وعن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: کنا قعودا حول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومعنا أبو بکر وعمر رضی اللّٰہ عنھما فی نفر۔ فقام رسول اللّٰہ من بین أظھرنا، فأبطا علینا، وخشینا أن یقتطع دوننا، و فزعنا فقمنا ، فکنت أول من فزع ، فخرجت أبتغی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ حتی أتیت حائطاللأ نصار لبنی نجار ، فساورت بہ، ھل أجد لہ بابا؟ فلم أحد فإذا ربیع یدخل فی جوف حائط من بئر خارجۃ ــ والربیع الجدول ـــ قال: فاحتفرت فدخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ فقال: أبو ھریرۃ؟ فقلت: نعم، یارسول اللّٰہ ۔ قال: ماشأنک؟ قلت: کنت بین أظہرنا فقمت فأبطات علینا، فخشیناأن تقطع دوننا ففزعنا فکنت أول من فزع، فأتیت ھذا الحائط، فاحتفزت کما یحتفز الثعلب، وھؤلاء الناس ورائی۔ فقال: یاأبا ھریرۃ وأعطانی نعلیہ، فقال: اذھب بنعلی ھاتین، فمن لقیک من وراء ھذا الحائط یشھد أن لاالہ الا اللّٰہ مستیقنا بھا قلبہ فبشرہ بالجنۃ۔ فکان أول من لقیت عمر۔ فقال: ماھاتان النعلان؟ قلت: ھاتا نعلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعثنی بھما۔ من لقیت یشھد أن لاالہ الا اللّٰہ مستیقنابھا قلبہ بشرتہ بالجنۃ۔ فضرب عمر بین ثدیی، فخررت لإستی۔ فقال: إرجع یا أباھریرۃ۔ فرجعت إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأجھثت بالبکاء ورکبنی عمر، وإذا ھو علی أثری۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مالک یا أبا ھریرۃ۔ فقلت: لقیت عمرفأخبرتہ بالذی بعثنی بہ، فضرب بین ثدیی ضربۃ خررت لإستی۔ فقال إرجع۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یاعمر، ماحملک علی مافعلت؟ قال: یارسول اللّٰہ، بأبی أنت وأمی، أبعثت أبا ھریرۃبنعلیک، من لقی یشھد أن لاالہ الا اللّٰہ مستیقنابھا قلبہ بشرہ بالجنۃ۔ قال: نعم۔ قال: فلا تفعل، فإنی أخشی أن یتکل الناس علیھا، فخلھم یعلمون۔ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فخلھم۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد لوگوںکیایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی موجودتھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر اٹھے (اور کہیں چلے گئے)۔ پھر دیر تک (باہر ہی) رہے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اچک نہ لیا جائے اور ہم لوگ گبھرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں سب سے پہلے گبھراہٹ کا شکار ہوا۔ چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میںنکل کھڑا ہوا۔ چلتے چلتے میں انصار میں سے بنی نجار کے ایک باغ (کی چاردیواری) کے پاس پہنچ گیا۔ میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگا کہ کہیں کوئی دروازہ مل جائے۔ (دروازہ) تو نہیں ملا۔ لیکن دیوار کے بیچ میں نالے کا راستہ تھا جس کے ذریعے سے باہر سے کنویں کا پانی باغ کو جاتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں سمٹ سمٹا کر (اس میں سے) گزر گیا۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ (آپ نے مجھے دیکھ کر) فرمایا: تم ابوہریرہ؟ میں نے عرض کیا: جی، اے اللہ کے رسول۔ آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟میں نے عرض کیا: آپ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے، پھر آپ اٹھ گئے اور آپ نے کافی دیر کر دی۔ ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ کو اٹھانہ لیا گیا ہوں۔ لہٰذا ہم لوگ گبھرا گئے۔ اس گبھراہٹ کے باعث میں سب سے پہلے نکلا ہوں۔ چنانچہ (تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک آگیا۔ پھر (دروازہ نہ پاکر) لومڑ کی طرح سمٹ کر پانی کے راستے سے داخل ہوا ہوں اور یہ میرے پیچھے دوسرے لوگ بھی ہیں۔ (میری بات سن کر) آپ نے فرمایا: اے ابوہریرہ، اور مجھے اپنے جوتے بھی عنایت فرمائے اور کہا: میرے یہ جوتے لے جاؤ اور اس باغ سے باہر جس سے بھی تمھاری ملاقات ہو اور وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں تو اسے جنت کی بشارت دے دو۔ (میں باہر نکلا) تو سب سے پہلے میری ملاقات عمر (رضی اللہ عنہ) سے ہوئی۔ انھوں نے پوچھا: ابوہریرہ ، یہ (تمھارے ہاتھ میں) جوتے کیسے؟میں نے بتایا: یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں۔ آپ نے مجھے ان کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں ہر اس آدمی کو جو دل سے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں جنت کی خوش خبری دے دوں۔ میری بات سن کر عمر نے میرے سینے پر ہاتھ مارا کہ میں پیٹھ کے بل گر گیا اور کہا: ابوہریرہ لوٹو۔ لہٰذا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا۔ میں رونے والی حالت میں تھا۔ عمر نے میرے اوپر چڑھائی کی ہوئی تھی اور وہ میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کرپوچھا: ابوہریرہ، کیا ہوا ہے؟ میں نے (حضور کو) بتایا کہ میری ملاقات عمر سے ہوئی اور میں نے انھیں وہ بات بتائی جس کے ساتھ آپ نے مجھے بھیجا تھا۔ لیکن انھوں نے مجھے اتنے زور سے مارا کہ میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ پھر مجھے کہاکہ واپس جاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے)سے پوچھا : اے عمر، تم نے یہ جو کیا ہے، کیوںکیا ہے؟ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ نے ابوہریرہ کو اپنے جوتے دے کر (اس پیغام کے ساتھ) بھیجا ہے کہ یہ اسے جنت کی بشارت دیں جو دل کے یقین کے ساتھ اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت عمر نے تجویز پیش کی کہ آپ (ایسا) نہ کیجئے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسا کرنے لگیں گے۔ آپ انھیں (اسی حالت میں) رہنے دیں تاکہ وہ عمل کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات سنی) تو فرمایا:(لوگوں کو اسی طرح عمل کرنے کے لیے) چھوڑ دو۔‘‘
یقتطع دوننا: ’یقتطع‘ مجہول ہے، یعنی کہیں دشمن آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ ’دوننا‘ سے یہاں صحابہ سے دوری مراد ہے۔
حائط: لفظی طور پر اس سے چار دیواری مراد ہے۔ لیکن یہ باغ کے لیے آتا ہے۔ کیونکہ اس کے گرد دیوار ہوتی تھی۔
ربیع: آبپاشی کے لیے بنایا گیا کھال۔
فاحتفزت: تنگ جگہ سے گزرنے کے لیے بلی یا لومڑ کی طرح اپنے جسم کو سکیڑ لینا۔
فاجھشت بالبکائ: روہانسا ہونا، آہ زاری کرنا۔ یہاں اس سے شدید بے بسی کی وہ کیفیت مراد ہے جو حضرت عمر کے سخت ردِ عمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔
فخلھم یعملون: ’خلی‘ ’یخلی‘ سے مراد ہے خالی جگہ چھوڑ دینا، رکاوٹ نہ ڈالنا۔ یعنی کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس کے نتیجے میں لوگ عمل کرنا چھوڑ دیں۔
یہ روایت صرف مسلم نے اپنی صحیح میں لی ہے۔ ہمارے پیشِ نظر متن اور صاحب مثکاۃ کے زیر مطالعہ متن میں معمولی سا فرق ہے۔ مثلاً صاحبِ مثکاۃ نے ’فساورت بہ‘ کا جملہ نقل کیا ہے۔ جبکہ مسلم کے ہمارے ہاں متداول نسخے میں ’قدرت بہ‘ درج ہے۔ اسی طرح ’لقیک‘ کے بجائے ’لقیت‘، ’بالبکائ‘ کی جگہ ’بکائ‘ کے الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں ’فاحتفزت‘ کے ساتھ پہلی مرتبہ بھی ’کما یحتفز الثعلب‘ کی تصریح موجود ہے۔ بہرحال مسلم کے اس روایت کے لینے میں منفرد ہونے کے باعث اس روایت کا ایک ہی متن دستیاب ہے۔ لیکن اس مضمون کی روایات اور بھی ہیں۔ اس سے پہلے ہم حضرت معاذ بن جبل (حدیث: ۲۴)، حضرت انس بن مالک (حدیث: ۲۵)، حضرت ابوذر غفاری( حدیث:۲۶)، حضرت عبادہ بن صامت (حدیث: ۳۶)، حضرت عثمان بن عفان (حدیث: ۳۷)، اور عبد اللہ بن جابر (حدیث: ۳۸) رضوان اللہ علیہم سے مروی روایات پر لکھ چکے ہیں ۱ ؎ ۔ان کا مضمون بھی یہی ہے۔
اس روایت کے تین پہلو قابل توجہ ہیں۔ ایک صحابہ رضوان اللہ علیہم کی حضور سے محبت، دوسرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے التفات اور تیسرے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دین کا فہم اور محکم رویہ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینے میں اس وقت پیش آیا جب دشمن سے کسی بھی کاروائی کی توقع کی جاری تھی۔ دراں حالیکہ حضرت ابو ہریرہ غزوۂ خیبر کے موقع پر ایمان لائے تھے۔ یہ غزوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تقریباً چار سال قبل پیش آیا۔ اس زمانے تک اسلامی حکومت بڑی حد تک مستحکم ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ خطرہ کس گروہ کی طرف سے تھا کہ وہ مدینہ میں آکر اس طرح کی کاروائی کر سکتا ہے۔ اہل مکہ سے کسی خلافِ مرؤت عمل کی توقع نہیں کی جاسکتی اور یہود کی طاقت کا پوری طرح استیصال ہو چکا ہے۔ یہ بات بھی اس روایت میں واضح نہیں کی گئی کہ حضرت ابوہریرہ کے دل میں یہ خیال کیوں آیا کہ حضور بنی نجار کے باغ میں ہوں گے۔ مزید یہ کہ اگر خطرے کا ایسا ہی زمانہ تھا تو حضور اکیلے کیوں نکلے تھے۔
یہ سوالات اپنی جگہ، بہر حال یہ بات وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاخیر کے باعث صحابہ رضوان اللہ علیہم کس طرح پریشان ہوئے اور حضور کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کے اس جذبہ کی شدت کو محسوس کیا اور انھیں ان کے ایمان وعمل پر جنت کی بشارت سے نوازا۔ اس روایت کے اس پہلو کو سامنے رکھیں تو یہ بات مزید مؤکد ہوتی ہے کہ اس مضمون کی دوسری روایات میں دی گئی بشارت کا تعلق بھی بنیادی طور پر صحابہ ہی کی جماعت سے ہے۔ یہی وہ گروہ ہے جس کے ایمان کی گہرائی اور کردار کی پاکی اسے جنت کا یقینی طوپر پر اہل بناتی ہے۔
تیسری چیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا محکم انداز ہے۔ ان کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں حضرت ابوہریرہ کے اس بشارت کے اعلان پر مامور ہونے کا یقین نہیں آیا۔ لہٰذا انھوں نے انھیں واپس حضور کے پاس جانے کے لیے کہا اور حضور نے خود معلوم کیا کہ انہیں واقعی اس کام کے لیے کہا گیا ہے۔ اس روایت میں بیان کی گئی بات چونکہ کئی پیرائے میں روایات میں بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا اس بات کا امکان نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بشارت ناقابل یقین تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکابر صحابہ سے یہ بات پہلے بھی کہتے رہے ہیں۔ نیا پہلو اعلان عام کا تھا۔ چنانچہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اعلان عام نہ کرنے ہی کی گزارش کی۔ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔
ہم اوپر محولہ روایات کی شرح میں واضح کر چکے ہیں کہ اس بشارت کا تعلق صحیح ایمان وعمل سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایمان اپنی زندگی کو نئے ڈھب پر استوار کرنے کا نام تھا۔ وہ دور دین کے لیے جان ومال کی بازی لگانے کا دور تھا۔ چنانچہ اسی دور کے سچے مومن اس بشارت کے حق دار تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پہلو کو نظر انداز کر رہے تھے جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور کو متوجہ کیا۔ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام اپنے لیے پریشان ہونے والے جان نثار صحابہ سے متعلق تھا۔ حضرت ابوہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تھا کہ وہ بھی ان کے پیچھے آرہے ہیں۔ لہٰذا آپ نے انھی کے لیے ابو ہریرہ کو یہ بشارت دے کر بھیجا۔ حضرت ابوہریرہ آپ کے ارشاد کے اس خصوص کو نہیں سمجھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اعلان عام سے روک دیا اور حضور نے بھی اس کی تصویب فرمائی۔
مسلم ، کتاب الایمان، باب ۱۰۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن معاذ ن جبل قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفاتیح الجنۃ شہادۃ ان لاالہ الااللّٰہ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا: جنت کی کنجیاں اس بات کا علانیہ اقرار ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
مفاتیح: ’مفتاح‘ کی جمع ہے ۔ لفظی معنی چابی کے ہیں۔ یہاں مجازاً اس کلمے کے لیے آیا ہے، جو خداکی خوش نودی حاصل کرنے کا نقطہ آغاز ہے۔ متبدا جمع اور خبر واحد ہے۔ اس سے خبر میں شہادت کے لفظ میں مضمر عقائد واعمال کے تعدد کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
اس روایت کو اپنی کتاب کا حصہ بنانے میں احمد بن حنبل منفرد ہیں۔ لیکن مضمون کے اعتبار سے یہ روایت منفرد نہیں ہے۔ اس روایت کا مضمون بھی وہی ہے جو اوپر ابوہریرہ کی روایت کا ہے۔ اس کے تحت ہم نے ان روایات کا حوالہ دے دیا ہے جو اسی مضمون کے حامل ہیں اور ان کی شرح ’’اشراق‘‘ کے گزشتہ شماروں میں چھپ چکی ہے۔
اس روایت کا کلیدی لفظ ’مفتاح‘ ہے۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ توحید کا شعور اور اس پر ایمان دین میں اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ جنت کی کامیابی پانے کے لیے لازم ہے کہ آدمی شرک کے جرم سے بچا ہوا ہو۔ یہ کلمہ جب کسی بندے کے منہ سے نکلتا ہے اور وہ دنیا کے سامنے اس کو ماننے والے آدمی کی حیثیت سے آتا ہے تو یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ اس نے صحیح راستہ اختیار کر لیا ہے اب اس کا ہر قدم امید یہی ہے کہ راست سمت ہی میں اٹھے گا۔
مسند احمد عن معاذ بن جبل۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعن عثمان رضی اللّٰہ عنہ قال: إن رجالا من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حٰن توفی حزنوا علیہ، حتی کاد بعضہم یوسوس۔ قال عثمان: وکنت منہم۔ فبین أنا جالس مرعلی عمر وسلم، ولم اشعر بہ۔ فاشتکی عمر الی ابی بکر رضی اللّٰہ عنھما۔ چم اقبلا حتی سلما علی جمیعا۔ فقال ابوبکر: ماحملک علی ان لا ترد علی اخیک عمر سلامہ؟ قلت: مافعلت۔ فقال عمر: بلی، واللّٰہ قدفعلت۔ قلت: و اللّٰہ ماشعرت أنک مررت ولا سلمت۔ قال ابوبکر: صدق عثمان، قد شغلک عن ذلک امر۔ فقلت: أجل۔ قال: ماھو؟ قلت: توفی اللّٰہ تعالی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل أن نسئلہ عن نجاۃ ھذا الامر۔ قال ابوبکر: قد سألتہ عن ذلک۔ فقمت إلیہ وقلت لہ: بابی أنت وأمی، أنت أحق بھا۔ قال أبو بکر: قلت یا رسول اللّٰہ مانجات ھذا الامر؟ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قبل منی الکمۃ التی عرضت علی عمی فردھا، فہی لہ نجاۃ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کے صحابہ میں سے چند لوگ بہت ہی غم زدہ ہوئے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ وسوسوں کا شکار ہونے لگے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ میں بھی انھی میں سے تھا۔ میں اس کیفیت میں بیٹھا ہوا تھا کہ عمر میرے پاس سے گزرے۔ انھوں نے مجھے السلام علیکم کہا۔ لیکن مجھے خبر بھی نہیں ہوئی۔ عمر نے اس بات کی شکایت ابوبکر سے کی۔رضی اللہ عنہما۔ پھر وہ دونوں میری طرف آئے۔ دونوں نے بیک آواز السلام علیکم کہا۔ پھر مجھے ابوبکر نے پوچھا: کیا سبب ہوا کہ تم نے اپنے بھائی عمر کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔ میرا جواب سن کر عمر بولے: کیوں نہیں ، بخدا آپ نے ایسا ہی کیا ہے۔ حضرت عثمان بتاتے ہیں کہ میں نے پھر وضاحت کی: بخدا، مجھے احساس تک بھی نہیں ہوا کہ آپ میرے پاس گزرے ہو اور نہ یہ کہ آپ نے سلام کیا ہے۔ میری وضاحت سن کر ابوبکر نے کہا: عثمان صحیح کہہ رہے ہیں۔ (پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا لگتا ہے) کوئی معاملہ ہے جس نے آپ کو (اس طرح) غافل کر دیا۔ میں نے کہا: جی (یہی بات ہے)۔ انھوں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو وفات کو وفات دے دی۔ اس سے پہلے کہ میں انھیں اس (آزمایش) کے معاملے سے نجات کے بارے میں پوچھ لیتا۔ ابوبکر نے بتایا کہ میں نے آپ سے یہ بات پوچھ لی تھی۔ میں ان کی طرف لپکا اور میں نے کہا: بخدا آپ اس (سبقت) کا حق رکھتے ہیں۔ ابوبکر نے بتایا کہ میں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا: (آزمایش) اس معاملے سے نجات (کی راہ) کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری طرف سے وہ کلمہ قبول کر لیا جو میں نے اپنے چچا کے سامنے بھی رکھا تھا لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیا تھا، تو یہ (کلمے کو قبول کر لینا) اس کے لیے نجات بن جائے گا۔‘‘
حزنوا علیہ:کسی کے بارے میں دکھی ہونا، یہاں حضور کے دنیا سے رخصت ہونے پر طاری ہونے والی کیفیت مراد ہے۔
یوسوس: ’وسوسۃ‘ دل میں آنے والی ناپسندیدہ باتوں کے لیے آتا ہے۔
ولاسلمت: یہ عطف ’وما شعرت‘ پر ہے۔ لہٰذا نفی کا تعلق سلام سے نہیں۔
الامر: لفظی معنی تو معاملے کے ہیں۔ لیکن یہاں اس سے خاص معاملہ مراد ہے۔ یعنی روز قیامت کامیابی کا معاملہ۔
قمت الیہ:’الی‘ یہاں آگے بڑھنے کے مفہوم کی تضمین پر دلالت کرتا ہے۔ ترجمے میں ہم نے اسے لپکنے کے الفاظ سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
’الکملۃ‘ اس پر لام عہد کا ہے۔ آگے جملوں سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے۔ یعنی توحید کا اقرار جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مواقع پر ’شھادہ ان لا الہ الا اللہ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ روایت بھی صرف مسند احمد میں ہے۔ صاحب مثکاۃ نے بھی اسے مسند ہی سے نقل کیا ہے لیکن اس میں اور ہمارے پاس موجود مسند کے متن میں کافی فرق ہے۔ یہ فرق بنیادی طورپر تفصیل اور اجمال کا فرق ہے۔ مثلا، اوپر درج متن میں صرف’انا جالس‘(میں بیٹھا ہوا تھا) لکھا ہوا ہے جبکہ مسند میں ’فی اطم من الا طام‘(اونچی دیواروں میں کسی دیوار کے نیچے) کی صراحت بھی ہے۔ یہاں ’فلم اشعربہ‘(مجھے اس کی خبر نہیں ہوئی) ہے جبکہ مسند میں ’انہ مرولا سلم فانطلق عمر حتی دخل علی أبی بکرفقال لہ مایعجبک أنی مررت علی عثمان قسلمت علیہ فلم یرد علی السلام وأقبل ہو وعمر فی ولا یۃ أبی بکر‘یہ(کہ وہ گزرے ہیں اور نہ یہ کہ انھوں نے مجھے سلام کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ابوبکر کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا: کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ میں عثمان کے پاس سے گزرا۔ انھیں سلام کیا۔ لیکن انھوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ اور وہ اور ابوبکر میرے پاس آئے اور (یہ واقعہ) ابوبکر کے زمانہ خلافت کا ہے) کی تفصیل ہے۔ اسی طرح یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ردعمل صرف اتنا ہے کہ حضرت عثمان نے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا۔ لیکن مسند کے متن میں ’ولکنھا عبیتکم یا بنی امیۃ‘(مگر یہ تو تمھارا غرور ہے، اے خاندان امیہ) سخت تبصرہ بھی درج ہے۔
مسند احمد میں یہ روایت تین طریقوں سے درج کی گئی ہے۔ ایک طریقے میں اس روایت کا متن اگرچہ مختصر ہے لیکن اس میں وسوسے کے ماخذ کی تصریح بھی ہے:
عن عثمان رضی اللّٰہ عنہ قال: تمنیت أن اکون سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ماذا ینجینا مما یلقی الشیطان فی انفسنا۔ فقال ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ سألتہ عن ذلک۔ فقال ینجیکم من ذلک أن تقولوا ما أمرت عمِی أن یقولہ۔
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں تمنا کرتا ہوں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتا کہ ان باتوں سے نجات کا کیا طریقہ ہے جو شیطان ہمارے دل میں ڈال دیتا ہے۔ ابوبکر نے مجھے بتایا کہ میں نے یہ بات حضور سے پوچھی تھی اور آپ نے فرمایا تھا:اس سے نجات کا راستہ یہ ہے کہ اس بات کو مان لو جو میں نے اپنے چچا سے اقرار کرنے کے لیے کہی تھی۔‘‘
بظاہر یہ متن وسوسے کے بارے میں یہ تصریح کرتا ہے کہ شیطان کی طرف سے جو شکوک وشبہات القاکیے جاتے ہیں حضرت عثمان ان سے نجات کے بارے میںپریشان تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جواب کا حوالہ دیا ہے وہ اس کے مطابق نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کو توحید کے اقرار کی دعوت دی تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ دعوت قبول کیے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود وہ ’’شیطانی وسووس‘‘ کا شکار تھے۔ ہمارے نزدیک اس روایت میں راوی سے بات کو بیان کرنے میں سہو ہوا ہے۔
حضرت عثمان کے وسوسے آخرت کی نجات سے متعلق تھے۔ وہ اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ معلوم نہیں ہماری یہ کاوشیں ہماری کامیابی کی ضمانت بنیں گی یا نہیں۔ یہی بات وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنا چاہتے تھے۔ لیکن نہیں پوچھ پائے تھے۔ یہ پریشانی تو محمود پریشانی ہے۔ اس کا سبب شیطان کیسے ہو سکتا ہے۔
مضمون کے اعتبار سے یہ روایت وہی بات بیان کر رہی ہے، جو اوپر کی روایت میں زیر بحث آچکا ہے۔ اس میں حضرت ابو طالب کو ایمان کی دعوت کے واقعے کا حوالہ بھی ہے۔ اس سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایمان کو قبول کرنا کیا معنی رکھتا تھا۔
مسند احمد عن عثمان رضی اللہ عنہ۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ روایت: ۲۴ اور ۲۵ کے لیے دیکھیے اشراق جون ۱۹۹۹، روایت: ۲۶ کے دیکھیے اشراق جولائی ۱۹۹۹ اور روایت: ۳۶، ۳۷ اور ۳۸ کے لیے دیکھیے اشراق دسمبر ۱۹۹۹۔