HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : سید منظور الحسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

وحی اور فطرت کا باہمی تعلق: جناب جاوید احمد غامدی کے موقف کا تقابلی مطالعہ (۳)

فطرت اور وحی کے باہمی تعلق کے حوالے سے ان بنیادی مباحث کی وضاحت کے بعد اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا فطرت کو ایک الگ اور مستقل بالذات ماخذ دین کی حیثیت حاصل ہے؟ اس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو پھر مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کا تعین کیسے ہوگا اور اگر اس ضمن میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو اسے کیسے رفع کیا جائے گا؟ ہم نے اوپر کے صفحات میں جو بحث کی ہے، اس کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے معاملے کو محض فطرت کی رہنمائی پر منحصر نہیں رکھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انبیا علیہم السلام کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے۔ان انبیاے کرام نے دین فطرت کی تصویب وتائیدکی ہے اور انسانوں کو اس کے حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ان اختلافات کو بھی رفع کیا ہے جو فطرت کے تقاضوں کے فہم میں پیدا ہو ئے تھے یا پیدا ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انبیا کی رہنمائی کی موجودگی میں فطرت مستقل ماخذ دین کی حیثیت نہیں رکھتی۔ فطرت کی تعیین انبیا کی تائید وتصویب ہی سے ہوتی ہے اور اس کی تعیین کے لیے وحی کی رہنمائی سے آزاد کوئی الگ اور مستقل معیار موجود نہیں ہے۔ یہی موقف ہے جسے جناب جاوید احمد غامدی نے بیان کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’پہلی چیز (یعنی دین فطرت) کا تعلق ایمان و اخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اُس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور اُنھیں برا سمجھتی ہے ۔قرآن اُن کی کوئی جامع و مانع فہرست پیش نہیں کرتا ،بلکہ اِس حقیقت کو مان کر کہ اُس کے مخاطبین ابتدا ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتے ہیں، اُن سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائیں اور منکر کو چھوڑ دیں۔‘‘(میزان ۴۶)

یہی موقف ہے جسے جناب جاوید احمد غامدی نے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک فطرت کے تعین میں اصل معیار کی حیثیت انبیا علیہم السلام کی تصویب کو حاصل رہی ہے۔ یہ تصویب آخری مرتبہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوئی ہے۔ چنانچہ اسے جاننے کے لیے حتمی ماخذ کی حیثیت قرآن و سنت کو حاصل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’(دین فطرت کے)اِس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اِس کی گنجایش بھی اُس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبرو ں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ اِن پیغمبرو ں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ انسان اپنے اندر جو کچھ پاتا ہے ، یہ ہدایت اُس کی تصدیق کرتی ہے اورانسان کاوجدانی علم، بلکہ تجربی علم، قوانین حیات اور حالات وجود سے استنباط کیا ہوا علم اورعقلی علم، سب اِس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنا نچہ اخلاق کے فضائل ورذائل اِس کے نتیجے میں پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہوجاتے ہیں۔‘‘ (میزان ۲۰۳)

مذکورہ اقتباسات سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک فطرت کے تعین کے سلسلے میں فیصلہ کن اتھارٹی کی حیثیت انبیا ہی کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غامدی صاحب نے ’’اصول ومبادی‘‘ میں فطرت کا ذکر قرآن مجید کی دعوت کو سمجھنے میں معاون ایک ذریعے کے طور پر تو کیا ہے، لیکن کہیں بھی اسے مستقل بالذات ماخذ دین کے طور پر پیش نہیں کیا ۔

تاہم، اس ضمن میں سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ کی تفسیر میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر کسی تردد یا غلط فہمی کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اُس کا تقابلی مطالعہ بھی  اُن کے مدعا کی تفہیم میں معاون ثابت ہو گا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ.(الانعام ۶: ۱۴۵)
     ’’اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر کہ) جو وحی میرے پاس آئی ہے، اُس میں تو میں نہیں دیکھتا کہ کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام کی گئی ہے ،جسے وہ کھاتا ہے، سواے اِس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو، اِس لیے کہ یہ ناپاک ہیں، یا خدا کی نافرمانی کرکے کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیاہو۔‘‘

قرآن مجید کی اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کھانے کی کوئی بھی چیز حرام نہیں ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت بھی ثابت ہے۔ دونوں حکم بظاہر متعارض معلوم ہوتے ہیں اور علماے امت مختلف زاویوں سے ان کے مابین تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ کی راے میں قرآن کی بیان کردہ چار چیزیں ہی حرام ہیں اور ان کے علاوہ باقی کسی چیز کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی راے صحیح بخاری میں یوں منقول ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ‘ کے منافی تھی (بخاری، رقم۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم ۳۲۳۶۔ ابوداؤد، رقم۳۸۰۰، ۳۸۰۸) ۔

اسی راے کو بعد میں فقہاے مالکیہ نے اختیار کیا، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہونے والے جانوروں کو حرمت پر نہیں، بلکہ کراہت پر محمول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جمہور فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ کھانے کی اشیا میں ممانعت صرف ان چار چیزوں میں منحصر نہیں، بلکہ بہت سی دیگر اشیا بھی حرام اور ممنوع ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن مجید کے بیان کردہ حصر کا صحیح محل واضح ہوئے بغیر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ جناب جاوید احمد غامدی نے اسی اشکال کو حل کرتے ہوئے یہ راے ظاہر کی ہے کہ قرآن کی بیان کردہ حرمت کا دائرہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حرام قرار دیے جانے والے جانوروں کا دائرہ، دونوں بالکل الگ الگ ہیں اور قرآن مجید نے جس دائرے میں حرمت کو چار چیزوں میں منحصر قرار دیا ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حرمت کے دوسرے دائرے میں بھی کوئی چیز ممنوع قرار نہ پائے۔ ’’اصول ومبادی‘‘ میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’...اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں ، اُن میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اِس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے، اِس لیے اِن سے اِبا اُس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اُس کی صحیح رہنمائی کرتی اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اُسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے ۔ اُسے معلوم ہے کہ شیر ، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ، بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے، دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اِن جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔اِس میں شبہ نہیں کہ اُس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے ،لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اُن کی ایک بڑی تعداد اِس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی اِن جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا ،بلکہ صرف یہ بتا کر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں،انسان کو اُس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے ۔چنانچہ شریعت کا موضوع اِس باب میں صرف وہ جانور اور اُن کے متعلقات ہیں جن کے طیب یا خبیث ہونے کا فیصلہ تنہا عقل و فطرت کی رہنمائی میں کر لینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا ۔سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے ،پھر اُسے کیا کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا ؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں ، اگر تذکیے کے بغیر مر جائیں تو اُن کا حکم کیا ہونا چاہیے ؟ اِنھی جانوروں کا خون کیا اِن کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اُسے حلال و طیب قرار دیا جائے گا ؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کر دیے جائیں تو کیا پھر بھی حلال ہی رہیں گے ؟ اِن سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، لہٰذا وہ اِس معاملے میں غلطی کر سکتا تھا۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ میں ’عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ‘کے الفاظ اِسی حقیقت پر دلالت کے لیے آئے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اُسے بتایا کہ سؤر ،خون ،مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو اُن سے پرہیز کرنا چاہیے ۔... جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔قرآن نے اِسی بنا پربعض جگہ ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ‘ اور بعض جگہ  ’اِنَّمَا‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔... بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں اورچنگال والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔   اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اُسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے ۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ اُنھوں نے اِسے بیان فطرت کے بجاے بیان شریعت سمجھا ،دراں حالیکہ شریعت کی اُن حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ، اِس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اِس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اُس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے ۔‘‘(میزان ۳۶، ۳۷، ۳۸)

مذکورہ اقتباس سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں اصل بنیاد کی حیثیت قرآن مجید کے بیان کردہ اصول ’اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ‘ (تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) کے مطابق ان کے خبیث یا طیب ہونے کو حاصل ہے۔ ان طیبات اور خبائث سے انسان اپنی فطرت کی رو سے بالعموم واقف رہا ہے، البتہ ان میں سے ان چیزوں کی شریعت نے وضاحت کر دی ہے جن میں انسان کے لیے اپنی فطرت کی رہنمائی میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں تھا، جب کہ باقی جانوروں کے بارے میں انسان کے فطری علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ اس کی فطرت ہی کے سپرد کر دیا گیا۔

غامدی صاحب کا یہ نقطۂ نظر اپنے بنیادی نکات کے لحاظ سے جمہور اہل علم کے موقف سے کسی طرح مختلف نہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۵ ’اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ( تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال ہیں) اور سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۵۷ ’وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ‘ (یہ پیغمبر ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھیراتا ہے) میں طیبات اور خبائث سے مراد کیا ہے؟ اس سوال کے، ظاہر ہے کہ دو ہی جواب ہو سکتے ہیں:

۱۔ ان سے مراد صرف وہ چیزیں ہیں جو حلت و حرمت کے حوالے سے شریعت میں بیان ہوئی ہیں۔

۲۔ان سے مراد وہ چیزیں ہیں جنھیں انسان کی فطرت پسند کرتی یا جن سے وہ ابا کرتی ہے۔

امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سوال کے جواب میں بالعموم دوسری راے کو اختیار کیا ہے اوریہ واضح کیا ہے کہ طیبات اور خبائث سے مراد وہ چیزیں ہیں جنھیں انسانی فطرت طیب اور خبیث سمجھتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں:

ویحل لهم الطیبات: من الناس من قال: المراد بالطیبات الأشیاء التي حکم اللہ بحلها وهذا بعید لوجهین: الأول: أن علی هذا التقدیر تصیر الآیة ویحل لهم المحلات وهذا محض التکریر. الثاني: أن علی هذا التقدیر تخرج الآیة عن الفائدة، لأنا لا ندري أن الأشیاء التي أحلها اللہ ما هي وکم هي؟ بل الواجب أن یکون المراد من الطیبات الأشیاء المستطابة بحسب الطبع وذالک لأن تناولها یفید اللذة، والأصل في المنافع الحل فکانت هذہ الآیة دالة علی أن الأصل في کل ما تستطیبه النفس ویستلذه الطبع الحل إلا لدلیل منفصل....
وأقول: کل ما یستخبثه الطبع وتستقذره النفس کان تناوله سببًا للألم. (تفسیر کبیر۱۵/ ۲۴) 
’’’ویحل لهم الطیبات‘: بعض لوگوں نے کہا ہے کہ طیبات سے مراد وہ اشیا ہیں جن کے حلال ہونے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، مگر یہ بات دو پہلوؤں سے بعید ہے: ایک یہ کہ اگر اس کا معنی یہ ہوتا تو پھر الفاظ یہ ہوتے کہ ’ویحل لهم المحلات‘( اور پیغمبر ان کے لیے حلال چیزوں کو حلال ٹھیراتا ہے) اور یہ محض تکرار ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ معنی لینے سے آیت فائدے سے خالی ہوجاتی ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جن اشیا کو اللہ نے حلال ٹھیرایا ہے، وہ کیا ہیں اور کتنی ہیں۔ لازم ہے کہ طیبات سے مراد وہ چیزیں ہوں جو طبیعت کو اچھی لگیں اور جن کو کھانے میں لذت کا فائدہ حاصل ہو۔ منافع میں اصل چیز حلت ہے۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کو پاکیزہ لگے اور طبیعت کو لذت دے ،وہ حلال ہے اور ہر وہ چیز جو نفس کو ناپاک لگے اور طبیعت اس کو ناپسند کرے، وہ حرام ہے، سواے اس کے کہ الگ سے کوئی دلیل ہو...۔
میں کہتا ہوں کہ خبائث سے مراد ہر وہ چیز ہے جو طبیعت کو ناپاک کرے اور نفس کو آلودہ کرے اور اس کولینا تکلیف کا سبب بنے۔‘‘

امام رازی نے یہی بات اپنی تفسیر میں ایک اور مقام پر قدرے مختلف الفاظ میں بیان کی ہے۔لکھتے ہیں:

فلا یمکن أن یکون المراد بالطیبات هہنا المحلات، وإلّا لصار تقدیر الآیة: قل أحل لکم المحلات، ومعلوم أن هذا رکیک، فوجب حمل الطیبات علی المستلذ المشتهی، فصار التقدیر: أحل لکم کل ما یستلذ ویشتهی.
ثم اعلم أن العبرة في الاستلذاذ والاستطبة اہل المروءة والأخلاق الجمیلة، فإن أهل البادیة یستطیبون أکل جمیع الحیوانات ویتأکد دلالة هذہ الآیات بقوله ’خلق لکم ما فی الارض جمیعًا‘.(تفسیر کبیر۱۱/ ۱۴۲)        
’’یہ ممکن نہیں ہے کہ یہاں طیبات سے مراد (اللہ تعالیٰ کی) حلال کردہ چیزیں ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ آیت اس طرح ہوتی:’قل احل لکم المحلات‘ (کہہ دو تمھارے لیے حلال چیزیں حلال کی گئی ہیں) اور یہ معلوم ہے کہ یہ کم زور (جملہ) ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ طیبات کو لذیذ اور پسندیدہ چیزوں پر محمول کیا جائے۔ لہٰذا جملے کا مفہوم یہ ہو گا: ’احل لکم کل ما یستلذ و یشتهی‘ (تمھارے لیے ہر لذیذ اور پسندیدہ چیز حلال کی گئی ہے)۔
پھر یہ جان لو کہ لذیذ ہونے اور پاکیزہ ہونے میں اچھے اخلاق والے لوگوں ہی کا اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ اہل بادیہ تمام حیوانات کے کھانے کو پاکیزہ سمجھتے تھے۔ اور ان آیات کی دلالت کی تائید یہ آیت کرتی ہے کہ ’زمین میں جو کچھ ہے، اس نے تمھارے لیے ہی پیدا کیا ہے‘۔‘‘

علامہ محمود آلوسی نے بیان کیا ہے:

ویحل لهم الطیبات ویحرم علیهم الخبائث: فسر الأول بالأشیاء التي یستطیبها الطبع کالشحوم، والثاني بالأشیاء التي یستخبثها کالدم، فتکون الآیة دالة علی أن الأصل في کل ما تستطیبه النفس ویستلذه الطبع الحل وفي کل ما تستخبثه النفس ویکرهه الطبع الحرمة إلا لدلیل منفصل.(روح المعانی۹/  ۸۱)
’’’ویحل لهم الطیبات ویحرم علیهم الخبائث‘: پہلی چیز، (یعنی طیبات) کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبیعت کو پاکیزہ لگیں، جیسے چربی۔ اور دوسری چیز، (یعنی خبائث) سے مراد وہ اشیا ہیں جو طبیعت کو ناپاک لگیں، جیسے خون۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نفس کو پاکیزہ لگے اور طبیعت کو لذت دے، وہ حلال ہے اور ہر وہ چیز جو نفس کو ناپاک لگے اور طبیعت اس کو ناپسند کرے ، وہ حرام ہے، سواے اس کے کہ الگ سے کوئی دلیل ہو۔‘‘

صاحب ’’معارف القرآن‘‘ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:

’’لغت میں طیبات صاف ستھری اور مرغوب چیزوں کو کہا جاتا ہے۔ اور خبائث اس کے بالمقابل گندی اور قابل نفرت چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے آیت کے اس جملہ نے یہ بتلا دیا کہ جتنی چیزیں صاف ستھری، مفید اور پاکیزہ ہیں، وہ انسان کے لیے حلال کی گئیں، اور جو گندی قابل نفرت اور مضر ہیں وہ حرام کی گئی ہیں۔ ... اب یہ بات کہ کون سی چیزیں طیبات یعنی صاف ستھری، مفید اور مرغوب ہیں اور کون سی خبائث یعنی گندی، مضر اور قابل نفرت ہیں، اس کا اصل فیصلہ طبائع سلیمہ کی رغبت و نفرت پر ہے۔‘‘(معارف القرآن ۳/ ۴۳، ۴۴)

صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے لکھا ہے کہ ہر چیز طیب ہے اور حلال ہے، سواے ان چیزوں کے جنھیں شریعت نے ناپاک اور حرام قرار دیا ہے اور جنھیں انسانی فطرت ناپاک تصور کرتی ہے:

’’حلال کے لیے ’’پاک‘‘ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیا کے ’’پاک‘‘ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے ، یا جنھیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/ ۴۴۵)

صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ نے اس موقع پر ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو مذہبیت کے زیر عنوان ہر چیز کو قانون کے زاویے سے دیکھتے اور اس کی حلت و حرمت کے تعین کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن نے اس موقع پر انھی لوگوں کی ذہنیت کی اصلاح کی ہے۔ مولانا کا یہ تبصرہ حسب ذیل ہے۔ فاضل تنقید نگار کے لیے اگر گراں باری خاطر نہ ہو تو وہ اس کی روشنی میں اپنے مقدمات کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں:

’’...مذہبی طرز خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیت کے شکار ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیا اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیت کی اصلاح کرتا ہے۔ پوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انھیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل الٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہے بجز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اصول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اس کے جس کی حرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کرکے دنیا کی وسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔ پہلے حلت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کرکے ساری دنیا اس کے لیے حلال ہو گئی۔‘‘(تفہیم القرآن ۱/ ۴۴۴- ۴۴۵)

حلت وحرمت کے باب میں شریعت کے اسی بنیادی اصول کے تحت قرآن مجید نے بھی خبائث کا مصداق قرار پانے والی بعض چیزوں کی وضاحت کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض چیزوں کو متعین کیا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کی بیان کردہ چار چیزوں کا تعلق ہے تو وہ ایک مخصوص دائرے میں حصر کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور ان پر اضافے کی کوئی گنجایش نہیں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مختلف جس دوسرے دائرے میں بعض جانوروں کی حرمت کو واضح کیا ہے، وہ چونکہ خبائث کی حرمت کے اسی عمومی اصول پر مبنی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، اس لیے اسی اصول پر اگر انسان اپنی فطری ناپسندیدگی کی بنا پر بعض ایسی چیزوں پر حرمت کا حکم لگائیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا تو یہ کسی صورت میں دین کے خلاف متصور نہیں ہو گا، بلکہ بعینہٖ شارع کے بیان کردہ اصول پر عمل قرار پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ علما و فقہا نے جانوروں کی حلت و حرمت کے معاملے میں طیبات و خبائث ہی کو اصل الاصول قرار دیا ہے اور اس باب میں انسانی طبائع کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہی کو معیار مانتے ہوئے بہت سے ایسے جانوروں کو بھی حرمت کے دائرے میں شامل کیا ہے جن کی حرمت قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے۔ اس ضمن میں اگر کوئی اختلاف واقع ہوتا ہے تو شارع کی طرف سے کوئی واضح صراحت میسر نہ ہونے کی بنا پر وہ اجتہادی اختلاف قرار پائے گا جس کی رخصت اور گنجایش خود صاحب شرع کی طرف سے رکھی گئی ہے۔

ذیل میں فقہ کے مختلف مکاتب فکر کے نمایندہ اصحاب علم کی آرا نقل کی جارہی ہیں۔ امید ہے کہ ان کے مطالعے سے ہماری بات پوری طرح واضح ہو جائے گی۔

امام شافعی لکھتے ہیں:

فإن العرب کانت تحرم أشیاء علی أنها من الخبائث وتحل أشیاء علی أنها من الطیبات فأحلت لهم الطیبات عندهم إلا ما استثنی منها وحرمت علیهم الخبائث عندهم قال اللہ عزوجل: ویحرم علیهم الخبائث... ولو ذہب ذاہب إلی أن یقول کل ما حرم حرام بعینه وما لم ینص بتحریم فهو حلال أحل أکل العذرة والدود وشرب البول لأن هذا لم ینص فیکون محرمًا ولکنه داخل في معنی الخبائث التي حرموا فحرمت علیهم بتحریمهم... فلم تکن العرب تأکل کلبًا ولا ذئبًا ولا أسدًا ولا نمرًا وتأکل الضبع فالضبع حلال... فجاءت السنة موافقة للقرآن بتحریم ما حرموا وإحلال ما أحلوا. (الام ۲/ ۲۴۱)
’’اہل عرب بہت سی چیزوں کو ان کے خبیث ہونے کی وجہ سے حرام اور بہت سی چیزوں کو ان کے طیب ہونے کی وجہ سے حلال سمجھتے تھے، چنانچہ جن چیزوں کو وہ طیب سمجھتے تھے، ان میں سے بعض کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی کو ان کے لیے حلال قرار دیا گیا، اور جن چیزوں کو وہ خبیث سمجھتے تھے، وہ ان کے لیے حرام کر دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھیراتا ہے۔... اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ بس وہی چیز حرام ہے جس کو نام لے کر حرام کہا گیا ہو اور جس کی حرمت پر کوئی نص نہ ہو، وہ حلال ہے تو اسے پاخانہ اور (زخم سے نکلنے والے) کیڑوں کے کھانے اور پیشاب پینے کو حلال کہنا ہوگا، کیونکہ ان کے حرام ہونے پر کوئی نص نہیں، بلکہ یہ چیزیں ’خبائث‘ کے اندر شامل ہیں جنھیں اہل عرب حرام سمجھتے تھے اور ان کے حرام سمجھنے ہی کی وجہ سے (شریعت میں بھی) انھیں ان کے لیے حرام کہا گیا۔... پس اہل عرب کتے، بھیڑیے، شیر اور چیتے کا گوشت نہیں کھاتے تھے، جب کہ بجو کا گوشت کھا لیتے تھے، اس لیے بجو حلال ہے۔ اسی طرح وہ چوہے، بچھو، سانپ، چیل اور کوے کو نہیں کھاتے تھے ، پس سنت میں (جو بعض چیزوں کو حرام کہا گیا ہے) وہ قرآن کے اس حکم کے موافق ہے کہ اہل عرب جن چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں، وہ حلال اور جن کو حرام سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔‘‘

علامہ کاسانی حنفی نے بیان کیا ہے:

إن الشرع إنما جاء بإحلال ما هو مستطاب في الطبع لا بما هو مستخبث ولهذا لم یجعل المستخبث في الطبع غذاء الیسر وإنما جعل ما هو مستطاب بلغ في الطیب غایته.(بدائع الصنائع ۵/ ۳۸)
’’شریعت نے انھی چیزوں کو حلال کیا ہے جو انسانی طبع کے لیے خوشگوار ہیں، نہ کہ ان کو جن سے وہ گھن کھاتی ہے، اسی لیے فراوانی کی حالت میں اس چیز کو غذا نہیں بنایا گیا جو طبع کے لیے ناگوار ہو، بلکہ اس چیز کو غذا ٹھیرایا گیا ہے جو حددرجہ خوشگوار اور مرغوب ہے۔‘‘

پانی کے بعض جانوروں کے بارے میں لکھتے ہیں:

وقوله عز شانه ویحرم علیهم الخبائث   والضفدع والسرطان والحیة ونحوها من الخبائث.(بدائع الصنائع ۵ /۳۵)  
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھیراتا ہے، اور مینڈک، کیکڑا اور سانپ وغیرہ بھی خبائث میں سے ہیں۔‘‘

خشکی کے جانوروں کے بارے میں فرماتے ہیں:

الذي یعیش في البر فأنواع ثلاثة ما لیس له دم أصلا وما لیس له دم سائل وما له دم سائل مثل الجراد والزنبور والذباب والعنکبوت والعضابة والخنفساء والبغاثة والعقرب ونحوها لا یحل أکله إلا الجراد خاصة لأنها من الخبائث لاستبعاد الطبائع السلیمة إیاها وقد قال اللہ تبارک وتعالیٰ: ویحرم علیهم الخبائث... کذالک ما لیس له دم سائل مثل الحیة والزغ وسام ابرص وجمیع الحشرات وهوام الأرض من الفار والقراد والقنافذ والضب والیربوع وابن عرس ونحوها. (بدائع الصنائع ۵/ ۳۶)
’’جو جانور خشکی پر رہتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں: کچھ وہ ہیں جن میں سرے سے خون نہیں، کچھ وہ ہیں جن میں بہنے والا خون نہیں اور کچھ وہ ہیں جن میں بہنے والا خون ہے۔ (پس جن میں سرے سے خون نہیں) جیسا کہ ٹڈی، بھڑ، مکھی، مکڑی، بغاثہ، گبریلا، پسو اور بچھو وغیرہ تو ان میں سے ٹڈی کے علاوہ باقی چیزوں کا کھانا حلال نہیں، کیونکہ یہ خبیث ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ سلیم طبیعتیں ان سے اجتناب کرتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھیراتا ہے۔...اسی طرح وہ جانور بھی حرام ہیں جن میں بہنے والا خون نہیں، جیسے سانپ، چھپکلی کی مختلف قسمیں، کیڑے مکوڑے، زمین کے جانور مثلاً چوہا، چیچڑی، سیہ، گوہ، یربوع اور نیولا وغیرہ۔‘‘

امام ابن قتیبہ نے لکھا ہے:

’’بعض حرام چیزیں ایسی ہیں جن کی حرمت پر نہ قرآن میں کوئی آیت اتری ہے اور نہ سنت میں کوئی نص ہے۔ ان میں لوگوں کو ان کی فطرت پر اور اس طبیعت پر چھوڑ دیا گیا ہے جن پر انھیں پیدا کیا گیا ہے، جیسے انسان کا گوشت، بندر کا گوشت، سانپ، چھپکلی کی مختلف قسمیں اور چوہا وغیرہ۔ ان میں سے ہر چیز سے نفوس گھن کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں یہ اصول بتا دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھیراتے ہیں، اور یہ تمام چیزیں فطرت کی رو سے خبیث ہیں۔‘‘ (تاویل مختلف الحدیث ۱۸۱)
ابن قدامہ حنبلی نے بیان کیا ہے:
وما عدا هذا فما استطابته العرب فهو حلال لقول اللہ تعالیٰ: (ویحل لهم الطیبات) یعني ما یستطیبونه دون الحلال... وما استخبثته العرب فهو محرم لقول اللہ تعالیٰ: (ویحرم علیهم الخبائث)... إذا ثبت هذا فمن المستخبثات الحشرات کالدیدان والجعلان وبنات وردان والخنافس والفار والأوزاغ والحرباء والعضاة والجراذین والعقارب والحیات.(المغنی ۸/ ۵۸۵)
  ’’ان جانوروں کے علاوہ جن جانوروں کو اہل عرب حلال سمجھتے ہوں، وہ حلال ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال ٹھیراتا ہے، یعنی ان چیزوں کو جنھیں اہل عرب طیب سمجھتے ہیں۔... اور جن چیزوں کو اہل عرب خبیث سمجھتے ہوں، وہ حرام ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام ٹھیراتا ہے۔ ...جب یہ ثابت ہو گیا تو خبیث سمجھی جانے والی چیزوں میں حشرات مثلاً کیڑے، گبریلے کی مختلف نسلیں، چھپکلی کی مختلف قسمیں، گرگٹ، مختلف قسم کے چوہے، بچھو اور سانپ وغیرہ شامل ہیں۔‘‘

یہاں تک کہ ابن حزم کو بھی، جنھوں نے کسی بھی چیز کو خبیث قرار دینے کے لیے شارع کی طرف سے نص کو ضروری قرار دیا ہے (المحلیٰ ۸/ ۴۲) اور اپنی کتاب’ ’المحلیٰ‘‘ میں مختلف جانوروں کی خباثت کے بارے میں پوری محنت سے نصوص جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، بعض جانوروں کے خبیث ہونے کے بارے میں انسانی فطرت اور رجحان ہی پر انحصار کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

وأما العقارب والحیات فما یمتري ذو فهم في أنهن من أخبث الخبائث وقد قال تعالیٰ: ویحرم علیهم الخبائث وأما الفیران فما زال جمیع أهل الإسلام یتخذون لها القطاط والمصاید القتالة ویرمونها مقتولة علی المزابل فلو کان أکلها حلالًا لکان ذالک من المعاصي ومن إضاعة المال.(المحلیٰ۷/ ۴۰۴)
        ’’رہے بچھو اور سانپ تو کسی ذی فہم کو اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ خبیث ترین چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ رسول ان پر خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ جب کہ چوہوں کے شکار کے لیے تمام اہل اسلام بلیاں اور مہلک چوہے دان رکھتے رہے ہیں اور انھیں مارنے کے بعد انھیں کوڑا کرکٹ کی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں۔ پس اگر ان کا کھانا حلال ہوتا تو مسلمانوں کا ایسا کرنا گناہ ہوتا اور مال کو ضائع کرنے کے زمرے میں آتا۔‘‘

اس تفصیل سے واضح ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں طیبات اور خبائث کو بنیادی اصول قرار دیتے ہیں، البتہ ان کے مصداق کی تعیین کے ضمن میں، بعض فقہا کی راے کے برعکس، منصوص جانوروں تک حرمت کو محدود رکھنے کے بجاے انسانوں کی فطرت سلیمہ اور ان کے ذوق اور مزاج کی روشنی میں ممانعت کے اس دائرے میں توسیع کے قائل ہیں اور ان کی یہ راے جمہور فقہا کے مسلک کے عین مطابق ہے۔

___________

B