HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

کثرت سے یاد خدا

محمد تہامی بشر علوی


اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے منتخب ہونے کی جو صفات بیا ن کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے لوگ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں ۔

اللہ کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ وہ خدا کویاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارا کوئی عزیز کبھی بیرون ملک چلا جاتا ہے تو اسے گھر والے یاد رہتے ہیں اور گھر والے بھی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی وہ یاد آتا ہے۔تو یاد کا مفہوم یہی ہے کہ انسان کا دھیان کسی کی طرف رہے ۔ تو اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم عملی زندگی میں جس طرف بھی قدم اٹھائیں، جو کچھ بھی کرنا چاہیں ،تو اس میں ہمیں اپنا خدا یاد رہے۔ اس کی یاد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فورا ً آپ کے دل میں تقویٰ کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔

تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آپ خواہشات و جذبات کے بہاؤ میں نہیں، بلکہ خدا کو سامنے رکھ کر عمل کرتے ہیں۔ بدی کی راہ چھوڑ کر بھلائی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی بیٹا اپنے والدیا استاذ کے سامنے کوئی بری بات کہنے سے گھبراتا ہے، اجتناب کرتا ہے۔کسی نوجوان کو اگر سگریٹ پینا ہو تو چھپ چھپا کر ایسا کرتا ہے تاکہ کوئی بزرگ یا بڑا اسے دیکھ نہ لے۔ کسی بڑے کی موجودگی کا احساس ہمیں برے عمل سے ، خواہش کے باوجود، دور رکھتا ہے۔مومنین کی اہم صفت یہی ہے کہ وہ اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ اگر برائی کا موقع ملا بھی تو وہ اس سے رک جاتے ہیں، اس احساس سے کہ ہمارا خدا ہمیں دیکھ رہاہے اور اس کے سامنے ہم برا کام کیسے کر سکتے ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ کو ہر عمل سے پہلے اور بعد یاد رکھتے ہیں۔ کثرت سے اللہ کو یاد کرنے سے یہی مراد ہے۔یہ لوگ لاپروائی کے ساتھ عمل نہیں کرتے کہ اس کے نتیجے اور مواخذے کا انھیں کوئی خیال و احساس ہی نہ ہو۔

خدا کو اس طرح یاد رکھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کی یاد ہر وقت آپ کے دل میں سمائی ہوئی ہو، اس کا ذکر زبان پر بھی آ جاتا ہے۔ ادھردل میں آپ اس کے احسانا ت محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور ادھر زبان پرآپ اس کا شکریہ بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔جب اس کی نعمت مل رہی ہوتی ہے تو آپ اس کا احساس کرتے اورالحمد للہ کہتے ہیں۔ جب اس کی کوئی نعمت آپ استعمال کر رہے ہوں تو آپ اس کا نام لے کر استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔ بسم اللہ سے ہر کام شروع کرتے ہیں ۔ کوئی نیا لباس ملے تو پھر بھی اسی کا نام لیتے ہیں۔ کھانے کو کچھ ملے تو اس میں بھی آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جتنی بھی چیزیں ہمیں ملی ہیں، یہ ہمیں اپنی ذاتی کوشش سے نہیں ملیں ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایات ہیں کہ اس نے اس قابل بنایا کہ یہ صلاحیتیں عطا فرمائیں اور پھر یہ نعمتیں عطا فرمائیں۔ اپنے مالک کی بندگی کا احساس اسے ہر حال میں ذاکر و شاکر بنائے رکھتا ہے ۔ وہ اپنے مالک کو یاد رکھتا بھی ہے، اسے یاد کرتا بھی ہے اور اس کا شکریہ بھی ادا کرتا رہتا ہے۔

زبان سے اس کا ذکر بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے ۔ نماز کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں تعبیر کیا کہ میری یادکے لیے آپ لوگ نماز کا اہتمام کیا کریں[1]، یعنی آپ جس خدا کو ہر وقت پیش نظر رکھتے ہیں ،اپنے ہر عمل میں اس کے سامنے اپنے آپ کو یوں پیش کیا کریں کہ بالکل آپ کا وجود پوری طرح اس کے سامنے جھک چکا ہو۔ آپ اپنے عمل سے یہ ظاہر کر رہے ہوں کہ آپ اس کے بندے اور وہ آپ کا مالک اور خدا ہے ۔ ایک ذاکر انسان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں رہتا جو خدا کی یاد کے بغیر گزر رہا ہو۔ وہ کوئی بھی عمل ایسا نہیں کر رہا ہوتا کہ اس سے اندازہ ہو کہ اس کو خدا کی کوئی پروا ہی نہیں ہے، وہ بے پروا ہو کر نہیں جی سکتا۔

قرآن مجید کو بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کہا گیا ہے ،کیونکہ اس میں بھی آپ خدا کی یاد میں محو ہوتے ہیں ،اس کا کلام سن رہے ہوتے ہیں، اس کی گفتگو پر غور کر رہے ہوتے ہیں ، وہ آپ سے ہم کلام ہوتا اور آپ اس کے مخاطب بن رہے ہوتے ہیں۔یہ ذکرخداکے ہی مختلف مظاہر ہیں۔ غلط فہمی سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید تسبیحات زیادہ کرلینے سے، ذکر میں گنتی کی مقدار زیادہ کرلینے سے کثرت کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ سو بار، ہزار بار یا کسی اور عدد کے برابر ہم نے ’لا إلٰه‘ کی تسبیح پڑھ لی تو گویایہ اللہ کا کثرت سے ذکر ہو جائے گا۔ اصل میں یہ ذکر کا ایک رسمی سا جو مفہوم عموماً سمجھ لیا گیا ہے، یہ اس کا کوئی حقیقی مفہوم نہیں؛ اس کے حقیقی مفہوم میں بڑی معنویت ہے۔ ہمیں اس بے روح رسمیت سے نکل کر اس معنویت کو سمجھنا بھی ہو گا اور پانا بھی۔ ذکر کثیر ایک بڑی با معنی کیفیت کا نام ہے۔

یہ ایک اہم ترین مومنانہ وصف کا نام ہے۔ یہ محض زبان اور ہونٹو ں کی ورزش کا نام نہیں ہے۔ اس روح کے نگاہوں سے اوجھل ہو جانے کی وجہ سے لوگ سو یا ہزار دانوں والی ایک تسبیح اللہ کے نام کی پڑھ لیتے ہیں۔ پھر عملی زندگی میں بہت ساری ایسی تسبیحات پڑھتے رہتے ہیں جو خدا کو سخت ناپسند ہوتی ہیں۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ذکر کا یہ رسمی طریقہ اللہ تعالیٰ کی یاد نہیں ہے۔ خود کو یا خدا کو ہم کب تک فریب دیتے رہیں گے؟ خدا کی یاد ، ایک مومنانہ زندگی پر پوری طرح طاری ہو جانے والی کیفیت کا نام ہے۔ وہ اس کو سامنے رکھ کر ایک ایک عمل کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ صفت عطا فرمائے کہ ہم بھی اس کو کثرت سے یاد رکھنے والے اور یاد کرنے والے ہوں۔ آمین۔

____________

[1]۔ طٰہٰ۲۰: ۱۴۔’وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ‘۔

B