HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ (۱)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

نسب اور موالات

حضرت حذیفہ کے والد کا نام حضرت حسیل (یاحسل )بن جابر تھا۔ ان کی نویں (یا آٹھویں )پشت پر عبس بن بغیض ہیں جن کی نسبت سے وہ عبسی کہلاتے ہیں ، بنو عبس بنو غطفان کی ایک شاخ(بطن) ہے جو یمامہ میں آبادتھی۔ حضرت حسیل نے اپنی قوم کا ایک شخص قتل کر دیا اور مکہ سے بھاگ کر یثرب آ گئے۔ انھوں نے یمن سے نقل مکانی کر کے یثرب میں آباد ہونے والے ازدی قبیلہ اوس بن حارثہ کی اپنے بت اشہل سے منسوب شاخ بنوعبدالاشہل کے ساتھ محالفت کر لی، اس پیمان کی وجہ سے لوگ انھیں یمان (یمنی) کہنے لگ گئے۔ انھوں نے بنو عبدالاشہل ہی کی رباب بنت کعب سے بیاہ کیا اور حضرت حذیفہ یثرب میں پیدا ہوئے۔ صحابہ کے تمام سیرت نگاروں کا یہی بیان ہے، تاہم ابن عبدالبر نے قتل و فرار کا قصہ حضرت حذیفہ کے پانچویں پردادا جروہ بن حارث یمان سے منسوب کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت حسیل جروہ بن حارث کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے یمان کہلاتے ہیں ۔

 بنوعبس کا اصل وطن یمامہ بتایا جاتا ہے، تاہم ڈاکٹر رافت پاشا کہتے ہیں کہ حضرت حسیل مکہ میں مقیم تھے اور یثرب منتقل ہونے کے باوجود مکہ آتے جاتے رہتے تھے۔ ہجرت نبوی سے قبل وہ اوس اور خزرج کے گیارہ افراد کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور نو راسلام سے منور ہوئے۔ ایک مسلم گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے حضرت حذیفہ آپ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے۔ آپ نے ایک بار حضرت حذیفہ سے پوچھا: تم مہاجرین کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتے ہو یا انصار میں؟ انھوں نے انصاری ہونے کوترجیح دی۔

کنبہ

ابو عبداللہ حضرت حذیفہ کی کنیت ہے۔ حضرت سعد (یا سعید )، حضرت صفوان، حضرت مدلج، حضرت ابوعبیدہ، حضرت حذیفہ کے چار بھائی اور حضرت لیلیٰ، حضرت فاطمہ اور حضرت ام سلمہ ان کی تین بہنیں تھیں ۔ ان کے بیٹوں کے نام ہیں : ابو عبیدہ، بلال، صفوان اور سعید۔

واقعۂ معراج

 حضرت حذیفہ بن یمان نے معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت المقدس جا کر مسجد اقصیٰ کے دروازے پر براق کے باندھنے اور مسجد میں نماز کی امامت کرنے کا انکار کیا ہے۔ اس باب میں ان کا اپنے شاگرد زر بن حبیش سے مکالمہ ہوا۔ انھوں نے زر سے پوچھا: کیا تمھارے خیال میں اللہ کے فرمان، ’سُبْحٰنَ الَّذِيْ٘ اَسْرٰي بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَي الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘، ’’پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے (محمد) کوایک ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ میں لے گیا‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۱) میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں ۔ حضرت حذیفہ نے کہا: آپ وہاں نماز پڑھاتے تو تم سب لوگوں پرمسجد حرام کی طرح وہاں بھی نمازپڑھنا فرض ہو جاتا۔ جہاں تک براق کا تعلق ہے، اس لمبی پیٹھ والے جانورکو جس کا قدم حد نگاہ تک پڑتا تھا، اللہ نے آپ کے لیے مسخر کر دیا تھا۔ اسی نے آپ کو جنت ودوزخ کی سیرکرائی۔ اس کو بیت المقدس میں نہ باندھتے تو کیا وہ بھاگ جاتا؟ (ترمذی، رقم ۳۱۴۷۔ احمد، رقم۲۳۳۳۲)۔ ابن کثیر کہتے ہیں : ان واقعات کا اثبات کرنے والی روایات کو حضرت حذیفہ کی منفی روایت پر ترجیح دی جائے گی۔

مواخات

مدینہ آمد کے بعد نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک کے گھر آئے۔ آپ نے پینتالیس مہاجرین مکہ کو پینتالیس انصار مدینہ کا بھائی قرار دیا۔ ابتدا میں اس عہد مواسات میں شامل اصحاب ایک دوسرے کی وراثت میں بھی حصہ پاتے رہے، لیکن جنگ بدر کے موقع پر حکم الہٰی ’وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰي بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ‘، ’’ اور اللہ کی کتاب میں رحم کا رشتہ رکھنے والے اہل ایمان اور مہاجرین سے زیادہ ایک دوسرے کے حق دار ہیں ‘‘ (الاحزاب۳۳: ۶)نازل ہونے کے بعد حق وراثت جاتا رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان کی مواخات حضرت سلمان فارسی (حضرت عمار بن یاسر: ابن ہشام)سے قائم فرمائی۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسر کی مواخات حضرت ثابت بن قیس سے قائم ہوئی۔

جنگ بدر

جنگ بدر سے پہلے حضرت حذیفہ، اپنے والد حضرت حسیل کے ساتھ مدینہ سے باہر سفرکر رہے تھے کہ کفار قریش سے سامنا ہو گیا۔ کفار نے پوچھا: کہاں کا قصد ہے؟ انھوں نے بتایا: مدینہ، تو کہا: تو تم محمد سے ملنے جارہے ہو؟ ان کے انکارپرمشرکین نے اللہ کو گواہ بنا کر عہد لیا کہ یثرب جا کر محمد کے ساتھ جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ باپ بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور واقعہ سنا کر پوچھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے ساتھ مل کر قتال کر لیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ہم ایفاے عہدکریں گے اور مشرکوں کے خلاف اللہ سے مدد مانگیں گے(مسلم، رقم۴۶۳۹۔ احمد، رقم۳۳۳۵۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۰۰۲)۔ چنانچہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد مشرکوں سے کیے گئے عہد کی وجہ سے جنگ بدر میں حصہ نہ لے سکے۔

جنگ احد

 حضرت حذیفہ اور ان کے بھائی حضرت صفوان نے جنگ احد میں حصہ لیا۔ ان کے والد حضرت حسیل (یمان ) بن جابر عورتوں اور بچوں کے ساتھ قلعہ میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ حضرت ثابت بن وقش بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ دونوں عمر رسیدہ تھے، انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں کس چیز کا انتظار ہے؟ ہماری عمراتنی ہی رہ گئی ہے جس قدر ایک گدھا پیاس برداشت کر سکتا ہے، یعنی بہت کم، آج نہیں تو کل مر جائیں گے۔ کیوں نہ تلوار پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملیں ۔ ہو سکتا ہے، اللہ ہمیں آپ کی معیت میں قتال کرتے ہوئے شہادت نصیب کر دے۔ چنانچہ دونوں تلواریں سونت کر میدان جنگ میں گھس گئے، کسی کو ان کی پہچان نہ تھی۔ حضرت ثابت بن وقش کوتومشرکوں نے شہید کر دیا، حضرت حسیل یمان مسلمانوں کی تلواروں کی زد میں آگئے۔ انھوں نے لاعلمی ہی میں انھیں ختم کر دیا۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے: غزوۂ احد میں مشرکین کی ابتدائی شکست کے بعد ابلیس چلایا: اے اللہ کے بندو، اپنے پیچھے آنے والوں سے بچو۔ چنانچہ مسلمان پلٹ کر پچھلوں پر ٹوٹ پڑے، حالاں کہ وہ مسلمان ہی تھے۔ حضرت حذیفہ نے دیکھا کہ لوگ ان کے والد یمان کے درپے ہیں توپکارے: یہ میرے والد ہیں ، یہ میرے والد ہیں، لیکن حملہ آوروں تک ان کی آواز نہ پہنچی اورانھوں نے حضرت یمان کو قتل کر کے چھوڑا۔ پھر بہت شرم سار ہوئے اور معذرت کی: واللہ ہم نے انھیں نہیں پہچانا۔ حضرت حذیفہ نے کہا: اللہ تم لوگوں کی مغفرت کرے، وہ ’أرحم الراحمین‘ ہے (بخاری، رقم ۳۲۹۰)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسیل کی دیت دینا چاہی، لیکن حضرت حذیفہ نے مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔ اس طرح آپ کی نظر میں ان کی قدر بڑھ گئی۔ ذہبی کہتے ہیں : حالت جنگ میں زرہ اور خود پہننے سے بسااوقات مقابل کی شناخت ممکن نہیں رہتی۔

حضرت حذیفہ کی بہن حضرت لیلیٰ بنت یمان کے بیٹے حضرت سلمہ بن ثابت جنگ احد میں ابوسفیان کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

جنگ خندق: خندق کی کھدائی

شوال ۵ھ(مارچ ۶۲۷ء): بنونضیر کی عہد شکنی اور جلا وطنی کے بعد سرکرد ہ یہود مکہ گئے اور قریش کے ساتھ مل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے کا معاہدہ کیا۔ بنو غطفان، بنو مرہ اور بنو اشجع کے قبائل بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ آپ کو ان کی کارروائیوں کا پتا چلا تو صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی نے بتایا کہ ایران میں ہم جب دشمن میں گھر جاتے تھے تو اپنے گرد خندق کھود لیتے تھے۔ یہ تجویزآپ کوپسند آئی اور اسی پر عمل کا فیصلہ فرمایا۔ آپ نے گھوڑے پر سوار ہو کر صحابہ کے ساتھ مدینہ کے گرد چکر لگایا او ر شمال کی جانب اجم الشیخین(لفظی مطلب: دوسرداروں کے قلعے، جنگ کے نقشے سے پتا چلتا ہے کہ یہ بنو عبدالاشہل کا علاقہ تھا، دوسری روایت: اجم السمر)یا یہودیوں کے قلعہ راتج سے خط کھینچنا شروع کیا اور بنوحارثہ کے علاقے اور جبل ذباب سے ہوتے ہوئے اسے وادی مذاذ(مداد) تک لے آئے، کوہ سلع آپ کے عقب میں تھا۔ پھر چالیس چالیس ذراع (ایک ذراع: قریباً اٹھارہ انچ) کے حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصہ کھودنے کے لیے دس دس صحابہ کی جماعت مقرر فرمائی، خندق کی کھدائی مکمل ہونے میں چھ دن لگے۔ حضرت عمرو بن عوف، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت سلمان فارسی، حضرت نعمان بن مقرن اور چھ انصاری صحابہ ذباب سے جبل بنوعبید کی طرف اپنے حصے میں آنے والی زمین کی کھدائی کررہے تھے۔ کھدائی کرتے کرتے ایک سفید چکنی چٹان نمودار ہوئی جو اس قدر سخت تھی کہ صحابہ کے پھاؤڑے ٹوٹ گئے، مگر چٹان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھینچے ہوئے خط سے ہٹنا نہ چاہتے تھے، اس لیے حضرت سلمان فارسی آپ کے پاس پہنچے۔ آپ ان کے ساتھ خندق میں اترے، کدال لی اور چٹان پرزوردار ضرب لگائی جس سے اتنی تیز روشنی نکلی کہ سنگلاخ زمینوں کے مابین واقع مدینہ چمک اٹھا اورچٹان ٹوٹ گئی۔ مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ آپ نے دوسری اور تیسری ضربیں لگائیں ، ہر دو دفعہ اطراف روشن ہوگئے اور مدینہ اہل ایمان کے نعرہ ہاے اللہ اکبر سے گونج اٹھا۔ حضرت سلمان فارسی نے کہا: یا رسول اللہ، میں نے وہ کچھ دیکھا جو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ آپ نے پوچھا: تمھیں کیا نظر آیا؟ حضرت سلمان بولے: میں نے بجلی دیکھی جو موج کے مانند پھیل رہی تھی۔ تم نے سچ کہا، آپ نے وضاحت فرمائی: میں نے پہلی چوٹ لگائی تو اس کی روشنی میں حیرہ کے محلات اور کسریٰ کا مدائن دیکھا۔ جبریل علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ میری امت ان پر قابض ہو گی۔ دوسری ضرب لگانے پر مجھے روم کے سرخ محلات دکھائی دیے، جبریل علیہ السلام نے خبردی کہ میری امت ان پر غالب ہو گی۔ کدال تیسری مرتبہ چلانے پر صنعا کے ایوان نظر آئے، جبریل علیہ السلام نے ان پر بھی میری امت کے غلبے کی خوش خبری دی۔

حضرت حذیفہ اور کفار کی جاسوسی

مشرکین مکہ کا محاصرہ سخت ہوا، مسلمانوں کو دن میں نہ رات میں سکون میسر تھا۔ اوپر مشرک تھے اور نیچے یہود بنوقریظہ جن سے ہر دم خطرہ تھا کہ وہ عورتوں اور بچوں پر تعدی نہ کریں ۔ ایک تاریک رات جب سرد ہواکے جھکڑ چل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ کسی شخص کو خندق کے پار قریش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجیں ۔ منافقین بہانے تراش کر کھسک چکے تھے۔ دس بارہ اصحاب آپ کے قریب موجود تھے۔ آپ ایک شخص کے پاس آئے اورپوچھا: کیا تو قریش کی اطلاع لائے گا؟ اس نے عذر پیش کیا توکچھ دیر بعد آپ ایک اور آدمی کے پاس آئے تو وہ بھی ٹھنڈ کی وجہ سے نہ اٹھا۔ حضرت حذیفہ بن یمان آپ کی گفتگو سن رہے تھے، خاموش رہے، کیونکہ وہ محض گھٹنوں تک پہنچنے والی اپنی بیوی کی چادر اوڑھے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے۔ اس اثنا میں آپ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا: کون؟ بتایا: حذیفہ بن یمان۔ فرمایا: میں تمھیں ہی ڈھونڈ رہا تھا، تم نے رات بھر سے میری لوگوں سے ہونے والی بات چیت سن لی ہے، تمھیں کفار کی جاسوسی کرنے بھیجوں؟ حضرت حذیفہ نے جواب دیا: اس اللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میرے کانوں نے آپ کے الفاظ سنے تھے۔ پھر تم کیوں نہ اٹھے؟ جواب دیا: بھوک اورٹھنڈ نے روکے رکھا۔ بھوک کا سن کر آپ مسکرائے اوردعا فرمائی: اٹھو، اللہ تمھاری حفاظت کرے تمھارے آگے سے، پیچھے سے، نیچے سے، تمھارے دائیں سے، بائیں سے، یہاں تک کہ تم لوٹ آؤ۔ دشمن کے حالات معلوم کرنا، ان کو میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے شاداں حضرت حذیفہ اٹھے، بھوک، خوف اور کسی آنے والی مصیبت کی انھیں پروا نہ تھی، سخت سردی میں اس طرح چلتے ہوئے گئے، گویا گرم حمام میں بیٹھے ہوں، خندق پھلانگ کر مشرکوں کے بیچ جاپہنچے۔ انھوں نے دیکھا کہ ابوسفیان آگ سے اپنی کمر سینک رہا ہے اورآگ کی روشنی میں کچھ لوگ اس کے اردگرد بیٹھے ہیں ۔ انھوں نے تیر کمان میں رکھ کر اسے مارنے کا اردہ کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت یاد آگئی کہ مشرکوں کوانگیخت نہ کرنا۔ ابوسفیان کی مجلس برخاست ہوئی تو حضرت حذیفہ مشرکوں میں جا بیٹھے۔ اسی دوران میں ابوسفیان کو محسوس ہوا کہ کوئی باہر کا آدمی موجود ہے۔ وہ پکارا: ہر شخص اپنے ساتھ والے کا ہاتھ پکڑ لے۔ حضرت حذیفہ نے ایک ہاتھ سے اپنے دائیں طرف بیٹھے آدمی کا ہاتھ پکڑا اور دوسرا بائیں جانب بیٹھے شخص کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ ان لوگوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ وہ فلاں کہہ کر جلدی جلدی سوال جواب کرنے لگے، مبادا کہ انھیں پتا لگ جائے۔ اسی اثنا میں ابوسفیان نے بنو قریظہ کے ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے اور اللہ کی طرف سے آنے والی آندھیوں اور طوفانوں سے عاجز آکر واپسی کا اعلان کیا۔ یہ سن کر حضرت حذیفہ بن یمان وہاں سے اٹھ آئے۔ راستے میں انھیں کچھ گھڑ سوار ملے، انھوں نے بھی مشرکوں کی واپسی کی خبر دی۔

ابوسفیان کے اعلان کے بعداہل مکہ نے سامان لادا اور چل پڑے۔ حضرت حذیفہ نے بنوعامر کواے آل عامر، کوچ کرو، اے آل عامر، کوچ کرو کی آواز لگاتے سنا۔ بنوغطفان نے اپنے حلیف قریش کا شور و غوغا سنا تو پس و پیش کیے بغیر میدان جنگ چھوڑ دیا۔

حضرت حذیفہ دشمنوں کی خبریں لیے پلٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نوافل ادا کررہے تھے۔ فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہوئے تو حضرت حذیفہ نے جو دیکھا اور سنا، بیان کیا۔ آپ نے انھیں وہ عبا اوڑھا دی جسے پہن کر نمازادا فرما رہے تھے، اس لیے کہ حضرت حذیفہ کی کپکپی لوٹ آئی تھی۔ حضرت حذیفہ فجر تک سوئے رہے، حتیٰ کہ آپ نے فرمایا: نیند کے ماتے، اٹھ جاؤ۔ اگلے روز مسلمانوں نے بھی مدینہ واپسی کی راہ لی (مسلم، رقم۴۶۴۰۔ احمد، رقم۲۳۳۳۴)۔

غزوۂ تبوک

تبوک سے واپسی پر منافقین کے ایک گروہ نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو راستے میں آنے والی ایک گھاٹی کے اوپر سے گرانے کا پروگرام بنایا۔ اﷲ کی طرف سے آپ کو مطلع کر دیا گیا، چنانچہ آپ نے اعلان کرا دیا کہ آپ گھاٹی پر سے جائیں گے، وہاں کوئی اور نہ آئے، صحابہ وادی کے وسیع راستے پر چلیں گے۔ صحابہ نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا، لیکن بارہ (یا چودہ) نقاب پوش منافقین گھاٹی پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت عمار بن یاسر آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے۔ چلتے چلتے انھوں نے پیچھے سے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں لے لیا۔ حضرت حذیفہ نے ان کی یہ گفتگوسنی کہ اگر ہم محمد کو سواری سے نیچے ( وادی میں)پھینک دیں تو(معاذاللہ)ہماری ان سے جان چھوٹ جائے گی تو ڈنڈا لے کر ان کے اور آپ کے بیچ میں حائل ہو گئے اور ان کی سواریوں کا رخ موڑ دیا ۔آپ اس وقت سو رہے تھے ،حضرت حذیفہ کی پکار سن کر بیدار ہو گئے،آپ نے بھی منافقین کو ڈانٹا۔ جب انھیں احساس ہوا کہ ان کی سازش بے نقاب ہو گئی ہے تو جلدی سے لشکر میں بکھر گئے (المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۳۰۱۵) ۔ آپ نے حضرت حذیفہ کو حکم دیا کہ اونٹنی کو ضرب لگاؤ اور حضرت عمار کو تیز چلنے کو کہا۔ اس طرح آپ تیزی سے گھاٹی عبور کر کے نیچے اتر آئے جہاں دیگر اصحاب آپ کے منتظر تھے۔

عہد فاروقی

۱۴ھ میں حضرت عمر نے حضرت حذیفہ بن یمان کوکوفہ کی مہم پر بھیجا، اس وقت ایرانی شکست کھا کر مدائن میں سمٹ آئے تھے۔

کوفہ کی تعمیر

محرم ۱۷ھ(۶۳۹ء): جنگ قادسیہ کے بعد حضرت عمر نے اسلامی فوج کے کمانڈر حضرت سعد بن ابی وقاص کومدائن کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان ان کے ساتھ تھے۔ مدائن کی آب وہوا مسلمانوں کو راس نہ آئی، حضرت عمر نے عراق سے آنے والے فوجیوں کی صحتیں خراب ہوتی دیکھیں تو اس کا سبب دریافت کیا۔ انھیں حضرت حذیفہ بن یمان نے مدائن سے رپورٹ بھیجی، ناموافق آب و ہوا کی وجہ سے مسلمان فوجیوں کے پیٹ ساتھ لگ گئے ہیں ، بازوؤں اور ٹانگوں سے گوشت اتر گیا ہے اوران کے رنگ سیاہ ہوگئے ہیں ۔ حضرت عمر نے ہدایت بھیجی کہ یہاں کے لوگوں کو وہی آب و ہواموافق ہو گی جو ان کے اونٹوں کے لیے سازگار ہو۔ انھیں دریاؤں سے دوران خشک سرزمینوں میں آباد کروجہاں پانی کے چشمے بھی ہوں ۔ حذیفہ اور سلمان کو کسی اچھے مقام کی تلاش میں بھیجو۔ چنانچہ سلمان دریاے فرات کے مغرب میں انبارتک گئے، لیکن کوئی جگہ پسند نہ آئی۔ حضرت حذیفہ بن یمان دریا کی مشرقی سمت میں گئے، پھرتے پھرتے حیرہ کے قریب اس مقام تک آئے جسے کوفہ کہا جاتا ہے، یعنی سرخ ریت اور سنگ ریزوں والی زمین۔ انھوں نے نئے شہر کے لیے اسی جگہ کا انتخاب کیاجو دریاے فرات کے قریب ہونے کے باوجود صحر اسے دور نہ تھی۔ اس وقت راہبوں کے تین ڈیروں کے علاوہ یہاں کچھ نہ تھا۔ حضرت حذیفہ اور سلمان نے اس جگہ نماز ادا کی اور نئے شہر کے لیے برکت و ثبات کی دعا مانگی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص مدائن سے آئے اور سب سے پہلے بلند ترین جگہ کی نشان دہی کر کے مسجد تعمیر کرائی۔ پھر انھوں نے دور تک مار کرنے والا ایک ماہر تیر انداز بلایا جس نے مسجد کی چہار اطراف میں تیر پھینکے۔ تیر گرنے کے مقامات تک کی جگہ بازارکے لیے چھوڑی گئی اور اس سے پرے عوام الناس نے گھر بنا لیے۔ اس سیاق میں اہل تاریخ نے سلمان کی شخصیت کومبہم رکھا ہے۔ ’’البدایہ‘‘ کی عبارت میں قوسین میں (بن زیاد)لکھا ہے، لیکن ہمیں سلمان بن زیاد نام کے کسی شخص کا سراغ نہیں مل سکا۔ ہمارے خیال میں یہ حضرت سلمان فارسی ہونے چاہییں جو اس وقت یا اس کے قریبی زمانہ میں مدائن میں موجود تھے۔ بلاذری کہتے ہیں : عبدالمسیح بن بقیلہ حضرت سعد کے پاس آئے اور سرزمین کوفہ کی نشان دہی کی، اس وقت اسے سورستان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

حضرت عمر نے حضرت حذیفہ کو مدائن کا حاکم مقرر کیاتو انھوں نے ایک اہل کتاب خاتون سے نکاح کر لیا۔ اس پر حضرت عمر نے انھیں اس خاتون کو طلاق دینے کا حکم بھیجا۔ حضرت حذیفہ نے جواب تحریر کیا: میں اس وقت تک طلاق نہ دوں گاجب تک مجھے یہ واضح نہ کریں کہ آیامیرا عمل حلال تھا اور آپ کس وجہ سے طلاق دینے کا حکم دے رہے ہیں؟ حضرت عمر نے لکھا: تمھارا نکاح حلال ہے، لیکن عجمی عورتوں میں اس قدردل ربائی ہے کہ وہ تمھاری دوسری بیویوں پر غالب آ جائیں گی۔ تب حضرت حذیفہ نے اس عورت کو طلاق دے دی اورجواب دیا: بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔

حضرت حذیفہ نے نصیبین میں سکونت اختیار کی تووہیں نکاح کر لیا۔

[باقی]

_________

B