HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حفظ مراتب

محمد تہامی بشر علوی

 

اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب میں ہمیں ایک اہم ہدایت دی ہے[1]م۔ اس اہم ہدایت کو اپنی ساری زندگی میں پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس مرکزی ہدایت کی دین میں اہمیت ایسی ہے کہ اگر اس کو نظر انداز کر دیا جائے تویہ دنیا فساد سے بھر جائے۔دنیا میں انسان رہتا ہے تو تعلق داری کی بنیاد پرہی رہتا ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے کہ وہ دنیا میں آئے تو کسی بندے کے ساتھ اس کا تعلق ہی نہ ہو اور وہ تنہا ہی اس دنیا میں آئے اور تنہا ہی چلا جائے۔ ان تعلقات کو اپنے مراتب کے لحاظ سے عملی زندگی میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اسی کو ’’حفظ مراتب‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس دنیا میں آتے ہی تعلقات وجود میں آجاتے ہیں۔ اولاد کا والدین سے تعلق ہوتا ہے، رشتہ داروں سے تعلق ہوتا ہے،دوستانہ تعلقات ہوتے ہیں ، استاذ شاگرد کا رشتہ وجود میں آجاتا ہے۔ گو کہ لوگوں کو عام طور پر اس کا احساس نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا ایک بنیادی اور بڑا تعلق خود ہمارے خالق سے ہوتا ہے اور خالق کی ہدایات ہمیں رسولوں کے ذریعے سے ملتی ہیں۔ اس وجہ سے مسلمان کا ایک بڑا تعلق خدا کے رسولوں سے بھی ہوتا ہے۔ زبانی طور پر ان دو رشتوں کا اعتراف الگ بات ہے، جب کہ عملی زندگی میں ان دو رشتوں کو کوئی اہمیت دینا بالکل الگ بات ہے۔

الغرض، ہرانسان تعلقات میں بندھا ہوا ہوتا ہے۔ ان تعلقات میں بھی جن کا وہ احساس کر رہا ہوتا ہے اور ان تعلقات میں بھی جن کا وہ احساس نہیں کر پاتا۔ ان تعلقات میں گھرے انسان کو زندگی جینے میں کیا درست طرزعمل اختیار کرنا چاہیے ؟ ان تعلقات میں ترجیح کیسے قائم کرنی ہے؟ کس تعلق کو کتنی اہمیت دینی ہے؟ جو تعلق ہمارے احساس سے محو ہو گیا، اسے کیسے واپس احساس کے پردے پر لانا ہے؟ وغیرہ۔ اس حوالے سے انسان کا غلط رویہ فساد کا سبب بن جاتا ہے۔یہ ایک بنیادی اور بڑا مسئلہ ہے کہ وہ رشتوں کا درست ادراک کر کے ان میں توازن قائم کر سکے۔

رشتوں میں مقام اور ترجیح کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ خدا نے ضروری سمجھا کہ انسانوں کو اس بارے میں بنیادی رہنمائی وہ خود فراہم کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان تمام رشتوں میں، حتیٰ کہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔ کیا مطلب؟ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں موجود تھے اور جن لوگوں کو ان کی صحبت یا ساتھ نصیب ہوا، جیسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تھے، ان سے یہی تقاضا تھا کہ وہ اپنے تمام رشتوں اورتعلق داری میں سب سے زیادہ اہمیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کودیں گے۔ لیکن آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی حیثیت میں یہاں موجود نہیں ہیں ، تو کیسے ہم ان کو اہمیت دیں گے؟ وہ جتنا عرصہ یہاں اس دنیا میں رہے تو وہ خدا کے نمایندے کی حیثیت سے ہمارے لیے خدا کی ہدایات چھوڑ کر گئے ہیں۔

ح اب ہمیں تمام رشتوں اوراپنی ذات پر بھی اُن کو ترجیح دینی ہو گی ۔ ان کا پیغام کون سا تھا ؟ آخری حج کے موقع پراپنے آخری خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک کتاب اللہ اور دوسری رسول اللہ کی سنت اور جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھو گے، تم کبھی بھی راہ ہدایت سے بھٹکو گے نہیں[2]۔ مثال کے طور پر کل ہم نے جو ایک ہدایت پڑھی تھی کہ اگر ہمیں اپنی جان کے خلاف بھی گواہی دینی پڑ جائے تو تب بھی ہم دیں گے۔ اسی طرح ہم اس موقع پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نبی کا حق اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی جو بیویاں ہوں گی، وہ تمھارے لیے ماؤں کے مانند ہو ں گی۔ مومنین پر لازم ہے کہ ازواج مطہرات کو ماؤں کا درجہ دیں۔

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد، ان کے ساتھ کسی مومن کی مناکحت درست نہیں ہے۔ پھر فرمایا: اس کے بعد جو تمھارے رحم کے رشتہ دار ہیں، یعنی باپ اور ماں کی طرف سے ددھیال اور ننھیال کے سارے رشتے حقوق میں باقی سے زیادہ قریب ہوں گے۔ آپ کا مال ہے تو مرنے کے بعد میراث تقسیم ہو گی۔ اس میں آپ کے جو قریبی رشتہ دار ہیں، پہلے ان کا یہ حق ہو گا۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ مرنے سے پہلے آپ کسی اور کے نام سارا مال شفٹ کر کے چلے جائیں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو محروم کر لیں۔ یہ اللہ کا ٹھیرایا ہوا ایک دستور ہے، اس کو توڑ کرزمین میں فساد پھیل جائے گا۔خدا کے دین میں شرک اور کفر کے بعد رشتوں کو کاٹنا بد ترین جرم قرار دیا گیا ہے۔ ایک سچے مسلمان کو چاہیے کہ وہ خدا کے اس قانون کو کبھی نہ توڑے، وہ انا کی قربانی دے کر رشتوں کو قائم رکھنے کا ایمانی تقاضا پورا کرے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی آپ سے تعلق توڑ دے تو آپ اس سے جوڑ دیں، یعنی جوڑنے میں آپ آگے رہیں گے ۔ایسا کر کے آپ کسی پر احسان نہیں کریں گے، بلکہ اپنے مانے ہوئے خدا کے قانون کا احترام کر کے اس سے اجر پائیں گے۔مومن کا معاملہ اپنے خدا سے ہوتا ہے۔ وہ ساری مخلوق کو خدا کی مخلوق کے طور پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔وہ اس لیے جوڑنے میں پہل کر لیتے ہیں کہ وہ یہ جان رہے ہوتے ہیں کہ ان کے خدا کی نظر میں ایسا عمل بہت محبوب عمل ہے۔مومن کے ہاتھوں کبھی کوئی رشتہ ٹوٹنا نہیں چاہیے۔

کوشش کریں کہ دوسرے کو بھی نہ توڑنے دیں ۔ آپ اپنی طرف سے انا کو مکمل قربان کر کے رشتہ جوڑے رکھنے کو ترجیح دیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ رشتہ داروں نے ایک دوسرے کویہی اہمیت دینی ہے ۔ اور وہ آپس میں زیادہ ایک دوسرے کے حق دار ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ مہاجرین اور انصار میں وقتی طور پر مواخات قائم کی گئی تھی۔ وہ حقیقی رشتہ دار نہیں تھے ، لیکن مہاجر بے گھر مسلمانوں کے لیے انصارسگے بھائی بنادیے گئے تھے۔ یہ وقتی طور پر ایک مجبوری بن گئی تھی کہ چونکہ مہاجر بے گھر ہو گئے تھے، اس لیے انصار نے انھیں سگا بھائی بنا کرمیراث میں بھی جگہ دے دی ۔ یہ ایک وقتی معاملہ تھا۔ اس کے علاوہ جو وقتی قرابت ہوتی ہوگی، اس پر حقیقی رشتہ داروں کو ترجیح حاصل ہو گی، ان کے زیادہ حقوق ہو ں گے ۔ ہاں، اگر آپ کے جو قریبی رشتہ دار ہیں، ان کے علاوہ آپ کے کوئی تعلق دار ہیں، وہ مستحق ہیں یا ان کے آپ پر کوئی احسانات ہیں، آپ ان کے ساتھ بھلائی چاہتے ہیں،تو آپ کو انصاف کے ساتھ ان کے لیے وصیت کر لینے کی اجازت ہو گی۔ آپ اپنے مال و جایداد میں سے ان کے لیے بھی کوئی حصہ وقف کر سکتے ہیں، مگر یہ سب ناانصافی اور قرابت داروں کو محروم کرنے کی غرض سے نہیں ہونا چاہیے۔

بعض لوگ اپنی اولاد سے تنگ آ کر انھیں عاق کر دیتے ہیں۔

 بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ ان کی اپنی اولاد کوئی نہیں ہوتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ بھائی سے ہماری ٹھیک نہیں بنتی تو وہ کسی اور عزیز کو مرنے سے پہلے اپنی جایداد شفٹ کر دیتے ہیں تاکہ ان کے قرابت دار محروم ہو جائیں۔ یہ ناانصافی ہے، اس طرح کے نا انصافی پر مبنی طریقے نہیں اپنانے چاہییں۔ قرابت داروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے خود یہ بتا دیا ہے کہ کس کس کا حق کتنا ہو گا[3]۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کا یہ اٹل قانون طے کر کے مومنین سے اس کی پابندی چاہی ہے، اور اس تنبیہ کے ساتھ چاہی ہے کہ یہ خدا کے ٹھیرائے ہوئے حدود ہیں جنھیں توڑنا تو درکنار توڑنے کی غرض سے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔

خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ ہم نے اپنی اس زندگی گزارنے میں خدا کا رشتہ اپنے سامنے رکھنا ہے۔ ہر رشتے کو اسی کی ہدایات کے مطابق نبھانا ہو گا۔چنانچہ خدا کی ہدایت کے مطابق ہمیں سب رشتوں میں مرکزی حیثیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی ہے۔

م اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ہمیں ہر حال میں اپنی ذات پر اپنے رشتہ داروں پر بھی ان کے حکم و رضا کو ترجیح دینی ہو گی ۔ہم نے رشتہ داروں کی خاطر ان کا حکم نہیں چھوڑ دینا ۔ہم نے اپنی خواہشات کے مطابق یا اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نظر انداز نہیں کرنا۔ ہم نے ان کی سچائی کی تعلیمات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے۔ اس کے بعد ہم پراپنی جان کا حق ہے، اور اس کے بعد ہمارے قرابت داروں اور رشتہ داروں کا ہے۔یوں یہ سلسلہ بتدریج بڑھتا ہوا پڑوس اور سارے انسانوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔

بندوں کے حقوق کی بنیادیں خدا نے واضح طور پر بتا دیں۔ حقوق العباد کا قصر اسی پر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔انسانی حقوق کی اس بنیاد کوہلا دیا جائے تو انسان راہ عدل سے ہٹ جائیں گے، جس کے نتیجے میں رشتے پامال ہوں گے اورزمین میں فساد بپا ہو جائے گا۔خدا کے بندوں کی حق تلفی فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ مومن کبھی ان خدائی ہدایات اور ایمانی تقاضوں سے غافل نہیں رہ سکتا۔

____________

[1]۔۳۳: ۶۔ ’اَلنَّبِيُّ اَوْلٰي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗ٘ اُمَّهٰتُهُمْﵧ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰي بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّا٘ اَنْ تَفْعَلُوْ٘ا اِلٰ٘ي اَوْلِيٰٓـِٕكُمْ مَّعْرُوْفًاﵧ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا‘۔

[2]۔  موطا امام مالک، رقم۳۳۳۸۔’تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا: کِتَابَ اللہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّهِ‘۔

[3]۔  النساء ۴: ۱۱ ، آیت میراث۔


B