سازش کا نظریہ اِس معنی میں درست نہیں کہ آدمی اپنے تمام مسائل و اِدبار کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کر دے اور پھر یہ سمجھے کہ اب ہمارا کام صرف اُنھیں مطعون کرنا ہے۔ اِسی طرح سازش کی عدم موجودگی کا نظریہ بھی خلاف واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک دو طرفہ معاملہ ہے۔ کوئی سازش صرف اُسی وقت موثر ہو سکتی ہے جب زیر سازش فرد یا گروہ کے پاس اُس کے تدارک کا سامان موجود نہ ہو۔ سازش اصل میں حسد اور عدوان ہی کا دوسرا نام ہے ،جو بالکل ایک بدیہی ظاہرہ ہے۔ایسی حالت میں شیاطین الانس والجن، دونوں کے ’کید‘ (سازش) سے واقفیت اور اُس کے لیے ضروری تدبیر لازمی ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے (یوسف ۱۲: ۵)۔ اِسی طرح مختلف انداز سے بتایا گیا ہے کہ یہ شیاطین معروف معنوں میں صرف ’شیاطین الجن ‘ نہیں،بلکہ وہ اپنے ’قبیلہ‘، ’ذریت‘، ’اولیا‘ اور ’شیاطین الانس‘ کی شکل میں سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ شیاطین الجن اُنھی کے تعاون اور تحالف سے اپنے بہت سے کام کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰي بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا.(الانعام ۶: ۱۱۲)
’’(یہ معاملہ صرف تمھارے ساتھ نہیں ہے)۔ ہم نے انسانوں اورجنوں کے اَشرار کو اِسی طرح ہر نبی کا دشمن بنایا۔ وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کوپر فریب باتیں اِلقا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ.(الفرقان ۲۵: ۳۱)
’’(یہ جس طرح تمھارے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اے پیغمبر)، ہم نے اِسی طرح مجرموں میں سے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں۔‘‘
وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰ٘ي اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ.(الانعام ۶: ۱۲۱)
’’ اور متنبہ رہو کہ شیاطین اپنے ایجنٹوں کو القا کر رہے ہیں کہ وہ (اِس معاملے میں بھی) تم سے جھگڑیں۔‘‘
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًاﵐ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِﵐ وَقَالَ اَوْلِيٰٓـُٔهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ.(الانعام ۶: ۱۲۸)
’’اے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا۔ چنانچہ انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا۔‘‘
اِسی طرح قرآن میں ’کید‘ اور ’مکر‘ کے الفاظ بھی بار بار استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملاحظہ ہو:
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَﵧ وَيَمْكُرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُﵧ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ. (الانفال ۸: ۳۰)
’’اُس وقت کو یاد رکھو، (اے پیغمبر)، جب منکرین تمھارے معاملے میں سازش کر رہے تھے کہ تمھیں قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا (ملک سے) نکال دیں۔ وہ یہ سازش کر رہے تھے اور اللہ بھی اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر فرمانے والا ہے۔‘‘
وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَا٘ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ.(سبا ۳۴: ۳۳)
’’دبے ہوئے لوگ متکبرین کو جواب دیں گے کہ نہیں، بلکہ تمھاری دن رات کی چالیں تھیں جو یہاں تک لے آئی ہیں، جب کہ تم ہمیں سمجھاتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور اُس کے شریک ٹھیرائیں۔‘‘
اِسی طرح ارشاد ہوا ہے:
قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰ٘ي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًاﵧ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ. (یوسف ۱۲: ۵)
’’جواب میں اُس کے باپ نے کہا: بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، ایسا نہ ہو کہ وہ تمھارے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
اِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا. وَّاَكِيْدُ كَيْدًا. (الطارق ۸۶: ۱۵ - ۱۶)
’’یہ ایک چال چل رہے ہیں اور میں بھی ایک چال چل رہا ہوں۔‘‘
جس طرح سازش کی نفی کا نظریہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے، اُسی طرح یہ روش بھی انتہائی مہلک ہے کہ آدمی دوسروں کو اپنے تمام تر مسائل کا ذمہ دار بتا کر نہ خود اُس کے متعلق متنبہ رہے اور نہ اُس کا حقیقی تدارک کرنے کی کوشش کرے۔اِس کے برعکس، ایک مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر (أن یکون بصیرًا بزمانه) رہتے ہوئے اِس معاملے میں خدا اور رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر پوری طرح عمل کرے۔ قرآن و سنت کے مطابق، یہ ہدایات اصلاً دو ہیں:
۱۔ علم نافع
۲۔ اخلاق حسنہ
علم نافع سے مراد قرآن وسنت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق، تمام مفید اور ضروری علم کا حصول ہے۔ اِسی طرح اخلاق حسنہ سے مراد معروف قسم کی ’’خوش اخلاقی‘‘ نہیں۔اخلاق ایک گہرا اور وسیع لفظ ہے۔ اِس سے مراد تمام اعلیٰ انسانی اوصاف ہیں۔جیسےتواضع، ضبط نفس، شعوری بلندی، عقلی پختگی، سخت کوشی، جرأت، دیانت، بااصول زندگی اور انسانی ہم دردی، وغیرہ۔اہل ایمان کی نسبت سے قرآن میں اِنھی صفات کو ایمان و عمل صالح اور صبروتقویٰ کے جامع ترین الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہاں ’عمل صالح ‘سے مراد صرف معروف قسم کے مراسم (نماز وروزہ و قربانی و حج) نہیں ہیں،قرآن میں ’عمل صالح‘سے مراد ہر وہ عمل ہے جو انسان کی بھلائی اور خدا کی مرضی کے تحت کیا گیا ہو۔ یہاں جس طرح نماز اور تلاوت ایک ’عمل صالح‘ ہے، اُسی طرح دوسرے کار ہاے خیر، انسانی ہم دردی اور فطرت کا مطالعہ بلاشبہ ایک ’عمل صالح‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہاں صرف دو روایات کا مطالعہ کافی ہو گا۔ اِس کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’لأن یمشي أحدُکم مع أخیه في قضاء حاجة، وأشار بإصبعه، أفضل من أن یعتکف في مسجدي ھذا شھرَین‘[1]، یعنی تم میں سے کسی شخص کا اپنے بھائی کی حاجت برآری کے لیے نکلنا میری اِس مسجد (مسجد نبوی) میں دوماہ کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہے۔ اِسی طرح آپ کا ارشاد ہے: ’تفکُّرُ ساعةٍ، خیرٌ مِن قیامِ لیلةٍ‘ [2] ، یعنی ایک لمحے کا غور وفکر رات بھر کے قیام سے بہتر ہے۔
مذکورہ ارشادات رسول سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہو جاتی ہے کہ خدا کے دین میں صرف معروف مراسم کا نام عبادت اور عمل صالح نہیں، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام ’ کارہاے خیر‘ [3] اِس میں شامل ہیں ـــــــــ اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے آدمی شیاطین جن و انس کے تمام حربوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔
(علی گڑھ، ۲۸ / فروری ۲۰۲۰ء)
ـــــــــــــــــــــــــ