عید کا دن تھا۔ سیدہ عائشہ کے قریب ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ دف بجا کر کچھ گارہی تھی۔ سیدہ عائشہ یہ سب کچھ سن رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے۔ آپ نے یہ منظردیکھا۔ آپ نے سیدہ کو اس سے منع نہیں کیا اور قریب ہی دوسری طرف رخ کر کے لیٹ گئے۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر صدیق وہاں آئے۔ آپ نے یہ منظر دیکھا تو اس پر سخت ناگواری کا اظہار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ بدلا اور حضرت ابو بکر کو ٹوکتے ہوئے فرمایا: بھائی، عید ہے۔۔۔۔۔ انھیں کرنے دو۔ مگر اس کے باوجود سیدہ عائشہ نے اس بچی کو گھر سے بھیج دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر جب خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو وہ اپنا اظہار چاہتے ہیں۔وہ انسان کو خوشی منانے پر مجبور کرتے ہیں۔ بصورت دیگر انسان بے قرار ہوجاتا اور جھنجھلاہٹ کاشکار ہو جاتا ہے۔ خوشی منانے سے انسان کے جذبات کو تسکین ملتی ہے اور اس کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔
اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ شاعری، موسیقی اور گائیکی کا امتزاج بھی وہ چیز ہے جس سے انسان کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے اس کی حسِ جمال بیدار ہو جاتی ہے۔ افسردگی، شگفتگی میں بدل جاتی ہے۔ پژمردگی، تازگی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اور خوشی کا موقع ہو تو خوشی کی کلیاں چٹکنے لگتی ہیں۔
ہر معاشرے کے خوشی منانے کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بالعموم عید پر نئے کپڑے پہن کر دوستوں اور رشتے داروں سے مل کر، اچھے اچھے کھانے پکا کر خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا، مگر پچھلے چند برسوں سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے عید پر موسیقی سن کر خوشی منانا بھی ہمارے تمدن کا ایک حصہ بنتا جارہا ہے۔
اسلام ایک دینِ فطرت ہے۔ وہ انسان کے فطری تقاضوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا مگر اس بات کا تقاضا وہ بہرحال کرتا ہے کہ انسان اپنے ہر جذبے کے اظہار میں اس کے قائم کیے گئے حدود کا لحاظ رکھے۔
رمضان المبارک اپنی برکتیں سمیٹ کر رخت سفر باندھ رہا ہے اور عید اپنی خوشیاں دامن میں لیے جلوہ افروز ہونے کو ہے۔امید ہے عید پر موسیقی کے ذریعے سے خوشی منانے والے اس بات کا خیال رکھیں گے کہ جو شاعری وہ سن رہے ہیں، وہ غلاظت میں لتھڑی ہوئی نہ ہو، جس موسیقی سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ سفلی جذبات کو بھڑکانے والی نہ ہو، جس گائیکی سے وہ مسرور ہو رہے ہیں وہ بے ہودگی سے آلودہ نہ ہو اور جس ذریعے سے وہ یہ سب سن رہے ہیں اس کی آواز اتنی بلند نہ ہو، جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بن جائے۔
انسان معاشرے میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص شخصیت کی موجودگی یا کسی خاص صورتِ حال یا کسی خاص ماحول کی وجہ سے ایک جائز چیز بھی ناموزوں ہو جاتی ہے۔ اوپر مذکور واقعہ میں سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ملنے کے باوجود بچی کو گھر سے جو بھیجا ہے تو اس میںحسنِ معاشرت کا یہی پہلو پوشیدہ ہے۔ امید ہے عید پر خوشی منانے کے مختلف طریقے اختیار کرتے ہوئے حسنِ معاشرت کا یہ پہلو بھی ملحوظ رکھا جائے گا۔
ا س بات کو ہر وقت ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو لوگ خوشی مناتے ہوئے حدود الٰہی کا خیال نہیں رکھتے، وہ اپنے آپ کو ابدی خوشیوں سے محروم کر لیتے ہیں اور خود کو اس رستے پر ڈال لیتے ہیں جس کے اختتام پر اندیشہ ہے کہ ان کے لیے کوئی خوشی نہ ہوگی۔
ـــــــ محمد بلال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ