HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

دعوت دین میں انتقام

اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُﵧ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ. وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖﵧ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ. وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ. اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ.(النحل۱۶: ۱۲۵ - ۱۲۸)
’’تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگارکے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو حکمت کے ساتھ اوراچھی نصیحت کے ساتھ، اوران کے ساتھ اس طریقے سے بحث کروجوپسندیدہ ہے۔ یقیناً تیراپروردگارخوب جانتاہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اوروہ ان کوبھی خوب جانتاہے جوہدایت پانے والے ہیں ۔ اگرتم لوگ(کسی وقت) بدلہ لوتواتناہی بدلہ لوجتناتمھارے ساتھ کیاگیاہے، لیکن اگرصبرکروتوصبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہترہے۔ (اے پیغمبر)، صبرکرو۔ اورتمھیں یہ صبرخداکے تعلق ہی سے حاصل ہوسکتاہے۔ تم ان پر غم نہ کرواورجوچالیں یہ چل رہے ہیں، ان سے تنگ دل نہ ہو۔ بے شک، اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقویٰ اختیارکیااورجوخوبی سے عمل کرنے والے ہیں۔ ‘‘

اپنی اصل کے اعتبارسے دین کی دعوت پروردگارعالم کی طرف بلانے کاایک عمل ہے، اس لیے یہ اپنے داعی سے حددرجہ حساسیت اورسنجیدگی کاتقاضاکرتی ہے کہ جس کااگرلحاظ نہ رکھاجائے توزندگی بھر کی محنت ضائع ہونے اورجس دین کا نمایندہ ہوکر دعوت دی جا رہی ہو، خوداُس پربھی حرف آنے کاخطرہ لاحق ہوجاتاہے۔ اس میں وہ وقت توبہت سخت امتحان کاہوتاہے جب مخاطبین ہرطرح کی ہم دردی اور خیرخواہی کی ناقدری کرتے ہوئے ایذارسانیوں اورحددرجہ کی نازیبااورپست حرکتوں پراترآتے ہیں اور داعی کے سامنے یہ اہم سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اب کون ساطرزعمل اختیارکرے۔ کیاوہ ان اقدامات کا ترکی بہ ترکی جواب دے یاپھر اپنے مشن کی خاطر ان سے مستقل طورپر درگذرکرتارہے؟ اس فیصلے میں چونکہ بہت کچھ افراط وتفریط واقع ہوجاتاہے، اس لیے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں اس معاملے کوذراتفصیل سے بیان کردیاجائے ۔ یہ تفصیل تین عنوانات کے تحت بہ خوبی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ انتقام، جوازاور مطلوب:

۱۔ انتقام

اصل میں ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ‘ کے جملے میں ایک فعل ’عَاقَبْتُمْ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ صرف اپنے ابتدائی معنی، یعنی باری آنے پرکسی سے معاملہ کرنے کے معنی میں نہیں آیا، بلکہ اس کا مطلب باری آنے پرکسی سے انتقام لینے کاہے۔ اگرچہ لفظ کے اعتبار سے اس کااطلاق ہرطرح کے اقداما ت کاجواب دینے پرکیاجاسکتا ہے، مگریہاں اس میں ’عقاب‘، یعنی سزاکے پہلوکاغلبہ ہونے کی وجہ سے اس کااستعمال محض زبانی یاقولی قسم کی تعدی کے بجاے خاص اُس اقدام کابدلہ لینے پرکیاگیا ہے جوجان ومال اورعزت وآبرو کو عملی طور پر نقصان دینے والاکوئی معاملہ ہو، اور ’بِمِثْلِ ‘ میں پائے جانی والی مماثلت بھی اسی صورت میں زیادہ مناسب اور موزوں دکھائی دیتی ہے۔ تاہم یہ ایک لطیف پہلوہے اورطالب علموں سے دقت نظراورخدا کی کتاب کے اچھے ذوق کاتقاضاکرتا ہے۔ قرآن نے جوبات یہاں ’عَاقَبْتُمْ ‘ کا فعل لاکر خفیف طریقے سے بیان کی ہے، وہی بات بہرحال ایک دوسرے مقام پر ’الْبَغْيُ‘ کے اسم کے ذریعے سے کھول کربھی بتادی ہے کہ جس کااستعمال ہم جانتے ہیں کہ عام طورپر اسی دوسری نوع کی زیادتی کے لیے کیاجاتاہے۔ چنانچہ ارشادہواہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَا٘ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ. (الشوریٰ ۴۲ :۳۹)
’’اور وہ کہ جوانتقام اُس وقت لیتے ہیں جب ان پر زیادتی کی جائے۔ ‘‘

زیر بحث آیات کاسیاق بھی، اگرغورکیاجائے تواسی تخصیص کی طرف رہنمائی کرتاہے اورکسی طرح ممکن نہیں ہو پاتا کہ اس میں زبانی نوعیت کی کسی تعدی کومرادلیا جاسکے۔ آخریہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ پہلے مسلمانوں کوحکمت ودانائی، اچھی نصیحت اوراعلیٰ درجے کی اخلاقی اقداراپنانے کی تلقین کی جائے اوراس کے فوری بعدیہ کہہ دیاجائے کہ تمھارامخاطب اگر بد زبانیوں پر اترآتاہے توتمھیں پوراحق حاصل ہے کہ تم بھی اُسی گھٹیا اور پست سطح پراترواوراُس کو اُسی کی زبان میں کرارا جواب دو؟

بلکہ چندایک پہلواوربھی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس قسم کے اقدامات کابدلہ لینے کاذکریہاں موجودنہیں مانا جاسکتا۔ وہ اس طرح کہ ان آیات میں بیان کردہ اچھے اوصاف اپنانے کی ہدایت نہ تووقتی تدبیرکے طورپردی جارہی ہے اورنہ یہ تصنع اوردکھاوے اورمحض کسی مطلب برآری کے لیے ہی دی گئی ہے۔ ’اُدْعُ ‘ کے مفعول کا لفظوں میں مذکورنہ ہونابتاتاہے کہ یہ مستقل نوعیت کی حکمت عملی کابیان ہے اور ’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ ‘ میں تقویٰ اوراحسان کا ذکربتارہاہے کہ یہ کسی وقتی غرض کے لیے دی گئی ہدایات نہیں ہیں کہ جب کام بنتانظرنہ آئے توداعی اخلاقیات کامصنوعی چغا اتار کر ہر قسم کی بداخلاقیوں کاجواب دینے کے لیے اکھاڑے میں اترآئے۔ بہ ادنیٰ تامل معلوم ہوجاتاہے کہ ان اوصاف کوداعی کی شخصیت کالازمی حصہ بنا دینا پیش نظر ہے، اور انسانی شخصیت کے اس پہلوکوتوسبھی جانتے ہیں کہ وہ لمحہ بھرمیں بدل جانے والی کوئی چیزنہیں کہ ایک وقت میں وہ اعلیٰ ترین اقدارکی پابندہواوردوسرے وقت میں وہ اُن سے مکمل طورپرتہی دامن ہوکر لوگوں سے اُن کی بدزبانیوں کابدلہ لیتی پھرے۔

دراصل، دعوت کے میدان میں یہ صرف عملی نوعیت کے اقدامات ہوتے ہیں کہ جن کابدلہ لینا جائز قرار پاتا ہے اوراس پر کسی طرح کے اخلاقی سوالات بھی پیدانہیں ہوتے۔ تاہم، یادرہے کہ اس میں بھی لازم قرار دیا جاتا ہے کہ ہمیشہ اخلاقی دائرے اوردین میں بیان کردہ منہیات سے پرہیز کرتے ہوئے ہی ان کاجواب دیاجائے ۔ اخلاقی دائرے میں رہنے اورمنہیات سے پرہیزکرنے کی یہ شرط چاہے لفظوں میں مذکورنہ ہو، مگر محض اس وجہ سے لازم قراردی جاتی ہے کہ بدلہ لینے کی یہ اجازت ایک مسلمان کودی جارہی ہے کہ جس کے ہاں یہ بات پہلے سے ایک مسلمہ اصول کی حیثیت رکھتی ہے[1]۔

اب جہاں تک زبانی اقدامات کامعاملہ ہے تواسے بھی اچھی طرح سے سمجھ لیاجاناچاہیے۔ عام طورپراس کی دوصورتیں دیکھنے کوملتی ہیں : ایک مخاطبین کی طرف سے وقوع پذیرہونے والی وہ باتیں جولغویات کے زمرے میں آتی ہیں ۔ مثال کے طورپر وہ تنقید برائے تنقیدکرتے ہیں ، کج بحثی پر اترآتے اورداعی کی ہر بات میں مین میکھ نکالنے لگتے ہیں ۔ اوراسی طرح بے جاقسم کے اعتراضات اٹھاتے، تعصبات کاشکارہوتے اور ہار جیت کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ یادرہناچاہیے کہ اس طرح کی تمام باتوں کاجواب دیناتوبہت دور کی بات، ان میں سرے سے ملوث ہونا ہی ممنوع قراردے دیاگیاہے۔ قرآن میں ایمان والوں کایہ بنیادی وصف بتایاگیاہے کہ وہ اس طرح کی چیزوں سے مستقل طورپراِعراض کرتے ہیں ، اور اگران چیزوں پرکہیں ان کاگزرہو جائے تووہ اپنی حیثیت اورسنجیدگی پرکبھی سمجھوتا نہیں کرتے، بلکہ نہایت وقار اور تمکنت کے ساتھ ان سے پہلوتہی کرجاتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا. (الفرقان۲۵ : ۷۲)
’’اور جب کسی بے ہودہ چیزپران کا گزر ہوتا ہے تووقارکے ساتھ گزرجاتے ہیں ۔ ‘‘

بلکہ یہ بھی بتایاہے کہ اس طرح کے مواقع پراپنے جذبات سے مغلوب ہوکرلوگوں سے الجھ جانا، اصل میں شیطان کے کچوکے کا شکار ہوجاناہے کہ جس کالازمی نتیجہ یہی نکلتاہے کہ شیطان کی معیت آدمی کانصیب ٹھیرتی اور اللہ کی رحمتیں ا س سے روٹھ کرکہیں دورچلی جاتی ہیں ۔ اس سنگین صورت حال کا خدا کی پناہ میں آئے بغیر علاج ہو جانا کسی طرح بھی ممکن نہیں، چنانچہ ایک جگہ نصیحت فرمائی ہے:

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِﵧ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ. (الاعراف۷ : ۲۰۰)
’’اور اگرتمھیں کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آجائے تواللہ کی پناہ چاہو۔ وہ سب کچھ سننے والااورجاننے والاہے۔ ‘‘

ان اقدامات کی دوسری صورت وہ ہوتی ہے کہ جن میں داعی کواشتعال دلانے کی پوری پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طورپرسخت سست کہنا، مذاق اڑانا، طنزوتعریض کے تیرچلانا، دوسروں کے سامنے اس کی تضحیک کرنا اورایسا انداز اپناناکہ سب کے سامنے اس کی بے عزتی ہو۔ اوراس سے آگے بڑھ کردشنام طرازیاں کرنا اور تنابزبالالقاب، یعنی داعی کوالٹے سیدھے ناموں سے پکارنا۔ سواس طرح کی تمام باتوں کاجواب دینے[2] کے بجاے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اشتعال میں آئے گااورنہ کبھی غضب ناک ہوگا، بلکہ ہمیشہ عفو و درگذر کامعاملہ کرے گا۔ ظاہرہے، اس قدرضبط نفس کامظاہرہ کرنے کے لیے بڑااعلیٰ ظرف چاہیے، ذیل کی آیت میں ’هُمْ‘  کی ضمیر کا اظہار کرکے اس کمال درجے کے رویہ کواپنانے پراُس کی قدریوں بڑھائی ہے:

وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ. (الشوریٰ ۴۲ : ۳۷)
’’اور جب غصہ آجائے تووہ درگذر کر جاتے ہیں۔‘‘

۲۔ جواز

مذکورہ بالا آیات میں انتقام کی کس قسم کاجوازبیان ہواہے، یہ جان لینے کے بعداب اس جواز کی نوعیت بھی بہت اچھی طرح سے واضح ہو جانی چاہیے، اوراس کے لیے ذیل کی چند باتیں کافی حدتک معاون ہوسکتی ہیں :

ایک یہ کہ ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ‘ میں آنے والا ’وَاِنْ‘ اصل میں استدراک کو ظاہر کر رہا ہے، مگردیکھ لیاجاسکتا ہے کہ اس کامستدرک منہ پیچھے لفظوں میں مذکورنہیں ہے۔ اگرفعل ’عَاقَبْتُمْ‘ اور سیاق کلام کی رعایت رکھی جائے تواس کامقام ’اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ‘ کے جملے سے پہلے بنتاہے اوراسے ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:’’تم اسی طرزکواپنائے رہوچاہے، یہ تمھارے خلاف کوئی بھی اقدام کریں ۔ ‘‘ مزیدیہ کہ ’اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ‘ میں علم سے مراداس کالازم ہے اور گم راہوں کاذکرمقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اصلاًانھی کامعاملہ یہاں بیان کرنامقصودہے۔ یہ چیزیں اگرسامنے رہیں تو اب ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ ‘ میں بیان کردہ جوازکی نوعیت یہ بنتی ہے:’’لیکن اگرتم پھربھی بدلہ لیناچاہوتو۔ ‘‘اورپوری بات یوں ہوگی: ’’اے پیغمبر، تم حکمت اوراچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دواوران کے ساتھ بحث بھی اچھے طریقے سے کرواور(اپنے اس طرزکو بہرصورت اپنائے رکھو، چاہے یہ لوگ کچھ بھی اقدام کریں )، اس یقین کے ساتھ کہ تمھارارب سب سے واقف ہے، اس لیے وہ خودہی گم راہوں سے بدلہ لے گا اور جواس کی ہدایت کو ماننے والے ہوئے انھیں وہ اس کاصلہ بھی دے گا۔ لیکن اگرتم پھربھی بدلہ لیناچاہوتو... ‘‘۔

دوسرے یہ کہ ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ‘ کاجملہ یہاں انتقام کا جواز بتانے کے لیے ہرگز نہیں لایاگیا، بلکہ قرآن کے پیش نظریہ ہے کہ جولوگ اپنا بدلہ لینے کے لیے تیارہو گئے ہیں، اُن پراچھی طرح سے واضح کردیاجائے کہ وہ ہمیشہ برابرکا معاملہ کریں گے اورکبھی بھی حدسے تجاوزنہ کریں گے ۔

تیسرے یہ کہ ’وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ‘ میں جب فرمایاہے کہ بہتریہی ہے کہ تم صبر کرو تو یہ اصل میں محض یہ بتانانہیں ہے کہ انتقام لینے اورنہ لینے کے دوعملوں میں سے ایک زیادہ اچھاہے، بلکہ اس سے مقصودیہ بتاناہے کہ ان میں سے پہلے عمل کاجواز تمھاری ذاتی حیثیت کااعتبارکرتے ہوئے بیان کیاجارہاہے، وگرنہ دینی اعتبارسے اچھا، بہرصورت یہ دوسراعمل ہی ہے۔ قرآن میں اس نوع کی اوربھی مثالیں دیکھ لی جاسکتی ہیں، مثلاً سود کے متعلقہ آیات میں  ’وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ‘ کہہ کرواضح فرمایاہے کہ یہ مال چونکہ تمھارا اپنا ہے، اس لیے ذاتی حیثیت میں تمھارے لیے اس کاواپس لینابالکل جائزہے، مگردینی اوراخلاقی لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ تم تنگ دست کا قرض بالکل ہی معاف کردو۔

چوتھی بات یہ کہ ’اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ ‘ سے جوآیات شروع ہوئی ہیں، ان میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا ہے، مگرہم جانتے ہیں کہ یہ امت کے امام کی حیثیت سے ہے، چنانچہ اس میں دی جانے والی ہدایات اصل میں سب مسلمانوں کے لیے ہیں ۔ مگر یہ واحدکے صیغے سے ہونے والاخطاب ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ‘ پرآکرجمع کے صیغے میں بدل جاتاہے اورایک جملۂ معترضہ کے بعد ’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘ میں واحدکے صیغہ کے ذریعے سے یہ آپ کی طرف پھرسے واپس آجاتاہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جواز کایہ امر نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے اورنہ اُن لوگوں سے جوآپ کی امامت میں مقتدی کے طورپر کھڑے رہنااپنی سعادت سمجھتے ہوں ۔

پانچویں بات یہ ہے کہ انتقام کی اجازت دینے کے بعد ’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘ فرمایاہے۔ بہ ادنیٰ تامل سمجھ لیا جا سکتا ہے کہ اس کاعطف ’’تم اسی طرزکواپنائے رہو، چاہے یہ تمھارے خلاف کوئی بھی اقدام کریں ‘‘ کے اُس جملے پرہے جویہاں حذف کردیاگیاہے۔ گویا معطوف علیہ میں پایاجانے والاصبرکاابتدائی مفہوم اس مقام پر آکر اپنے اتمام، یعنی برداشت کرنے کے معنی تک پہنچ گیاہے۔ سواس لحاظ سے دیکھاجائے تو یہاں آپ کوبدلہ لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی، بلکہ ’وَاصْبِرْ ‘ کے الفاظ میں بہ اصرارفرمادیاہے کہ بعض لوگ چاہیں تواپنا انتقام ضرور لے لیں، مگر آپ اورآپ کے متبعین کوبہرحال اس سے بچنااوربرداشت کرتے رہناہے۔

یہ تمام باتیں اگرسامنے رہیں توواضح ہوجاتاہے کہ اس آیت میں بیان ہونے والاجوازمثال کے طورپر، تیمم اور قصرجیسانہیں ہے کہ جو مستقل طورپررخصت کادرجہ رکھتے اوراپنی ذات میں نیکی کے کاموں میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ جوازخالص انسانی سطح کی رعایت کرتے ہوئے اوریہ کہتے ہوئے بیان کیاہے کہ تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو تمھاری مرضی ہے، وگرنہ اس سے بچ جانابہت اچھاہے اور اس سے آگے بڑھ کرآپ کے لیے اس کی ممانعت بھی کردی گئی ہے کہ ’وَاصْبِرْ ‘ ، یعنی تم بس صبرکرو۔ سادہ لفظوں میں اسے ’’جوازِممنوع‘‘ کہا جاسکتا ہے، اور ظاہرہے کہ جواز کی یہ مخصوص قسم محض فقہی ذہن کی گرفت میں آجاناکسی طورممکن نہیں کہ اس کے لیے قرآن کے اسالیب کی کماحقہٗ واقفیت ہونا بہت ضروری ہے۔

۳۔ مطلوب

اب یہ بات بھی سمجھ لی جانی چاہیے کہ اس معاملے میں خدااپنے بندوں سے کس قسم کے رویے کی توقع رکھتا ہے۔ دعوت کے میدان میں ہرطرح کے گرم سردحالات کے باوجودمتحمل مزاج رہنا، ایک مشکل امر ہے، مگر ’وَاصْبِرْ ‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس کے ہاں مطلوب یہی ہے کہ ہم طاقت رکھنے کے باوجود ان زیادتیوں کابدلہ ہرگز نہ لیں ۔ اس عدم انتقام کاحاصل کیاہوسکتاہے، اسے یوں واضح فرمایاہے :’وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ‘۔

اس میں دیکھ لیاجاسکتاہے کہ صبرکرنے والوں کے لیے یہ توارشادہواہے کہ وہ ان کے لیے بہت اچھاہے، مگر یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ کس اعتبارسے، اوراس ابہام ہی کی وجہ سے اس میں عمومیت کامعنی پیدا ہو گیا ہے کہ یہ دنیااورآخرت، دونوں کے لحاظ سے ہے۔ ضمیرکے بجاے چونکہ ’الصّٰبِرِيْن‘ کااسم لایاگیاہے، اس وجہ سے اس کے دنیوی فائدوں میں دعوت کوپہنچنے والافائدہ بدرجۂ اتم آگیاہے کہ اسی کے لیے یہ لوگ اس قدر مصائب جھیلتے ہوئے آخرکار صابرین کہلائیں گے۔ بلکہ غورکیاجائے توصبرکے عمل پرجوآخرت میں اجرملنے کا وعدہ کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی توہوتی ہے کہ اس کے نتیجے میں دین کی دعوت کوفائدہ حاصل ہونے کاامکان ہوتا ہے، نہ کہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اذیتوں کوبرداشت کرنااپنی ذات میں کوئی بہت اچھاکام ہے۔

 عملی طور پربھی دیکھاجائے تو فائدہ اورنقصان کی یہ بات ہرطرح سے واضح ہوجاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جب داعی کسی مار کا بدلہ لیتے ہوئے اپنے مخاطَب کو مارے گاتواس سے کسی قدر اطمینان اورتسلی تواس کوضرورہوجائے گی، مگرلازمی بات ہے کہ دوری کا ماحول پیداکرکے وہ خود اپنے ہاتھوں سے دعوت کادروازہ بندکرے گا۔ دنیا میں اس طرح کے لوگ شاذہی پائے جاتے ہیں کہ جن کے ساتھ آپ باہم دست وگریبان ہوچکے ہوں اوروہ اس کے باوجودآپ کی بات پرتوجہ دیں اوراسے قبول کرلیں ۔ بدلہ لینے سے دعوت کے میدان میں ہونے والا یہی نقصان پیش نظرہے کہ ایک جگہ وعدہ فرمایاہے کہ جومعاف کرے اوراس طرح لڑائی کے بجاے صلح کا ماحول پیدا کر دے، اُس کا اجراللہ کے ذمہ لازم ہوجاتا ہے:

فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ. (الشوریٰ ۴۲: ۴۰)
’’پھر جس نے معاف کیااورمعاملے کی اصلاح کرلی تواس کااجراللہ کے ذمے ہے۔ ‘‘

بدلہ لینا من جانب نفس ہونے کی وجہ سے ہم جانتے ہیں کہ انسانی طبیعت کے لیے اپنے اندر شدید کشش رکھتا اوراس وجہ سے بہت مرغوب کام ہے، مگراس کے مقابلے میں بدلہ نہ لینااپنے نفس اوراس کی اکساہٹوں کو دبانا ہے اوراس لحاظ سے ایک نہایت مشکل کام ہے۔ چنانچہ خصوصی ہدایت فرمائی ہے کہ اس کی توفیق تم اللہ سے مانگو کہ یہ متاع صرف وہیں سے تمھیں میسرآسکتی ہے:’وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ‘۔

جنت میں مختلف درجات ہیں جوعمل کی کمی یازیادتی اوراُس کے لیے اٹھائی جانے والی مشقت کے کم یازیادہ ہونے کی بنیادپردیے جائیں گے۔ چنانچہ صبرکرنے کے حکم سے آگے بڑھ کرفرمایاہے کہ نیکی اوربرائی اپنی ذات میں دومختلف چیزیں ہیں اوراس وجہ سے دومختلف نتائج بھی رکھتی ہیں، چنانچہ ہونایہ چاہیے کہ مخاطبین کی زیادتیوں کے بدلے میں ان سے مزید بھلائی کابرتاؤکیاجائے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ دعوت کے لیے درکارماحول پیدا ہوگا، بلکہ دوستی کے تعلقات بھی قائم ہوں گے، اورظاہرہے کہ اس سے دعوت کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات اور زیادہ بڑھ جائیں گے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُﵧ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ. (حٰمٓ السجدہ۴۱ :۳۴)
’’حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اوربرائی، دونوں یکساں نہیں ہیں۔ (اس میں شبہ نہیں کہ تمھارے یہ منکرین اب برائی کے درپے ہیں، لیکن) تم برائی کے جواب میں وہ کروجواس سے بہترہے تو دیکھو گے کہ وہی جس کے اورتمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ ‘‘

اوپر کی جانے والی تمام گفتگوکاچندجملوں میں خلاصہ یہ ہے کہ خداکے نزدیک اس معاملے میں مطلوب صورت برائی کے جواب میں اچھائی کرنایاکم سے کم بدلہ نہ لیناہے ۔ مگرہرکسی کاحوصلہ ایک جیسانہیں ہوتا، اس لیے اگرکوئی شخص بدلہ لینے کافیصلہ کرتاہے تواسے یہ حق حاصل ہے ۔ مگراسے اول تویہ جان لیناچاہیے کہ وہ بدزبانیوں کے بجاے صرف عملی اقدامات کابدلہ لے سکتا ہے[3]۔ دوسرے یہ کہ جب وہ ایساکرتاہے تودعوت کی مسند سے اترنے اوراپنی ذاتی حیثیت میں جاکریہ سب کرنے کااعلان کرتاہے۔ اورظاہرہے، اس سے اُس کی ذاتی تسکین کاسامان توبہت کچھ ہوجاتاہے، مگراُس دعوت کونقصان پہنچنے کاشدیدخطرہ لاحق ہوجاتاہے جواُس کی طرف سے یااس جماعت کی طرف سے پیش کی جارہی ہوتی ہے کہ جس کاوہ ایک فردہوتاہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔  ایک حدیث میں اسی اصول کی بناپرفرمایاہے : ’ولا تخن من خانک‘، ’’جوشخص تم سے خیانت کرے، تم جواب میں اس سے ہرگز خیانت نہ کرو ‘‘(ترمذی ، رقم۱۲۶۴)۔

[2]۔  اس طرح کی باتوں کاجواب اس لیے بھی نہیں دیاجاسکتاکہ ایک حدیث کے مطابق مسلمان کبھی بھی بدزبان نہیں ہوسکتا (احمد، رقم۳۹۴۸)۔

[3]۔  اورخاص طورپراُن بدزبانیوں کابدلہ توبالکل نہیں لیاجاسکتاکہ جن کے ظہورکی وجہ خوداُس کااپنا کوئی فعل ہو، جیسے مخاطب کو اس حد تک زچ کردیناکہ وہ اس سے مشتعل ہوکربدگوئی کرنے لگے، اس لیے کہ اس صورت میں تواُس کی بدگوئیوں کاوبال بھی داعی کے اپنے سرآجاتاہے۔


B