[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
۱۹ھ(۲۱ھ:طبری):کسکر کے حاکم حضرت نعمان بن مقرن نے خراج کی وصولی کے بجاے جہاد میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی تو خلیفۂ دوم حضرت عمر نے انھیں نہاوند جانے کی ہدایت کی جہاں ڈیڑھ لاکھ عجمی افواج جمع تھیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان اس وقت کوفہ میں اورحضرت ابو موسیٰ اشعری بصرہ میں تھے، حضرت عمر نے انھیں بھی الگ الگ خط لکھ کر نہاوند پہنچنے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ کی کمان میں عراق کے سرداروں کی بھاری فوج طرز(یا ماہ) کے مقام پر حضرت نعمان سے جا ملی۔ حضرت نعیم بن مقرن ان کے ساتھ کوفہ سے آئے، حضرت عبداللہ بن عمر مدینہ سے پہنچے۔ تیس ہزار پر مشتمل حضرت نعمان کی اس فوج میں حضرت جریر بن عبداللہ، حضرت عمرو بن معدیکرب، حضرت طلیحہ بن حویلد اور حضرت قیس بن مکشوح بھی شامل تھے۔ نہاوند پہنچنے پر سرحدی علاقوں میں مقیم مسلمانوں کے دستے نے اپنے سردار انوشق کی سربراہی میں حضرت نعمان کا استقبال کیا۔ حضرت نعمان نے نعرۂ تکبیر سے ان کا جواب دیا۔ انھوں نے سامان اتارنے اور خیمے نصب کرنے کا حکم دیا۔ چودہ ممتاز سرداروں کے لیے خیمے لگائے گئے، حضرت حذیفہ بن یمان،حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت ربعی بن عامر،حضرت جریر بن عبداللہ اور حضرت وائل بن حجر ان میں شامل تھے۔
سامان اتارنے کے بعد حضرت نعمان نے جنگ چھیڑی اورحضرت عمر کی ہدایت کے مطابق اعلان کیا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو حذیفہ بن یمان کو سپہ سالار بنا لینا،اگر وہ بھی راہ خدا میں کام آ جائیں تو جریر بن عبداللہ (یانعیم بن مقرن)کواپنا کمانڈر چن لینا،ان کی شہادت کے بعدقیس بن مکشوح کوکمان سونپ دینا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت نعمان نے اس فہرست میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کا نام بھی شامل کیا۔ بدھ اور جمعرات، دو دن کی لڑائی میں کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جمعہ کے دن ایرانی اپنے قلعے اور خندقوں میں گھس گئے اور بات چیت کرنے کوکہا،حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا گیا، لیکن ایرانی کمانڈر نے دھمکانے کے علاوہ کچھ نہ کہاتو وہ بھی قتال و غلبہ کی دھمکی دے کر واپس آ گئے۔ حضرت نعمان نے اپنے سالاروں سے مشورہ کیا تو انھیں حضرت طلیحہ کی تجویز پسند آئی کہ گھڑ سوار دستے خندقوں پر کھڑے ہو کر تیر اندازی کریں ،پھر پسپا ہو جائیں ، اس طرح ایرانی ان کا تعاقب کرتے ہوئے قلعے اور خندقوں سے باہرنکل آئیں گے۔ حضرت نعمان نے حملہ کرنے کے لیے زوال کا انتظار کیا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ کی سنت تھی، جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد انھوں نے دو بار نعرۂ تکبیر بلند کیا اورسپاہیوں کو اسلحہ پکڑ کر تیار ہونے کا حکم دیا،مقدمہ پر حضرت نعیم بن مقرن،میمنہ و میسرہ پر حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت سوید بن مقرن کے دستے تھے،حضرت قعقاع بن عمرو سواروں کے اور حضرت مجاشع بن مسعود پیادوں کے سالار تھے۔ تیسرے نعرے پر حضرت قعقاع بن عمرو نے تیر اندازی کر کے حملے کا آغازکیا۔ ہر فرد چاہتا تھا کہ فتح یا شہادت سے سرفراز ہو۔ دوسری روایت کے مطابق مسلمان فوجیوں اور ان کے گھوڑوں کے پاؤں میں لوہے کے وہ کانٹے چبھے جو ایرانیوں نے راہ میں بکھیر رکھے تھے تو انھوں نے واپس پلٹنے کی چال چلی۔ ایرانیوں نے انھیں پسپا ہوتے دیکھا تو کانٹے صاف کر کے تعاقب میں نکل آئے۔ شدید لڑائی میں حضرت نعمان کا گھوڑا میدان جنگ میں بکھرے ہوئے خون سے پھسلا اور وہ گر گئے۔ اسی اثنا میں دشمن کا ایک تیر ان کو آلگا اور انھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بھائی حضرت سوید نے کپڑا ڈال کر ان کا جسم چھپا لیا اور علم دوسرے بھائی حضرت نعیم بن مقرن نے تھام لیا، ان سے حضرت حذیفہ بن یمان نے لے لیا اور حضرت نعمان کی ہدایت کے مطابق کمان سنبھال لی۔ رات گئے ایرانی فوج کو حضرت حذیفہ کی سالاری میں شکست ہوئی، اسلامی فوج نے بھگوڑے ایرانیوں کا پیچھا کیا، لیکن تاریکی کی وجہ سے راستہ بھول گئی۔ ادھر مفرور فوج اسبیذہان کے مقام پر پہنچی تو وہاں جلتی ہوئی آگ میں گرگئی۔ میدان جنگ کے تیس ہزار مقتولین کے علاوہ جلنے والوں کی تعداداسی ہزار (دوسری روایت: ایک لاکھ) تھی۔ ابن کثیر نے آگ کے مقتولین کا ذکر نہیں کیا، وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک لاکھ سے زائد ایرانی آس پاس کی وادیوں میں گر کر ہلاک ہوئے۔ ایرانی سالار فیرزان کو حضرت نعیم بن مقرن نے ہمدان کی طرف بھاگتے ہوئے ایک گھاٹی میں پکڑ کر مارا۔
ر مسلمان شہر نہاوندمیں داخل ہوئے اور تمام مال واسباب قبضے میں لے لیا۔ آتش کدے کے منتظم ہربذنے پناہ دینے کی شرط پر شاہ ایران کا خزانہ حضرت حذیفہ کے سپرد کیا۔ انھوں نے ان جواہرات کو خمس کے ساتھ خاص حضرت عمر کے لیے رکھ لیا اور باقی مال غنیمت سپاہیوں میں بانٹ دیا، سوار کے حصے میں چھ ہزار آئے اور پیادے کو دو ہزار ملے۔ حضرت حذیفہ نے مرج القلعہ، غضی شجراور فوجی مراکز میں متعین اہل کاروں کو بھی مال غنیمت میں سے حصہ دیا، کیونکہ انھوں نے لڑنے والی فوج کی حفاظت و معاونت کا کام کیا تھا۔ حضرت سائب بن اقرع جواہرات لے کر مدینہ پہنچے توحضرت عمر نے فوراً حضرت حذیفہ کے پاس واپس بھیج دیے اور انھیں بھی فوج میں بانٹنے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ اس وقت ماہ میں تھے،جواہرات کی ٹوکر یاں جامع کوفہ میں رکھی گئیں، عمرو بن حریث مخزومی نے ان کے بیس لاکھ درہم ادا کیے، یہ رقم بھی مجاہدین میں تقسیم کر دی گئی۔ بعد میں عمرو نے یہی جواہرات ایرانیوں کے ہاتھ چالیس لاکھ میں فروخت کیے۔
محرم ۱۹ھ:شکست خوردہ ایرانی فوج کا ایک حصہ ہمدان پہنچا،اسلامی فوج کے گھڑ سوار ان کا تعاقب کرر ہے تھے۔ وہ شہر میں داخل ہوئے توگھڑ سوار وں نے انھیں دبوچ لیا اور ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا۔ یہ دیکھ کر حاکم خسروشنوم نے امان مانگی او ر ہمدان اور دستبی کے شہروں کی طرف سے صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ ہمدان کے زیر ہونے کے بعد اہل ماہین نے حضرت حذیفہ بن یمان کوخط لکھ کرصلح کی درخواست کی۔ ان سے صلح کے بعدحضرت حذیفہ نے ماہ دینار کو فتح کیا۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے: نہاوند کے محاصرے کے دوران میں نو ایرانیوں کا گروپ قلعہ سے باہر نکل کر جنگ کر نے لگا۔ سماک بن عبید نے انھیں دعوت مبارزت دی اور ایک ایک کر کے آٹھ جنگجوؤں کو قتل کر دیا۔ انھوں نے نویں شخص دینار کی جان بخشی کی اور اسلحہ چھین کراسے قید کر لیا۔ اس نے کہا کہ تم نے مجھے قتل نہ کر کے احسان کیا ہے، مجھے اپنے امیر کے پاس لے چلو۔ دینار کو حضرت حذیفہ کے پاس لے جایا گیا۔ اس نے سماک کی بہادری کی تعریف کی او رخراج دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس طرح یہ علاقہ اس کے نام سے موسوم ہو کر ماہ دینار ہو گیا۔
ماہ دینار کے ساتھ حضرت حذیفہ نے جومعاہدہ کیا،اس کی عبارت یہ تھی:ہم اہل ماہ دینار کو جان و مال اور اراضی پر پناہ دیتے ہیں ،ان پر حملہ کریں گے نہ ان کے مذہبی قوانین میں تبدیلی کی جائے گی جب تک وہ مسلمان حکام کو جزیہ دیتے رہیں گے۔ وہ مسافر کو راستہ بتائیں گے اور اپنے پاس سے گزرنے والے مسلمان سپاہیوں کو قیام و طعام مہیا کریں گے۔ اگر انھوں نے دھوکا دینے کی کوشش کی تو ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہم سے ساقط ہو جائے گی۔
ابن اثیر کہتے ہیں:رے اور دینور بھی حضرت حذیفہ کے ہاتھ فتح ہوئے۔ الجزیرہ کی فتح میں وہ شریک ہوئے۔
۲۱ھ:فتح نہاوند کے بعد حضرت حذیفہ بن یمان سرزمین دجلہ کے (tax collector)کے منصب پر لوٹ آئے۔
۲۲ھ:فتح نہاوند کے بعداہل آذربائیجان نے آٹھ لاکھ درہم سالانہ جزیہ کے عوض حضرت حذیفہ بن یمان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا۔ حضرت عمر کی شہادت کے بعدانھوں نے جزیہ اداکرنا چھوڑ دیا۔ ۲۴ھ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان نے حضرت ولید بن عقبہ کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو انھوں نے آذربائیجان اور آرمینیا پر پھر فوج کشی کی۔ نتیجے میں آذربائیجان کے باشندے صلح پر مجبور ہوئے اور آٹھ لاکھ سالانہ خراج دینے کے معاہدے کی تجدید کی۔ طبری کی روایت کے مطابق آذربائیجان جانے سے پہلے حضرت حذیفہ بن یمان رے کی مہم پر جا رہے تھے۔ اہل کوفہ کی کمان ان کے پاس تھی،انھیں اور حضرت سعید بن العاص کو حضرت عبدالرحمٰن بن ربیعہ کی مدد کے لیے باب بھیجا،وہاں سے دونوں آذربائیجان پہنچے۔ حضرت حبیب بن مسلمہ (حبیب الروم) باب کی حکمرانی چاہتے تھے۔ حضرت حذیفہ اور ان کے بعد آنے والوں نے انھیں اس منصب پر برقراررکھا۔ ۲۴ھ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری نے رے فتح کیا، جب یہاں کے لوگوں نے حضرت حذیفہ بن یمان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
حضرت حذیفہ حضرت عمر کی وفات تک مدائن کی گورنری پر فائز رہے۔ حضرت عمر نے ان کے پروانۂ تقرری میں لکھا:میں تمھارے پاس حذیفہ بن یمان کو بھیج رہا ہوں ،اس آدمی کا عظیم الشان مرتبہ ہے۔ اس کی بات سنو اور مانو اور جومانگے اسے دے دو۔ مدائن کے بڑے بڑے لوگ ان کے استقبال کو آئے، وہ ایک خچر (یاگدھے) پر پالان ڈالے، ٹانگیں ایک طرف لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔ ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے میں ہڈی(دوسری روایت:نمک کی ڈلی) تھی۔ لوگوں نے پوچھا: امیر کون ہیں ؟ انھیں بتایا گیا:یہی ہیں ۔ انھوں نے سلام کیا تو حضرت حذیفہ نے روٹی اور ہڈی ان میں نمایاں نظر آنے والے سردار کوتھما دی۔ ان کی نگاہ دوسری طرف ہوئی تو اس سردار نے روٹی اور ہڈی یا ڈلی پھینک دی (یا اپنے خادم کو دے دی)۔ حضرت حذیفہ نے حضرت عمر کا پروانہ پڑھ کر سنایاتو انھوں نے پوچھا: آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟کہا: میں اپنا کھانا اور اپنے گدھے کی گھاس کا تقاضا کرتا ہوں ۔ پھر کہا:میں تمھیں فتنوں کے مقامات سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون سے ہیں ؟کہا: امرا کے دروازے،جو ان کے ہاں جاتا ہے،جھوٹی تعریفیں کرتا ہے۔ کچھ مدت گزری تو حضرت عمر نے انھیں مدینہ بلایا۔ ان کے پہنچنے کا وقت ہوا تو حضرت عمر ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے حضرت حذیفہ کو اسی حال میں دیکھا جس میں گئے تھے تو سامنے آئے، انھیں چمٹا لیا اور کہا: تومیرا بھائی ہے اور میں تیرا بھائی ہوں ۔
مدائن کی گورنری کے زمانہ میں حضرت حذیفہ نے ایک اہل کتاب خاتون سے نکاح کر لیا۔ اس پر حضرت عمر نے انھیں اس خاتون کو طلاق دینے کا حکم بھیجا۔ حضرت حذیفہ نے جواب تحریر کیا: میں اس وقت تک طلاق نہ دوں گاجب تک مجھ پر یہ واضح نہ کریں کہ آیامیرا عمل حلال تھا؟اور آپ کس وجہ سے طلاق دینے کا حکم دے رہے ہیں ؟حضرت عمر نے لکھا:تمھارا نکاح حلال ہے، لیکن عجمی عورتوں میں اس قدردل ربائی ہے کہ وہ تمھاری دوسری بیویوں پر غالب آ جائیں گی۔ تب حضرت حذیفہ نے اس عورت کو طلاق دے دی اورجواب دیا:بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔
حضرت حذیفہ نے نصیبین میں سکونت اختیار کی تووہاں شادی کی۔
۳۰ھ میں حضرت سعید بن العاص کی سربراہی میں فوج خراسان کی طرف روانہ ہوئی۔ حضرت حذیفہ بن یمان،حضرت حسن،حضرت حسین،حضر ت عبداللہ بن عباس،حضرت عبداللہ بن عمر،حضر ت عبداللہ بن عمرو بن العاص اورحضرت عبداللہ بن زبیر اس معرکے میں شامل ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عامر بصرہ سے چلے اور حضرت سعید سے پہلے ابر شہر پہنچ گئے۔ حضرت سعید کو پتا چلا تو انھوں نے رخ بدل لیا،پہلے قومس پہنچے جہاں کے باشندگان فتح نہاوند کے بعد حضرت حذیفہ بن یمان کے ہاتھ پہلے ہی صلح کا معاہدہ کر چکے تھے۔ ان کا اگلا پڑاؤجرجان تھا،ان سے دو لاکھ خراج سالانہ کا عہد نامہ لکھوانے کے بعد وہ طبرستان کے ساحلی شہر طمیسہ آئے۔ یہاں کے لوگ آمادہ بہ جنگ ہوئے تو حضرت سعید بن العاص نے کھڑے ہو کر پوچھا:کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلوٰۃ الخوف ادا کی ہے؟حضرت حذیفہ بولے: میں نے۔ چنانچہ ان کے کہنے کے مطابق حضرت سعید نے ایک گروپ کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسرے گروپ کو دوسری اور دونوں گروپوں نے رہ جانے والی رکعت ادا نہ کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دوسری رکعت بھی ادا کی گئی (ابوداؤد، رقم۱۲۴۵۔ نسائی، رقم ۱۵۳۰۔احمد، رقم۲۳۳۸۹)۔ کچھ دیر قتال کے بعد اہل طمیسہ قلعہ بند ہوئے،پھر امان کی درخواست کی۔ حضرت سعید نے اس شرط پر امان دی کہ وہ ان کا ایک آدمی زندہ چھوڑدیں گے۔ قلعے کا دروازہ کھلا تو حضرت سعید نے ایک شخص کے علاوہ سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور مال و دولت پر قبضہ کر لیا۔
حضرت حذیفہ ہر جمعہ کو مدائن سے کوفہ آتے، ان کا گدھاسبک رفتار تھا۔
۳۴ھ کوفہ حضرت عثمان کے خلاف سازشوں کا مرکز بن گیا۔ یزید بن قیس نے مسجد کوفہ کو ٹھکانا بناکر عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں سے رابطے شروع کیے۔ حضرت قعقاع بن عمرو نے اسے مسجدسے نکالا تو اس نے گھرمیں بیٹھے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ جمعہ کے روز اشتر بن مالک مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوگیا اور لوگوں کو حضرت عثمان کے مقرر کردہ گورنر حضرت سعید بن العاص کے خلاف اکسانے لگا۔ حضرت ابومسعود انصاری اور حضرت حذیفہ بن یمان اس موقع پر موجود تھے۔ حضرت ابومسعود نے حالات کی سنگینی کو دیکھ کر کہا: بخدا، لگتا ہے کہ بہت خون ریزی ہو گی۔ حضرت حذیفہ نے کہا: واللہ، اس واقعہ کے نتیجہ میں ایک قطرہ خون نہ بہے گا(مسلم، رقم۷۲۷۱۔احمد، رقم۴۸ ۲۳۳)۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اشتر اور یزید کوفہ سے نکل کر جرعہ کے مقام پر رکے تو حضرت سعید ان سے ملے اور کہا: تمھیں کوئی مسئلہ تھا تو مجھ سے اورامیر المومنین عثمان سے رابطہ کرتے۔ پھر وہ مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان کو بتایا کہ لوگ ابوموسیٰ اشعری کو گورنر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ حضرت عثمان نے فوراًانھیں ہٹا کر حضرت ابو موسیٰ کو گورنر بنا دیا۔ انھوں نے حضرت حذیفہ کوجنگ باب میں شامل ہونے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ نے باب کے مقام پرتین جنگیں لڑیں ۔ تیسری جنگ کے موقع پر انھیں حضرت عثمان کی شہادت کی خبر ملی۔ انھوں نے بددعا کی:اے اللہ، عثمان کے قاتلوں پر، ان سے جنگ کرنے والوں پر اور ان سے عداوت رکھنے والوں پر لعنت بھیج۔
حضرت حذیفہ بن یمان بتاتے ہیں:میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدل جا رہے تھے۔ آبادی کاکوڑا خانہ آیا تو آپ نے اس کی دیوارکے پیچھے کھڑے ہو کر پیشاب کیا اورمجھے پیچھے کھڑے رہ کر نگرانی کا حکم دیا۔ پھر پانی لانے کو کہا، اس سے وضو فرمایا اورموزوں پر مسح کیا (بخاری، رقم ۲۲۵۔ مسلم، رقم ۶۲۵۔ ابوداؤد، رقم ۲۳۔ ترمذی، رقم ۱۳۔نسائی، رقم۱۸۔احمد، رقم۲۳۲۴۸)۔
ایک صبح حضرت حذیفہ بن یمان کا سامنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حالت میں ہوا کہ وہ جنبی تھے۔ آپ ہر ملنے والے صحابی کو چھو کردعا دیتے تھے، اس لیے انھوں نے رخ موڑا اور غسل کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر بتایاکہ جنابت لاحق ہونے کی وجہ سے وہ ڈرتے تھے کہ کہیں آپ ان کو چھو نہ لیں ۔ آپ نے فرمایا:مسلمان پلید نہیں ہوتا ( مسلم، رقم۸۲۵۔ابوداؤد، رقم۲۳۰۔نسائی، رقم۲۶۸۔ابن ماجہ، رقم۵۳۵۔احمد، رقم۲۳۴۱۶)۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی کا پٹھا پکڑ کر فرمایا:تہ بند یہاں تک ہونا چاہیے،اگر تمھارا دل نہیں مانتاتو ذرا نیچے باندھ لو،دل پھر بھی نہ چاہے تو ٹخنوں سے نیچے باندھنے کا تمھیں حق نہیں (ترمذی، رقم۱۷۸۳۔نسائی، رقم۵۳۳۱۔ابن ماجہ، رقم۳۵۷۲۔احمد، رقم۲۳۲۴۳)۔
حضرت حذیفہ بن یمان بیان کرتے ہیں:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ فرمایا: گنوکتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں ۔ ہم نے کہا:کیا آپ دشمنوں کی طرف سے ہم پر کوئی آفت آنے کا خدشہ رکھتے ہیں؟ ہم چھ سے سات سو (مسلم،بخاری: پندرہ سو)تک ہیں ۔ فرمایا:تمھیں کیا معلوم،کسی مصیبت میں نہ پڑ جاؤ۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں: ایسا ہی ہوا، ہم پرایسی آزمایش آئی کہ ہم میں سے کچھ لوگ نماز بھی چھپ چھپ کر پڑھنے لگے(بخاری، رقم۳۰۶۰۔مسلم، رقم ۳۷۷۔ابن ماجہ، رقم۴۰۲۹۔احمد، رقم۲۳۲۵۹)۔ نووی کہتے ہیں: چھ سات سووالی روایت میں مدینہ شہر کے مرد مراد ہیں اور مضافات کے مردوں کو شامل کرکے یہ تعداد پندرہ سو ہو جاتی ہے۔ شارحین مسلم کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق یا غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر یہ ارشاد فرمایا۔ صحابہ کو آپ کی وفات کے بعد عہد عثمانی میں ظاہر ہونے والے فتنوں میں یہ آزمایش پیش آئی جب لوگ اس لیے چھپنے لگے تھے کہ انھیں بھی جنگ و جدال میں گھسیٹ نہ لیا جائے۔ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں: حجاج بن یوسف کے دور میں یہ آزمایش شدید تر تھی، جب حضرت حذیفہ وفات پا چکے تھے۔
ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے سوال کیا کہ نفاق کیا ہے؟تو جواب دیا:یہ کہ تو اسلام کی باتیں کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم،میرے ساتھیوں کو بھول گیا ہے یاوہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر دنیا ختم ہونے تک کے تین سو فتنہ گر لیڈروں میں کوئی ایسا نہیں کہ آپ نے اس کا نام،ولدیت اور قوم بیان نہ کی ہو(ابوداؤد، رقم۴۲۴۳)۔
جنگ تبوک میں منافقین کی کارروائی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ سے پوچھا:کیا تم نے منافقین کو یا ان میں سے کسی کو پہچانا؟ حضرت حذیفہ نے کہا:میں نے فلاں فلاں کی سواری پہچان لی۔ رات کی تاریکی تھی، میں ان پر حملہ آور ہوا تو وہ نقاب اوڑھے ہوئے تھے،اس وجہ سے پہچانے نہ جا سکے۔ آپ نے حضرت حذیفہ کو ان بارہ یا چودہ آدمیوں کے نام بتا دیے اور صیغۂ راز میں رکھنے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ کے اس مشورے پر کہ انھیں قتل کرا دیا جائے۔ آپ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو مروا دیتے ہیں (احمد، رقم۲۳۶۸۲)۔ ابن اسحاق کہتے ہیں:آپ نے حضرت حذیفہ کو بھیج کر ان سب کو بلایا اور ان کی سازش سے آگاہ کیا۔ آپ نے صحابہ کی اس تجویز سے اتفاق نہ کیا کہ ان کے قبائل کو ان کا سر قلم کرکے پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ آپ نے بد دعا فرمائی: اللہ ان کو دبیلہ(لفظی معنی:مصیبت،پیٹ کی بیماری، پھوڑا) کی مار پڑے۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ،یہ دبیلہ کیا ہے؟فرمایا: آگ کا شعلہ ہے جو ہر منافق کے دل کی رگ پر لگے گا اور اسے ہلاک کر دے گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ بارہ منافق جنت میں ہر گز داخل نہ ہوں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے، آٹھ کے شر سے تم مسلمانوں کو دبیلہ بچادے گا،یہ آگ کا چراغ (سلگتا ہوا پھوڑا) ہو گا جو ان کے کندھوں سے نمودار ہو گا اور چھاتیاں توڑکر باہر نکل آئے گا (مسلم، رقم ۷۱۳۷)۔
زبیر بن بکار نے تبوک کی گھاٹی میں سازش کرنے والے منافقین کے نام اس طرح گنوائے:(۱)معتب بن قشیر،غزوۂ احد کے موقع پراس نے کہا تھا:’لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا‘،’’اگر معاملہ ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی ہوتا تویہاں نہ مارے جاتے‘‘(آل عمران ۳: ۱۵۴)۔ (۲) ودیعہ بن ثابت، جو اپنی مجلسوں میں اللہ و رسول کا مذاق اڑاتا تھا،اس کی باز پرس کی گئی تو کہا: ’اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ‘،’’ہم تو ہنسی مذاق اوردل لگی کر رہے تھے‘‘(التوبہ ۹: ۶۵)۔ (۳)جِد بن عبداللہ، اس کے بارے میں جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا:یہ شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کا کلیجہ گدھے کا ہے،منافقین کوآپ کی باتیں بتاتا ہے۔ (۴)حارث بن یزید، وہ شخص تھا جس نے تبوک سے واپسی پر راہ میں آنے والی وادی مشقق میں قطرہ قطرہ کر کے ٹپکنے والے چشمے وشل کی طرف لپک کر پانی پی لیاجسے چھونے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ آپ پہنچے توپانی خشک ہوچکا تھا،آپ نے منبع پر اپنا دست مبارک رکھا توپانی پھر جاری ہو گیا۔ (۵) اوس بن قیظی منافقین کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھاجس نے جنگ خندق کے موقع پر بہانہ سازی کر کے راہ فرار اختیار کی:’وَيَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌﵨ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍﵑ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا‘،’’ان منافقوں کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر اجازت طلب کرتا رہا کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ۔ ان کے گھر چنداں خطرے میں نہ تھے،یہ تو(محاذ جنگ سے) فرار حاصل کرنا چاہتے تھے‘‘ (الاحزاب۳۳: ۱۳)۔ (۶) جلاس بن سوید، یہ بعد میں نفاق سے تائب ہوا۔ (۷)سعد بن زرارہ،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نفرت پھیلاتا تھا، حالاں کہ عمر میں سب منافقین سے چھوٹا تھا۔ (۸)قیس بن قہد۔ (۹)سوید۔ (۱۰) داعس، ان دونوں نے جنگ تبوک کے موقع پر عبداللہ بن ابی کو وسائل فراہم کیے تاکہ وہ لوگوں کوجنگ میں حصہ لینے سے روکے۔ (۱۱) قیس بن عمرو۔ (۱۲)زید بن لصیت، یہ دونوں بنوقینقاع سے تعلق رکھتے تھے، اصل میں یہودی تھے، لیکن اسلام کا دکھاوا کرتے رہے۔ (۱۳)سلامہ بن حمام بھی بنو قینقاع سے تھا(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۰۱۷)۔
ابن اسحاق کی روایت کے مطابق گھاٹی کے منافقوں کے نام یہ ہیں: عبداللہ بن ابی،سعد بن ابی سرح، ابوحاضر اعرابی، عامر،ابوعامر،جلاس بن سوید، مجمع بن جاریہ،فلیح تمیمی، حصین بن نمیر،طعمہ بن ابیرق، عبداللہ بن عیینہ اورمرہ بن ربیع۔ ان میں سے عبداللہ بن ابی نے تبوک کا رخ ہی نہیں کیا (دلائل النبوۃ،بیہقی ۵/ ۲۵۸)۔
حضرت عمر نے حضرت حذیفہ کو قسم دے کر پوچھا کہ میرا نام ان منافقین میں تو شامل نہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں دی؟حضرت حذیفہ نے بتایا کہ نہیں ،ساتھ کہا کہ میں آپ کے بعد کسی کو بری قرارنہ دوں گا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والا نہ بن جاؤں ۔ حضرت عمر نے یہ بھی پوچھا: کیا میرے عمال میں سے کوئی منافق ہے؟حضرت حذیفہ نے کہا: ہاں ایک ہے،لیکن نام نہ بتایا۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت عمر نے اس عامل کو معزول کر دیا، گویا انھیں پتا چل گیا تھا۔ حضرت عمر کا طریقہ تھا کہ جب کوئی میت جناز ے کے لیے لائی جاتی تو دیکھتے کہ حضرت حذیفہ موجود ہیں ، اگر وہ ہوتے توجنازہ پڑھا دیتے اور اگر حضرت حذیفہ نہ ہوتے تو وہ نماز جنازہ میں شامل نہ ہوتے۔
[باقی]
_________