ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
يُحَدِّثَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ۱ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ مِنَ الْيَهُودِ، وَهِيَ تَقُولُ لِي: أَشَعَرْتِ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟ فَارْتَاعَ النَّبِيُّ ﷺ، وَقَالَ: «إِنَّمَا تُفْتَنُ الْيَهُودُ»، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثْنَا لَيَالِيَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «هَلْ شَعَرْتِ أَنَّهُ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ؟»، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعْدَ ذٰلِكَ يَسْتَعِيذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، اُس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور مجھ سےکہہ رہی تھی: کیا تم جانتی ہو کہ تمھیں قبروں میں۱ عذاب دیا جائے گا؟ ۲ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ گھبراگئے اور فرمایا: عذاب اِنھی یہودیوں کو ہوگا۳۔ سیدہ نے بتایا کہ پھر زیادہ دن نہیں گزرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تمھیں قبروں میں عذاب دیا جائے گا۴ ؟ سیدہ کہتی ہیں: اِس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے (ہمیشہ ) قبر کے عذاب سے (اللہ کی) پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔
____________
۱۔ یہاں اور اِس سے آگے ’قبر‘ کا لفظ جہاں بھی آیا ہے ، اُس سے مراد اِسی زمین میں وہ جگہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اُن نفوس کو رکھنے کا اہتمام کیا ہے، جنھیں ملائکہ موت کے وقت انسان کے اِس مادی جسم سے الگ کرکے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔اِس کا علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہیں دیا، لہٰذا روایتوں میں وہی لفظ اختیار کرلیا گیا ہے جس سے اُس زمانے کے لوگ واقف تھے، اِس لیے کہ وہ اپنے مُردوں کو بالعموم قبروں ہی میں دفن کرتے تھے۔
۲۔ اصل میں لفظ ’تُفْتَنُوْنَ‘ آیا ہے۔عرب جاہلیت کی زبان میں یہ لفظ جس طرح آزمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اُسی طرح عذاب دینے کے معنی میں بھی آجاتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس کی مثال سورۂ بروج (۸۵) کی آیت ۱۰ میں دیکھ لی جاسکتی ہے ۔چنانچہ آیت کے الفاظ ’اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ‘ کے تحت زمخشری نے لکھا ہے: ’ومعنى فتنوهم: عذبوهم بالنار وأحرقوهم‘(الکشاف۴/ ۷۳۲) ۔
یہودی عورت کی پوری بات غالباً یہ تھی: اللہ تمھیں قبر کے عذاب سے بچائے۔ کیا تم جانتی ہوکہ تمھیں قبروں میں عذاب دیا جائے گا؟ آگے کی روایتوں سے واضح ہے کہ بعض راویوں نے پہلا اور بعض نے صرف دوسرا جملہ روایت کیا ہے۔تاہم دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو اِن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات یہاں نقل نہیں ہوئی ، بلکہ صرف وہ جملہ نقل ہوگیا ہے جو غلط فہمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اِس طرح کے تصرفات روایتوں میں بالعموم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آگے کی روایتوں کو ملا کر دیکھیے تو آپ نے غالباً فرمایا تھا: ’’میں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔یہود کہتے ہیں تو یہ عذاب پھر اُنھی کو ہوگا۔ اُنھوں نے جھوٹی بات کہی ہے، بلکہ وہ تو اللہ پر اِس سے بڑھ کر جھوٹ باندھتے رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ہوگا‘‘۔
۴۔اِس سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو راے اِس سے پہلے دی، وہ صحیح نہیں تھی۔اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سورۂ مومن (۴۰) میں آل فرعون کے لیے قیامت سے پہلے جس ذہنی عذاب کا ذکر صراحت کے ساتھ ہوا ہے، اُسے غالباً آپ اُنھی کے ساتھ خاص سمجھتے تھے۔اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔اِس طرح کی غلط فہمی جس طرح دوسرے اہل علم کو ہوسکتی ہے ، اُسی طرح پیغمبر کو بھی ہوسکتی ہے۔تاہم اللہ تعالیٰ اُس کی لازماً تصحیح کردیتے ہیں، جس طرح کہ اِس واقعے میں بھی کردی گئی ہے۔چنانچہ معلوم ہوا کہ قرآن میں جو کچھ فرعونیوں کے لیے بیان ہوا ہے، وہی اُن سب لوگوں کے ساتھ بھی یقیناً ہوگا، جن کا معاملہ ایسا واضح ہو، جیسا کہ فرعونیوں کا تھا۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا حساب پوچھنے اور اُن کے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔نیکو کاروں میں سے خاص کر سابقین کے لیے بھی یہی قاعدہ ہے۔ چنانچہ راہ حق کے شہیدوں کے بارے میں آل عمران (۳) کی آیت ۱۶۹ میں فرمایا ہے: ’اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ‘ ’’وہ اپنے پروردگار کے حضور میں زندہ ہیں، اُنھیں روزی مل رہی ہے۔‘‘
اِن دو کے بعد پھروہی لوگ رہ جاتے ہیں ، جن کے لیے قرآن نے سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۱۰۲ میں ’خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا‘ (اُنھوں نے ملےجلے عمل کیے تھے ، کچھ بھلے اور کچھ برے) کی تعبیر اختیار کی ہے۔اِن سے متعلق انصاف کا تقاضا یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی عذاب وثواب کے بغیر قبروں میں سوتے رہیں، یہاں تک کہ قیامت کے دن اُٹھائے جائیں اور حساب کتاب سے گزرنے کے بعد ہی اپنے انجام کو پہنچیں۔
۱۔ اِس واقعے کا متن مسند احمد، رقم ۲۴۵۸۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی تنہا راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسنداحمد، رقم ۲۶۰۰۸ ، ۲۶۱۰۵۔صحيح مسلم، رقم۵۸۴۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۶۴۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۲۰۲۔ مسند شامیین، طبرانی، رقم ۳۰۸۸۔ اثبات عذاب القبر ، بیہقی، رقم ۱۰۱۔
عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَتْ۱ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: جَاءَتْنِي يَهُودِيَّةٌ تَسْأَلُنِي، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ ﷺ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَنُعَذَّبُ فِي الْقُبُورِ؟۲ قَالَ: [«إِنِّي۳ ] عَائِذٌ بِاللهِ۴ [مِنْ ذٰلِكَ»،۵ ] فَرَكِبَ [رَسُولُ اللهِ ﷺ ذَاتَ غَدَاةٍ۶ ] مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَخَرَجْتُ، فَكُنْتُ بَيْنَ الْحُجَرِ مَعَ النِّسْوَةِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ مَرْكَبِهِ [سَرِيعًا،۷ ] [فَمَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الحُجَرِ۸ ] فَأَتَى مُصَلَّاهُ [الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ،۹ ] [ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي،۱۰ ] فَصَلَّى النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ أَيْسَرَ مِنْ سُجُودِهِ الْأَوَّلِ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، فَتَجَلَّتِ الشَّمْسُ، [فَلَمَّا انْصَرَفَ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ،۱۱ ] فَقَالَ [فِيمَا يَقُولُ۱۲ ] «إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ»۱۳، [ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ،۱۴ ] قَالَتْ: فَسَمِعْتُهُ بَعْدُ يَسْتَعِيذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. وَعَنْهَا في لَفْظٍ،۱۵ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَسْتَعِيذُ بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،۱۶ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَقَالَ: «إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ».
عمرہ بنت عبد الرحمٰن سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ سیدہ عائشہ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس ایک یہودی عورت کچھ مانگنے کے لیے آئی اور مجھ سے کہنے لگی: اللہ تمھیں قبر کے عذاب سے بچائے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کیا ہمیں قبروں میں عذاب دیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: میں اِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۱۔پھر ایک دن کیا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہوئے، اِسی دوران میں سورج گرہن ہو گیا، میں بھی نکلی اور ابھی دوسری عورتوں کے ساتھ آپ کے حجروں کے درمیان ہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر کر تیزی سے آئے،پھر حجروں کے سامنے سے گزر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے کے پاس، جہاں آپ نماز پڑھاتے تھے، پہنچے۔ پھرنماز پڑھانے کے لیےکھڑے ہوگئے۔لوگوں نے دیکھا تو وہ بھی آپ کے پیچھے نماز میں شامل ہوگئے۔یہ نماز اِس طرح ہوئی کہ آپ دیر تک قیام میں کھڑے رہے ، پھر رکوع کیا تو کافی دیر تک رکوع ہی کی حالت میں رہے، پھر رکوع سے اُٹھے تو ایک مرتبہ پھر اُسی طرح لمبا قیام کیا، پھر اُسی طرح لمبا رکوع کیا، پھرسراٹھایا اور قومے میں بھی دیر تک کھڑے رہے، پھر سجدہ کیا اور کافی دیر تک سجود ہی میں رہے، پھر دوسری رکعت کے لیے اُٹھے تو آپ کا قیام پہلی رکعت کی نسبت سے کم تھا،پھرآپ نے رکوع کیا تو یہ بھی پہلی رکعت کے مقابلے میں ہلکا تھا، پھر اٹھے تو قومہ بھی اِسی طرح پہلی رکعت کی نسبت سے مختصر تھا ، پھر دوبارہ رکوع میں چلے گئے اور یہ بھی پہلی رکعت کے رکوع سے ہلکا تھا۔پھر آپ نے سجدہ کیا تو یہ سجود بھی پہلی رکعت کی طرح لمبا نہیں تھا ۔اِس طرح چار رکوع اور چار سجدے ہوئے۲اور اِسی دوران میں سورج بھی روشن ہوگیا۔اِس طرح نماز پڑھ کر جب آپ پلٹے تو منبر پر بیٹھ گئے اور خطبے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ، اُس میں یہ بات بھی تھی کہ تم لوگ قبروں میں اُسی طرح آزمائے جاؤ گے،۳جس طرح دجال کے فتنے میں آزمائے جاؤ گے۴۔ پھر آپ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ قبر کے عذاب سے (اللہ کی) پناہ مانگا کریں۔ سیدہ کہتی ہیں کہ اِس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے قبر کے عذاب سے ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔ سیدہ ہی سے بعض طریقوں میں یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور دجال کے فتنے سے بھی اور آپ کاارشادہے کہ بلا شبہ تمھیں قبروں میں آزمایا جائے گا۔
____________
۱۔ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جواب کا حصہ ہے ، اُس کی وضاحت ہم پیچھے کرچکے ہیں۔
۲۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نماز کے ارکان نوافل میں بار بار دہرائے بھی جاسکتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر یہ غالباً اِس لیے کیا کہ نماز لمبی ہو اور دعا وانابت کے اِنھی لمحات میں سورج گرہن ختم ہوجائے۔
۳۔ یہ آزمایش یا تکلیف، ظاہر ہے کہ اُنھی کو ہوگی جو اِس کے مستحق ہوں گےاور جن کا معاملہ، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا، فرعونیوں کی طرح ایسا واضح ہوگا کہ اُن کے لیے کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر یہ بات بھی قرآن سے معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہوگا ، بالکل اُسی طرح نیند کی سی حالت میں ہوگا ، جس طرح ہم اپنے خوابوں میں بارہا غمی اور خوشی کی بعض حالتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ یٰس (۳۶) آیت ۵۲ میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو یہی کہیں گے کہ ’يٰوَيْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا‘ ( ہاے ہماری بد بختی، یہ ہم کو ہمارے سونے کی جگہ سے کس نے اُٹھادیا ہے)؟
۴۔ دوسری روایتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اُس شخص کے فتنے کا ذکر ہے جو اپنے مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے لوگوں کو فریب دے گا۔ اِسے ’المسيح الدجال‘ اِسی بنا پر کہا گیا ہے۔ یہ بالکل قرین قیاس ہے، اِس لیے کہ یہود بھی مسیح کا انتظار کر رہے ہیں اور مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا تصور مسیحی اقوام کے اندر بھی موجود رہا ہے۔ چنانچہ کسی شخص کا اِس طرح کے کسی دعوے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا کسی طرح بھی مستبعد نہیں ہے۔
۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاً مسنداحمد، رقم ۲۴۲۶۸ سے لیا گیا ہے۔اِس کی تنہا راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: موطا مالك، رقم ۲۰۰۔مصنف عبد الرزاق، رقم۴۹۲۴۔مسند حميدی، رقم ۱۷۹، ۱۸۰۔سنن دارمی، رقم۱۵۶۸۔صحيح بخاری، رقم ۱۰۵۰، ۱۰۵۵۔صحيح مسلم، رقم۹۰۳۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۴۷۵ ، ۱۴۷۶، ۲۰۶۵، ۵۵۰۴۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۸۷۳، ۱۸۷۴، ۲۲۰۳۔صحيح ابن حبان، رقم ۲۸۴۰۔السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۶۳۰۸، ۶۳۰۹۔ اثبات عذاب القبر ، بیہقی، رقم ۱۷۷، ۱۷۸۔
۲۔صحيح ابن حبان، رقم ۲۸۴۰ میں یہاں سیدہ کا یہ سوال اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے کہ ’إِنَّ النَّاسَ لَيُفْتَنُونَ فِي الْقَبْرِ؟ ‘، ’’ کیا واقعی لوگوں کو قبر میں عذاب دیا جائے گا؟‘‘۔
۳۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۶۳۰۹۔
۴۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۴۹۲۴میں یہاں آپ کے اِن الفاظ کے بجاے ’«كَذَبَتْ يَهُودُ»‘ ’’ یہود نے جھوٹ بولا ہے‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔
۵۔مسند حميدی، رقم ۱۷۹۔
۶۔ موطا مالك، رقم ۲۰۰۔
۷۔مسند حميدی، رقم۱۷۹ ۔
۸۔صحيح بخاری، رقم ۱۰۵۵ ۔
۹۔صحيح مسلم، رقم۹۰۳۔
۱۰۔صحيح بخاری، رقم ۱۰۵۰۔
۱۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۴۷۵۔
۱۲۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۴۷۵۔
۱۳۔صحيح مسلم، رقم ۹۰۳ میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں کہ: ’«إِنِّي قَدْ رَأَيْتُكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ»‘، ’’ بلاشبہ، تم لوگوں کو میں قبروں میں اُسی طرح آزمائے جاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں، جس طرح دجال کے فتنے میں آزمایش ہوگی‘‘۔جب کہ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۴۷۵ میں یہاں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں : ’«إِنَّ النَّاسَ يُفْتَنُونَ فِي قُبُورِهِمْ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ»‘، ’’بے شک، لوگوں کو اُن کی قبروں میں اُسی طرح آزمایا جائے گا، جس طرح دجال کے فتنے میں آزمایش ہوگی ‘‘۔
۱۴۔صحيح بخاری، رقم ۱۰۵۰۔
۱۵۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۵۰۴ ۔
۱۶۔آپ کا یہ اُسوہ ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص سے بھی روایت ہوا ہے، السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۷۶۷۳ میں وہ کہتی ہیں: ’سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ يَسْتَعِيذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘،’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتےہوئے سنا ہے‘‘ ۔ اِس شاہد کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: احاديث اسماعيل بن جعفر،رقم۴۵۱۔مسند حميدی،رقم ۳۳۸ ۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۱۴۶۔مسند اسحاق، رقم ۲۲۱۶۔ مسنداحمد، رقم۲۷۰۵۶، ۲۷۰۵۸۔صحيح بخاری، رقم۱۳۷۶، ۶۳۶۴۔ البعث، ابن ابی داؤد، رقم۹۔صحيح ابن حبان، رقم ۱۰۰۱ ۔المعجم الكبير، طبرانی، رقم۲۴۲۔ مستدرك حاكم، رقم ۶۹۲۹۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۱۹۹۔ اِس کے بعض طرق، مثلاً مسند حميدی،رقم ۳۳۸ میں یہاں ’يَسْتَعِيذُ‘ کے بجاے ’يَتَعَوَّذُ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔
يُحَدِّثُ سَعِيْدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا۱ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَخْدُمُهَا، فَلَا تَصْنَعُ عَائِشَةُ إِلَيْهَا شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، إِلَّا قَالَتْ لَهَا الْيَهُودِيَّةُ: وَقَاكِ اللهُ عَذَابَ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ، هَلْ لِلْقَبْرِ عَذَابٌ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «لَا، وَعَمَّ ذَاكَ؟» قَالَتْ: هَذِهِ الْيَهُودِيَّةُ لَا نَصْنَعُ إِلَيْهَا مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، إِلَّا قَالَتْ: وَقَاكِ اللهُ عَذَابَ الْقَبْرِ، قَالَ: «كَذَبَتْ يَهُودُ، وَهُمْ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَكْذَبُ، لَا عَذَابَ دُونَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، قَالَتْ: ثُمَّ مَكَثَ بَعْدَ ذَاكَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَمْكُثَ، فَخَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ نِصْفَ النَّهَارِ مُشْتَمِلًا بِثَوْبِهِ، مُحْمَرَّةً عَيْنَاهُ، وَهُوَ يُنَادِي بِأَعْلَى صَوْتِهِ: «أَيُّهَا النَّاسُ، أَظَلَّتْكُمُ الْفِتَنُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، أَيُّهَا النَّاسُ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ بَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، أَيُّهَا النَّاسُ، اسْتَعِيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ».
سیدہ عائشہ سے سعید بن عمرو بھی یہی واقعہ اِس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت اُن کی خدمت کیا کرتی تھی۔سیدہ جب اُس کے ساتھ کوئی بھلائی کرتیں تو وہ اُنھیں یہ دعا دیتی تھی کہ اللہ آپ کو قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ سیدہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، قیامت کے دن سے پہلے کیا قبر کا عذاب بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟ سیدہ نے عرض کیا: اِس یہودی عورت کے ساتھ ہم جب بھی کوئی بھلائی کرتے ہیں تو یہ کہتی ہے کہ اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔آپ نے فرمایا: یہود نے جھوٹ بولا ہے، یہی نہیں، وہ تو اللہ تعالیٰ پر اِس سے بڑھ کر جھوٹ باندھتے رہے ہیں۔ قیامت سے پہلے کسی طرح کا کوئی عذاب نہیں ہے۱۔سیدہ کہتی ہیں: پھرجب تک اللہ کی مشیت تھی، آپ اِسی طرح رہے، یہاں تک کہ کچھ عرصے کے بعد ایک دن دوپہر کے وقت چادر لپیٹے ہوئے باہر نکلے،آپ کی آنکھیں اُس وقت سرخ ہو رہی تھیں اور آپ بلند آواز سے پکار کر فرما رہے تھے: لوگو، تم پر فتنے شب تاریک کے ٹکڑوں کی طرح چھا گئے ہیں۲۔لوگو، جو میں جانتا ہوں، اگر تم جان لیتے تو بہت روتے اور کم ہی ہنستے۔ لوگو، قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، اِس لیے کہ قبر کا عذاب برحق ہے۳۔
________________
۱۔ پیچھے بیان ہوچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ راے صحیح نہیں تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس کی تصحیح کردی گئی۔
۲۔یہ غالباً اُن فتنوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد دوچار ہوئے۔
۳۔ یہ اُسی خطبے کا حصہ ہے جو آپ نے سورج گرہن کے موقع پر نماز پڑھانے کے بعد دیا۔راوی اصل موضوع سے متعلق بات بیان کردیتے اور واقعے کی تفصیلات بارہا اِسی طریقے سے حذف کردیتے ہیں۔
۱ ۔اِس واقعے کا متن مسند احمد، رقم ۲۴۵۲۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی تنہا راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس متن کا تنہا ماخذ بھی یہی ہے۔
عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا، قَالَتْ۱ دَخَلَتْ عَلَيْهَا [عَجُوزٌ۲ ] يَهُودِيَّةٌ اسْتَوْهَبَتْهَا طِيبًا، فَوَهَبَتْ لَهَا عَائِشَةُ، فَقَالَتْ: أَجَارَكِ اللهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذٰلِكَ، حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ ذٰلِكَ لَهُ، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِلْقَبْرِ عَذَابًا؟ قَالَ: «نَعَمْ، [وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ۳ ] إِنَّهُمْ لَيُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ».
سیدہ عائشہ ہی سے مسروق روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ اُن کے پاس ایک بوڑھی یہود ی عورت آئی ، جس نے اُن سے خوشبو مانگی۔سیدہ نے اُسے دے دی تو اُس نے اُن کو دعا دی کہ اللہ تمھیں قبر کے عذاب سےمحفوظ رکھے۔سیدہ کہتی ہیں کہ اُس کی اِس بات سے میرے دل میں کچھ کھٹک پیدا ہوئی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اِس واقعے کا ذکر کیا اور پوچھا : یا رسول اللہ، کیا قبر میں بھی عذاب ہو تا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۱،اُس ذات کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، قبر والوں کو تو اُن کی قبروں میں ایسا عذاب ہو تا ہے، جسے چوپایے بھی سنتے ہیں۲۔
________________
۱۔ واقعات کے بیان میں راوی حضرات کس طرح کے تصرفات کردیتے ہیں،یہ روایت اُس کی نمایاں مثال ہے۔پیچھے بیان ہوچکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انکار فرمایا،پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصحیح کے بعد وہ بات کہی جو آگے بیان ہوئی ہے، لیکن راوی نے اِس کو اِس طرح بیان کیا ہے کہ گویا سنتے ہی آپ نے یہودی عورت کی بات کی تصویب فرمادی۔
۲۔ اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔جانوروں کے حواس بعض معاملات میں ایسے ہی غیر معمولی ہوتے ہیں۔
۱ ۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۲۴۱۷۸ سے لیا گیا ہے۔اِس کی تنہا راوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۰۲۵، ۱۲۰۲۶۔ مسنداسحاق، رقم ۱۴۱۵، ۱۴۱۶۔مسند احمد، رقم ۲۵۷۰۶۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۶۶۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۲۰۴۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم۵۱۹۹۔
مسند احمد، رقم ۲۵۴۱۹ میں سیدہ عائشہ ہی سےمسروق کی ایک روایت اِس باب میں اِس طرح نقل ہوئی ہے: ’أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا، فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَهَا: أَعَاذَكِ اللهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ: [أَحَقٌّ عَذَابُ الْقَبْرِ؟[*] ] فَقَالَ: «نَعَمْ، عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ» قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُصَلِّي صَلَاةً بَعْدُ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘، ’’ سیدہ عائشہ کے ہاں ایک یہودی عورت آئی،اُس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور سیدہ سے کہا: اللہ تمھیں قبر کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ سیدہ عائشہ نے یہ بات سنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر کے عذاب کے بارے میں پوچھا اور عرض کیا: کیا یہ بات سچ ہے کہ قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، قبر کا عذاب، بلا شبہ برحق ہے۔سیدہ کہتی ہیں کہ اِس کے بعد میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نماز بھی پڑھتے،اُس میں قبر کےعذاب سے پناہ مانگتے تھے۔‘‘
مذکورہ بالا متن کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسندطیالسی، رقم ۱۵۱۴۔مسنداسحاق، رقم۱۴۷۶۔صحيح بخاری، رقم۱۳۷۲۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۱۳۰۸۔ السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۱۲۳۲۔ حديث السرّاج، رقم ۱۹۰۶۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم۱۷۵۔
اِس باب میں سیدہ عائشہ ہی سے مسروق نے ایک واقعہ تفصیلات کے معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے جو صحيح مسلم، رقم ۵۸۶میں اِس طرح نقل ہوا ہے: ’عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَتَا: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، قَالَتْ: فَكَذَّبْتُهُمَا وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا وَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ الْمَدِينَةِ دَخَلَتَا عَلَيَّ، فَزَعَمَتَا أَنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ»، قَالَتْ: فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلَاةٍ إِلَّا يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘، ’’ سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ مدینہ کے یہود کی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھی عورتیں میرے گھر پرآئیں اور کہنے لگیں کہ قبر والوں کو اُن کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے ۔سیدہ کہتی ہیں کہ میں نے اُن کو جھٹلادیا اور اِسے پسند نہیں کیا کہ اُن کی تصدیق کروں۔ پھروہ دونوں چلی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول، مدینہ کی یہودی بوڑھیوں میں سے دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئی تھیں ،اُن کا خیا ل تھا کہ قبر والوں کو اُن کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے ۔آپ نے سنا تو فرمایا: سچ کہتی ہیں،اہل قبور کو ایسا عذاب دیا جاتا ہے کہ اُسے تمام چوپایے سنتے ہیں ۔سیدہ کہتی ہیں کہ اِس کے بعد میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے ‘‘۔
اِس واقعے کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند اسحاق، رقم ۱۴۱۴۔صحيح بخاری، رقم ۶۳۶۶۔السنن الصغریٰ، نسائی، رقم۲۰۶۷۔السنن الكبرىٰ، نسائی، رقم ۲۲۰۵ ۔
۲۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم۵۱۹۹۔
۳ ۔مسند احمد، رقم ۲۵۷۰۶۔
عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا، قَالَتْ: ۱ جَاءَتْ يَهُودِيَّةٌ، فَاسْتَطْعَمَتْ عَلَى بَابِي، فَقَالَتْ: أَطْعِمُونِي، أَعَاذَكُمُ اللهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ. قَالَتْ: فَلَمْ أَزَلْ أَحْبِسُهَا حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا تَقُولُ هٰذِهِ الْيَهُودِيَّةُ؟ قَالَ: «وَمَا تَقُولُ؟» قُلْتُ: تَقُولُ: أَعَاذَكُمُ اللهُ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَدًّا يَسْتَعِيذُ بِاللهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ عَذَابِ الْقَبْرِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا فِتْنَةُ الدَّجَّالِ: فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلَّا قَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ، وَسَأُحَذِّرُكُمُوهُ تَحْذِيرًا لَمْ يُحَذِّرْهُ نَبِيٌّ أُمَّتَهُ، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَاللهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ. فَأَمَّا فِتْنَةُ الْقَبْرِ: فَبِي تُفْتَنُونَ، وَعَنِّي تُسْأَلُونَ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: فِي الْإِسْلَامِ؟ فَيُقَالُ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ إِلَى الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هٰذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، وَيُقَالُ: عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ. وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السَّوْءُ، أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ: مَا هٰذَا الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا، فَقُلْتُ كَمَا قَالُوا، فَتُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَيُقَالُ لَهُ: هٰذَا مَقْعَدُكَ مِنْهَا، كُنْتَ عَلَى الشَّكِّ، وَعَلَيْهِ مِتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ يُعَذَّبُ».
ذکوان سیدہ عائشہ ہی سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے دروازے پر آئی اور کھانا مانگتے ہوئے کہنے لگی: اللہ تم لوگوں کو دجال سے اور عذاب قبر کی آزمایش سے اپنی پناہ میں رکھے، مجھے کھانے کو کچھ دیں۔سیدہ کہتی ہیں کہ اُس کی یہ بات سننے کے بعد میں نے اُس عورت کو اپنے پاس روک لیا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئےتو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، یہ یہودی عورت کیا کہہ رہی ہے۱؟ آپ نے پوچھا: کیا کہہ رہی ہے؟ میں نے کہا: یہ کہہ رہی ہے کہ اللہ تمھیں دجال کی آزمایش۲ اور عذاب قبر کی آزمایش سے اپنی پناہ میں رکھے۔ سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ کھڑے ہوگئے، آپ نےاپنے ہاتھ اُٹھائے اور اُنھیں پھیلا کر دجال کی آزمایش اور عذاب قبر کی آزمایش سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے،پھر فرمایا: فتنۂ دجال کا معاملہ تو یہ ہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو اِس سے خبردار نہ کیا ہو، اور میں بھی اِس کے بارے میں تم لوگوں کو اِس درجے میں متنبہ کروں گا کہ کسی نبی نے اپنی امت کو نہ کیا ہو گا۔ یاد رکھو، وہ ایک آنکھ سے اندھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہو سکتا۳۔اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ’کافر‘ لکھا ہوگا، جسے ہر بندۂ مومن پڑھ لے گا۴۔رہی قبر کی آزمایش تو جان رکھو کہ (میرے مخاطبین کی حیثیت سے) تم لوگوں کی آزمایش مجھی سے ہوگی اور تم سے میرے ہی بارے میں پوچھا جائے گا۵۔چنانچہ مرنے والا نیک آدمی ہوا تو اُس کو قبر میں اِس طرح بٹھایا جا ئے گا کہ اُس پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ گھبراہٹ۶۔ پھر پوچھا جائے گا: تم کس دین میں رہے۷؟ وہ کہے گا: اسلام میں۔پھر سوال کیا جائے گا: اِس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمھارے درمیان موجود تھا۸؟ وہ کہے گا: یہ اللہ کے رسول محمد ہیں جو اُس کی طرف سے نہایت واضح نشانیاں لے کر ہمارے پاس آئےتو ہم نے اُن کی تصدیق کی ہے۔ اِس پر جہنم کی طرف ایک دروازہ اُس کے لیے کھولا جائے گا، جس سے وہ یہ منظر دیکھے گا کہ آگ آگ کو روند رہی ہے۔ اُس سے کہا جائے گا:اِسے دیکھ لو، خداے عزوجل نے جس سے تمھیں بچا لیا ہے۔پھر اُس کے لیے ایک روزن جنت کی طرف کھولا جائے گا اور وہ اُس کی آب و تاب اور اُس کی نعمتیں دیکھے گا ۔ اُس سے کہا جائے گا: یہ اِس میں تیرا ٹھکانا ہے اور یہ بھی کہ تو یقین پر تھا ،اِسی پر تو دنیا سے رخصت ہوا اور اللہ نے چاہا تو اِسی پر تجھےاٹھا یا جا ئے گا۔اِس کے برخلاف آدمی برا ہوا تو اُس کو جب قبر میں بٹھا یا جا ئے گا تو وہ گھبرایا ہوا اور بد حواس ہوگا۔ پھراُس سے پوچھا جائے گا: تم کس دین میں رہے؟ وہ کہے گا: میں کچھ نہیں جانتا۔پھر سوال کیا جائے گا: اِس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جو تمھارے درمیان موجود تھا؟ وہ کہے گا: اِس کے متعلق میں نے ایک بات لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، بس وہی میں نے بھی کہہ دی تھی۔ پھر اُس کےلیے ایک روزن جنت کی طرف کھو لا جائے گا اور وہ اُس کی آب و تا ب اور اُس کی نعمتیں دیکھے گا ۔ اُسے کہا جا ئے گا: اُسے دیکھ لو جسے اللہ نے تجھ سے پھیر دیا ہے۔ پھر اُس کےلیے ایک روزن جہنم کی طرف کھو لا جائے گا، جس سے وہ یہ منظر دیکھے گا کہ آگ آگ کو روند رہی ہے۔ اُس سے کہا جائے گا: یہ اِس میں تیرا ٹھکا نا ہے ۔ تو شک ہی میں رہا، اِسی پر دنیا سے رخصت ہوا اور اللہ نے چاہا تو اِسی پر تجھے اٹھا یا جا ئے گا ۔ اِس کے بعد اُس کے لیےعذاب شروع ہوجائے گا۹۔
________________
۱۔ یہ دوسرا واقعہ ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ کے ساتھ پیش آیا۔اِس موقع پر مانگنے والی یہودی عورت نے ایک نئی بات یہ کی ہے کہ عذاب قبر کے ساتھ دجال کے فتنے کا ذکر بھی کردیا۔ چنانچہ یہی چیز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوبارہ رجوع کرنے کا باعث بن گئی ہے۔
۲۔اِس کی وضاحت ہم پیچھے روایت ۲ کے تحت کر چکے ہیں۔
۳۔ یہ غالباً اِس لیے فرمایا کہ دجال خدائی کا دعویٰ بھی کرے گا۔
۴۔ مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے اُس کا دجل اِس قدر واضح ہوگا کہ اُس کی پیشانی پر گویا کفر لکھا ہوا دیکھیں گے۔’يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ‘ کے الفاظ اِسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کافر نہیں پڑھ سکیں گے، مگر مومن پڑھ لیں گے۔ اِس طرح کے اسلوب میں پڑھنا سمجھ لینے کے معنی ہی میں ہو سکتا ہے۔
۵۔یہ اِس لیے کہ اللہ کے رسول جن قوموں کی طرف مبعوث کیے جاتے ہیں، اُن پر اتمام حجت کے بعد اُن قوموں کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ اُنھی رسولوں کے ماننے یا نہ ماننے کی بنا پر ہوتا ہے۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل صریح ہے۔ چنانچہ فرعونیوں کی طرح اُن کا عذاب بھی دنیا سے شروع ہوجاتا اور برزخ میں بھی اِسی طرح جاری رہتا ہے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد جب قیامت کا دن آئے گا تو اُنھیں جہنم کے بد ترین عذاب میں داخل کردیا جائے گا۔اِس کے لیے سورۂ مومن (۴۰) کی آیات کا حوالہ ہم پیچھے نقل کر چکے ہیں۔
۶۔یعنی اُسی برزخی قبر میں، جہاں لوگوں کی اصل شخصیتیں اُن کے مرنے کے بعد اُن کے اِس دنیوی جسم سے الگ کر کے اُس جسم کے ساتھ رکھی جاتی ہیں ، جو اِس وقت تو غیر مرئی ہے ، مگر قیامت کے دن ہر شخص کے لیے مرئی ہوجائے گا۔
۷۔موت کے بعد اِس طرح کے سوالات کا ذکر قرآن میں بھی ہوا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے:’اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْﵧ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِﵧ قَالُوْ٘ا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاﵧ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُﵧ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا‘، ’’ جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں قبض کریں گے کہ (اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔ سو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے ‘‘(النساء ۴: ۹۷)۔
۸۔اصل میں ’هذا الرجل‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اِس بات کا واضح قرینہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اُس موقع پر ممثل ہو کر اُن کے سامنے آجائے گی۔چنانچہ یہ سوال اِس لحاظ سے بالکل موزوں ہوگا کہ اپنے حین حیات وہ اِس سے پہلے آپ کو دیکھ چکے ہوں گے۔
۹۔ یعنی اُسی نوعیت کا عذاب جس کا ذکر سورۂ مومن (۴۰) کی آیات میں فرعونیوں کے حوالے سے ہوا ہے کہ دوزخ میں اُن کا ٹھکانا اُنھیں صبح وشام دکھایا جاتا ہے ۔ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ یہ سب نیند کی سی حالت میں ہوتا ہے۔
۱ ۔ اِس واقعے کا متن مسند احمد، رقم ۲۵۰۸۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور اِ س کے باقی طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند اسحاق، رقم ۱۱۷۰۔ السنۃ،عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۴۸۔ الايمان، ابن منده، رقم ۱۰۶۷۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۲۹۔
سیدہ عائشہ کی اِس روایت کا ایک شاہد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل ہوا ہے جو سنن ابن ماجہ، رقم ۴۲۶۸ میں دیکھ لیا جاسکتا ہے اور وہی اِس کا تنہا ماخذ ہے۔
بعض اضافوں کے ساتھ اِس کا دوسرا شاہد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اِس طرح منقول ہے: ’عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ جِنَازَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هٰذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا، فَإِذَا الْإِنْسَانُ دُفِنَ فَتَفَرَّقَ عَنْهُ أَصْحَابُهُ، جَاءَهُ مَلَكٌ فِي يَدِهِ مِطْرَاقٌ فَأَقْعَدَهُ، قَالَ: مَا تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَإِنْ كَانَ مُؤْمِنًا قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ [وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، ] وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: صَدَقْتَ ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى النَّارِ، فَيَقُولُ: هٰذَا كَانَ مَنْزِلُكَ لَوْ كَفَرْتَ بِرَبِّكَ، فَأَمَّا إِذْ آمَنْتَ [بِهِ فَإِنَّ اللهَ أَبْدَلَكَ بِهِ هٰذَا، ] فَهٰذَا مَنْزِلُكَ، فَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، فَيُرِيدُ أَنْ يَنْهَضَ إِلَيْهِ فَيَقُولُ لَهُ: اسْكُنْ وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا أَوْ مُنَافِقًا يَقُولُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي هٰذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولَ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَيَقُولُ: لَا دَرَيْتَ، وَلَا تَلَيْتَ، وَلَا اهْتَدَيْتَ، ثُمَّ يُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: هٰذَا مَنْزِلُكَ لَوْ آمَنْتَ بِرَبِّكَ، فَأَمَّا إِذْ كَفَرْتَ بِهِ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ أَبْدَلَكَ بِهِ هٰذَا، وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى النَّارِ، ثُمَّ يَقْمَعُهُ [ذٰلِكَ الْمَلَكُ ] قَمْعَةً بِالْمِطْرَاقِ يَسْمَعُهَا خَلْقُ اللهِ كُلُّهُمْ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ» فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَحَدٌ يَقُومُ عَلَيْهِ مَلَكٌ فِي يَدِهِ مِطْرَاقٌ إِلَّا هِيِلَ عِنْدَ ذٰلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾»‘[ابراھيم۱۴: ۲۷ ]. ’’ابوسعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا، اُس موقع پر آپ نے فرمایا : لوگو،اِس امت کی آزمایش قبروں میں بھی ہوگی۔جب انسان کو دفن کرکے اُس کے ساتھی اُس سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ایک فرشتہ، جس کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑا ہوتا ہے، آکر اُسے بٹھا دیتا ہے اور اُس سے پوچھتا ہے کہ تم اِس آدمی ـــــــــ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ـــــــــ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ پھر اگر وہ مومن ہو تو جواب میں کہہ دیتا ہے کہ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمداللہ کے بندے اور اُس کےرسول ہیں۔ یہ سن کر فرشتہ کہتا ہے کہ تم نے بالکل سچ کہا۔ پھر اُسے جہنم کا ایک دروازہ کھول کر دکھایا جاتا ہے اورفرشتہ اُس سے کہتا ہے کہ اگر تم اپنے رب کا انکار کرتے تو تمھارا ٹھکانا یہاں ہوتا،لیکن چونکہ تم اُس پر ایمان لائے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کے بجاے تمھیں دوسرا ٹھکانا عطا کیا ہے اور وہ یہ ہے۔ یہ کہہ کر اُس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے، پھر وہ اٹھ کر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو فرشتہ اُس سے کہتا ہے: ابھی اطمینان سے یہاں رہو۔ پھر اُس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ اور اگر وہ کافر یا منافق ہو تو فرشتہ جب اُس سے پوچھتا ہے کہ تم اِس آدمی کےبارے میں کیا کہتے ہو تو وہ جواب دیتا ہے کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا ضرور تھا، (بس میں بھی وہی کہہ دیتا تھا)۔یہ سن کر فرشتہ اُس سے کہتا ہے کہ تم نے نہ خود سمجھا، نہ قرآن پڑھا اور نہ ہدایت پائی۔ پھر اُسے جنت کا ایک دروازہ کھول کر دکھایا جاتا ہے اور فرشتہ اُس سے کہتا ہے کہ اگر تم اپنے رب پر ایمان لائے ہوتے تو تمھار اٹھکانا یہاں ہوتا، لیکن چونکہ تم کفر پر رہے،اِس لیے اللہ نے تمھارا ٹھکانا یہاں سے بدل کر دوسرا کر دیا ہے اور وہ یہ ہے۔یہ کہہ کر اُس کے لیے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ اپنے ہتھوڑے سے اُس پر اتنی زور سے ضرب لگاتا ہے کہ اُس کی (چیخوں کی) آوازجن و انس کے سوا اللہ کی ساری مخلوق سنتی ہے۔یہ سن کر لوگوں میں سے کسی نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول،ایسا فرشتہ جس کے سامنے بھی ہاتھ میں ہتھوڑا لے کر کھڑا ہوگا، اُس پر گھبراہٹ تو لازماً طاری ہوگی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ: ﴿يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ﴾ ’’ایمان والوں کو اللہ محکم بات سے ثبات عطا فرمائے گا ‘‘ (ابراہیم۱۴: ۲۷)۔
اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۱۰۰۰ سے لیا گیا ہے۔ابو سعید رضی اللہ عنہ کی اِس روایت کے متابعات بشمول بین القوسین اضافوں کے اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم ۸۶۵۔ السنۃ، عبد الله بن احمد، رقم ۱۴۵۶ ۔تفسيرطبری ، رقم ۲۰۷۶۲۔اثبات عذاب القبر، بیہقی، رقم ۳۲۔
[باقی]
__________
[*] مسنداسحاق، رقم۱۴۷۶۔