسباب کے بغیر واقعات ظہور میں لا سکتی ہو۔ اسی طرح قرآن مجید اس بات کی بھی تردید کرتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کسی ہستی یا کسی مخلوق کو اپنی اس الوہیت میں کسی درجے میں شریک کیا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ یہود اور اہل عرب کے اسی طرح کے عقائد کو غلط قرار دیتا اور تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کی دلیل میں خدا کے کسی بیان کا حوالہ دیں ورنہ یہ محض خود ساختہ خیالات ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ خدا کے انبیا کے صحائف اس طرح کے کسی بیان سے بالکل خالی ہیں۔

دوسری بات قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’جبت‘ پر ایمان کفر ہے۔ جبت کا لفظ ان تمام امور کے لیے بولا جاتا ہے جن کے لیے ہمارے ہاں، شگون، ٹونے ٹوٹکے اور اسی طرح ستارہ شناسی، دست شناسی اور علم جفر، رمل اور علم اعداد وغیرہ کے الفاظ رائج ہیں۔

تیسری بات قرآن مجید نے یہ بتائی ہے کہ انسان اپنے مستقبل سے واقف نہیں ہو سکتا۔ سورۂ لقمان کی آیت ۳۴ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’وما تدری نفس ما ذا تکسب غدا و ما تدری نفس بای ارض تموت‘ (کسی کو معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا۔ اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔)

یہاں بھی درحقیقت دنیا کے اسباب کے بغیر علم ہی زیربحث ہے۔ ہر پہلی کو ملنے والی تنخواہ کا علم اور قریب المرگ آدمی کے بارے میں یہ جان لینا کہ یہ اب رخصت ہونے والا ہے، درحقیقت معلوم کا علم ہے۔ اس کا غیب یا مستقبل بینی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ افراد اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کوئی آدمی مستقبل کا اندازہ لگانے میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو۔ اور بعض چیزوں کے بارے میں اس وقت کوئی بات بتا دے جب دوسرے اندازہ نہ لگا سکتے ہوں۔ یہ بھی اپنی حقیقت میں غیب دانی نہیں ہے۔

ان تین بنیادی امور کے جان لینے کے بعد ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ مستقبل بینی سے متعلق تمام علوم، شگون، ٹونے، ٹوٹکے اور اوہام یہ سب چیزیں بالکل بے حقیقت ہیں۔

ان کے بعد تین چیزیں باقی ہیں۔

۱۔ غیرمعمولی واقعات کا ظہور

۲۔ کلمات کی تاثیر

۳۔ جنوں کے اثرات

۱۔ الٰہ کے تصور کے ضمن میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کوئی ہستی (سواے اللہ تعالیٰ کے) ماوراے اسباب واقعات ظہور میں نہیں لا سکتی۔ چنانچہ انبیا کے سوا کوئی خلاف عادت واقعہ اگر کسی کی نسبت سے اس کے ارادی عمل کی حیثیت سے بیان کیا جاتا ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔

۲۔ قرآن مجید کے دو مقامات سے اس علم کے ہونے کا ثبوت ملتا ہے ایک مقام سورۂ بقرہ ہے جہاں ہاروت و ماروت کے ذریعے سے سکھائے گئے علم کا ذکر ہوا ہے اور دوسرا مقام سورۂ فلق ہے۔ جس میں ’من شر النفثات فی العقد‘ کے الفاظ میں اس طرح کے اعمال کے مؤثر ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ علم دو طرح کا ہے ایک کا تعلق شیاطین جنات سے ہے۔ یہ علم گناہ ہے۔ دوسرے کا تعلق پاکیزہ کلمات کی تاثیر سے ہے۔ یہ علم فرشتوں کا سکھایا ہوا ہے۔ اس کی باقیات غالباً اب بھی دنیا میں موجود ہیں۔ بالعموم ان دونوں (شیاطین اور فرشتوں کے سکھائے ہوئے) علوم میں فرق نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا اس سے متعلق اشخاص پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ پھر ان حضرات کا ظلم یہ ہے کہ یہ ان علوم کے ذریعے سے انجام دیے گئے معاملات کو اپنی پارسائی اور نیکی کا نتیجہ اور اپنے خدا کے مقرب ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں۔ یہ بات سرتاسر غلط ہے اور اوپر ’الٰہ‘ سے متعلق بحث سے اس تصور کی پوری طرح تردید ہو جاتی ہے۔ غیرمعمولی واقعات کے ضمن میں ہم نے صرف انبیا کے حوالے کو درست قرار دیا ہے۔ اگر کوئی عامل اس علم کے ذریعے سے کوئی عمل کرتا ہے تو یہ درحقیقت اسباب کے تحت کیا گیا عمل ہے۔ جب کہ انبیا صرف خدا کے اذن سے معجزات دکھاتے ہیں۔

۳۔ جنات کے عمل دخل کے بارے میں بھی قرآن مجید واضح ہے۔ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کاہنوں کا کاروبار بالعموم شیاطین کے سہارے چلتا ہے۔ اس طرح یہ شیاطین لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو شیاطین کے سپرد کر دے تو یہ اس پر مسلط بھی ہو جاتے ہیں۔ سورۂ زخرف کی آیت ۳۶ میں ہے: ’ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین‘ (جو خدا کے ذکر سے اعراض کر لیتا ہے۔ تو ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔)

قرآن مجید اس معاملے میں خاموش ہے کہ آیا ان شیاطین سے خود رابطہ ممکن ہے یا نہیں۔ لہٰذا ہم اس کی تردید یا توثیق کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔


جہاد کی حقیقت

سوال: ایک طرف ہمارے مذہب میں دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی تعلیمات ہیں۔ دوسری طرف صبر اور بھائی چارے کا درس ہے۔ جہاد کا دائرہ کیا ہے اور موجودہ جہادی سرگرمیوں کی کیا حقیقت ہے؟ (راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: جہاد کا تعلق ریاست سے ہے۔ یہ بات امت کے تمام علما میں متفق علیہ ہے۔ موجودہ زمانے میں اس جہاد کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر فرقہ دارانہ چپقلشوں سے متعلق کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بالکلیہ غلط ہے۔ اسلام اس معاملے میں امن، بھائی چارے اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید کے جہاد سے متعلق تمام احکام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی حکومتیں صرف دفاع کے لیے جنگ لڑیں گی یا مظلوم کی مدد کے لیے میدان میں اتریں گی۔ یہ دونوں کام امیر ریاست کے حکم کے بغیر ریاست کے افراد اپنی ذاتی حیثیت میں نہیں کر سکتے۔


جنات میں پیغمبروں کی بعثت

سوال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی نبی آئے وہ سب انسانوں میں سے تھے۔ قرآن مجید میں بھی خطاب انسانوں سے ہے۔ جس طرح انسانوں کی آبادی ہے اسی طرح جنوں کی بھی ہو گی۔ سنا ہے جس طرح ہم قرآن پڑھتے ہیں اسی طرح جنات بھی پڑھتے ہیں۔ نبی پاک کے وقت وحی الٰہی جنوں تک کیسے پہنچتی تھی کیا نبی پاک جنوں سے خود مخاطب ہوتے تھے اور کیا وہ ان کودیکھتے تھے۔ انسان تو اپنے تعصب کی وجہ سے دوسرے فرقے کی مسجد میں نہیں جاتا! کیا جنات میں یہ چیز موجود نہیں کہ اللہ نے ہم میں سے نبی اور رسول کیوں نہیں بھیجے؟

کیا جنات انسانوں میں ہی رہتے ہیں جس طرح ہم ان کو نہیں دیکھ سکتے کیا وہ بھی ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔ کیا وہ انسان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کیا جنات کسی جگہ پر آباد ہیں۔ کیا ان کی بھی ریاستیں اور ملک ہوتے ہیں۔ کیا وہ بھی ہماری طرح آزمایش میں ہیں؟‘‘ (راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: ہمارے پاس جنات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا قرآن مجید کے سوا کوئی یقینی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جنات کے بارے میں کچھ ہی چیزیں بیان کی ہیں۔ میں ان کو بیان کر دیتا ہوں۔ جنات کے بارے میں ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں اور انسان انھیں نہیں دیکھ سکتے۔ تیسری یہ کہ وہ بھی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں اور ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی۔ چوتھی یہ کہ وہ انسانوں کے ذہن میں اپنی باتیں ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ وہ آسمانوں میں اس مقام کے قریب پہنچ جاتے ہیں جہاں فرشتے رہتے ہیں۔ چھٹی یہ کہ ان کے کسی گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوت قرآن کرتے ہوئے سنا تھا اور اس کے پیغام سے متاثر ہوئے تھے۔ ساتویں یہ کہ جس طرح انسان کے لیے انسان پیغمبر ہیں، جنات کے لیے جنات پیغمبر ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ کسی انسان پیغمبر کے امتی نہیں ہوتے البتہ انھیں اگر کسی انسان کے پیغمبر ہونے کا علم ہو تو وہ اپنی حق پرستی اور صالحیت کی بنا پر اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آٹھویں یہ کہ قیامت کے بعد انھیں بھی سزا و جزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ یا تو خودساختہ ہے یا انسانوں کے تجربات کا نتیجہ۔ اس میں جو چیز قرآن مجید کی دی ہوئی ان معلومات کے خلاف ہو، اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔


خدا کے خاص بندے

سوال: انسان کو کس طرح پتا چلتا ہے کہ غیبی طاقت میرے ساتھ ہے۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی ایک عالم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ کا خاص تعلق بیک وقت بہت سے بندوں سے ہوتا ہے لیکن خاص الخاص تعلق بس کسی ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت کر دیں۔ مزید برآں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی شخصیت کے بارے میں بھی وضاحت کر دیں؟ (راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: قرآن مجید میں یہ بات بڑی تفصیل سے زیربحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے اور وہ کس طرح اپنے بندوں کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن یہ کہیں نہیں بتایا کہ انبیا و رسل کے علاوہ بھی کوئی شخصیات خاص تعلق پیدا کر لیتی ہیں۔ درحقیقت یہ ساری بات بے حقیقت ہے۔


عالم دین

سوال: عالم دین کسے کہتے ہیں؟ (ڈاکٹر خالد عاربی، گجرات)

جواب: عالم دین ہونا ایک استعداد کا نام ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی براہ راست قرآن و سنت کا مطالعہ کر سکتا ہو اور تفسیر، حدیث، فقہ اور سیرت کی اہم کتب پر اس کی نظر ہو۔ داعی بننے کے لیے ایک مزید شرط یہ ہے کہ وہ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے داعی ہو اور دینی عقائد کے قرآنی استدلال اور شریعت کی حِکم و مصالح سے بخوبی آگاہ ہو۔


نکاح

سوال: نکاح میں کتنے فرض ہیں، کیا خطبہ اور دعا نکاح کا حصہ ہے؟ (حفیظ الرحمن بغدادی، میرپور)

جواب: نکاح میں بنیادی امور دو تین ہی ہیں مثلاً دلہا دلہن کا ایجاب و قبول، اس نکاح کا اعلان عام اور مہر کا تقرر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کے لیے اسی طریقے کو قائم رکھا جو بنی اسماعیل میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے جاری کیا تھا۔ یعنی اعزہ و احباب کا اجتماع۔ اس میں برسرعام ایجاب و قبول، دلہا کے ولی کا خطاب، نئے گھر کے استحکام اور خیر و برکت کی دعا اور مہمانوں کی تواضع (مثلاً کھجور یا چھوہارے وغیرہ)۔ یہ تمام چیزیں خیر و برکت کی حامل ہیں۔ یہی طریقہ ہماری امت میں بھی قائم ہے اور اسے قائم رہنا چاہیے۔ باقی رہا دستاویز لکھنا، گواہوں یا وکیلوں کا تقرر وغیرہ تو یہ تدبیر کی چیزیں ہیں انھیں اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔


حق مہر

سوال: حق مہر کے معنی کیا ہیں؟ کیا بیوی مہر معاف کر سکتی ہے؟(حفیظ الرحمن بغدادی، میرپور)

جواب: مہر کا لفظ اس طے شدہ رقم یا جنس کے لیے بولا جاتا ہے جو شوہر نکاح کے موقع پر اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے۔ یہی اس کے اصطلاحی معنی ہیں۔ مہر کے تقرر کے لیے شریعت میں کوئی چیز طے نہیں کی گئی، نہ جن کی صورت میں اور نہ نقدی کی صورت میں۔ حضور کی ازواج اور بیٹیوں کے مختلف مہر مقرر ہوئے اور یہی طریقہ رائج رہنا چاہیے۔ بیوی مہر معاف کر سکتی ہے۔ لیکن یہ مردانگی کے منافی ہے کہ ابتدا ہی بیوی سے مہر معاف کرانے سے کی جائے۔ بہتر یہی ہے کہ مہر اتنا ہی باندھا جائے، جتنا مرد ادا کو سکتا ہے۔ اس کی آسان صورت یہ ہے کہ وہ زیور جو دلہا والوں نے دلہن کے لیے بنائے ہیں مہر میں ادا کر دیے جائیں۔ اس طریقے سے کم آمدنی والے شوہروں پر اضافی بوجھ نہیں پڑتا۔


شیخ اکبر

سوال: آپ لوگ ابن عربی کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟ روحانیت میں اگرچہ انھیں شیخ اکبر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن علما انھیں شیخ اکفر قرار دیتے ہیں۔ ان کی تعلیمات حق پر مبنی نہیں ہیں چنانچہ ان کا حوالہ نہ دیا کریں؟ (حفیظ الرحمن بغدادی، میر پور)

جواب: آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ’’اشراق‘‘ میں ان کے حوالے دینے کی وجہ ان کی تائید نہیں تھی، بلکہ یہ بتانا مقصود تھا کہ ان کے افکار میں کیا غلطی ہے۔ باقی رہا انھیں ’’اکفر‘‘ قرار دینا تو یہ بات دین کے مزاج کے خلاف ہے۔ ہمارا کام یہی ہے کہ ہم ان کے افکار و آرا پر تنقید کریں اور ان کی غلطی واضح کریں اور اس میں بھی اسلوب بیان شایستہ اور مہذب ہو۔


آزمایش

سوال: قرآن مجید میں سورۂ بقرہ سمیت متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مالی اور جانی نقصانات کے ذریعے سے آزماتے ہیں۔ دین کی بنیادی تعلیم ہی یہ ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور انسان کو آزمایش کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ مگر قرآن ہی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کو جس مصیبت سے بھی واسطہ پڑتا ہے وہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہر بھلائی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان پر جو مصیبت آتی ہے وہ اسے آزمایش سمجھے یا اپنے اعمال کا نتیجہ؟ (صفتین، راولپنڈی)

جواب: بنیادی طور پر یہ دنیا آزمایش کے لیے ہے۔ چنانچہ ہر نعمت اور نقمت، شکر اور صبر کے امتحان کے لیے ہے۔ آپ نے جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ خاص سیاق و سباق میں ہیں مثلاً سورۂ بقرہ میں جہاں جان و مال کے نقصان کی آزمایش بیان ہوئی ہے وہاں مدینے میں اصلاً صحابہ کو درپیش مخصوص حالات کا معاملہ زیربحث ہے۔ سورۂ شوریٰ میں ’وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسب بایدیکم‘ (تمھیں جو بھی مصیبت آتی ہے تو اس کا سبب تمھارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت ہیں) کی آیت میں بھی ’’تمھیں‘‘ سے مراد اصلاً کفار ہیں۔ قرآن مجید کے ان مقامات سے ضمنی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض اوقات ہمارے کسی گناہ پر بطور تنبیہ بھی سختی کی جاتی ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی کسی مشکل سے اس کا آزمایش ہونے کا پہلو منفک نہیں ہوتا۔


اللہ کی صفات سے نام رکھنا

سوال: کیا اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر بندوں کے نام رکھے جا سکتے ہیں، مثلاً رافع، حکیم وغیرہ؟(صفتین، راولپنڈی)

جواب: اللہ تعالیٰ کی صفات جن الفاظ میں بیان ہوئی ہیں، وہ عربی زبان کے عام الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اور حضور کے بعد بھی انسانوں کے لیے بولے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان پر نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

یہ صفات اپنی مطلق حیثیت میں کسی انسان میں نہیں پائی جاتیں، البتہ اللہ تعالیٰ میں یہ صفات مطلق حیثیت میں موجود ہیں۔ چنانچہ اب ’رحیم‘ تو کو ئی شخص بھی ہو سکتا ہے لیکن ’الرحیم‘ نہیں ہو سکتا۔ یہی بات نام رکھنے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔ البتہ رحمان کے بارے میں واضح رہنا چاہیے کہ اس صفت سے کسی کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ بھی اللہ تعالیی کے ساتھ خاص ہے۔


جنت کا انعام

سوال: قرآن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے کہ انسان (مرد) کو وہاں خوب صورت عورتیں اور حوریں انعام کے طور پر ملیں گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس سے (نعوذ باللہ) عورت کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلتا؟ کیا وہ محض اس قابل ہیں کہ اسے بطور انعام استعمال کیا جائے؟ (صفتین، راولپنڈی)

جواب: آپ کا سوال محض ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں یہ بات بطور اصول بیان ہوئی ہے کہ جنت میں تمھارے لیے مطہر جوڑے ہوں گے: ’ولکم فیھا أزواج مطھرۃ‘ اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ یہ بات قرآن مجید کے پاکیزہ اسلوب سے مناسبت نہیں رکھتی کہ وہ عورتوں کا ذکر کر کے ان کے جوڑے کا معاملہ زیربحث لاتا، البتہ مردوں کا ذکر کر کے ان کے جوڑے کا ذکر کرنا موزوں تھا لہٰذا اسی کا ذکر کیا گیا۔ جنت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو پاکیزہ ساتھ میسر آئیں گے۔


شریعت اور قرآن

سوال: رسول شریعت لے کر آتا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے۔ جبکہ آپ کے نظریہ کے مطابق شریعت قرآن میں ضمناً آتی ہے۔ اصلاً حضور کی بائیو گرافی اور عرب کی چھٹی صدی عیسوی کے حالات ہیں؟ (صفتین، راولپنڈی)

جواب: میں متعین نہیں کر سکا کہ آپ نے یہ بات ہماری کس بات سے اخذ کی ہے۔ قرآن مجید میں عقائد اور ہماری شریعت دونوں چیزیں بیان ہوئی ہیں اور ان کا بیان ہونا اس کے مقاصد میں سے ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک قرآن مجید میں سورتوں کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مراحل کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اس کے اسی پہلو کو واضح کرنے کے لیے استاد گرامی نے ’’سرگزشت پیغمبر‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ اس سے ان کی مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں شریعت بیان نہیں ہوئی۔


قرآن کی حیثیت

سوال: آپ کی رائے میں قرآن قیامت یا دینونیت کا آخری حسی ثبوت ہے۔ مگر یہ ثبوت اور حجت تو بعد والوں کے لیے ہو سکتا ہے، اس زمانے والوں کے لیے کیسے؟(صفتین، راولپنڈی)

جواب: قرآن مجید اپنے زمانے والوں کے لیے بھی ثبوت میسر کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سال کی جدوجہد اور کامیابی دعوت کے ابتدائی مخاطبین کے لیے دلیل نہیں بن سکتی تھی لیکن خود عرب کے قرب و جوار میں دوسرے انبیا کی داستانیں بکھری ہوئی تھیں اور قرآن مجید ان کو بار بار پیش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ’’آخری حسی ثبوت‘‘ ہی سے واضح ہے کہ اتمام حجت کی یہ واحد مثال نہیں اور خود حضور کا کردار، بے انتہا محنت، غیر معمولی خلوص اور دعوت کے مراحل میں بتدریج کامیابی کا سفر، یہ امور بھی اہل عرب پر اتمام حجت کا باعث بنے۔


ایصال ثواب

سوال: ایصال ثواب کی حقیقت کیا ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر صدقۂ جاریہ والی حدیث کا مفہوم کیا ہے؟ (صفتین، راولپنڈی)

جواب: ایصال ثواب ایک خود ساختہ تصور ہے۔ اس کی قرآن و حدیث کے نصوص میں کوئی بنیاد نہیں۔ آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اجر کمانے کے لیے ایسے امور کی طرف متوجہ کیا ہے جو قائم رہتے ہیں یہاں تک کہ آدمی مر بھی جائے تو اسے اپنے ان اعمال کا اجر ملتا رہتا ہے۔ ایصال ثواب اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس میں کوئی بھی آدمی اپنی کسی نیکی کا اجر مرنے والے کو ہدیہ کرتا ہے اس عمل میں (اس حدیث کے بالکل خلاف) مرنے والوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔


نماز تراویح

سوال: آپ کا نظریہ ہے کہ نماز تراویح دراصل نماز تہجد ہے اور اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتماعی عبادت کی شکل دی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی دین مکمل ہو گیا۔ ان کے بعد کسی شخص کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ دین میں کوئی کمی بیشی کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کی آپ کیا توضیح کریں گے؟ اگر یہ بدعت نہیں ہے تو پھر بدعت کی تعریف کیا ہے؟ انفرادی عبادت کو اجتماعی شکل دینے کی ممانعت اسی لیے کی گئی ہے تاکہ فرض اور نوافل کے درمیان فرق قائم رہے؟ (صفتین، راولپنڈی)

جواب: نماز تروایح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام بالکل درست ہے۔ آپ کا یہ خیال درست نہیں کہ نفلی نماز کو اجتماعی شکل میں ادا کرنا ممنوع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہرگز کوئی ممنوع کام نہیں کیا۔ یہ تو لوگوں کی غلطی ہے کہ انھوں نے ان کے ایک انتظامی فیصلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اختیار کر لیا اور اسے ایک مستقل حیثیت دے دی۔ انھوں نے نہ اسے لوگوں کے لیے لازم کیا تھا، نہ اس کے التزام کی ہدایت کی تھی، نہ خود کبھی اس میں شرکت کی تھی۔ لوگ جو عمل مختلف ٹکڑیوں کی صورت میں کر رہے تھے اور اس طرح مسجد میں بدنظمی کا باعث بن رہے تھے، صرف اس عمل کو منضبط کرنے کا اہتمام کیا تھا۔


تبلیغ دین

سوال: دنیا کے ہر مقصد کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے۔ تبلیغ دین کے لیے کیوں نہیں؟ آپ لوگ دوسرے علاقوں میں جا کر تبلیغ کرنے پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟(ڈاکٹر خالد صاحب عاربی، گجرات)

جواب: تبلیغ کے لیے نکلنا غلط ہے، یہ بات ایک خاص سیاق و سباق میں کہی گئی ہے۔ محض اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایک آدمی امریکہ جا کر دین کے موضوع پر بات کر سکتا ہے یا نہیں اور اسی طرح آیا کسی آدمی کو اگر امریکہ سے دین پر گفتگو کے لیے بلایا جائے تو اسے جانا چاہیے یا نہیں۔ اور کیا یہ جانا جائز ہے یا ناجائز تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس کا جانا درست ہے اور اسے ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

تبلیغی جماعت کا تصور تبلیغ، عام آدمی کو مبلغ بنانا، اسے اس کی روزمرہ کی ذمہ داریوں سے کاٹ کر دوسروں کی اصلاح کا مکلف قرار دینا یہ پورا پیکج محل تنقید ہے۔ لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی ذمہ داری سورۂ توبہ کی آیت ۱۲۲ کے مطابق صرف علما کی ہے علما کے لیے بھی اسی آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم ہی کو دعوت کا دائرۂ عمل بنائیں۔ عام آدمی کی ذمہ داری بھی سورۂ عصر میںبیان ہوئی ہے۔اس میں ’تواصوا‘ کا لفظ اس ذمہ داری کے حدود کو واضح کرتا ہے۔ جب ہم ’’اس میں حرج کیا ہے‘‘ یا ’’اس کی یہ برکت یا فائدہ ہے‘‘ کے اصول پر قرآن مجید کے سکھائے ہوئے راستے سے ہٹتے ہیں تو ہم حقیقت میں بہت سی مضرتوں کا شکار ہو تے اور آخر کار برکات سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔


غیرمسلم کا انجام

سوال: کیا تمام غیر مسلم جہنم میں جائیں گے؟ (راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: یہ تصور مسلمانوں میں بہت عام ہے کہ ہر وہ شخص جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں وہ جہنمی ہے۔ یہ تصور بعض روایات اور قرآن مجید کی آیات کے غلط اطلاق سے پیدا ہوا ہے۔ جہاں تک قرآن و حدیث کا تعلق ہے ان میں وہ لوگ زیربحث ہیں جن کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت باربار پیش کی گئی۔ انھیں ان کے اعتراضات کے جواب دیے گئے۔ ان کے سامنے خدا کے پیغمبر خود موجود تھے۔ دعوت میں کسی آمیزش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لہٰذا ان کے بارے میں یہ واضح ہو گیا کہ وہ جان بوجھ کر ایمان نہیں لا رہے۔ لہٰذا ان کو بتا دیا گیا کہ وہ اس انکار کے باعث جہنم میں جائیں گے۔ اس تفصیل سے یہ اصول متعین ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہی غیر مسلم جہنمی ہوں گے جو جانتے بوجھتے غیر مسلم رہے۔ انھیں کسی عالم دین کی دعوت یا اپنے مطالعے کے نتیجے میں یقین ہو گیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے، لیکن وہ اپنے مفادات کی خاطر ایمان نہیں لائے۔ وہ غیر مسلم جن کے سامنے اسلام کی حقیقت واضح ہیں ہے، وہ محض غیر مسلم ہونے کی وجہ سے جہنم میں نہیں جائیں گے۔


چند الفاظ کا مفہوم

سوال: ان الفاظ کی مختصر تعریف بتا دیں۔ صبر، اعراض، آخرت، حکمت و بصیرت، دانائی، فطرت، ایمان، مخلوق، خالق، عاجزی، انا، اخلاق، احساس، بے غرضی، خلوص، تقویٰ؟(راشد امداد، سیالکوٹ)

جواب: صبر، حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے موقف اور طرزعمل پر قائم رہنا ہے۔

اعراض، اس تلخی یا کشمکش سے گریز ہے جو آدمی کو اس کے اسل کام سے ہٹانے والی ہو۔

نصرت، ان امور کو انجام دینا ہے جو دین کی حفاظت، فروغ اور استحکام سے متعلق ہوں۔

حکمت و بصیرت، وہ خداداد صلاحیت ہے جس سے آدمی حق و باطل اور غث و ثمین میں امتیاز کرتا ہے۔ 

دانائی، حکمت و بصیرت کا مترادف ہے۔

فطرت، کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک انگریزی لفظ Nature کے مترادف کے طور پر۔ اس صورت میں اس سے طبعی قوانین مراد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث میں یہ لفظ انسانوں کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔ اور وہاں اس سے وہ قوانین مراد ہیں جن پر انسان کی ’’شخصیت‘‘ استوار ہوتی ہے۔

ایمان، کسی چیز کو حق ماننے کا وہ درجہ ہے جب آدمی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا یقین کر لے اور اس حقیقت کے معاملے میں عقیدت اور خود سپردگی کی کیفیت سے سرشار ہو جائے۔

مخلوق، ہر وہ چیز جو کسی کی بنائی ہوئی ہو۔

خالق، وہ جس نے کسی شے کو تخلیق کیا ہو۔ خدا کے حوالے سے اس سے مراد وہ ہستی ہے جس کا خالق کوئی نہ ہو۔

عاجزی، دل کی وہ حالت جب وہ خدا کی عظمت و جلال اور اپنی احتیاج، بے مائگی اور بے بسی کے احساس سے لبریز ہو۔

انا، اپنی عظمت کے احساس کی وہ صورت جب آدمی دوسروں کو اپنے سے کسی بھی پہلو سے کم تر خیال کرنے لگے۔

اخلاق، ایک انسان کا دوسرے انسان سے برتاؤ میں رویہ۔

احساس، لطیف جذبات اور کیفیات کا تجربہ۔

بے غرضی، جب آدمی ہر عمل میں صرف خدا کی رضا کو مقصود بنائے۔

خلوص، جب آدمی ہر مفاد کی نفی کر کے صرف جنت پانے کے لیے کوئی اچھا کام کرے۔

تقویٰ، اپنے انجام کے بارے میں سنجیدہ ہونا، یہی چیز جب آخرت سے متعلق ہوتی ہے تو آدمی پورے دین کو اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ دین پر صحیح عمل تقویٰ قرار پاتا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B