HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۶۷-۷۳ (۱۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً - قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا - قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَ کُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَr قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکْرٌ عَوَانٌ بَیْنَ ذٰلِکَ فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَs قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَالَوْنُھَا قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآئُ فَاقِعٌ لَّوْنُھَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَt قَالُو ا ادْعُ لَناَ رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا وَاِنَّآ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ لَمُھْتَدُوْنَu قَالَ اِنَّہُ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا- قَالُوْا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْھَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ v 
وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْھَا- وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَw فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا - کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَx
اور ۱۷۵؎ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا :اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ (خون پر قسمیں کھانے کے لیے ۱۷۶؎ ) تم ایک گاے ذبح کرو ۔ ۱۷۷؎  وہ کہنے لگے : کیاتم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ ۱۷۸؎ اُس نے کہا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ اِس طرح کا جاہل بن جاؤں۱۷۹؎۔ اُنھوں نے کہا: اچھا ، اپنے رب کوہمارے لیے پکارو کہ وہ ہمیں بتائے کہ گاے کیسی ہونی چاہیے ۔اُس نے کہا: وہ فرماتا ہے کہ گاے نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا ، اِن کے بیچ کی میانہ ہو۔ اب جاؤ اور وہ کرو جس کا تمھیں حکم دیا جا رہا ہے۔ ۱۸۰؎ بولے :اپنے رب کو ہمارے لیے پکاروکہ وہ ہم پر واضح کرے کہ اُس کا رنگ کیسا ہو۔ اُس نے کہا :وہ فرماتا ہے کہ وہ سنہری ہو، ۱۸۱؎ شوخ رنگ، ۱۸۲؎ ایسی کہ دیکھنے والوں کو خوش آجائے ۔ بولے : اپنے رب کو پکاروکہ اچھی طرح وضاحت کے ساتھ بتائے کہ وہ (گاے) کیسی ہو ، ہمیں گایوں میں کچھ شبہ پڑ رہا ہے، اور اللہ نے چاہا تو اب ہم ضرور اُس کا پتا پا لیں گے۔ ۱۸۳؎ اُس نے کہا :وہ فرماتا ہے کہ وہ گاے محنت والی نہ ہو کہ زمین جوتتی اور فصلوں کو پانی دیتی ہو ۔ وہ ایک ہی رنگ کی ہو ،اُس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو ۔ بولے: اب تم واضح بات لائے ہو۔ ۱۸۴؎ اِس طرح اُنھوں نے اُس کو ذبح کیا اور لگتا نہ تھا کہ وہ یہ کریں گے۔ ۶۷-۷۱ 
اور یادکرو ،جب تم نے ایک شخص کوقتل کر دیا ۔ پھر (جھوٹی قسمیں کھائیں اور) اِس کا الزام ایک دوسرے پر دھرنے لگے، ۱۸۵؎اور اللہ نے فیصلہ کر لیا کہ جو کچھ تم چھپا رہے تھے، وہ اُسے ظاہر کر دے گا۔ چنانچہ ہم نے کہا :اِس (مردے) کو اُسی (گاے) کا ایک ٹکڑا مارو۱۸۶؎ (جو قسمیں کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے تو وہ زندہ ہو گیا ) ۔ اللہ اِسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔ ۱۸۷؎ ۷۲-۷۳

۱۷۵؎ یہ نقض عہد کی دوسری مثال ہے ۔اِس سے واضح ہے کہ شریعت الٰہی کے قبول کرنے میں بنی اسرائیل کی ذہنیت شروع ہی سے کیسی حیلہ جویانہ رہی ہے۔ 

۱۷۶؎ گائے کی اس قربانی کے بارے میں جس کا ذکر ان آیات میں ہوا ہے، آگے قرآن کے اشارات سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کو اِس کا حکم قسامہ ،یعنی خون پر قسمیں کھانے کے لیے دیا گیا تھا ۔تورات میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ استثنا باب ۲۱ میں ہے:

’’اگر اِس ملک میں جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو قبضہ کرنے کو دیتا ہے ،کسی مقتول کی لاش میدان میں پڑی ہوئی ملے اور یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کا قاتل کون ہے تو تیرے بزرگ اور قاضی نکل کر اُس مقتول کے گرداگرد کے شہروں کے فاصلے کو ناپیں اور جو شہر اُس مقتول کے سب سے زیادہ نزدیک ہو ،اُس شہر کے بزرگ ایک بچھیا لیں جس سے کبھی کوئی کام نہ لیا گیا ہو اور نہ وہ جوئے میں جوتی گئی ہو اور اُس شہر کے بزرگ اِس بچھیا کو بہتے پانی کی وادی میں جس میں نہ ہل چلا ہو اور نہ کچھ بویا گیا ہو ، لے جائیں اور وہاں اُس وادی میں اُس بچھیا کی گردن توڑ دیں ۔ تب بنی لاوی جو کاہن ہیں ، نزدیک آئیں کیونکہ خداوند تیرے خدا نے اُن کو چن لیا ہے کہ خداوند کی خدمت کریں اور اُس کے نام سے برکت دیا کریں اور اُن ہی کے کہنے کے مطابق ہر جھگڑے اور مارپیٹ کے مقدمے کا فیصلہ ہوا کرے ۔پھر اِس شہر کے سب بزرگ جو اُس مقتول کے سب سے نزدیک رہنے والے ہوں ، اُس بچھیا کے اوپر جس کی گردن اُس وادی میں توڑی گئی ، اپنے اپنے ہاتھ دھوئیں اور یوں کہیں کہ ہمارے ہاتھ سے یہ خون نہیں ہوا اور نہ یہ ہماری آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے۔‘‘  (۱- ۸)   

۱۷۷؎ اس حکم میں لفظ ’بقرۃ‘ جس طرح نکرہ استعمال ہوا ہے ،اُس سے صاف واضح ہے کہ بنی اسرائیل اگر متوسط درجے کی کوئی سی گاے ذبح کر دیتے تو حکم کا منشا یقیناً پورا ہو جاتا ،لیکن یہ اُن کا فساد مزاج تھا کہ اپنے سوالات سے اُنھوں نے اِس حکم کو نہایت مشکل بنا لیا ۔ 

۱۷۸؎ یعنی قاتل تک پہنچنے کے لیے قسمیں لینے کا یہ طریقہ کیا ہے ؟ اِس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تم شاید ہم سے مذاق کر رہے ہو ؟

۱۷۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’اعوذ باللّٰہ ان اکون من الجاھلین‘۔ اِن میں ’جھل‘ کا لفظ علم کے بجاے حلم کے مقابل لفظ کے طور پر آیا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ میں اِس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ دین کے معاملے میں کوئی احمقانہ بات کروں ۔  

۱۸۰؎ یعنی اِس قسم کے سوالات کر کے اپنے لیے تنگی پیدا نہ کرو اور کوئی سی گاے لے کر اُسے ذبح کر ڈالو۔ 

۱۸۱؎ گاے کے رنگوں میں زرد اور سنہرا رنگ سب سے زیادہ دل پسند سمجھا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے جب پوچھا جائے گا تو ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ پسندیدہ رنگ ہی کی ہدایت کی جائے گی۔

۱۸۲؎ اصل میں لفظ ’فاقع‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ اِسی سنہرے رنگ کی شوخی کے لیے آتا ہے ۔

۱۸۳؎ اِن الفاظ سے اُن کا یہ باطن واضح ہوتا ہے کہ اپنے سوالات کی نامعقولیت اب اُن پر بھی واضح ہو چکی تھی ۔چنانچہ اُن کا یہی احساس ہے جس کی برکت سے شاید یہ الفاظ اُن کی زبان سے نکلے اور اِن الفاظ کی برکت سے اُنھیں قربانی کے اِس حکم پر عمل کی توفیق نصیب ہوئی۔

۱۸۴؎ اصل میں ’الئٰن جئت بالحق‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’حق‘ کا لفظ عربی زبان میں کئی معنوں کے لیے آتا ہے ۔ اِن میں سے ایک معنی واضح اور بین ہونے کے بھی ہیں ۔یہاں یہ اِسی معنی میں ہے ۔ 

۱۸۵؎ اِس مفہوم کے لیے ’ادارء تم‘ کا جو لفظ اصل میں آیا ہے ،یہ درحقیقت ’تدارء تم‘ ہے۔ ادغام کے قاعدے سے اِس کی یہ صورت ہو گئی ہے۔ 

۱۸۶؎ اصل الفاظ ہیں : ’اضربوہ ببعضھا‘ ۔ اِن میں ’ ھا‘ کی ضمیر جس طرح آئی ہے، اُس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر بھی اوپر بیان کیے گئے قانون کے مطابق پہلے گاے ذبح کر کے قسامہ کا طریقہ اختیار کیا گیا،لیکن جب اُن لوگوں نے جھوٹی قسمیں کھا لیں اور ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنبیہ اور اُنھیں آخرت کی یاددہانی کے لیے یہ معجزہ دکھایا۔ قسامہ کے لیے گاے کی قربانی کا حکم چونکہ متصل پہلے ہی بیان ہوا ہے ، اِس وجہ سے ضمیر اِس طریقے سے آ گئی ہے اور اُس نے نہایت بلیغ طریقے پر اُس پوری بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے جسے ہم نے اپنے ترجمے میں کھولا ہے ۔ اِس معجزے کے بارے میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ مقتول کی لاش کو قربانی کی گاے کا ٹکڑا مارنا محض ایک علامت تھی ۔اِس سے پہلے اِس سورہ میں جن معجزات کا ذکر ہوا ہے ، وہ بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کے اشارے ہی سے نمودار ہوئے ۔معجزات کے بارے میں سنت الٰہی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالعموم اِس طرح کی کسی علامت کے ساتھ ہی نمودار ہوتے ہیں ۔

۱۸۷؎ یہ اُس یاددہانی کی تعبیر ہے جو اِس معجزے نے زبان حال سے انھیں کی۔ 

(باقی)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B