HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اس شمارے میں۔۔۔

دو برس پہلے ممتاز عالمِ دین مولانا سید ابو الحسن ندوی لاہور تشریف لائے۔ انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مغربی طاقتوں نے اپنی ذہانت سے بالکل صحیح سمجھا کہ محض سیاسی اور فوجی برتری سے کسی ملک کو مستقل طور پر غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے ذہنی طور پر مرعوب ہو۔ اس کے لیے انھوں نے مشتشرقین کو تیار کیا۔ بہت کم لوگوں نے اس راز کو سمجھا ہے کہ مستشرقین محض اپنے علمی ذوق کی بنا پر تحقیق وتصنیف کا کام نہیں کرتے۔ ان کے پیچھے درحقیقت سیاسی اور استعمای مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے اور کھلی آنکھوں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں مستشرقین کا ایک پورا لشکر تھا اور اب بھی ہے۔ یہ لشکر علمی طریقے سے مسلمانوں میں اسلام اور اسلام کے علم کلام کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت امتِ مسلمہ کو یہ بہت بڑا خطرہ درپیش ہے کہ اس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر احساسِ کمتری پیدا ہو رہا ہے۔

ندوی صاحب کی ان باتوں سے ا ندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مستشرقین کے اسلام کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک وشبہات کتنے خطرناک ہیں اور انھیں دور کرنا کس قدر اہم کام ہے۔ اور یہ ایک امر واقعہ ہے کہ انٹرنیٹ (Internet)کی دنیا میں بھی مستشرقین کا یہ لشکر اپنی پوری قوت کے ساتھ پہنچ چکا ہے اوراپنے شدید حملوں کا آغاز کر چکا ہے۔ اگر ہم مستشرقین کے بارے میں حسنِ ظن سے کام لیں اور یہ رائے قائم کریں کہ وہ محض علمی ذوق کی بنا پر یہ کام کر رہے ہیں تب بھی اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان کی کج فہمیاں لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔

’’اشراق‘‘ کی اس اشاعت کے سرِورق پر مدیر کے طور پر معز امجد صاحب کا نام موجود نہیں ہے۔ پچھلے دو برسوں سے معز امجد صاحب انٹر نیٹ پر مستشرقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے دینی سوالات کا جواب بھی دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بے پناہ اہمیت کے پیش نظر معز صاحب نے اس کے ذریعے سے مثبت طور پر اسلام کا تعارف کرانے کا بھی ’ارادہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ لٹریچر کی تیاری کے لیے ’’دانش سرا‘‘کے زیرِ اہتمام ’’دارا التصنیف‘‘ کے نام سے جو شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری بھی جاوید احمد صاحب غامدی نے انھیں ہی دی ہے۔ وہ انھی کاموں کے ساتھ خاص رہنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ’’اشراق‘‘ کی ادارت سے متعلق اب کوئی خدمت انجام دینا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ’’اشراق‘‘ کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اپنی نئی ذمہ داریوں کو بھی وہ ان شاء اللہ اسی حسن وخوبی کے ساتھ پورا کریں گے۔ ’’اشراق‘‘ جاوید احمد صاحب غامدی کا ذاتی رسالہ ہے۔ انھوںنے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی ادارت کے فرائض بھی اب وہ خود ہی انجام دیں گے۔

O

ہمارے دانش وروں میں یہ بحث اکثر وبیشتر ہوتی رہتی ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم سیکولر تھے یا نہیں؟دانش وروں کا ایک گروہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم سیکولر تھے۔ یہاں یہ ذہن میں رہے کہ ’’سیکولر‘‘ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ شخصیات پاکستان کے ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت کی قائل نہیں تھیں۔ ان شخصیات کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ مذہب انسان کا انفرادی مسئلہ ہے۔

مذہبی دانش ور اس کے جواب میں یہ بات ثابت کرنے کی بھرپور سعی وکاوش کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم ہرگز سیکولر نہیں تھے۔ دانش وروں کا یہ گروہ اس پر مُصر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم تو پاکستان کو اسلام کی ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے اور پاکستان کے ریاستی امور کو قرآن وسنت کا تابع رکھنے کے خواہش مند تھے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جس کی اکثریت مسلمان ہو اور جس کی حکومت بھی مسلمان ہو وہاں اس نوعیت کی بحث ایک سعی لاحاصل ہے۔ بالفرض علامہ اقبال یا قائد اعظم سیکولر تھے تب بھی ہم مجبور ہیں کہ پاکستان میں سیکولرازم نافذ نہ کریں۔اس لیے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو فرد کے پہلوبہ پہلو ریاست کے لیے بھی احکام دیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اسلام کے ایک حصے کو مانیں اور ایک حصے کا انکار کر دیں۔ کسی شخص کی یہ بات کہ میں مسلمان ہوں مگر ریاست کے معاملات میں شریعت کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، کسی طرح قابلِ فہم نہیں ہے۔

اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام ایک نظام ہے۔ یہ بات بھی محلِ نظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ریاست کے بارے میں اُس نے احکام ضرور دیے ہیں۔ یہ احکام ایسے ہیں کہ ان پرجب عمل کیا جائے گا اور ان کی جزوی تفصیلات طے کی جائیں گی تو ایک نظام آپ سے آپ بن جائے گا۔ اس بات کا بھی پورا امکان موجود ہے کہ کسی ملک کے مخصوص تمدنی حالات کے فرق کے باعث یہ نظام مختلف ممالک میں مختلف ہو۔ قانون کا فہم رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ بنیادی قانون میں یہ لچک کسی بھی قانون کی ایک بہت بڑی خوبی ہوتی ہے۔ غیر لچک دار بنیادی قوانین یا جزئیات کی حد تک جامدحتمی قوانین، تہذیب وتمدن کے معمولی فرق یا زمانے کے چند کروٹوں کے باعث بہت جلد ناقابل عمل ہو جاتے ہیں۔

اس وقت ’’دین ودانش‘‘ کے ذیل میں محترم جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’قانونِ سیاست‘‘ کی پہلی قسط شائع کی گئی ہے۔ اوپر مذکور مباحث کے معاملے میں اس عنوان کے تحت شائع ہونے والی تحقیقات کے مطالعے سے امید ہے کہ قارئین کو صحیح نقطۂ نظر قائم کرنے میں آسانی ہو گی۔

اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘ ، ’’قرآنیات‘‘ ، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’مناجات‘‘، ’’یسئلون‘‘ اور ’’خیال وخامہ‘‘ کے سلسلے حسبِ سابق موجود ہیں۔

ـــــــ محمد بلال

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B