سید وصی مظہر ندوی
اس موضوع سے متعلق ’’اشراق‘‘ کا نقطۂ نظر ہمارے قارئین پر واضح ہے۔ مولانا وصی مظہر صاحب ندوی نے اپنے اس مضمون میں ایک دوسری رائے پیش فرمائی ہے۔ اپنے قارئین کی تعلیم کے لیے ہم اسے بغیر کسی نقد کے یہاں شائع کر رہے ہیں۔ (مدیر)
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اس وقت ایک ارب سے زائد مسلمان موجود ہیں اور الحمد للہ ان کی اکثریت بیسویں صدی کے اختتام سے قبل غیر مسلم استعمار سے آزاد ہو کر ایسے خود مختار ۵۵ ممالک میں آباد ہے جن کی آبادی کی اکثریت بھی مسلمان ہے اور جہاں حکومت کے اختیارات بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں۔ بلاشبہ ان ممالک میں آباد مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کو اسلامی احکام و تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا اور ان کے مجموعی کردار کو اسلامی معیار کے مطابق بنانا بہت بڑا کام ہے جس کے لیے صحیح خطوط پر زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مگر اول تو اس سلسلہ میں مختلف تحریکیں، جماعتیں اور شخصیات پہلے ہی سرگرم عمل ہیں۔ دوسرے یہ کہ سردست یہ مسئلہ میرے موضوع بحث میں شامل نہیں ہے۔ میرا موضوع بحث اس وقت اس غیرمسلم اقلیت کی دینی اور شرعی ذمہ داریوں تک محدود ہے جو غیر مسلم حکومتوں میں آباد ہیں۔ پوری دنیا میں جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی کل آبادی کا چالیس فی صد یعنی تقریباً چالیس پینتالیس کروڑ ہے۔
کتاب و سنت کی روشنی میں اور شرعی احکام کے مطابق ان کا لائحۂ عمل کیا ہونا چاہیے؟ انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کے اسلامی فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟ افسوس ہے کہ ان سوالات پر بہت کم غور کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تو وہ تھا جب مسلمان اور اسلام دنیا میں ایک غالب قوت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس وقت یہ سارے مسائل سرے سے موجود ہی نہ تھے۔ کیونکہ ایک صدی سے زائد تک تو تمام مسلمان ایک ہی مسلم حکومت میں آباد تھے۔ خلافت راشدہ کے بعد اہل اقتدار اگرچہ اسلامی تعلیمات سے بتدریج دور ہوتے چلے گئے تھے تاہم مسلمانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات ــــ حکمرانوں کے تقرر و انتخاب کے علاوہ ــــ اسلامی شریعت کے مطابق ہی طے پاتے تھے۔ نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ قائم تھا۔ حج باقاعدہ سرکاری اہتمام میں ادا کیا جاتا تھا۔ تمام مقدمات کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جاتا تھا اور استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر قاضی بالعموم کتاب و سنت کے مطابق آزادانہ فیصلے کرتے تھے۔ محاصل کی وصولی شریعت کے مطابق ہوتی تھی۔ اگرچہ محاصل کی آمدنی کے صرف میں حکمران شرعی احکام سے انحراف کے مرتکب ہوتے تھے۔ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ افواج کے علاوہ تمام مسلمان رضاکارانہ طور پر اسلامی ریاست کے دفاع کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ چنانچہ اس دور میں یہ تصور موجود ہی نہ تھا کہ مسلمان کسی غیرمسلم حکومت میں مستقل طور پر آباد ہوں گے صرف وقت ضرورت کے تحت البتہ کوئی مسلمان ’’مستأمن‘‘ کی حیثیت میں غیر مسلم ملک میں جاتا تھا اور تجارت وغیرہ کر کے واپس آ جاتا تھا۔ غیرمسلم ملک میں رہتے ہوئے یہ ’’مسأمن‘‘ صرف انفرادی طور پر ادا کئے جانے والے اسلامی احکام کے مخاطب تھے۔ چنانچہ نکاح و طلاق اور وراثت کے ان احکام کے وہ مکلف نہ تھے جن کے لیے قاضی کا فیصلہ کرنا ضروری ہے۔ حتیٰ کہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے اور جمعہ کا اہتمام کرنے کے بھی پابند نہ تھے۔ دارالکفر میں ان کا قیام محض عارضی نوعیت کا ہوتا تھا۔ اس لیے اجتماعی فرائض اور ذمہ داریاں ان پر اسی وقت عائد ہوتی تھیں جب وہ دارالاسلام واپس آ جائیں۔
لیکن دوسری صدی ہجری کے آغاز ہی سے مسلمانوں کی یہ واحد سلطنت الگ الگ ملکوں میں تقسیم ہونا شروع ہوئی۔ اور زوال و انحطاط کی صدیوں میں بارہا ایسے حالات پیش آئے کہ مسلمانوں کے چھوٹے بڑے کئی شہر جو سرحدوں پر واقع تھے مختصر یا طویل عرصے تک غیر مسلم حکمرانوں کی قلمرو میں شامل ہو گئے اور اس طرح بعض اوقات بڑی بڑی مسلم آبادیاں غیر مسلموں کی حکمرانی میں رہنے پر مجبور ہوئیں۔ مگر ہمارے مسلم فقہا اور قانون دانوں نے ان کی اس حیثیت کو مستقل کبھی تسلیم نہیں کیا۔ چنانچہ ایک طرف انھوں نے ان آبادیوں کو دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنے کی تائید کی تو دوسری طرف دارالاسلام کے مسلمانوں کو پابند کیا کہ وہ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کریں اور ان مسلمان آبادیوں کو پھر سے دارالاسلام میں شامل کرنے کی جدوجہد کریں۔ حتیٰ کہ ان بستیوں کے قریب رہنے والے مسلمان اگر اس فریضہ کو ادا کرنے سے قاصر رہ جائیں تو تمام عالم اسلام کے مسلمانوں پر اس فرض کفایہ کی ادائیگی درجہ بدرجہ لازم ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن یہ صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور انگریزوں، فرانسیسوں، ولندیزیوں اور پرتگالیوں نے ایشیا کے بڑے بڑے مسلمان ملکوں پر قبضہ جما لیا۔ بڑی بڑی مسلم آبادیاں غیرمسلم حکمرانوں کے زیرنگیں چلی گئیں۔ اور کوئی ایسا دارالاسلام باقی نہ رہا جہاں ان علاقوں میں آباد مسلمان ہجرت کر کے چلے جائیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان ملک ان کروڑوں مسلمانوں کو اپنی حدود میں آباد کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس سے قبل بھی اسپین (اندلس) پر اگرچہ غیرمسلموں کا مکمل غلبہ ہو گیا تھا مگر یہ غلبہ جس تدریج سے ہوا تھا اسی تدریج سے عام مسلم آبادی کا انخلا بھی ہوتا رہا حتیٰ کہ جب اندلس پر عیسائی غلبہ مکمل ہوا تو وہاں سے مسلمانوں کا بھی صفایا ہو چکا تھا۔ اس لیے اس وقت یہ مسئلہ پیدا نہ ہوا۔
مگر آج ۴۵ کروڑ کے قریب مسلم اقلیت کی بڑی بڑی آبادیاں غیر مسلم اقتدار کے تحت زندگی گزار رہی ہیں۔ اس صورت حال کا حل اسلامی فقہ کے اس شان دار اور قیمتی ذخیرے میں بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا جو مسلمانوں اور اسلام کے غلبہ کے دور میں بڑی عرق ریزی اور دیدہ وری سے جمع کیا گیا تھا۔ چنانچہ مسلم اقلیتوں کو اس صورت حال سے نکالنے کا راستہ معلوم کرنے کے لیے براہ راست کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ قیامت تک نمودار ہونے والے حالات کے لیے اسی ابدی سرچشمۂ ہدایت سے رہنمائی مل سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔(الاحزاب ۳۳: ۲۱)
’’اللہ کے رسول (کی زندگی) تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
چنانچہ منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو زندگی گزاری اس کے اندر ہر قسم کے حالات کے لیے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ جو درحقیقت قرآن حکیم کی تعمیل و تفسیر ہے۔ اس لیے ہم کو غیرمسلم اقتدار میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرنے کے لیے بھی کتاب اللہ اور اسوۂ رسول ہی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنے عظیم کام کا آغاز کیا اس وقت آپ مکہ اور عرب ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں بالکل تنہا تھے۔ دنیا میں ہر جگہ کفر ہی کفر تھا۔ ان حالات میں آپ نے کام کا آغاز دعوت سے کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے تین اجزا تھے۔
۱۔ رب العٰلمین خالق کائنات کی بڑائی پر ایمان لا کر اسی کی عبادت اور بندگی بجا لانا جیسا کہ ارشاد ہے:
وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔(المدثر ۷۴: ۳)
’’اور اپنے رب ہی کی بڑائی کر۔‘‘
ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرہ ۲: ۲۱)
’’اے لوگو، بندگی اپنے اس رب کی اختیار کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم (دنیا اور آخرت کی) ناکامی سے بچو۔‘‘
۲۔ موت کے بعد کی زندگی پر ایمان جس میں اس دنیا کے تمام کاموں کا حساب دینا ہو گا۔
سورۂ مطففین میں ارشاد ہے:
اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۔ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔(المطففین ۸۳: ۴-۶)
’’کیا یہ لوگ یقین نہیں رکھتے کہ ان کو ایک عظیم الشان دن (پیشی) کے لیے اٹھایا جائے گا۔ جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے۔‘‘
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے ابتدائی زمانے میں اپنے قریبی اعزا کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
انکم تموتن کما تنامون ثم لتبعثن کما تستیقظون ثم لتحا سبن بما تعملون ثم انھا للجنۃ ابدا والنار ابدا۔
’’بے شک تم اسی طرح (ایک دن) مر جاؤ گے جس طرح تم (روز) سو جاتے ہو پھر تم کو ضرور اٹھایا جائے گا۔ جیسے کہ جاگ جاتے ہو پھر تم سے تمھارے اعمال کا ضرور حساب لیا جائے گا۔ پھر یا تو ہمیشہ کی جنت ہے یا ہمیشہ کی آگ۔‘‘
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اطاعت کرنا اور اپنی زندگی کا تزکیہ کرنا (یعنی برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا)
یٰسٓ۔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ۔ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنَ۔(یسین ۳۶: ۱-۶)
’’یسین، قرآن حکیم گواہ ہے کہ تم رسولوں میں سے ہو۔ سیدھی راہ پر۔ (یہ قرآن) غالب اور نہایت مہربان کی طرف سے نازل کردہ ہے، تاکہ تم ایسی قوم کو باخبر کر دو جن کے بزرگوں کو باخبر نہ کیا گیا تو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
ایک دعوتی خطاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا والی الناس کافۃ۔
’’اے (میرے مخاطب) لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھی۔‘‘
قرآن مجید میں ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔(الاعلیٰ ۸۷: ۱۴)
’’کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی کا راستہ اختیار کیا۔‘‘
البتہ دعوت کو پھیلانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت کو ضرور پیش نظر رکھا۔ چنانچہ عام لوگوں سے پہلے جن کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کا اندیشہ تھا آپ نے ان لوگوں کو دعوت پہنچائی جن سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے یا جو آپ کے زیراثر تھے اور جن کی طرف سے توقع تھی کہ وہ آپ کی دعوت کو بآسانی قبول کر لیں گے۔ ان میں سے سب سے پہلے آپ کی شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ تھیں، انھوں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیابی کا یقین دلایا۔ اور اس سلسلہ میں آپ کے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حوالہ دے کر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مشکل کام کی تکمیل کے سلسلہ میں ہرگز بے یارو مددگار نہ چھوڑے گا۔
دوسرے آپ کے خاص رفیق اور دوست سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جن کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میں نے جس جس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی ان میں سے ہر شخص نے کچھ نہ کچھ تردد ظاہر کیا۔ البتہ ابوبکر اس سے مستثنیٰ ہیں کہ جب میں نے ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو انھوں نے کسی تامل کے بغیر بلا پس و پیش میری دعوت کو قبول کیا۔
تیسرے آپ کے زیرتربیت آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ہیں جن کی عمر اس وقت صرف ۹ سال تھی۔
چوتھے آپ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید ہیں یہ وہ ابتدائی لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کی دعوت قبول کی۔
خاموشی سے دعوت پھیلانے کا یہ مرحلہ تین سال تک جاری رہا اس مدت میں اچھی خاصی تعداد نے اسلام کی دعوت قبول کر لی تب عام دعوت پیش کرنے کا مرحلہ شروع ہوا تاہم دعوت میں حکمت کو ملحوظ رکھنے کے باوجود آپ نے کسی بھی مصلحت کی خاطر اپنی دعوت کے تین نکات میں کسی طرح کی ترمیم یا مداہنت قبول نہ کی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی حفاظت کا یقین دلاتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی۔
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔(المائدہ ۵: ۶۷)
’’اے نبی، جو پیغام تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے اس کو پہنچا دے۔ اگر تم نے ایسانہ کیا تو، تم نے اللہ کے پیغام کو نہ پہنچایا اللہ تمھیں لوگوں کی دست درازی سے محفوظ رکھے گا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر کام سے زیادہ آپ کی توجہ دعوت پھیلانے کے کام کی طرف تھی۔ اس سلسلہ میں آپ کا انہماک اور آپ کی سرگرمی اس قدر زیادہ تھی کہ خود اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف انداز میں اس سرگرمی کی شدت کو اعتدال میں لانے کی ہدایت فرمائی۔
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔(الکہف ۱۸: ۶)
’’اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو شاید افسوس کی وجہ سے آپ ان کے پیچھے اپنی جان ہی دے دیں گے۔‘‘
اس سرگرمی کی اصل وجہ کی طرف اگرچہ اشارہ خود آیت میں موجود ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کئی دعوتی خطبوں میں اس کو مزید واضح کیا ہے۔ چنانچہ جبل ابوقبیس پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ایک ایک خاندان کو پکار کر جمع کیا توآپ نے فرمایا تھا:
’’میں قبیلے کا فرد ہوں جو کسی حملہ آور دشمن کو دیکھ لینے کے بعد اپنے کپڑے چاک کر کے اپنے قبیلے کو حملہ آور دشمن کے خطرے سے آگاہ کرتا ہے۔ آپ کے الفاظ تھے: انا النذیر العریان (میں تمھارے لیے ویسا ہی خبردار کرنے والا ہوں جیسا کپڑے پھاڑ کر دشمن کے حملے سے خبردار کرنے والا ہوتا ہے۔)‘‘
ایک اور موقع پر اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کر کے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’قافلے سے آگے جا کر منزل کا پتا کرنے والا خود اپنے اہل خاندان کو کبھی جھوٹی رپورٹ (اطلاعٔ) نہیں دیتا۔ خدا کی قسم اگر تمام دنیا سے میں جھوٹ بولتا تو (کم از کم) تم سے تو جھوٹ نہ بولتا۔ اور اگر میں تمام دنیا کو دھوکا دیتا تو (کم از کم) تم کو تو دھوکا نہ دیتا۔ میں تم کو ایک شدید عذاب آنے سے قبل سب سے پہلے باخبر کر رہا ہوں۔‘‘
ایک اور خطبے میں آپ نے فرمایا:
’’جس طرح کیڑے، مکوڑے اور پروانے آگ میں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے ہیں۔ اور جل جل کر مرتے ہیں اسی طرح اے لوگو تم بھی جہنم کی آگ کی طرف لپک رہے ہو اور میں تم کو تمھاری کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے گرنے سے بچا رہا ہوں۔‘‘
ان خطبات اور دیگر قرآنی آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دعوت کی بنیاد انسانی ہمدردی اور انسان کی تباہی سے بچانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر وہ تباہی جس کا سامنا مرنے کے بعد ابدی زندگی میں ہونے والا ہے۔
دعوت کے سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ ابھی بیان ہوا ہے اس سے حسب ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
۱۔ مسلمان جب کسی غیرمسلم معاشرے میں اقلیت میں ہوں حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان بالکل ہی تنہا ہو تو ان کو سب سے بڑھ کر دعوت و تبلیغ میں سرگرم ہونا چاہیے۔ دعوتی سرگرمی کا اصل معیار یہ ہے کہ داعی کے نزدیک دعوت دینے کا کام اپنی جان سے زیادہ عزیز اور اس کے ہر دوسرے کام پر مقدم ہو اور ظاہر ہے کہ کسی غیر مسلم معاشرے میں ہر مسلمان پر دعوت کی ذمہ داری زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اسلامی ریاست میں دعوت الی الخیر کی بڑی ذمہ داری ریاست پر عائد ہو جاتی ہے جبکہ افراد اپنے اختیارات ریاست کے سپرد کر کے بڑی حد تک بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
۲۔ دعوت کے بنیادی اصولوں (توحید، روز جزا اور رسالت پر ایمان) کو پیش کرنے میں کسی قسم کی مداہنت کی گنجایش نہیں۔
۳۔ اس دعوت کا محرک انسانیت کے ساتھ گہری ہمدردی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ جس کی وجہ سے آدمی بے چین ہو کر تباہی کی طرف جانے والے ہر ہر شخص کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ داعی کفر اور گمراہی سے ضرور نفرت کرتا ہے۔ مگر کافر اور گمراہ سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اور اس کو برے انجام سے بچانے کے لیے سخت فکرمند ہوتا ہے۔
۴۔ اصل تباہی جس سے بچانا داعی کا مقصود ہوتا ہے اور ہونا چاہیے وہ آخرت کی تباہی اور نامرادی ہے۔
(جاری)
ـــــــــــــــــــــــــ