HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

حدیث: ’’میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی‘‘ کا ایک جائزہ

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِيْ سَفِيْنَةُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’الخِلاَفَةُ فِي أُمَّتِيْ ثَلاَثُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذٰلِكَ‘‘ ثُمَّ قَالَ لِيْ سَفِيْنَةُ: أَمْسِكْ خِلاَفَةَ أَبِيْ بَكْرٍ، وَخِلاَفَةَ عُمَرَ، وَخِلاَفَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِيْ: أَمْسِكْ خِلاَفَةَ عَلِيٍّ قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلاَثِيْنَ سَنَةً، قَالَ سَعِيْدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِيْ أُمَيَّةَ يَزْعُمُوْنَ أَنَّ الْخِلاَفَةَ فِيْهِمْ؟ قَالَ: كَذَبُوْا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوْكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوْكِ. [1]
’’سعید بن جمہان سفینہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافت میری امت میں تیس سال تک رہے گی۔ پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی۔ پھر سفینہ نے مجھ سے کہا شمار کرو ابوبکر کی خلافت، عمر کی خلافت اور عثمان کی خلافت۔ پھر مجھ سے کہا: شمار کرو علی کی خلافت۔ سعید کہتے ہیں کہ ہم نے شمار کیا تو اس مدت کو تیس سال پایا۔ سعید نے کہا: میں نے سفینہ سے کہا کہ بنوامیہ کا خیال ہے کہ خلافت اب ان میں ہے۔ سفینہ نے کہا:بنو زرقا جھوٹ بولتے ہیں، وہ تو بدترین بادشاہ ہیں۔‘‘

پورے ذخیرۂ حدیث میں اس حدیث کا مدار فقط ایک راوی، سفینہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ روایت کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ سعید بن جمہان رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے ان کا نام پوچھا تو انھوں نے بتانے سے انکار کر دیا (تاريخ دمشق، ابن عساكر ۴/ ۲۶۷)۔ اصحاب رجال نے ان کے متعدد نام لکھے ہیں، مگر کسی پر جزم کا اظہار نہیں کیا[2]۔

سفینہ خود صحابیت کے مدعی ہیں۔ وہ خود کو خادم رسول اور مولیٰ رسول (آزاد کردہ غلام) باور کراتے ہیں۔ ان کے بقول حضرت ام سلمہ نے انھیں اس شرط پر خرید کر آزاد کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کریں گے۔ تاہم پورے ذخیرۂ حدیث اور سیرت میں ان کا اور ان کی خدمات کا کہیں کوئی تذکرہ سواے ان کے اپنے بیان کے، نہیں ملتا۔ ان کی صحبت رسول اور ان کے بیان کردہ واقعات کی تصدیق کسی صحابی کی طرف سے موجود نہیں ہے۔

اپنے بارے میں ان کے بیانات عجائبات پر مشتمل ہیں۔ ان کے بقول ان کا نام یا لقب، سفینہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھا تھا۔ یہ اس موقع پر ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو ایک سفر کے دوران میں اپنا زائد سامان اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ چنانچہ سب کے سامان کو ایک کپڑے میں ڈال کر ان کو اٹھانے کے لیے کہا گیا۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سفینہ، یعنی کشتی یا بحری جہاز کا لقب دیا۔ کہتے ہیں کہ اس دن سات اونٹوں کا سامان بھی ہوتا تو میں اٹھا لیتا[3]۔

نیز فرماتے ہیں کہ وہ ایک بحری سفر میں تھے کہ ان کی کشتی ٹوٹ گئی۔ یہ سمندر میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ ایک تختہ ہاتھ آ گیا۔ یہ کسی طرح کنارے آ لگے۔ وہاں ایک شیر سے ان کا سامنا ہوا۔ انھوں نے شیر سے کہا کہ اے ابو الحارث(شیر کالقب) میں رسول اللہ کا مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہوں۔ شیر نے تابع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں راستہ دکھایا اور پھر اپنے اندازمیں الوداع کہہ کر رخصت ہوگیا[4]۔

افسانوی طرز کےعجائبات کی جو خصوصیات ہوتی ہیں، وہ سب ان کے بیان کردہ واقعات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ بیتے واقعات کے سنین، مقامات کے نام اور دوسرے تعینات بیان نہیں کرتے جس سے واقعات کی تصدیق کی جا سکے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ کس سفر میں تھے جس میں ’’سفینہ‘‘ نام دیے جانےکا واقعہ پیش آیا۔ وہ سمندر اور ساحل کون سا تھا جہاں طوفان اور شیر والا واقعہ پیش آیا[5]۔

دوسرےیہ کہ خلافت سے متعلق یہ حدیث انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت نہیں کی، یعنی یہ نہیں کہا کہ انھوں نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، جس سے واضح نہیں ہوتا کہ انھوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے یا کسی سے سن کر بیان کیا ہے۔

تیسرے یہ کہ اس حدیث کا موضوع سیاسی ہے۔ سیاسی موضوعات ہر ایک کی دل چسپی کا موضوع ہوتے ہیں۔ لیکن اس حدیث کا علم سواے سفینہ کے اور کسی صحابی کو نہیں ہوا، حتیٰ کہ دور فتن میں مشاجرات کے دوران میں بھی کسی صحابی، بشمول خلفا، نے اس حدیث کو پیش کر کے فریقین کے حق و ناحق پر استدلال نہیں کیا۔ کیا یہ بات ایسی تھی کہ سفینہ کے علاوہ کسی اور کو معلوم نہیں ہو سکتی تھی؟

چوتھے یہ کہ یہ حدیث چونکہ ایک پیشین گوئی تھی، اس لیے اسے اپنے مصداق کے وقوع سے پہلے بیان ہونا چاہیے تھا تاکہ دلیل یا تنبیہ بنتی، لیکن یہ پہلی بار بیان میں تب آئی جب چاروں خلفا کا زمانہ گزر چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ سفینہ نے اس حدیث کو مشاجرات کے دوران میں کیوں بیان نہیں کیا؟ کیوں اتنا عرصہ انھوں نے اسے چھپائے رکھا؟ یہ ایسی بات ہے جو اس کی صداقت کو بالکل مشکوک بنا دیتی ہے۔

پانچویں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۱ ؍ہجری میں ہوئی۔ تیس سال شامل کریں تو خلافت راشدہ کو ۴۱ ؍ ہجری تک جاری رہنا چاہیے تھا، مگر حضرت علی کی شہادت ۴۰؍ ہجری میں ہوئی۔ چنانچہ سفینہ نے برسوں کا جو شمار کرایا، وہ بھی درست نہیں۔

ایک منفرد روایت ہونے کی وجہ سے یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کا تقابل اسی مفہوم کی دیگر روایات سے کیا جا سکے جو اس کی تصدیق کر سکیں۔

محدثین نے کلام رسول کی معرفت کی بنیاد پر یہ اصول طےکیا ہے کہ جس حدیث میں مستقبل کے بارے میں متعین سال یا مدت کا ذکر ہو، وہ موضوع ، یعنی گھڑی ہوئی ہے۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل کے بارے میں تعینات کے ساتھ پیشین گوئی نہیں فرماتے تھے۔ ایسی تعینات بعد کے واضعین حدیث کا طریقہ تھا۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی بعض روایات میں بارہ خلفا کے آنے کی خبر دی گئی ہے جو اسلام کا بول بالا کریں گے[6]، یہ حدیث زیر بحث حدیث کے مخالف ہے جو خلافت یا معیاری خلافت کو چار خلفا تک محدود بتاتی ہے۔ بارہ خلفا والی حدیث سند کے اعتبار سے قوی ہے۔نیز ان بارہ خلفا میں کسی شخص اور مدت کی تعیین اور تحدیدنہیں کی گئی ہے۔ عدم تعیین کا یہ اسلوب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی پیشین گوئیوں میں کلام رسول کےمناسب ہے۔

جن محدثین نے سفینہ کی اس حدیث کو صحیح یا حسن کہا، معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حدیث کے راوی سعید بن جمہان کے بھروسے پر اور سفینہ کو صحابی گمان کر کے ایسا کہا،حالاں کہ سعید بن جمہان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ ثقہ تھے یا نہیں، جب کہ کچھ محدثین سعید بن جمہان سے وہی روایت قبول نہیں کرتے جو سفینہ سے مروی ہو کہ اس میں منکر اور عجائب پائے جاتے ہیں[7]۔ معلو م ہوتا ہے کہ سعید کو سفینہ کی عجائب بیانی متاثر کر گئی تھی اور انھوں نے تحقیق کے بغیر ہی ان کی باتیں آگے بیان کر دیں۔

یہ حدیث چونکہ سیاسی نوعیت کی ہے اور سیاسی حرکیات میں یہی ہوتا ہے کہ جس فریق کو جہاں سے جو چیز اپنی حمایت میں ملے، اسے بلا تنقید فوراً قبو ل کر لیا جاتا ہے، اس لیے یہ حدیث اپنی انفرادیت، مشکوک سند اور دیگر شبہات کے باوجود شہرت پا گئی۔ بعد کے ادوار میں اسے قبول عام حاصل ہو گیا اور یہ حق و باطل کو طے کرنے کا معیار قرار پا گئی۔ تاہم خود صحابہ اس سے ناواقف تھے اور ان میں سے کسی ایک نے بھی اسے بطورخبر، استدلال یا حوالے کے پیش نہیں کیا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔  ترمذی، رقم ۲۲۲۶۔

[2]۔  يُقَالُ: اسمه مهران بْن فروخ، قاله الواقدي، ويُقال: اسمه نجران، قاله مُحَمَّد بْن سعد. ويُقال: اسمه رومان. ويُقال: رباح. ويُقال: قيس، قاله ابن البرقي. ويُقال: شنبه بْن مارفنه ويُقال: إن اسمه عُمَير، حكاه ابن عَبد الْبَرِّ. ويُقال: عبس، حكاه أبو نعيم. ويُقال: سُلَيْمان، حكاه العسكري. ويُقال: أيمن، ويُقال: طهمان، حكاه السهيلي، ويُقال غير ذلك(تہذيب الكمال فی اسماء الرجال ۱۱/ ۲۰۵)۔

[3]۔   مسند أحمد ط الرسالة ۳۶/ ۲۵۶۔

[4]۔   الجامع الصحيح للسنن والمسانيد۱۶/ ۲۳۵۔

[5]۔  حضرت سفینہ سے متعلق ان نکات کی طرف توجہ ڈاکٹر طٰہٰ حامددلیمی کے توسط سے ہوئی۔

[6]۔  لَا يَزَالُ الْإِسْلَامُ عَزِيزًا إِلَى اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيفَةً»، ثُمَّ قَالَ كَلِمَةً لَمْ أَفْهَمْهَا، فَقُلْتُ لِأَبِي: مَا قَالَ؟ فَقَالَ: «كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ»(مسلم ۳/ ۱۴۵۳)۔

[7]۔  وَقَال ابن مَعِين - في رواية: روى عن سفينة أحاديث لا يرويها غيره وأرجو أنه لا بأس به(تہذيب الكمال فی اسماء الرجال ۶/ ۴۳)۔

وَقَال أبو أحمد بْن عدي : روى عن سفينة أحاديث لا يرويها غيره، وأرجو أنه لا بأس بِهِ، فإن حديثه أقل من ذٰلِكَ(تہذيب الكمال فی اسماء الرجال ۱۰/ ۳۷۷)۔

وَقَال أَبُو عُبَيد الآجري: هُوَ ثقة إن شاء الله، وقوم يضعفونه ، إنما يخاف ممن فوقه - وسمي رجلا، يَعْنِي: سفينة(تہذيب الكمال فی اسماء الرجال ۱۰/ ۳۷۷)۔

B