(نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرِ ثانی اور ترمیم واضافہ کے بعد)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے، اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ وہ تمدن کوچاہتا ہے اور پھر اس تمدن کو اپنے ارادہ اختیار کے سوء استعمال سے بچانے کے لیے جلد یا بدیر اپنے اندر ایک نظمِ اجتماعی پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں سیاست وحکومت انسان کی اس خواہش اور اس مجبوری ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور انسان جب تک انسان ہے وہ اگر چاہے بھی تو اس سے نجات حاصل کر لینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اس دنیامیں حکومت کے بغیر کسی معاشرے اور تمدن کا خواب دیکھنے کے بجائے وہ اپنے لیے ایک ایسا معاہدہ عمرانی وجود میں لانے کی کوشش کرے جو نظمِ اجتماعی کا تزکیہ کر کے اس کے لیے ایک صالح حکومت کی بنیاد فراہم کر سکے۔
اس میں شبہ نہیں کہ انسان کی فطرت نے اسے بالعموم یہی راہ دکھائی اور اسی راستے پر جدوجہد کے لیے آمادہ کیا ہے، لیکن اس کے جو نتائج اب تک نکلے ہیں اور جنھیں ہر شخص بخشمِ سر اس عالم میں دیکھ سکتا ہے، تنہا وہی اس حقیقت کو بالکل آخری حد تک ثابت کر دینے کے لیے کافی ہیں کہ زندگی کے دوسرے معاملات کی طرح عقلِ انسانی اس معاملے میں بھی آسمانی ہدایت کے بغیر اپنے لیے سواء السبیل تلاش نہیں کر سکتی۔ انسان کی یہی ضرورت ہے جس کے پیش نظر ایک مفصل قانونِ سیاست اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہمیں دیا ہے۔
یہ قانون جن مباحث کو شامل ہے وہ یہ ہیں:
بنیادی اصول
اصل ذمہ داری
دینی فرائض
شہریت اور اس کے حقوق
نظمِ حکومت
ذیل میں ہم اس قانون سے متعلق قرآنِ مجید کے نصوص کی وضاحت کریں گے۔
۱۔بنیادی اصول
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۔(النساء ۴:۵۹)
’’ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر تمھارے درمیان اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اچھا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔‘‘
یہ بنیادی اصول ہے۔ قرآن نے اپنے اس حکم میں واضح کر دیا ہے کہ نظامِ ریاست میں اصل مرجعِ اطاعت کی حیثیت صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے۔ ہر وہ معاملہ جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے سے کر دیا ہے اس میں اولوالامر کو خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اولوالامر کے احکام اس اطاعت کے بعد اور اس کے تحت ہی مانے جا سکتے ہیں۔ اس اطاعت سے پہلے یا اس سے آزاد ہو کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو اللہ ورسول کے احکام کے خلاف ہو یا جس میں ان کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ اہل ایمان اپنے اولوالامر سے اختلاف کا حق بے شک رکھتے ہیں لیکن اللہ اور رسول سے کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا، بلکہ اس طرح کا کوئی معاملہ اگر اولوالامر سے بھی پیش آجائے تو اس کا فیصلہ لازماً قرآنِ مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔
تاہم اللہ اور رسول کی اس حکومت کے تحت اولوالامر کی اطاعت کے بھی چند لوازم ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں واضح فرمادیا ہے:
اول یہ کہ ان کے تحت جو نظمِ ریاست قائم کیا جائے، مسلمانوں کو اس سے پوری طرح وابستہ رہنا چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظم کو ’الجماعۃ‘ اور ’السلطان‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کے بارے میں ہر مسلمان کو پابند کیا ہے کہ اس سے کسی حال میں الگ نہ ہو، یہاں تک کہ اس سے نکلنے کو آپ نے اسلام سے نکلنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ کوئی مسلمان اگر اس سے الگ ہو کر مرا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔ آپ کا ارشاد ہے:
من رأبی من امیرہ شیئًا یکرھہ فلیصبر، فانہ من فارق من الجماعۃ شبراً فمات الامات میتۃ جاھلیۃ۔(بخاری، کتاب الفتن)
’’جس نے اپنے امیر کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اسے چاہیے کہ صبر کرے، کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی سے الگ ہوا اور اسی حالت میں مر گیا، اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
یہی روایت ایک دوسرے طریق میں اس طرح آتی ہے:
من کرہ من امیرہ شیئًا فلیصبر ، فانہ من خرج من السلطان شبراً ، مات میتۃ جاھلیۃ۔ (بخاری، کتاب الفتن)
’’جسے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، اسے صبر کرنا چاہیے، کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اسی حالت میں مر گیا اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
سیاسی خلفشار اور فتنہ وفساد کے زمانے میں بھی آپ کی ہدایت ہے کہ کسی مسلمان کو نظمِ اجتماعی کے خلاف کسی اقدام میں نہ صرف یہ کہ شریک نہیں ہونا چاہیے، بلکہ پوری وفاداری کے ساتھ اس سے وابستہ رہنا چاہیے۔ امام مسلم کی ایک روایت میں سیدناحذیفہ کے لیے آپ کا یہ ارشاد کہ: ’تلزم جماعۃ المسلمین وامامھم۱؎ ‘(اس طرح کی صورتِ حال میں تم مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی اور اُن کے حکمران سے وابستہ رہو گے)، ریاست سے متعلق دین کے اسی منشا پر دلالت کرتا ہے۔
دوم یہ کہ وہ قانون کے پابند رہیں۔ جو حکم دیا جائے، اس سے گریز وفرار کے بجائے اسے پوری توجہ سے سنیں اور مانیں۔ کوئی اختلاف، کوئی ناپسندیدگی، کوئی عصبیت اور کسی نوعیت کا کوئی ذہنی تحفظ بھی اس انحراف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ الّا یہ کہ خدا کی معصیت میں کوئی حکم دیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی نافرمانی قرار دیا اور فرمایا ہے:
من اطاعنی فقد اطاء اللّٰہ، ومن اطاء الامام فقد اطاعتی، ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ، ومن عصی الامام فقد عصانی۔ (بخاری، کتاب الاحکام)
’’جس نے میری اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے حکمران کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے حکمران کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔‘‘
علیک اسمع والطاعۃ فی عسرک ویسرک ومنشطک ومکرھک واثرۃ علیک۔ (مسلم، کتاب الامارہ)
’’تم پر لازم ہے کہ اپنے اولوالامر کے ساتھ سمع وطاعت کا رویہ اختیار کرو، چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا ورغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اس کے باوجود بھی کہ تمھارا حق تمھیں نہ پہنچے۔‘‘
علی المرء المسلم السمع والطاعۃ فیما احب وکرہ الّا ان یؤمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری، کتاب الاحکام)
’’مسلمان پر لازم ہے کہ خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، وہ ہر حال میں اپنے حکمران کی بات سنے اور مانے سوائے اس کے کہ اسے کسی معصیب کا حکم دیا جائے۔ پھر اگر معصیت کا حکم دیا گیا ہے تو وہ نہ سنے گا اور نہ مانے گا۔‘‘
اسمعو اواطیعوا وان استعمل علیکم عبد حبشی کان رأسہ زبیبۃ۔ (بخاری، کتاب الاحکام)
’’سنو اور مانو، اگرچہ تمھارے اوپر کسی حبشی غلام کو حکمران بنا دیا جائے، جس کا سر منقیٰ جیسا ہو۔‘‘
اولوالامر کی یہ اطاعت اسی وقت تک ہے جب تک آیہ ء زیر بحث کی رو سے وہ ’منکم‘ ہوں یعنی مسلمان رہیںاور اللہ ورسول کی جو حیثیت اس آیت میں بیان ہوئی ہے، اسے تسلیم کر لیں اس کی آخری حد وہی ہے جس کا نمونہ خلفاے راشدین نے پیش کیا کہ ریاست کے نظام میں شریعت کی بالادستی اس طرح تسلیم کی جائے کہ اس کے سامنے حکمرانوں کے سر ہی نہیں دل بھی جھکے ہوئے محسوس ہوں اور حکومت اس احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کی جائے کہ حکمران گویا خدا کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے نیچے وہ جگہ جہاں پہنچ جانے کے بعد ان کی اطاعت سے انحراف اور انھیں تبدیل کر دینے کی جدوجہد مسلمانوں کے لیے جائز ہو جاتی ہے ’منکم‘ کی اس شرط کے مطابق یہی ہو سکتی ہے کہ وہ کھلے کفر کے مرتکب ہو جائیں۔ اس کی ایک نمایاں علامت قرآن کی رو سے ذاتی حیثیت میں اور ریاست کی سطح پر نماز چھوڑ دینا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بات فرمائی ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت ہے:
دعانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ فکان فیما اخذ علینا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا و مکرھنا وعسرنا ویسرنا واثرۃ علینا و ان لا تنازع الامر اھلہ، قال الا ان تروا کفرا بواحاً، عند کم من اللّٰہ فیہ برھان۔ (مسلم، کتاب الامارہ)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے بلایا تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ اس میں جن باتوں کا عہد لیا گیا وہ یہ تھیں کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے، چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں اور اس کے باوجود بھی کہ ہمارا حق ہمیں نہ پہنچے اور یہ بھی کہ ہم اپنے اولوالامر سے اقتدار کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہ کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، البتہ جب تم کوئی کھلا کفر ان کی طرف سے دیکھو اور تمھارے پاس اس معاملے میں اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘
اسی طرح بعض روایتوں میں ہے:
انہ یستعمل علیکم امراء فتعرفون وتنکرون فمن کرہ فقد بری ومن انکر فقد سلم ولکن من رضی وتابع قالوا یا رسول اللّٰہ، الا نقاتلھم قال لا ماصلوا۔(مسلم، کتاب الامارہ)
’’تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کی بعض باتیں تمھیں اچھی لگیں گی اور بعض بری۔ پھر جس نے بری باتوں کو ناپسند کیا اور وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے اُن کا انکار کیا وہ بھی محفوظ رہا، مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیچھے چل پڑا تو اس سے پوچھا جائے گا۔ صحابہ نے پوچھا: یہ صورت ہو تو کیا ہم اُن سے جنگ نہ کریں، اے اللہ کے رسول۔ آپ نے فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے ہوں۔‘‘
شرار ائمتکم الذین تبغضونھم و یبغضونکم و تلعنونھم ویلعنونکم ، قیل یا رسول اللّٰہ ، افلا ننابزھم بالسیف فقال ، لا ما اقاموا فیکم الصلٰوۃ۔ (مسلم، کتاب الامارہ)
’’تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول، یہ صورت ہو تو کیا ہم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں ؟ فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔‘‘
تاہم اس حد کو پہنچ جانے کے بعد بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا حق کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا، جب تک مسلمانوں کی واضح اکثریت اس کی تائید میں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھر حکومت کے خلاف نہیںبلکہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت قرار پائے گی جو اسلامی شریعت کی رو سے فساد فی الارض ہے اور جس کی سزا قرآن میں قتل مقرر کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من اتاکم ومرکم جمیع علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم اویفرق جماعتکم فاقتلوہ۔ (مسلم، کتاب الامارہ)
’’تم کسی شخص کی امارت پر جمع ہو اور کوئی تمھاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے یا تمھاری نظمِ اجتماعی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اٹھے تو اسے قتل کر دو۔‘‘۲؎
پھر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ بغاوت اگر مسلح بغاوت ہو تو اس کی ایک لازمی شرط یہ بھی ہے کہ بغاوت کرنے والے پہلے کسی آزاد علاقے میں جا کر اپنی حکومت قائم کریں۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی پیغمبر کو بھی جو اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے تلواراٹھانے کی اجازت اس وقت تک نہیں دی جب تک اس نے ہجرت کر کے اپنی جماعت کو کسی آزاد علاقے میں منظم نہیں کر لیا اور اس کا اقتدار اس جماعت پر بزور قوت قائم نہیں ہو گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں معلوم ہے کہ ان کو اس کا حکم اس شرط کے پورا ہو جانے کے بعد ہی ملااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے لیے بھی اس کا راستہ اس وقت کھلا، جب بیعت عقبہ کے بعد مدینہ میں ان کی ایک باقاعدہ حکومت قائم ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے بغیر جہاد محض فسادہے۔ جو نظامِ امارت اپنی جماعت پر اللہ کی حدود نافذ کرنے اور ارتکاب جرم کی صورت میں مجرم کو سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتا، اسے قتال کی اجازت آخر کس طرح دی جا سکتی ہے؟
اس امت کے علما ہمیشہ اس شرط کے قاتل رہے ہیں۔ ’’فقہ السنۃ‘‘ میں ہے:
والنوع الثالث من الفروض الکفائیۃ مایشترط فیہ الحاکم، مثل الجھاد واقامۃ الحدود۔ (السید السابق، ج۳، ص۳۰)
’’اور کفایہ فرائض کی تیسری قسم وہ ہے، جس میں حکمران کا ہونا شرط ہے۔ مثال کے طور پر جہاد اور اقامتِ حدود۔‘‘
امام فراہی لکھے ہیں:
’’اپنے ملک کے اندر بغیر ہجرت کے جہاد جائز نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت اور ہجرت سے متعلق دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد اگر صاحب جمعیت اور صاحبِ اقتدار امیر کی طرف سے نہ ہو تو وہ محض شورش وبدامنی اور فتنہ و فساد ہے ۳؎ ۔‘‘ (مجموعۂ تفاسیرِ فراہی، ص۵۶)
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار‘‘ میں اس شرط کے اسی پہلو کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی باطل نظام کے اختلال وانتشار کو بھی اس وقت تک پسند نہیں کرتا جب تک اس بات کا امکان نہ وہ کہ جولوگ اس باطل نظام کو درہم برہم کر رہے ہیں، وہ اس کی جگہ پر کوئی نظامِ حق بھی قائم کر سکیں گے۔ انارکی اور بے نظمی کی حالت ایک غیر فطری حالت ہے، بلکہ انسانی فطرت سے یہ اس قدر بعید ہے کہ ایک غیر عادلانہ نظام بھی اس کے مقابل میں قابل ترجیح ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی جماعت کو جنگ چھیڑنے کا اختیار نہیں دیا ہے جو بالکل مبہم اور مجہول ہو، جس کی طاقت واستطاعت غیر معلوم اور مشتبہ ہو، جس پر کسی ایک بااختیار امیر کا اقتدار قائم نہ ہو جس کی اطاعت ووفاداری کا امتحان نہ ہوا ہو، جس کے افراد منتشر اور پراگندہ ہوں، جو کسی نظام کو درہم برہم تو کر سکتے ہوں۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت انھوں نے بہم نہ پہنچایا ہو کہ وہ کسی انتشار کو مجتمع بھی کر سکتے ہیں۔ یہ اعتماد صرف ایک ایسی جماعت ہی پر کیا جا سکتا ہے جس نے بالفعل ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ہو اور جو اپنے دائرہ کے اندر ایک ایسا ضبط ونظم رکھتی ہو کہ اس پر ’الجماعۃ‘ کا اطلاق ہو سکے۔ اس حیثیت کے حاصل ہونے سے پہلے کسی جماعت کو یہ حق توحاصل ہے کہ وہ ’الجماعۃ‘بننے کے لیے جدوجہد کرے او ر اس کی یہ جدوجہد جہاد ہی کے حکم میں ہوگی۔ لیکن اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عملاً جہاد بالسیف اور قتال کے لیے اقدام شروع کر دے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی جنگ کرنے والی جماعت کو انسانوں کے جان ومال پر جو اختیار حاصل ہو جایا کرتا ہے وہ ایسا غیر معمولی اور اہم ہے کہ کوئی ایسی جماعت اس کو سنبھال ہی نہیں سکتی جس کے لیڈر کا اقتدار اس کے اوپر محض اخلاقی قسم کا ہو۔ اخلاقی اقتدار اس امر کی کافی ضمانت نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے فساد فی الارض کو روک سکے۔ اس وجہ سے مجرد اخلاقی اقتدار کے اعتماد پر کسی اسلامی لیڈر کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت دے دے، ورنہ اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ جب ایک مرتبہ ان کی تلوار چمک جائے گی تو وہ حلال وحرام کے حدود کی پابند نہیں رہے گی اور ان کے ہاتھوں وہ سب کچھ ہو جائے گا جس کے مٹانے ہی کے لیے انھوں نے تلوار اٹھائی ہے۔ عام انقلابی جماعتیں جو مجرد ایک انقلاب برپا کرناچاہتی ہیں اور جن کا مطمحِ نظر اس سے زیاد کچھ نہیں ہوتا کہ وہ قائم شدہ نظام کو درہم برہم کر کے برسر اقتدار پارٹی کے اقتدار کو مٹائیں اور اس کی جگہ اپنا اقتدار جمائیں، اس قسم کی بازیاں کھیلتی ہیں اور کھیل سکتی ہیں۔ ان کے نزدیک نہ کسی نظم کا اختلال کوئی حادثہ ہے، نہ کسی ظلم کا ارتکاب کوئی معصیت۔ اس وجہ سے ان کے لیے سب کچھ مباح ہے، لیکن ایک عادل اور حق پسند جماعت کے لیڈروں کو لازماً یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جس نظم سے وہ خدا کے بندوں کو محروم کر رہے ہیں، اس سے بہتر نظم ان کے واسطے مہیا کرنے کی وہ صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اور جس ظلم کو مٹانے کے وہ درپے ہیں، اس قسم کے مظالم سے اپنے آدمیوں کو بھی روکنے پر وہ پوری طرح قادر ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ محض اتفاقات کے اعتماد پر وہ لوگوں کے جان ومال کے ساتھ بازیاں کھیلیں اور جس فساد کے مٹانے کے لیے اٹھے ہیں، اس سے بڑا فساد خود برپا کر ادیں۔‘‘ (باب ۱۴، ص۲۴۱۔۲۴۲)
(باقی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ مسلم، کتاب الامارہ۔
۲؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳ پر مبنی ہے۔
۳؎ یہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کا ترجمہ ہے۔ امام فراہی کی اصل عربی عبارت، افسوس ہے کہ میسر نہیں ہو سکی۔