HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

پاک وہند میں قرآنِ مجید کے فارسی تراجم

محمد سلیم خالد

پاک وہند میں قرآنِ مجید کے فارسی تراجم کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ قرآن مجید کا صرف ترجمہ کم ہی کیا گیا ہے۔ عام طور پر تفاسیر ہی لکھی گئی ہیں۔ ذیل میں ترجمہ وتفسیر کے اس کام کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔

برصغیر میں قرآن پاک کا پہلا مکمل فارسی ترجمہ نظام الدین نیشا پوری نے سپردِ قلم کیا۔ ان کا تعلق نیشا پور سے تھا، تحصیلِ علم کے بعد وہ ہندوستان کے شہر دولت آباد آگئے اور عربی میں ایک ضخیم تفسیر’’غرائب القرآن ورغائب الفرقان‘‘ کے نام سے تحریر کی۱؎ ۔انھوں نے تفسیر تو عربی زبان میں لکھی، لیکن ضمناً قرآنِ پاک کا ترجمہ فارسی میں پیش کیا۔ وہ ۷۲۸ھ میں وفات پا گئے۲؎ ۔ ان کے کیے گئے ترجمے کا ایک حصہ حسبِ ذیل ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔(آلِ عمران ۳:۱۶۴)
  ’’بدرستی منت نہاد خدا برمومنان وقتی کہ برانگیخت درآں با پیغمبری از آں باکہ فی خواند برآں باآیات او وپاک فی کروشان ومی آموخت آنہا را کتاب وحکمت را و گرچہ فی بودند پیش ازان ہر آینہ درگمراہی ظاہر۳؎۔‘‘

عجیب اتفاق ہے کہ برصغیر کی پہلی کامل فارسی تفسیر بھی دولت آبادِ میں مکمل ہوئی۔ یہ تفسیر مشہور عالم شہاب الدین دولت آبادی (م ۸۴۹ھ) نے ’’بحرِ مواج‘‘ کے نام سے لکھی۔ وہ جون پور کے حکمران ابراہیم شاہ شرقی (۸۰۴ ھ تا ۸۴۴ھ) کے دربار سے وابستہ تھے۴؎ ۔اس تفسیر میں ترجمے سے خصوصی اعتنا کیا گیا ہے۔ ان کا ترجمہ تفسیر نما اور توضیحی ہوتا ہے۔ اس ترجمے کا ایک حصہ یہ ہے:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔
(الماعون ۱۰۷: ۱۔۳)
   ’’معنی این است دانستہ کسی راکہ دین را یعنی ملتِ اسلام رایا جزا را تکذیب فی کند کہ خبر دینِ اسلام وخبر جزا نابودہ ودروغ فی داند زیرا کہ آن ہماں کس است کہ بہ عنف و درشتی یتیم را فی راند و اہل خود رابر اطعام مسکین باعث نمی شود وتحریص نمی کند ۵؎ ۔‘‘

برصغیر کا تفسیر کے بغیر پہلا ترجمہ سندھ کے مشہور روحانی بزرگ مخدوم نوح بالائی رحمہ اللہ (م ۹۹۵ھ) نے کیا۔ یہ ترجمہ سندھی ادبی بورڈ حیدر آباد نے ۱۴۰۱ھ میں بڑے اہتمام سے شائع کیا۶؎ ۔ اس ترجمے کا ایک حصہ یہ ہے:

اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔(النصر ۱۱۰: ۱۔۳)
   ’’چو بیاید نصرت خدا ای وفتح مکہ۔ وبینی تو (ای محمد) مرد ماں را کہ درمی آیند در دین خدای تعالیٰ گروہ گروہ۔ پس تسبیح کن بحمد پروردگار تو وطلب آمرزش کن ازو بدرستی کہ اوست توبہ پذیرندہ ۷؎ ۔‘‘

شہنشاہ نور الدین جہانگیر (۱۰۱۴ھ ــــــ ۱۰۳۷ھ) کو قرآنی تراجم سے خاص شغف تھا۔ اس کے ایما پر کئی علما نے قرآنِ پاک کے فارسی میں تراجم سپردِ قلم کیے مثلاً جہانگیر جب گجرات گیا تو مولانا سید محمد رضوی (م ۱۰۵۴ھ) سے بطورِ خاص ملاقات کی اور درخواست کی کہ وہ قرآنِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کریں۔ چنانچہ انھوں نے قرآن عزیز کا فارسی میں ترجمہ کیا۔۸؎  اسی طرح شیخ نعمت اللہ فیروز پوری (م ۱۰۷۲ھ) نے قرآنِ مجید کا فارسی میں ترجمہ تحریر کیا اور اسے ’’تفسیر جہانگیری‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔۹؎  لیکن اب یہ تراجم مفقود ہیں۔

اورنگ زیب عالمگیر (۱۰۶۹ھ ــــــ ۱۱۱۸ھ) کا عہد قرآنِ مجید کے تراجم اور تفاسیر کے لحاظ سے بڑا بابرکت عہد ہے۔ اس عہد کے چند مشہور تراجم اور تفسیر کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

ا۔ خواجہ معین الدین کشمیری (م ۱۰۸۵ھ) نے ’’شرح القرآن‘‘ کے نام سے مختصر فارسی تفسیر سپردِ قلم کی۔ یہ تفسیر اورنگ زیب کے نام سے معنون ہے۔ ۱۰؎  اس میں ترجمہ قرآن کا خصوصی التزام ہے۔ ایک آیت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:

 ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(البقرہ ۲:۲۱)
  ’’ای مردم مکہ ومدینہ بندگی کنید پروردگار خویش را، آل آفرید گاری کہ آفرید شمارا و آفرید آنان را کہ بودند پیش ازشما، تاباشد کہ شما پرہیزید ۱۱؎۔‘‘

(ب) ’’تفسیر شیروان خان‘‘: یہ تفسیر شیروان حسین قادری کی تالیف ہے۔ سالِ تکمیل ۱۰۷ھ ہے۔ ۱۲؎ یہ تفسیر کم اور ترجمہ زیادہ ہے بلکہ اسے تفسیر نما ترجمہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔(البقرہ ۲:۶)
   ’’بدرستی آل کسانی کہ کافر شرند برابر است بر ایشاں آنکہ بترسانی تو ایشاں را یا نترسانی ایمان نمی آرند۔ ۱۳؎ ‘‘

(ج) محمد صفی ابن ولی قزوینی اورنگ زیب عالمگیر کے دربار سے وابستہ تھے۔ شہزادی زیب النساء (م۱۱۱۳ھ) کے حکم سے ’’تفسیر کبیر‘‘ از فخر الدین رازی (م ۶۰۶ھ) کا ترجمہ ۱۰۸۷ھ میں مکمل کیا اور تفسیر کو شہزادی کے نام پر ’’زیب التفاسیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔۱۴؎ لیکن ’’زیب التفاسیر‘‘ تفسیر کبیر کا محض ترجمہ نہیں ہے بلکہ مترجم نے جابجا تصرفات سے کام لیا ہے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ تفسیر میں ترجمہ، قرآن کا اضافہ کیا ہے۔

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٓٗ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔(الانفال ۸: ۱)
   ’’فی پرسند ترا ای حبیب؛ یاران وپیروانِ تواز حکم غنیمت بایِ کفاہ۔ بگولہ کہ حکم کردن درغنیمت ہاوفرمان واختیارِ قسمت آن بامر خدا راست و فرستادہ اور راکہ بفر مانِ اوقسمت فی کند پس، بتر سید از عقاب خدا وبصلاح آرید وشایستہ و پسندیدہ گردانید آنچہ میان شما است وفرمان برید خدا را وفرستادہ اور آنچہ فی فرما ید درباب غنایم یا درہمہ ابواب اگر ہستید شما مومنان۔‘‘۱۵؎

(د) مرزا نور الدین نعمت خان عالی (م ۱۱۲۲ھ، نے ’’نعمتِ عظمیٰ‘‘ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل تفسیر، ۱۱۱۵ھ میں مکمل کی۔ ۱۶؎ ایک آیت کا ترجمہ ذیل میں دیا جاتا ہے:

وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَآئُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ۔(البقرہ ۲:۱۳)   
   ’’وچوں گفتہ شود باین منافقان کہ ایمان بیارید، در دل خود گویند کہ آیا ایمان آریم ما چنانکہ بی خردان ایمان آوردہ، بدانید ای مومنان کہ آں باخود سفیہ اندو امانمی دانند این معنی را۔‘‘  ۱۷؎  

(ہ) محمد امین صدیقی (م ۱۱۱۳ھ) اورنگ زیب عالمگیر کے دربار سے منسلک تھے۔ ۱۸؎ انھوںنے اورنگ زیب کے ایما پر ملا حسین واعظ کاشفی (م ۹۱۰ھ) کی مشہور ومعروف فارسی تفسیر، ’’تفسیرِ حسینی‘‘ کی تلخیص کی اور اسے ’’تفسیرِ امینی‘‘ سے موسوم کیا۔  ۱۹؎

سورۂ کوثر کا ترجمہ یہ ہے:

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔(الکوثر ۱۰۸: ۱۔۳)   
   ’’بدرستی کہ ما عطا کردیم ترا بسیاری۔ پس نماز گزار برای پروردگار خود خالص برای رضای او وقربان کن شتری را برای خدا۔ بدرستی کہ دشمنِ تو یعنی عاص اوست دم بریدہ ومنقطع از خیر وبی نسل۔‘‘ ۲۰؎ 

اورنگ زیب عالمگیر (۱۱۱۸ھ) کی وفات کے بعد بارھویں صدی ہجری کے ختتام تک چند مشہور اور اہم فارسی تراجم اور تفاسیر کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

ا۔ شاہ محمد غوث پشاوری پشاور سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے۔ آپ نے قرآن عزیز کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا لیکن اب یہ ترجمہ مفقود ہے آپ کی وفات ۱۱۵۲ھ میں لاہور میں ہوئی۔  ۲۱؎

ب۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ) ے اپنا مشہور فارسی ترجمۂ قرآن ’’فتح الرحمن‘‘ ۱۱۵۱ھ میں مکمل کیا۔ ۲۲؎ اس ترجمہ نے مابعد کے فارسی اور اردو تراجم پر دور رس اور گہرے اثرات مرتسم کیے۔

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن کے سلسلے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ برصغیر میں پہلے مترجمِ قرآن ہیں اور ان کے ترجمۂ قرآن کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن سطور بالا کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ برصغیر میں ان سے پہلے کئی فارسی تراجمِ قرآن منصہ شہود پر آچکے تھے۔ شاہ ولی اللہ کے ترجمۂ قرآن کا نمونہ حسبِ ذیل ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَُ ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَََلَاالضَّآلِّیْنََ۔(الفاتحہ ۱: ۱۔۷)
   ’’ستائش خدای راست پروردگار علم با است، بخشا یدنہ مہربان، خداوند روز جزا، ترامی پرستیم و ازتومددمی طلبیم بنما مارا راہ راست۔ راہ آنان کہ اکرام کرودۂ برایشان بجز آنان کہ خشم گرفتہ شد برآن باوبجز گمراہان۔ ۲۳؎

(ج) حافظ غلام مصطفی بن محمد اکبر تھانیسری نے اپنی مسبوط فارسی تفسیر ۱۱۹۱ھ میں مکمل کی۔ اس تفسیر میں ترجمہ کا خصوصی التزام نظر آتا ہے۔ ۲۴؎

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔(البقرہ ۲:۶)  
   ’’بدرستی آنان کہ کافر شدہ اند برابر است برایشان آنکہ بیم کنی و ترسانی ایشان رایا بیم نکنی ایمان نیارند۔‘‘۲۵؎

تیرھویں صدی ہجری میں اردو زبان نے حیرت انگیز ترقی کر لی اور اردو زبان میں بھی تراجمِ قرآن اور تفسیر تویسی کا کام ہونے لگا لیکن اس کے باوجود فارسی میں متعدد تراجم وتفاسیر احاطۂ تحریر میں آئے۔ 

چند مشہور اور اہم تراجم اور تفاسیر کے مختصر کوائف ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:

ا۔ ملا محمد سعید گند سودوم (م ۱۲۰۸ھ) کا تعلق کشمیر سے تھا۔ آپ نے قرآنِ پاک کا فارسی ترجمہ ’’مفاتیح البرکات‘‘ کے نام سے سپرد ِ قلم کیا۔ ۲۶؎ اب یہ ترجمہ مفقود ہے۔

ب۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزندِ ارجمند شاہ عبدالعزیز (م۱۲۲۹ھ) نے قرآنِ پاک کی فارسی تفسیر ’’فتح العزیز‘‘ کے نام سے قلمبند کی۔ یہ ایک کامل تفسیر میں سے ترجمے کا ایک حصہ یہ ہے۔ 

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۔ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۔ وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ۔ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔(الفلق ۱۱۳۔ ۱۔۵)
   ’’بگوای پناہ گیرندہ پناہ می گیرم ازہدی آنچہ آفریدہ است وازشرِ چیز تاریک چون تاریکئی او ہجوم کند واز شرِ دم زنندگان درگرہ از شرِ حاسد چوں اظہار حسد کند‘‘۔۲۸؎ 

ج۔ محمد سعید مدراسی (م ۱۲۷۲ھ) نے اپنی فارسی تفسیر، مواہب الرحمن چار جلدوں میں مکمل کی۔  ۲۹؎ اس ترجمے کا ایک حصہ درج ذیل ہے:

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔(الکوثر ۱۰۸: ۱۔۳)  
  ’’بدرستی کہ ما دادیم تراخیر بسیاری۔ پس مداومت بکن برنماز ونحربکن شتران راکہ بہترین اموال عرب است۔ بدرستی کہ دشمن تو کہ بغض فی دارد بتو اوست پس بریدہ کہ ہیچ عقبی و نسلی اورا باقی نماند۔‘‘۳۰؎

د۔ ’’تفسیر غریب ‘‘ سید نجف علی (م ۱۲۹۸ھ) کی تالیف ہے جو کہ ۱۲۹۴ھ میں مکمل ہوئی۔ یہ تفسیر پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ ۳۱؎ اس ترجمے کا ایک حصہ حسبِ ذیل ہے:  ۳۲؎ 

اِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔(النصر ۱۱۰: ۱۔۳)
   ’’ہر گاہ آمد بر تو یاوری خداوند و فتح یعنی فتح مکہ و دیدی مردم رادرحالی کہ داخل فی شوند در دینِ خدا لشکر ہا۔ پس تسبیح کن بحمد ِ خداوند گارِ خودت و آمرزش خواہ ازوہر آینہ بودہ است او تعالیٰ توبہ پذیر۔‘‘۳۳؎

(ہ) ’’تفسیر وجیز‘‘ محمد عبد الحکیم بن عبد الرحیم کی تالیف ہے سالِ تکمیل ۱۲۹۳ھ ہے۔ ۳۴؎  نمونۂ ترجمہ نیچے درج ہے:

قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَآئِ ھِمْ فَلَمَّآ اَنْبــَاَھُمْ بِاَسْمَآئِ ھِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ  لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔(البقرہ ۲:۳۳)
  ’’گفت خدائی بی واسطہ ای آدم خبروہ این ملائکہ را بنام بای آں چیز ہا۔ فرمود آیا نگفتہ بودم باشما بہ تحقیق من فی دانم چیز ہای کہ پوشیدہ انداز احوال و آنچہ مخفی است از امور زمین ومی دانم آنچہ شما ظاہری کنید و آنچہ شمامی پوشیدید۔ ۳۵؎

د۔ محمد حسن بن کرامت علی امروہی (تاریخ وفات نامعلوم) کی فارسی تفسیر ’’معالمات الاسرار فی مکاشفات الاخبار‘‘۳۶؎ دو جلدوں میں ۱۲۹۳ھ میں زیورِ طبع سے آراسہ ہوئی۔ ترجمے کا ایک حصہ یہ ہے:

وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآ ئَ کُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآئَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآئٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ۔(البقرہ۲:۴۹)  
   ’’ویاد کیند وقتی کہ نجات دادیم شمارا از آلِ فرعون فی دادند شما را عذاب بد، ذبح فی کردند پسرانِ شمارا وزندہ فی داشنند زنانِ شمارا و دریں آزمایش بود عظیم از ربِ شما۔‘‘ ۳۷؎

تیرھویں صدی ہجری میں اردو زبان نے فارسی کی جگہ لے لی۔ تصنیف وتالیف کا کام اردو زبان میں ہونے لگا۔ لہٰذا قرآن حکیم کے تراجم وتفاسیر بھی اسی زبان مین معرضِ تحریر میں آئے۔ مذکورہ صدی میں فارسی میں تفسیر و تراجم کی تعداد بہت کم ہے۔

ناصر الدین ابو المنصور (م ۱۳۲۰ھ) کی تفسیر ’’تبجیل التنزیل‘‘  ۳۸؎  اور سید ابو القاسم الرضوی (م ۱۳۲۴ھ) کی تفسیر ’’لوامع التنزیل‘‘ اس صدی کی مشہور فارسی تفسیریں ہیں۔ اول الذکر کا ترجمہ شاہ ولی اللہ (م۱۱۷۶ھ) کے ترجمۂ قرآن سے مستعار ہے اور ثانی الذکر کے ترجمے کا ایک حصہ حسبِ ذیل ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(البقرہ ۲:۱۸۳)
   ’’یعنی اے آنان کہ ایمان آوردہ اید نوشتہ شد برشما روزہ داشتن ایام صیام را چنانچہ مفروض بود روزہ بر آنان کہ پیش از شما از انبیا واولیا بودند تاشما بسبب روزہ گرفتن تقوی پیشہ شوید واز مناہی و محرمات بپرہیز ید۔‘‘ ۳۹؎ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ ج۱، تبریز، ۱۲۰۸ھ، ص ۳۸۴۔

۲؎ عبد الصارم، تاریخ التفسیر، لاہور۔ ۱۹۷۱ء ص۴۴۔

۳؎ ج ۱، ص۳۸۰۔ 

۴؎ ’’تاریخ فرشتہ‘‘ ، محمد قاسم فرشتہ، نول کشور لکھنو، ۱۲۲۱ھ، ج۲، س ۳۰۶۔

۵؎ (قلمی) مخزونہ مرکزِ تحقیقات فارسی، اسلام آباد کتاب خانہ نمبر ۲۶۹۰، ص ۱۱۹۰۔

۶؎ مقدمہ، ص ۱۸ تا ۲۹۔

۷؎ ص ۶۰۹۔

۸؎ ’’تذکرہ المفسرین‘‘، ص۱۶۳، اٹک ، ۱۴۰۱ھ محمد زاہد الحسینی۔

۹؎ عبدالحی حسنی، نزہتہ الخواطر، ج۵، س۴۸۷۔ طیب اکادمی ملتان، ۱۴۱۲ھ۔

۱۰؎ تذکرہ علماے ہند، ص ۲۲۹، نول کشور لکھنو، ۱۳۳۲ھ، رحمان علی۔

۱۱؎ قلمی نسخہ، مخزونہ مرکز تحقیقات فارسی، اسلام آباد، ص۳۲۔

۱۲؎ قلمی نسخہ، مخزونہ مرکز تحقیقات فارسی، اسلام آباد، ص۴ تا ۶۔

۱۳؎ قلمی نسخہ، مخزونہ مرکز تحقیقات فارسی، اسلام آباد، ص۱۸۔

۱۴؎ قلمی نسخہ، مخزونہ مرکز تحقیقات فارسی، اسلام آباد، ص۳۔

۱۵؎ نسخۂ خطی مخزونہ بودلین لائبریری، آکسفورڈ، برطانیہ ، ج۵، ص۲ ب تا ۳ب۔

۱۶؎ ایوانف کرزن، فہرست نسخہ ہای خطی، مخزونہ ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری بنگال، جلد اول، کلکتہ، ۱۹۲۶، ص۲۴۶۔

۱۷؎ نسخۂ خطی مخزونہ ایشاٹک سوسائٹی لائبریری، کلکتہ انڈیا، ج۱ ص۱۲، ۱۲ب۔

۱۸؎ عبد الحئی حسنی، نزہتہ الخواطر ، جلد ۶، مذکورہ، ص۲۹۲۔

۱۹؎ نسخۂ خطی، مخزونہ کتب خانہ، آصفیہ، حیدر آباد، دکن، انڈیا، ص۱۔

۲۰؎ ص۵۶۷۔

۲۱؎ محمد زاہد الحسینی، تذکرۃ المفسرین، مذکورہ، ص ۱۶۹۔

۲۲؎ مطبوعہ تاج کمپنی کراچی، تاریخ ندارد، مقدمہ ص ب۔

۲۳؎ ایضاً، ص۳۔

۲۴؎ سی۔ اے۔ سٹوری، پرشین لٹریچر، جلد اول مطبوعہ برطانیہ ۱۹۳۷ء ص۲۳۔

۲۵؎ مطبوعہ لاہور ۱۲۸۴، ص۴۔

 ۲۶؎ محمد زاہد الحسینی ، تذکرہ المفسرین ، مذکورہ، ص ۱۷۴۔

۲۷؎ عبدالحئی حسنی، نزہتہ الخواطر، جلد ۷ مذکورہ، ص ۳۰۳۔

۲۸؎ شاہ عبد العزیز، تفسیر عزیزی، جلد۲ بمبئی ۱۲۶۴ص ۳۸۹۔۳۹۰۔ 

۲۹؎ عبد الحئی حسنی، نزہتہ الخواطر، جلد ۷، مذکورہ ص ۴۸۹۔

۳۰؎ محمد سعید مدراسی، مواہب الرحمن (پارہ عم) مدراس (انڈیا) ۱۲۶۱، ص ۱۶۵، ۱۶۶۔

۳۱؎ حسین عارف نقوی، تذکرہ علماے امامیہ پاکستان، اسلام آباد، ۱۳۶۳، ص۵۔

۳۲؎ القرآن، سورہ ۱۱۰۔

۳۳؎ نجف علی، تفسیر غریب ، جلد۵، نسخۂ خطی، مخزونہ مرکزِ تحقیقاتِ فارسی، اسلام آباد ، ص۶۴۵۔

۳۴؎ محمد عبد الحکیم دہلوی، تفسیر وجیز،جلد اول، دہلی ۱۲۹۵ھ، ص۲۔

۳۵؎ محمد عبد الحکیم، تفسیر وجیز، جلد اول، مذکورہ س۸۰۔

۳۶؎ محمد حسن، تفسیر معالمات الاسرار فی مکاشفات الاخبار جلد اول و دوم۔ مطبوعہ دہلی ۱۲۹۳ھ۔

۳۷؎ مذکورہ ، ج۱، ص۱۳۳۔

۳۸؎ ج۱، مطبوعہ دہلی ۱۹۰۳۔

۳۹؎ ۱۲۰۳ھ، ج۲، ص ۲۰۰، مطبوعہ لاہور۔ 

B