HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشعراء ۲۶: ۶۹-۱۰۴ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَ ٦٩ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ ٧٠ قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِيْنَ ٧١
اور اِنھیں ابراہیم کی سرگذشت سناؤ، جب اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم (کے لوگوں) سے پوچھا تھا کہ یہ تم کیا پوجتے ہو[129]؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں، سو (تم جو چاہے، کہتے رہو)، ہم اِن کی پوجا پر برابر جمے رہیں گے۔ ۶۹-۷۱
قَالَ هَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ ٧٢ﶫ اَوْ يَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ يَضُرُّوْنَ ٧٣ قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَا٘ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ ٧٤
ا ابراہیم نے کہا: کیا یہ تمھاری سنتے ہیں، جب تم اِنھیں پکارتے ہو؟ یا تمھیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا: نہیں، (ہم یہ سب نہیں جانتے)، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔۷۲-۷۴
 قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ٧٥ﶫ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ ٧٦ﶚ فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْ٘ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ٧٧ﶫ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ ٧٨ﶫ وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ ٧٩ﶫ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ٨٠ﶟ وَالَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِ ٨١ﶫ وَالَّذِيْ٘ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ ٨٢ﶠ
ابراہیم نے کہا: پھر کیا تم نے اِن پر غور بھی کیا ہے جنھیں تم پوجتے رہے ہو؟ تم بھی اور تمھارے اگلے باپ دادا بھی۔ سو میرے تو یہ سب دشمن ہیںل[130]، اللہ رب العٰلمین کے سوا جس نے مجھے پیدا کیا ہے، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے[131]۔ اور جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے[132] اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے [133]اور جو مجھے موت دے گا، پھر مجھ کو زندہ کرے گا [134] اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ جزا کے دن وہ میرے گناہ معاف فرما دے گا[135]۔ ۷۵- ۸۲
رَبِّ هَبْ لِيْ حُكْمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ٨٣ﶫ وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ ٨٤ﶫ وَاجْعَلْنِيْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيْمِ ٨٥ﶫ وَاغْفِرْ لِاَبِيْ٘ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيْنَ ٨٦ﶫ وَلَا تُخْزِنِيْ يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ ٨٧ﶫ
(ابراہیم یہ سب کہہ چکا تو اُس نے دعا کی کہ) میرے پروردگار، مجھے قوت فیصلہ عطا فرماب[136] اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا[137]اور بعد کے آنے والوں میں میرا ذکر خیر[138] جاری رکھ اور باغ راحت کے وارثوں میں مجھے بھی ایک وارث بنا اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گم راہوں میں سے ہے۔ اور جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے، اُس دن،( اے پروردگار) ، مجھے رسوا نہ کر۔[139] ۸۳- ۸۷
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ٨٨ﶫ اِلَّا مَنْ اَتَي اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ٨٩ﶠوَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ٩٠ﶫ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَ ٩١ﶫ وَقِيْلَ لَهُمْ اَيْنَمَا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ٩٢ﶫ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ هَلْ يَنْصُرُوْنَكُمْ اَوْ يَنْتَصِرُوْنَ ٩٣ﶠ فَكُبْكِبُوْا فِيْهَا هُمْ وَالْغَاوٗنَ ٩٤ﶫ وَجُنُوْدُ اِبْلِيْسَ اَجْمَعُوْنَ ٩٥ﶠ
(فرمایا[140]):جس دن نہ مال کام آئے گا ، نہ اولاد[141]، صرف وہی کامیاب ہوں گے جو قلب سلیم[142] لے کر خدا کے پاس آئیں گے۔ (اُس دن) جنت خدا سے ڈرنے والوں کے قریب لائی جائے گی[143] اور جہنم گم راہوں کے لیے بے نقاب کر دی جائے گی اور اُن سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ کیا وہ تمھاری کچھ مدد کریں گے یا (آج) خود اپنا بچاؤ کر لیں گے؟ پھر وہ بھی اور یہ بھٹکے ہوئے لوگ بھی اور ابلیس کے لشکر بھی، سب کے سب اُس میں اوندھے منہ جھونک دیے جائیں گے۔[144] ۸۸- ۹۵
قَالُوْا وَهُمْ فِيْهَا يَخْتَصِمُوْنَ ٩٦ﶫ تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٩٧ﶫ اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٩٨ وَمَا٘ اَضَلَّنَا٘ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ٩٩ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ ١٠٠ﶫ وَلَا صَدِيْقٍ حَمِيْمٍ ١٠١ فَلَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٠٢
وہاں وہ آپس میں جھگڑتے ہوئے (اپنے لیڈروں سے) کہیں گے: خدا کی قسم، ہم کھلی ہوئی گم راہی میں تھے، جب کہ تمھیں خداوند عالم کے برابر ٹھیراتے تھے[145]۔ (پھراپنی بدبختی پر ماتم کریں گے کہ) ہمیں تو اِن مجرموں ہی نے گم راہ کیا۔ سو اب نہ ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والا ہے، نہ کوئی گرم جوشی سے محبت کرنے والا دوست۔ اب تو اے کاش، ایک دفعہ پلٹنا نصیب ہو کہ ہم ایمان والے بن جائیں۔ ۹۶-۱۰۲
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٠٣ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ١٠٤
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[146]۔ ۱۰۳-۱۰۴

[129]۔ یہ سوال استخفاف کی نوعیت کا ہے، اِس لیے اُن کی قوم نے اِس کا جواب بھی جاہلی حمیت کے پورے جوش کے ساتھ دیا ہے۔

[130]۔ اِس لیے کہ شیطان اِنھی کے ذریعے سے اپنا انتقام اولاد آدم سے لیتا ہے اور اُنھیں گم راہ کرکے جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ اپنی قوم کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کی یہ گفتگو صاف بتا رہی ہے کہ وہ اُس پر ہر لحاظ سے اتمام حجت کر چکے تھے اور ہجرت سے پہلے اب آخری گفتگو فرما رہے تھے۔ اِس میں ، ظاہر ہے کہ لب و لہجہ وہ نہیں ہو سکتا جو ابتداے دعوت میں ہوتا ہے۔

[131]۔ یعنی پہلے عقل و فطرت اور اُس کے بعد نبوت و رسالت کے ذریعے سے میری عقلی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام بھی اُسی نے کر رکھا ہے۔

[132]۔ یعنی میری تمام مادی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔

[133]۔ اِس میں غور کیجیے، شفا کی نسبت تو اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے، لیکن بیماری کی نسبت اُس کی طرف نہیں کی گئی ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِس کی وجہ سوء ادب سے احتراز بھی ہے اور اِس حقیقت کا اظہار بھی کہ نعمتیں جس قدر بھی بندے کو ملتی ہیں، وہ سب خدا کے فضل وجود سے ملتی ہیں۔ لیکن اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بسا اوقات اُس کے کسی عمل پر مترتب ہوتی ہے۔ ہر چند وہ پہنچتی تو خدا کے اذن و حکم ہی سے ہے ، لیکن اُس میں انسان کی اپنی غفلت کو بھی دخل ہوتا ہے، اِس وجہ سے وہ بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۵/ ۵۲۵)

[134]۔ انسان جیسی مخلوق کے لیے جو اپنی ذات کے شعور کے ساتھ پیدا کی گئی ہے، یہ سب سے بڑی نعمت ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

[135]۔ اِس بدیہی حقیقت کو لفظوں میں ظاہر کیے بغیرکہ پھر وہ ایک روز جزا برپا کرے گا، ابراہیم علیہ السلام نے یہ اپنے پروردگار کے فضل و عنایت کی طرف توجہ دلادی ہے کہ بندہ سرکشی چھوڑ کر اُسی کا ہو جائے تو وہ آخری درجے میں اُس کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر بھی فرماتا ہے:

عصیان ما و رحمت پروردگار ما

ایں را نہایتے ست نہ آں را نہایتے

[136]۔ یہ دعا چونکہ ہجرت کے موقع پر کی گئی ہے جو انبیا علیہم السلام کی دعوت میں نہایت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اِس لیے دعا کی ابتدا اِس درخواست سے ہوئی ہے کہ آگے کے مراحل میں ہر موقع پر اُنھیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق حاصل رہے۔

[137]۔ یعنی دنیا اور آخرت، دونوں میں اُن کی معیت و رفاقت عطا فرما۔

[138]۔ اصل میں ’لِسَانَ صِدْقٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی ذکر جمیل، جس میں پایداری اور دوام و استمرار بھی ہو۔ ابراہیم علیہ السلام کی اِس دعا کوجو قبولیت حاصل ہوئی، اُس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ سے پیش نہیں کی جا سکتی۔

[139]۔ مطلب یہ ہے کہ باپ کو جہنم میں ڈالا گیا تو بیٹے کی حیثیت سے یہ چیز میرے لیے باعث رسوائی ہو گی، اِس لیے درخواست کر رہا ہوں کہ اگرچہ میرا باپ گم راہ ہے، لیکن مجھ پر عنایت کے لیے آپ اُس کو معاف فرما دیں۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ یہ دعا چونکہ خدا کے بے لاگ عدل کے خلاف تھی، اِس لیے قبول نہیں ہوئی۔

[140]۔ یہاں سے آگے اب پیرے کے آخر تک شان کلام صاف بتا رہی ہے کہ پوری عبارت حضرت ابراہیم کی دعا کا جز نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے۔

[141]۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے مغفرت چاہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہایت لطیف اسلوب میں بتا دیا ہے کہ نہیں، تمھارے جیسا فرزند بھی وہاں اپنے باپ کے کام نہ آ سکے گا۔

[142]۔ اِس سے مراد وہ دل ہے جو اپنی اصل فطرت پر قائم اورشرک و نفاق کی ہر آلایش سے پاک ہو۔

[143]۔ یعنی جس طرح مہمانوں کی تشریف و تکریم کے لیے کوئی چیز اُن کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اُسی طرح پیش کر دی جائے گی۔

[144]۔ اصل میں لفظ ’كُبْكِبُوْا‘ آیا ہے۔یہ ’كب‘ کی تکریر ہے جس سے مبالغہ اور تکرار کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے۔

[145]۔ یعنی تمھاری بات اُسی طرح مانتے تھے، جس طرح رب العٰلمین کی بات ماننی چاہیے۔

[146]۔ یہ وہی ترجیع ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B