(سورۂ فتح (۴۸) کی آخری آیت کی تورات و انجیل سے تعیین و تخریج)
[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
سورۂ فتح قرآن مجید کی اڑتالیسویں سورہ ہے۔ اس کی آخری آیت مع ترجمہ یہ ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِﵧ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ٘ اَشِدَّآءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًاﵟ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِﵧ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِﵛ وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِﵞ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰي عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَﵧ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا.
’’محمد، اللہ کے رسول اور جو ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت آپس میں رحم دل ہیں۔ تم ان کو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سرگرم پاؤ گے۔ ان کا امتیاز ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان سے ہے۔ ان کی یہ تمثیل تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی تمثیل یوں ہے کہ جیسے کھیتی ہو جس نے نکالی اپنی سوئی، پھر اس کو سہارا دیا، پھر وہ سخت ہوئی پھر وہ اپنے تَنَہ پر کھڑی ہو گئی کسانوں کے دلوں کو موہتی ہوئی تاکہ کافروں کے دل ان سے جلائے۔ اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے مغفرت اور ایک اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔‘‘(تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی)
’’محمد، اللہ کے رسول اور جو اُن کے ساتھ ہیں، وہ منکروں پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم اُن کو اللہ کے فضل اور اُس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سرگرم دیکھو گے۔ اُن کی پہچان اُن کے چہروں پر سجدوں کے نشان سے ہے۔ یہ اُن کی تمثیل تورات میں ہے اور انجیل میں اُن کی تمثیل یہ ہے کہ جیسے کھیتی ہو، جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اُس کو سہارا دیا، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ بونے والوں کے دلوں کو موہتی ہے کہ منکروں کے دل اُن سے جلائے۔ اللہ نے اُن لوگوں سے جو اُن میں سے ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘(البیان، جاوید احمد غامدی)
مندرجہ بالا آیت سورۂ فتح کی اختتامی آیت ہے۔ یہ سورہ، جیسا کہ سب جانتے ہیں، صلح حدیبیہ کے فوراً بعد مومنین ـــــــ بالخصوص اصحاب شجرہ[1] ـــــــ کے لیے مبارک باد و بشارت لیے نازل ہوئی، جب کہ ان کے ساتھ اس سفر سے جانتے بوجھتے گریز کر جانے والے کم زور ایمان والوں اور منافقین کے لیے گرفت و حسرت کا پیغام بن کر آئی۔ چنانچہ سورہ کا اختتام اللہ تعالیٰ نے نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے مغفرت و اجر عظیم کی بشارت پر فرمایا، بلکہ اس شگفت انگیز دعوے پر فرمایا کہ اس گروہ مقدس کی تعریف اور عالی نشانیاں تو تورات و انجیل میں بھی موجود رہی ہیں، یہاں تک کہ عین ان امثال کی بھی نشان دہی فرما دی جو اِن کتب مقدسہ میں اِن کے متعلق بیان کی گئی تھیں۔
اس مضمون کا مقصد تورات و انجیل میں ان تماثیل کی تعیین اور وہاں موجود الفاظ و عبارات کی درست تفہیم ہے۔ اگرچہ مفسرین کرام نے بالعموم اِن کی نشان دہی درست یا ہمجواری کی ہے، یہاں ان کی تنقیح مزید مقصود ہے۔ چنانچہ اوپر تورات کی تمثیل اکہرے خط کشیدہ سے نماياں کی گئی ہے، اور انجیل کی دوہرے سے۔
اس سے پہلے کہ ہم تعیین و تخریج کی طرف بڑھیں، ایک سامنے کی بات کو باور کر لیا جائے۔ وہ یہ کہ اگرچہ الفاظ تورات و انجیل عام طور پر بالترتیب عہد نامۂ قدیم اور عہد نامۂ جدید کے لیے بھی استعمال ہو جاتے ہیں، قرآن انھیں جیسے استعمال کرتا ہے، اور بالخصوص یہاں جیسے استعمال ہوئے ہیں، تورات سے مراد عہد نامۂ قدیم کی پہلی پانچ کتب، اور انجیل سے مراد اناجیل اربعہ[2] ہی ہے۔ یعنی عہد نامۂ قدیم میں کتب خمسہ ـــــــــ پیدایش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا ـــــــــ کے علاوہ اور بھی بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے صحائف ہیں، یہاں تک کہ زبور بھی ہے، پر تورات اہل کتاب کے ہاں ہمیشہ سے انھی پانچ کتب تک محدود اور علیحدہ تشخص رکھتی رہی ہے، اس لیے محولہ تمثیل کو بس انھی کتب میں سے معين و شمار کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عہد نامۂ جدید میں بھی اناجیل اربعہ کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب ہیں، پر تمثیل کو انھی اناجیل میں سے ہونا ہو گا۔پس حقیقت یہ ہے کہ زبور، حبقوق، مکاشفہ اور کچھ دوسری کتب مقدسہ میں ایسی نشانیاں ہیں جو کوئی منصف مزاج محقق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پھیر پائے، تاہم زیر نظر آیت کی حد تک یہ ہمارے لیے مرجع بننے کی اہل نہیں۔
اس تنبیہ کے بعد آئیے پہلے تورات کی تمثیل کو لیتے ہیں۔
تورات کی طرف بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر تمثیل کے الفاظ پر نظر ڈال لیجیے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے کیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی جماعت کو کافروں پر ’اَشِدَّآءُ‘، یعنی ان کی ریشہ دوانیوں کے مقابل میں مضبوط، ناقابل رسوخ اور عسیر الانقیاد فرمایا، جب کہ مومنین کے معاملے میں ’رُحَمَآءُ‘، یعنی سہل الانقیاد، متواضع اور نرم خُو قرار دیا۔ اُن کے روز و شب کا یہ عالم کہ کوئی دیکھنے والا انھیں جب بھی دیکھے ’رُكَّعًا سُجَّدًا‘، یعنی محو رکوع و سجودہی پائے؛ اس قدر کہ کثرت سجود کے باعث ان کی پیشانیاں نشان زدہ ہو چکیں۔ اور یہ سب کچھ وہ اپنے رب کی طرف سے فضل و رضا کی آرزو میں کر رہے ہیں۔
ہمارے مفسرین نے تورات میں اس تمثیل کا مقام کتاب استثنا[3] (۳۳) آیات ۲-۳ متعين کیا ہے۔ تحقیق ھٰذا سے بھی اسی کی توثیق ہوتی ہے۔ تاہم چونکہ ہمارے مفسرین کو انھی تراجم پر انحصار کرنا پڑا ہے جو انھیں عموماً اپنی زبان میں میسر تھے، اس لیے انھی ناقص تراجم میں سے کوئی ایک نقل کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے جس سے قرآن و تورات میں موضوع کی مماثلت اور مفہوم کا وضوح کما حقہٗ نمایاں نہ ہو پایا ہے۔
غوطہ زن ہونے سے پہلے، البتہ یہاں مختلف تراجم نقل کیے جاتے ہیں تا کہ کم سے کم اختلاف تراجم کے بسط کا کچھ اندازہ ہو جائے۔ اور چونکہ ترجموں کے پھر اردو میں ترجمے مقصد کو ہی فوت کر دیں گے، اس لیے مشہور ترجمے اپنی اصل زبان میں ہی نقل کیے جا رہے ہیں:
ان تراجم پر سرسری نظر ہی سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کچھ بنیادی اصطلاحات و تعبیرات کی تاویل میں کتنا تنوع اور اختلاف ہو گیا ہے۔ چنانچہ یہ ضروری قرار پاتا ہے کہ ہم تراجم پر انحصار کے بجاے اصل عبرانی نص کا مطالعہ کریں تا کہ نہ صرف یہ کہ تراجم میں سے محتاط ترین کی نشان دہی کی جا سکے، بلکہ جیسا کہ آگے واضح ہوتا ہے، درست مفاہیم، خواہ وہ موجودہ تراجم سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، تک رسائی حاصل کر سکیں۔
اس سے پہلے کہ آیت کی طرف بڑھیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو درج ذیل تخریج پر بصیرت حاصل کرنا چاہیں، ان کی کچھ رہنمائی کر دی جائے۔ عبرانی زبان کے متعلق ہم اپنے مضمون ’’حروف مقطعات اور نظریۂ فراہی کے اطلاقات‘‘[4]میں ابتدائی گفتگو کر آئے ہیں۔اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’مع ذالك‘ کچھ بنیادی مقدمات کی تکرار کیے دیتے ہیں۔
عبرانی زبان تین چار ہزار سال پرانی زبان ہے، لیکن اپنی زندگی کا تقریباً نصف، یہ محض صحائف میں لکھی ہوئی ایک زبان کی حیثیت سے باقی تھی اور اسے بولنے والے نہ تھے۔ چنانچہ ماضی قریب میں جب اس کی ’قبر کشائی‘ کی گئی تو تحریروں کی ریورس انجینئرنگ سے زبان اور اس کے قواعد کو بڑی حد تک دوبارہ دریافت کیا گیا۔ اس میں بہت مدد عربی سے بھی مل گئی، کیونکہ سواے رسم الخط کی تبدیلی کے یہ زبان تقریباً ایک ہی یا ماں بیٹی یا بہنیں سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں باہمی مماثلت سے متعلق ایک موٹی مثال اگر دیتے چلیں تو ان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان کے ناموں عربی اور عبریہ[5] میں ہے؛ یعنی کہیں کوئی حرف آگے پیچھے ہو جائے گا، کہیں کوئی حرف علت مختلف ہو جائے گا یا گر جائے گا، تو کہیں ایک آدھ حرف جمع تفریق ہو جائے گا۔ باقی، فی الاغلب الفاظ کی مجموعی ساخت اور مطالب میں بے حد یکسانیت ملے گی۔ تاہم اس کے نفخ ثانی کے وقت چونکہ زیادہ تر ماہرین لاطینی زبانوں سے جس قدر واقف تھے، لغات افریقہ و ایشیا سے نہ تھے، اس لیے ترجموں اور تفسیروں میں جہاں اعلیٰ کام دیکھنے کو ملتا ہے، وہیں خاطر خواہ مقدار نہایت ناقص تحقیق و انتخاب کی بھی مل جاتی ہے۔ایسے قواعد و سکنات پر مترجمین لڑکھڑاتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ادنیٰ عربی جاننے والا قاری بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ باوجود اس کے، ان میں ایسے ماہرین بھی بہر حال ہیں جنھوں نے عربی، سریانی، آرامی وغیرہ جیسی سامی زبانوں میں مہارت حاصل کی، پس انھی کی راے لائق اعتنا ہوتی ہے۔
تورات کی بات کریں تو یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ اگرچہ وہ نازل تو عبرانی میں ہوئی تھی، مگر اس کا اصل عبرانی نسخہ موجود نہیں۔ جتنے عبرانی نسخے ہیں یا تو بہت بعد کی پیداوار ہیں، اور یا آرامی، یونانی، سامری وغیرہ سے مترجم ہیں۔ چنانچہ بہترین ترجمے تک پہنچنے کے لیے مترجمین عموماً پانچ مخطوطات کے ملے جلے مطالعے پر انحصار کرتے ہیں؛ یعنی ماسورتی، سامری، سبعینی، بسیطہ اور حال ہی میں ملنے والے مخطوطات البحر الميت۔ ان میں بالترتیب اصل کے سب سے قریب سبعینی، ماسورتی اور سامری کو سمجھا جاتا ہے، تاہم سب سے زیادہ شیوع ماسورتی کو حاصل ہوا اور سب سے زیادہ ترجمے بھی اسی کو بنیاد بنا کے کیے جاتے ہیں۔
اور جہاں تک آیت زیر بحث کا تعلق ہے تو ان سب مسائل میں ہوش ربا اضافہ اس طرح ہو جاتا ہے کہ خود یہود کو اعتراف ہے کہ اس آیت کا مفہوم ان سے گم ہو گیا ہے۔ اس کی تصریف ضمائر کو وہ پورے وثوق سے نہ سمجھ پائے ہیں۔ اسے تورات کی سب سے مشکل آیت کہا جاتا ہے۔ اس پر مقالات و کتابیں لکھی گئی ہیں جن کا مقصد اس آیت کی تفسیر کی ایک اور کوشش ہوتا ہے۔ پس ہم بھی ذیل میں اسی کی کوشش کریں گے۔
آیت کا سیاق کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل اپنی چالیس سالہ دربدری بہ صحراے سینا کے اختتام تک، اور تورات کے بھی اختتام تک آن پہنچے ہیں۔ حضرت موسیٰ ان کی فرد جرم قرارداد ایک آخری دفعہ سنا کر انھیں مہمیز دیتے ہیں کہ اب دوبارہ انھیں کنعان فتح کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے، اس لیے ویسا طرز عمل اختیار نہ کریں جیسا ان کے آبا نے اختیار کر کے خود پر ارض مقدس کو چالیس برس کے لیے حرام کرا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ یہیں موسیٰ کو ان کی وفات کی خبر بھی سناتے ہیں اور اپنے بعد یوشع بن نون کو ان کا نبی و امیر مقرر فرمانے کو کہتے ہیں۔ان کے امیر مقرر کرنے کی تقریب کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ موسیٰ کو فتح کے بعد بنی اسرائیل کی خدا سے بغاوتوں کی داستان پر مطلع فرماتے ہیں۔ موسیٰ پھر خطاب فرماتے ہیں اور اپنی قوم کے لیے اس خطاب کو باقاعدہ قلم بند کرا کے آنے والی نسلوں کے لیے پیغام کی صورت میں تابوت سکینہ میں رکھوا چھوڑتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مقام آتا ہے جہاں استثنا باب ۳۳ کا آغاز ہوتا ہے جس کا عنوان کہیں ’’موسیٰ اسرائیل کو آخری برکت دیتا ہے‘‘ اور کہیں ’’موسیٰ قبیلوں کو برکت دیتا ہے‘‘ رکھا گیا ہے، اور کلام کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے: ’’یہ ہے وہ برکت جو موسیٰ بندۂ خدا نے موت سے پہلے اسرائیلیوں کو دی‘‘۔ چنانچہ پورے باب میں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ ذکر کر کے موسیٰ انھیں بشارتیں دیتے ہیں۔ تاہم ان بشارتوں سے پہلے یہ دو آیات آتی ہیں جو ہماری موضوع بحث ہیں۔آیات یہ ہیں:
۲۔ ויאמר יהוה מסיני בא וזרח משעיר למו הופיע מהר פארן ואתה מרבבת קדש מימינו אשדת למו۔
نقلِ حرفی (عربی): ویامر یهوہ مسینی با وزرح مسعیر لمو ھوفیع مهر فارن واته مرببة قدس میمینو اشدة لمو.
۳۔ אף חבב עמים כל־קדשיו בידך והם תכו לרגלך ישא מדברתיך۔
نقل حرفی (عربی): اف حبب عمیم کل-قدسیو بیدک وھم تکو لرجلک یشا مدبرتیک.
میں نے عبرانی آیات کے ساتھ ان کی عربی میں نقل حرفی بھی کر دی ہے تا کہ قارئین عبرانی رسم الخط سے ناواقفیت کی بنیاد پر پیچھے نہ رہ جائیں۔ چنانچہ ہر آیت کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کرتے ہیں، اور پھر آخر میں تحقیق سے حاصل مجموعی ترجمہ۔
۱۔ ویامر: ’و‘ وہی ہے جو عربی میں بھی ’و‘ ہے اور عربی زبان کی طرح ’اور‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم جیسے یہاں یہ مضارع کے شروع میں آیا ہے، تو عبرانی میں ایسے استعمال میں یہ مضارع کو ماضی مؤکد میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ’امر‘ عبرانی میں ’کہنے‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پس یہاں ’ویامر ‘سے مراد ہوا: ’کہہ چکا‘، یعنی واحد مذکر غائب، جس میں ضمیر کا مرجع موسیٰ ہوئے۔ تاہم بہت سے مترجمین اس کا ترجمہ ’کہا‘ کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
۲۔ يہوه: اللہ کا عبرانی نام ہے۔ پورے بائیبل میں یہی نام مستعمل ہے۔
۳۔مسینی: یہ ’مِن‘ اور ’سینی‘ کا مرکب ہے۔ ’من‘ عبرانی میں جب متصل آتا ہے تو اسی طرح آتا ہے۔ اس کا مطلب بھی عربی والا ’سے‘ ہی ہے۔ ’سینی‘ عربی میں ’سین‘ اور ’سینا‘ لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ صحراے سینا کا نام ہے۔مطلب ہوا: ’سینا سے‘۔
۴۔با: عبرانی میں ’آنے‘ کے لیے آتا ہے۔ یہاں ’آیا‘ کے مفہوم میں ہے۔ چنانچہ جملے کا مطلب ہوا: ’يہوہ سینا سے آیا‘۔
۵۔وزرح: ’و‘ وہی اور کے معنی میں اور ’زرح‘ کے معنی ’طلوع ہونے‘ کے ہیں۔ عبرانی میں ’و‘ اس طرح متصل بھی آتا ہے۔ زرح کے اسی اصل سے ملتے جلتے اور معنی بھی ہیں، مگر یہاں طلوع ہی مناسب بھی ہے اور اکثر مترجمین نے استعمال بھی کیا ہے۔ مطلب ہوا: ’اور طلوع ہوا وہ (یعنی يہوہ)‘۔
۶۔مسعیر: ’مِن‘ اور ’سعیر‘ کا مرکب ہے، یعنی ’سعیر سے‘۔ قدیم عبرانی میں س اور ش کے لیے ایک ہی حرف بغیر نقطوں کے استعمال ہو جاتا تھا اور اہل زبان کے لیے کسی دقت کا سامان نہ ہوتا تھا۔ اس لیے اسے ’سعیر‘ اور ’شعیر‘ دونوں لکھا جاتا ہے۔ یہ تو سب متفق ہیں کہ یہ مقام کا نام ہے، مگر کس مقام کا اس میں اختلاف ہے۔ اس کے دو مقامات بتائے جاتے ہیں : ایک جنوبی اور دوسرا شمالی۔ جنوبی مقام قدیم ایدوم-موجودہ اردن میں ایک پہاڑی سلسلے کا نام ہے، جب کہ شمالی قدیم یہودا اور اسرائیل کی سرحد پر واقع، یعنی موجودہ یروشلم اور حبرون کے تقریباً وسط میں واقع پہاڑ کا نام ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ کی جاے پیدایش کے قریب ہے۔ یہود چونکہ ان آیات کا رخ اپنی جانب ہی سمجھتے ہیں، اس لیے بالعموم مترجمین و مفسرین نے جنوبی شعیر اختیار کیا ہے اور اسے اپنی صحرانوردی کے واقعات سے متعلق کہا ہے، جب کہ شمالی سعیر بھی باقاعدہ بائیبل میں مذکور ہے اور یوشع اور حزقی ایل صحائف میں موجود ہے۔ ہماری راے میں یہی ’سعیر‘ حضرت عیسیٰ کے لیے مقام کے طور پر مراد ہے۔ پس مطلب ہوا: ’خداوند سینا سے آیا اور ’سعیر‘ سے طلوع ہوا‘۔
۷۔لمو: یہ عربی میں ’لهم‘ کے قائم مقام ہے۔ اس کا ترجمہ ’اُن کے لیے‘ یا ’اُن پر‘ کیا جاتا ہے۔تاہم سب مترجمین یہاں سرخ جھنڈی لہراتے ہیں کہ اس ضمیر کا مرجع عبارت میں نہیں، کہیں کھو گیا ہے۔ ہاں عملی فہم کے لیے اس سے بنی اسرائیل مراد لے لیتے ہیں۔ اس کے متعلق اپنی راے ہم تھوڑا آگے چل کے عرض کرتے ہیں۔ فی الحال اس کا مطلب ہوا: ’اور (خداوند) ’سعیر‘ سے اُن پر طلوع ہوا‘۔
۸۔ ھوفیع: اسے ’وفعٌ‘ یا ’يفع‘ سےبتایا جاتا ہے۔ اس کے مطلب میں کوئی خاص اختلاف نہیں۔ معنی ہیں: روشن ہونے، چمکنے، روشنی کے آگے بڑھ جانے وغیرہ کے۔ مطلب ہوا: ’وہ روشن ہو گیا‘۔
۹۔ مہر: ’م‘’مِن‘ کے لیے ہے جیسے اوپر بیان کیا۔ ’ہر‘ پہاڑ کو کہتے ہیں۔ مطلب ہوا: ’پہاڑ سے‘۔ اسی کی مناسبت سے ’سینا‘اور ’سعیر‘کو بھی بعض مترجمین نے ’پہاڑ سینا‘ اور ’پہاڑ سعیر‘ سے تعبیر کیا ہے۔
۱۰۔ فارن: عبرانی میں کئی حروف جیسے حروف علت اور حروف حلقی اکثر لکھے نہیں، مگر بولے جاتے ہیں۔ پس اسے پڑھا فاران ہی جاتا ہے۔ مطلب ہوا: ’وہ روشن ہو گیا فاران کی پہاڑی سے‘۔ فاران بھی مقام کا نام ہے۔ یہود چونکہ اس بیان کو بنی اسرائیل پر ہی محمول سمجھے، اس لیے فاران کے تعين میں بے جا وسعت سے کام لیا۔ ان کے نزدیک اس میں جزیرہ نماے عرب کے شمالی علاقوں سے لے کر صحراے سینا کے جنوبی کناروں تک، سب فاران ہے۔ ان کے نزدیک یہ عبارت بھی انھی کے سفر سینا سے متعلق ہے۔ تاہم اس بات میں وہ بھی کوئی شک نہیں کرتے کہ عرب بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ کتاب پیدایش میں واضح ذکر ہے کہ اسمٰعیل کو فاران میں آباد کیا گیا۔ پس مطلب ہوا: خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا اور کوہِ فاران سے روشن ہو گیا۔ اہل قرآن جانتے ہیں کہ یہ بعینہ وہی بات ہے جو سورۂ تین کے آغاز میں کی گئی ہے۔ یہ مگر فی الحال ہمارے موضوع سے متعلق نہیں، اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔
۱۱۔ واته: ’اور وہ آیا‘ واضح معنی ہیں۔ عبرانی میں ’و‘ اور فعل کو ملا کر بھی لکھا جاتا ہے۔ یہاں ’اته‘ عربی ’اتی‘ ہے۔
۱۲۔ مرببة: یہ ’مِن‘ اور ’رببة‘ کا مرکب مانا گیا ہے۔ ’رببة‘کے معنی دس ہزار بھی ہیں اور بہت بڑی تعداد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قابل ذکر مترجمین نے، البتہ دس ہزار کو ہی لیا ہے۔ پس ترجمہ تو یہی کیا گیا ہے کہ ’وہ آیا دس ہزار کے ساتھ‘، تاہم مترجمین کو مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ یہاں ’مِن‘ کی جگہ ’ب‘ ہونا چاہیے تھا، تب ہی اس کے یہ معنی کیے جا سکتے تھے، اسی لیے چند مترجمین اس طرف بھی گئے ہیں کہ یہ بھی کسی جگہ کا نام ہے، کیونکہ ’اس سے‘ آنا تب ہی بامعنی ہو سکتا ہے۔ اور پھر وہ اس جغرافیائی مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہاں ’م‘ ’مع‘ کا مخفف ہے۔ عبرانی کے قواعد کے مطابق حروف حلقی جن میں ’ع‘ بھی شامل ہے، بس بولے جاتے ہیں، اکثر لکھے نہیں جاتے۔ پس یہاں ’مع‘کو مراد لینے سے کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ بہر حال یہ امر واقعہ ہے کہ اس کا مطلب اکثر مترجمین نے ’وہ دس ہزار کے ساتھ آیا‘ ہی کیا ہے۔
۱۳۔ قدس: یہ وہی عربی والا ’قدس ‘ ہی ہے، یعنی مقدس، پاکیزہ اور قدسی بندے۔ بعضوں کے نزدیک یہ لقب چونکہ بس فرشتوں ہی کو زیبا ہے، اس لیے انھوں نے اسی کے مطابق ترجمہ بھی کیا ہے۔ اکثر نے، البتہ ایسی کوئی تحدید نہیں مانی۔ پس مطلب یہ ہوا: ’اور وہ دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘۔
۱۴۔ میمینو: ’مِن يمينو‘ کا مرکب۔ یہ عربی ’مِن يّمینه‘ کے ہم معنی ہے۔ یعنی اس کے دائیں جانب یا دائیں ہاتھ سے؛ کیونکہ عربی کی طرح عبرانی میں بھی ’يمین‘ دائیں جانب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور داہنے ہاتھ کے لیے بھی۔ عربی میں دائیں جانب دوسرے مجازی مطالب کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے، جیسے قوت کے لیے، یا حمایت یافتہ و مقبول لوگوں کے لیے بھی۔ حبقوق ۳ میں، چونکہ اس سے ملتی جلتی تمثیل ’يمین‘ کی جگہ ’ید‘ (ہاتھ) کے لفظ سے بیان ہوئی ہے، اس لیے اکثر مترجمین نے اسے داہنے ہاتھ ہی کے معنی میں لیا ہے۔
۱۵۔ اشدة: یہ وہ لفظ یا مرکب ہے اغلباً جس کی وجہ سے اس آیت کو مشکل ترین آیت شمار کیا گیا ہے۔ یہ پورے بائیبل میں بس یہیں استعمال ہوا ہے۔ اس کا معنی ایک سرنہاں ہے جس کے متعلق کوئی حتمی راے ابھی تک شرمندۂ تعبیر ہے۔ یہ ایک علیحدہ مقالے کا حق دار ہے، یہاں بس کچھ اشارات پر اکتفا کیا جائے گا۔ اسے روایتی طور پر دو لفظوں کا مرکب بتایا جاتا ہے: ’اِش‘ اور ’دات‘، یعنی آگ/شعلے اور قانون۔ دو بڑے مسائل، مگر دامن گير ہیں: ایک یہ کہ یہ اگر دو الفاظ ہیں تو انھیں علیحدہ لکھا جانا چاہیے تھا، مگر یہ اکٹھا لکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر یہ تصریح نص کے درمیان میں ہی کر دی جاتی ہے کہ اس کو دو علیحدہ الفاظ شمار کرنا ہے[6]۔ آپ کو یہ تصریح تقریباً ہر اچھے ترجمے میں مل جائے گی، مگر یہ عام عوام کے لیے ہے۔ ماہرین کے نزدیک یہ معاملہ اب تک تشنہ ہی شمار کیا جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ’دات‘ عبرانی نہیں فارسی و کلدانی لفظ ہے۔ یہ لفظ بابل کی اسیری سے پہلے تورات تو کیا عہد نامۂ قدیم میں بھی کہیں استعمال نہیں ہوا۔ اس کے استعمالات بابل کی اسیری کے بعد لکھی جانے والی کتابوں میں، البتہ مل جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بابل کی اسیری کے دوران میں بنی اسرائیل کی زبان خالص نہ رہی اور بابل کی زبانوں کے زیر اثر اس میں بہت سے کلدانی الفاظ در آئے۔ چنانچہ محققین ایک طرف تو یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ جو کچھ موسیٰ نے فرمایا تھا، وہ صدیوں بعد جب بابل کی اسیری کے بعد دوبارہ لکھوایا گیاتو یہ کلدانی لفظ اصل کی جگہ استعمال ہو گیا۔ اور دوسرے ہی لمحے بجا طور پر اس پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ قانون کے لیے ’شرہ‘ اور ’توراۃ‘ کے الفاظ تو خود عبرانی میں موجود ہیں۔ چلیں کوئی ’شرہ‘ کا لفظ بھول گیا ہو گا یا یہاں استعمال کرنا مناسب نہ جانا ہو گا، پر ’توراۃ‘ کا لفظ کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ یعنی اس مفہوم کو ’اِش توراہ‘ سے ادا کرنے میں آخر کیا مانع تھا۔ مزید یہ کہ حبقوق ۳ میں اسی مفہوم کو ’قرنیم‘ یعنی بجلی، کرنوں یا سینگوں سے ادا کیا گیا ہے، پس وہ آتشی قانون کے ہم معنی تعبیرات میں ہی سرگرداں رہے ہیں۔ اسی تالیف سے اسے سمجھا جائے تو مطلب ہو گا: اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہے، یا اس کے ہاتھ سے شعلوں والا قانون نکلا۔ اس کے متعلق اور بھی مباحث ہیں جن کی تفصیل میں جانا یہاں ممکن نہیں۔ ہم اپنا زاويۂ نظر بیان کیے دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک روایتی تعبیر کو درست ماننے میں بھی کوئی مانع نہیں، مگر اس لفظ کی ایک دوسرے عبرانی و عربی کے معروف لفظ کے ساتھ مماثلت کو اتفاقی ماننا بھی مشکل معلوم پڑتا ہے۔ وہ لفظ ہے ’اَشدّ‘۔ یہ عبرانی میں بھی ’ش د د‘ کے مصدر سے ہے۔ اسرائیلی صحرانوردی کے دوران میں ان کا سابقہ بھی ایک قوم سے پیش آیا جس کا نام ’اَشدد‘ رکھا گیا۔ عبرانی لغت اس لفظ کے معنی اسی لیے ’طاقت ور‘، ’سخت گیر‘ اور ’مضبوط قلعے‘ سے کرتی ہے۔ پس عبرانی کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں مضاعف کے حرف مکرر کو ایک دفعہ ذکر کر دینا بھی کافی سمجھا جاتا ہے، کبھی اسے لکھ دیا جاتا ہے اور کبھی گرا دیا جاتا ہے، یہاں ’د‘ کا اکیلے استعمال خلاف قانون نہیں۔ عربی ’الف‘ یا ’ہ‘ کا بھی عبرانی میں ’ہ‘یا ’ة‘ سے بدل جانا عموم کا معاملہ ہے۔ اسی لیے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ بھی اقویا کیا ہے، یعنی زور آور جو ’شدد‘ سے ہی ہے۔ پھر آگے کا مضمون بھی اس سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ اس لیے ہماری راے میں یہاں لفظ ’اَشِدّہ‘ تھا، اور شاید ہے بھی، جس کے معنی مضبوط قلعے کے ہیں۔
۱۶۔ لمو: یہ پھر وہی ’لھم ‘ ہے جس کا مرجع معلوم نہیں۔ مطلب ہوا: اس کے داہنے ہاتھ اُن کے لیے آتشی شریعت ہے، یا پھر، اس کے داہنے ہاتھ جو لوگ ہیں وہ اُن کے لیے مضبوط قلعے ہیں۔ جس میں ضمیر اُن کا مرجع مفقود ہے۔
۱۷۔ اف: یہ حرف ہے جس کے معنی میں بہت وسعت بتائی جاتی ہے۔ بعید نہیں کہ یہ عربی ’ف‘ ہی کی عبرانی صورت ہو۔ اس کے لغوی معنی ’اور‘، ’یقیناً‘، ’مگر‘، ’لیکن‘، ’باوجود اس کے‘، ’مزید یہ کہ‘ وغیرہ ہیں۔ یہاں اکثر مترجمین اس طرف گئے ہیں کہ چونکہ یہ ایک نئی آیت شروع ہو رہی ہے، اس لیے یہاں مراد ’اور‘ یا ’یقیناً‘ لینی چاہیے۔ ہمارے نزدیک یہ واضح طور پر پچھلے جملے کا ہی حصہ ہے اور آیت بالفرض تمام ہونی چاہیے تو آگے ’عمیم‘ پر تمام ہونی چاہیے، اس لیے یہاں اس کے معنی ’لیکن‘، ’مگر‘، ’مزید برآں‘، ’جب کہ‘ وغیرہ ہونے چاہییں۔
۱۸۔ حبب: یہ وہی عربی فعل ’حبّ‘ ہے، جس کے معنی محبت و الفت ہیں۔ مطلب: ’وہ محبت کرتا ہے‘۔
۱۹۔ عمیم: ’عم‘عبرانی میں ’مع‘کے معنی میں آتا ہے۔ عبرانی کا یہ ایک عجیب شذوذ ہے کہ بعض اوقات حروف اصلی الٹ بھی جاتے ہیں اور معنی ایک ہی رہتا ہے۔ جس کی مشہور مثال ’لا‘ اور ’اِل‘ہے؛ دونوں کے معنی ’نہیں‘ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’مع‘اور ’عم‘ہے۔ چنانچہ اسی مفہوم نے سفر کر کے قوم کے معنی بھی اختیار کر لیے۔ یہاں یہ جمع ہے۔ اس کے معنی اقوام بھی ہو سکتے ہیں، اور کوئی اندرون جمعیت بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مختلف مترجمین نے اپنے اپنے رجحان کی بنیاد پر ترجیح قائم کی ہے۔ کچھ نے ترجمہ ’لوگ‘ کیا ہے، اور کچھ نے ’اپنے لوگ‘۔ تورات کے پرانے ترین نسخے، یعنی سبعینی میں بھی ترجمہ ’اُس کے لوگ‘ کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک بھی یہی درست ہے۔ مطلب ہوا: ’جب کہ وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہے‘۔اور آیت کو بھی یہیں تمام ہونا چاہیے۔
۲۰۔ کل-قدسیو: یہ وہی عربی والا ’کل‘ ہے، یعنی ہر، تمام۔ قدسیو عربی میں قدسیہ ہے، یعنی اس کے مقدس لوگ۔ مطلب ہوا: ’اس کا ہر قدسی‘۔
۲۱۔ بيدک: یہ بھی عربی والا ’بِیَدِک‘ ہے، یعنی تیرے ہاتھ میں ہے۔ عبرانی میں یہ کس حقیقت کی تعبیر ہے، اس میں بہت اختلاف ہے۔ جو اقرن قیاس ہے، یعنی کسی کے قبضۂ قدرت میں ہونا، اس کا یہاں محل نہیں۔ اسی لیے بعض محققین اس طرف گئے ہیں کہ دراصل لفظ ’
برک‘ تھا، یعنی برکت ديے ہوئے، لیکن ’ر‘ کو غلطی سے ’د‘ لکھ دیا گیا[7]ا۔ ہم اس کے متعلق کوئی بہتر راے دینے سے قاصر ہیں، اس لیے معروف ترجمے کو ہی اختیار کر لیتے ہیں۔ مطلب ہوا: اس کا ہر قدسی آپ کے ہاتھ میں ہے۔یہاں آپ سے مراد یہوہ ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کر آئے مترجمین کے لیے تمام ضمائر ہی مسئلہ بردار ہیں، اس لیے مختلف تراجم میں اختلاف دیکھ لیا جا سکتا ہے۔
۲۲۔ وھم: عربی والا’و‘ اور ’ھم ‘ ہیں، یعنی اور وہ (قدسی)۔
۲۳۔ تکو: یہ عبرانی میں جھکنے اور بچھنے، دونوں کے لیے آتا ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ اکٹھے ہو کر کہیں پڑاؤ کرنے اور ڈیرے ڈال دینے کے لیے بھی آتا ہے۔ بیٹھ جانا، جو اکثر مترجمین نے اختیار کیا ہے، بے حد ناقص ترجمہ ہے، کیونکہ محض بیٹھ جانے کے لیے بہتیرے الفاظ اور بھی ہیں۔ مطلب ہوا: ’وہ (یعنی قدسی) جھکتے اور بچھتے ہیں یا وہ پڑے رہتے ہیں‘۔
۲۴۔ لرجلک: یہ ’لِ‘ اور ’رِجلِک ‘ کا مرکب ہے اور بالکل عربی والا معنی ہے۔ یعنی تیرے پاؤں میں، قدم میں۔ مطلب ہوا: ’اور وہ (قدسی) تیرے (يہوہ کے) پاؤں میں پڑے رہتے ہیں یا جھکتے بچھتے رہتے ہیں‘۔
۲۵۔ يشا: اسے مترجمین نے ’نشا‘ سے مانا ہے، یعنی سر اٹھانا، اور مجاز میں ’وصول کرنا‘۔ ان کا ماننا ہے کہ ’ن‘ بعض الفاظ میں اس طرح عمل کرتا ہے کہ ’ی‘ سے بدل جاتا ہے۔ ہم اس سے متفق نہیں ہو پائے۔ یہ بظاہر عربی ’يشآء‘ ہی کی صورت ہے جس کے معنی وہ خواہش، امید کرتا ہے یا چاہتا ہے۔ بہر حال معروف ترجمے کو بھی قابل اعتنا مان لیں تو مطلب ہوئے، وہ (ہر قدسی) سر اٹھاتا ہے یا وصول کرتا ہے، اور یا، وہ چاہتا ہے یا امید و چاہت رکھتا ہے۔
۲۶۔ مدبرتیک: یہ ’مِن‘ اور ’دبرتیک‘ کا مرکب ہے۔ دبر، جو کہ تورات کی اس پانچویں کتاب کا بھی نام ہے[8]، الفاظ و کلمات کے لیے آتا ہے۔ ’دبرتیک‘ کے معنی ہوئے: آپ کے الفاظ و کلمات۔ اور ’مِن‘ یہاں شوق و اشتیاق کے اظہار کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ مطلب ہوا: ہر قدسی سر اٹھاتا ہےآپ کے کلمات وصول کرنے کے لیے، یا ہر قدسی آپ کے کلمات کی امید میں رہتا ہے۔
اب ایک مرتبہ تحقیق بالا سے حاصل مکمل ترجمے کو نقل کیا جاتا ہے:
’’اور کہا (موسیٰ نے): خداوند سینا سے آیا، اور سعیر سے اُن (؟) پر طلوع ہوا، اور کوہ فاران سے روشن ہو گیا، اور وہ، (یعنی آنے والا شخص) اپنے ساتھ دس ہزار قدوسی لے کر آیا؛ اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت تھی اُن (؟) کے لیے / اس کے دائیں جانب وہ تھے جو اُن (؟) کے لیے تو مضبوط قلعے تھے، مگر وہ اپنے لوگوں سے محبت کرنے والا تھا۔ اس کا ہر قدسی آپ (خداوند) کے ہاتھ میں ہے؛ اور وہ پڑے رہتے ہیں آپ کے قدم میں / اور وہ جھکے اور بچھے رہتے ہیں آپ کے قدم میں، آپکے کلمات کی امید میں۔‘‘
ترجمے میں مکمل لکیر والے خط کشیدہ میں وہ متبادل بیان کیے گئے ہیں جن میں سے دونوں خاطر خواہ فرق رکھتے ہیں، مگر بیان کیا جانا ضروری ہے؛ اور جن میں سے اول معروف عبرانی ترجمہ ہے، جب کہ آخر ہمارا تجويز کردہ ترجمہ ہے۔ اور نقطوں والے خط کشیدہ میں دونوں متبادل میں کوئی خاص فرق تو نہیں پر قارئین کے سامنے رہنے چاہییں، اور یہ دونوں ہی ہمارے تجويز کردہ ترجمے ہیں، کیونکہ محض بیٹھنے سے ’تکو‘ کا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ قرآن کے دعوے اور تورات کے محولہ مقام کا موازنہ کر سکیں۔
قرآن میں فرمایا کہ کفار کے مقابل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ’اشدّآء‘، یعنی سخت رو یا ناقابل رخنہ ہیں: تورات میں فرمایا: ’وہ شخص جو کوہ فاران سے آئے گا‘ آتشی قانون لیے ہوئے ہو گا یا مضبوط قلعے اس کے ساتھ ہوں گے۔ قرآن نے فرمایا کہ نبی اور صحابہ آپس میں رحم دل ہوں گے: تورات میں فرمایا وہ شخص اپنے لوگوں سے محبت کرنے والا ہو گا۔ یہاں فرمایا تم انھیں جب دیکھو گے رکوع اور سجدہ کرتے پاؤ گے: وہاں فرمایا وہ اس کے قدموں میں جھکے اور بچھے پڑے رہتے ہیں۔ یہاں فرمایا کہ یہ پڑے رہنا اللہ کے فضل و رضوان کی خواہش میں ہوتا ہے۔ وہاں فرمایا: اُس کے کلمات کی خواہش میں۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک ساڑھے تین ہزار سالہ کلام اور قرآن میں اتنی گہری مماثلت ہر بینا و ذی شعور کے لیے مثالی مماثلت شمار ہونی چاہیے۔
بہ ايں ہمہ، ہمارے نزدیک تورات میں کفار کے ہم معنی کوئی لفظ تھا جو اس خلا کو پُر کرتا تھا جسے عبرانی مترجمین بھی مانتے ہیں کہ ضمیر کا مرجع گم ہو گیا ہے۔ اور جہاں تورات کے ضمائر بعض جگہوں پر صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتے مذکور ہوئے، قرآن نے واضح کر دیا کہ نہیں ضمائر دراصل نبی اور قدسی دونوں ہی کو شامل تھے۔ اور رہ گئی بات اس جملے کی کہ ’ان کے چہروں پر کثرت سجود کے باعث نشانات پڑے ہیں‘ ، تو اس کے متعلق دو ہی آرا ممکن ہیں: ایک یہ کہ یہ جملہ تورات سے محو ہو گیا ہے، جو اگر قارئین تورات کی تاريخ سے واقف ہیں تو کوئی بعید از قیاس نہیں؛ یا دوسرے یہ کہ قرآن میں یہ جملہ محض تکمیل مضمون کے لیے آ گیا ہے، کیونکہ اس طرح کی تکمیل قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی دیکھ لی جا سکتی ہے، جہاں اصل قیل و قال میں تو وہ بات موجود نہیں ہوتی پر اللہ اس کو کلام کے ساتھ ہی جوڑ کے بیان فرما دیتے ہیں۔ ہماری راے میں پہلی زیادہ قرین صواب ہے۔ واللہ اعلم!
اب آئیے انجیل کی تمثیل کی طرف۔ گھبرائیے نہیں، انجیل کے معاملے میں ہمیں کوئی دقیق لسانی و لغوی تحقیق نہیں کرنی پڑے گی۔ محض دو اناجیل ــــــ مرقس اور متی ــــــ کے موازنے سے تحقیق کفایت کرے گی۔ تمثیل ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے:
’’ اور انجیل میں اُن کی تمثیل یہ ہے کہ جیسے کھیتی ہو، جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اُس کو سہارا دیا، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ بونے والوں کے دلوں کو موہتی ہے کہ منکروں کے دل اُن سے جلائے۔‘‘
بالعموم موضوع آیت میں مذکور تمثیل کو متی باب ۱۳ آیات ۳۱-۳۲، مرقس باب ۴ آیات ۳۰-۳۲ کے حوالے[9] مانے گئے ہیں۔ متی کے الفاظ يوں ہیں:
’’اُس (عیسیٰ) نے ایک اور تمثیل پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اُس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے، لیکن جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آکر اُس کی ڈالیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔‘‘
ہمارے نزدیک یہ درست نہیں۔ صحیح آیت کی نشان دہی کے بعد اس کی غلطی پر بحث کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ درست مناسبت مرقس باب ۴ آیات ۲۶-۲۹ ہے[10]۔بعض مفسرین اس طرف بھی آئے ہیں، مگر اسے متعين اور واضح کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے:
26وقالَ: يُشبِهُ مَلكوتُ اللهِ رجُلاً يَبذُرُ الزّرعَ في حَقلِهِ.27 فيَنامُ في الليلِ ويَقومُ في النّهارِ، والزّرعُ يَنبُتُ ويَنمو، وهوَ لا يَعرِفُ كيفَ كانَ ذلِكَ.28 فالأرضُ مِنْ ذاتِها تُنبِتُ العُشبَ أوّلاً، ثُمّ السّنبُلَ، ثُمّ القَمحَ الذي يَملأُ السُنبُلَ.29 حتى إذا نَضجَ القَمحُ، حمَلَ الرّجُلُ مِنجَلَهُ في الحالِ، لأنّ الحَصادَ جاءَ.[کتابِ مقدّس – الترجمة العربیة المشترکة]
ترجمہ (UGV):’’ ۲۶پھر عیسیٰ نے کہا، ”اللہ کی بادشاہی یوں سمجھ لو: ایک کسان زمین میں بیج بکھیر دیتا ہے۔۲۷یہ بیج پھوٹ کر دن رات اُگتا رہتا ہے، خواہ کسان سو رہا یا جاگ رہا ہو۔ اُسے معلوم نہیں کہ یہ کیونکر ہوتا ہے۔۲۸زمین خود بخود اناج کی فصل پیدا کرتی ہے۔ پہلے پتے نکلتے ہیں، پھر بالیں نظر آنے لگتی ہیں اور آخر میں دانے پیدا ہو جاتے ہیں۔۲۹اور جوں ہی اناج کی فصل پک جاتی ہے کسان آ کر درانتی سے اُسے کاٹ لیتا ہے، کیونکہ فصل کی کٹائی کا وقت آ چکا ہوتا ہے۔“
اس کی تشریح بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے ایک اور امر پر غور کر لیجیے۔ جس طرح قرآن کے بارے میں آتا ہے کہ ’القرآن یفسّر بعضه بعضًا‘، یعنی قرآن کا ایک حصہ کسی دوسرے حصے کی تفسیر کر دیتا ہے، اہل علم جانتے ہیں کہ کسی ایک انجیل کا مقام کسی دوسری انجیل کے مقام کی بھی تفسیر کر دیتا ہے۔ چنانچہ اسی تمثیل کے متعلق جو اوپر مرقس سے ہم نے بیان کی، عیسیٰ کے حواریوں نے باقاعدہ استفسار کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ انجیل متی باب ۱۳ آیات ۲۴-۳۰ میں خود حضرت عیسیٰ کا جواب یہ ہے:
’’۲۴عیسیٰ نے انھیں ایک اور تمثیل سنائی۔ ”آسمان کی بادشاہی اُس کسان سے مطابقت رکھتی ہے جس نے اپنے کھیت میں اچھا بیج بو دیا۔۲۵لیکن جب لوگ سو رہے تھے تو اُس کے دشمن نے آ کر اناج کے پودوں کے درمیان خود رَو پودوں کا بیج بو دیا۔ پھر وہ چلا گیا۔۲۶جب اناج پھوٹ نکلا اور فصل پکنے لگی تو خود رَو پودے بھی نظر آئے۔۲۷نوکر مالک کے پاس آئے اور کہنے لگے، ’جناب، کیا آپ نے اپنے کھیت میں اچھا بیج نہیں بویا تھا؟ تو پھر یہ خود رَو پودے کہاں سے آ گئے ہیں؟‘ ۲۸اُس نے جواب دیا، ’کسی دشمن نے یہ کر دیا ہے۔‘ نوکروں نے پوچھا، ’کیا ہم جا کر انھیں اُکھاڑیں؟‘’۲۹نہیں،‘ اُس نے کہا۔ ’ایسا نہ ہو کہ خود رَو پودوں کے ساتھ ساتھ تم اناج کے پودے بھی اُکھاڑ ڈالو۔۳۰انھیں فصل کی کٹائی تک مل کر بڑھنے دو۔ اُس وقت میں فصل کی کٹائی کرنے والوں سے کہوں گا کہ پہلے خود رَو پودوں کو چن لو اور انھیں جلانے کے لئے گٹھوں میں باندھ لو۔ پھر ہی اناج کو جمع کر کے گودام میں لاؤ‘۔“ [UGV]
اب آئیے تشریح کی طرف۔
اناجیل کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یہود کی سازشوں سے بچنے کے لیے بہت سے مواقع پر حضرت عیسیٰ کو تماثیل کا سہارالینا پڑا تا کہ ان کے ذریعے سے وہ اپنے حواریوں تک حکمت و بشارت کی باتیں بھی پہنچا لیں اور یہود کو ان کی سمجھ بھی نہ آئے۔ تاہم کثرت احتیاط کے باعث حواریوں کے لیے تماثیل کثیف بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ اناجیل کے محولہ بالا مقامات کی بھی سٹیج سیٹنگ یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنے حواریوں کی تعلیم فرمانا چاہتے ہیں، مگر اور لوگ بھی موجود ہیں جس کے باعث حضرت تماثیل میں تعلیم دیتے ہیں۔ انھی تماثیل میں چونکہ یہودی فریسیوں اور صدوقیوں پر بھی چوٹیں شامل ہوتی تھیں، اس لیے حواری بعد کی خلوت میں ان کے معنی پوچھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ یوحنا کے علاوہ باقی تینوں اناجیل میں اس مقام پر پے در پے تماثیل میں حضرت مختلف زاویوں سے اللہ کے مخلصین، منکرین اور منافقین کے انجام بتلاتے ہیں۔
پس مرقس میں بیان کردہ تمثیل رموز میں ملبوس ہے۔ اس میں تاثر یہ دیا گیا ہے کہ بات صرف زمین، فصل اور کسان کی ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ سارا زور بیج کے پھوٹنے کے مراحل پر معلوم پڑتا ہے۔ لیکن غور سے دیکھیے، یہاں کسان کے جاگنے اور سونے میں، اس کے تعجب اور فصل کاٹنے میں ایک پوری دنیا پنہاں ہے۔ وہ دنیا متی میں موجود ہے۔
متی میں جب حواری اس کا مطلب پوچھتے ہیں تو حضرت عیسیٰ اسے پورا کھول دیتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب کہیں فصل بوتے، یعنی نبی کے وفادار ساتھی چنتے ہیں، تو منافقین بھی ان میں پیدا ہو جاتے ہیں یا پیدا کر دیے جاتے ہیں، جنھیں تمثیل میں خود رَو پودوں، یعنی نقصان دہ جھاڑیوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ایک مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے۔ چونکہ ان جھاڑیوں کو اصل فصل سے علیحدہ کرنا بے حد مشکل کام ہوتا ہے، اور اس کا بھی خوف ہوتا ہے کہ اس اکھاڑ پچھاڑ میں جھاڑیوں کے ساتھ فصل کا بھی نقصان نہ ہو جائے، تو کسان یعنی رب اس مرحلے پر ایسا کرنے سے روک دیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک مرحلہ آگے ایسا آنے والا ہے جب انھیں علیحدہ کرنا بالکل آسان ہو جائے گا۔ اور وہ مرحلہ ہے جب فصل پک کے تیار ہو جائے۔تب اس سے پہلے کہ فصل کاٹی جائے، جھاڑیوں کو چُن چُن کر جلا دیا جائے، اور اس کے بعد تسلی سے فصل کی کٹائی کی جائے۔
اب ذرا قرآن کے مقام کو دوبارہ پڑھیے۔ یہاں ’’اپنی سوئی نکالی، پھر اُس کو سہارا دیا، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی‘‘ کے الفاظ ہیں اور وہاں ’’ پہلے پتے نکلتے ہیں، پھر بالیں نظر آنے لگتی ہیں اور آخر میں دانے پیدا ہو جاتے ہیں‘‘۔ یعنی یہاں رموز والی اجمالی تمثیل بیان کر دی گئی، مگر ’لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ‘ سے اس کے معنی کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا۔ دراصل کفار و منافقین کے انجام کا ذکر تمثیل میں ہی کر دیا گیا، یہ بتانے کے لیے کہ فصل پک کے اب تیار ہو چکی اور جھاڑیوں کے کاٹنے کا وقت آ چکا تا کہ مومنین تو جان جائیں اور اللہ کی تدبیر و تاخیر کو سراہ بھی سکیں، پر کفار و منافقین اب بھی خبردار نہ ہو پائیں۔ اور اسی لیے آگے آیت میں مومنین سے مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ کرتے وقت ’’مِنْهُمْ ‘‘ یعنی’ ان میں سے جو سچا ایمان لائے اور نیک اعمال کرے‘ کی قید بھی لگا دی۔
ہمارے خیال میں اس مقام کی نشان دہی کے بعد بالعموم چنے گئے مقام کی غلطی واضح کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس تحقیق سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سورۂ فتح (۴۸) کی آخری آیت میں جو تماثیل تورات و انجیل سے بیان کی گئی ہیں، وہ آج بھی اپنی محولہ کتب میں تقریباً انھی الفاظ و معانی میں موجود ہیں جن میں قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ دعا ہے کہ اہل کتاب کو قرآن کی حقانیت پر غور کرنے کا مزید موقع ملے۔
...قَالَ عَذَابِيْ٘ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُﵐ وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍﵧ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ. اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِﵟ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْﵧ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ مَعَهٗ٘ﶈ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
____________
۱۔ یعنی ’’درخت والے صحابہ‘‘۔ اسلامی روایت میں یہ ان کم و بیش ۱۴۰۰ صحابہ کا لقب ہوا جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے اور جنھوں نے ایک درخت تلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیعت فرمائی، جسے ’بیعت رضوان‘ سے تعبیر کیا گیا۔ اور یہ دونوں ہی القاب، یعنی اصحاب شجرہ اور بیعت رضوان، اسی سورہ کی آیت ۱۸ سے ماخوذ ہیں۔
۲۔ اگرچہ ’’اربعہ‘‘ کی تحدید کلام میں نہیں، تاہم عیسائیوں کے ہاں انھی کے معتمد ’canonical‘ہونے کے باعث ہم بھی انھی ــــــ متّی، مرقس، لوقا اور یوحنا ــــــ تک محدود رہیں گے۔
۳۔ یہ تورات کی پانچویں اور آخری کتاب ہے۔ انگریزی میں اس کا نام ’’Deuteronomy‘‘ ہے۔ اس کا مشہور مطلب ’’دوسرا قانون‘‘ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی درست نہیں، اور اہل علم کہتے ہیں کہ عبرانی میں اصل لفظ ’’دبریم‘‘ ہے جس کا صحیح معنی ’کلمات‘یا ’احکامات‘ سے ادا کیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم، اگر پہلے معنی کو درست بھی مان لیں تب بھی یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ تثنیہ کے بجاے استثنا کیسے ہو گیا، جس کا مطلب کسی قاعدے یا حکم میں سے الگ و جدا کرنا ہے، جو یہاں کسی طور موزوں نہیں۔
۴۔ ماہنامہ اشراق، ستمبر ۲۰۱۶ء؛ آن لائن: https://bit.ly/3m3r6Wp ۔
۵۔ یہ لفظ ’עִברִית‘ ہے، جسے عربی رسم الخط میں ’ع ب ر ي ة‘یعنی عبریہ سے تعبیر کرتے ہیں۔اسی کی دوسری معروف صورت عبری بھی ہے۔
۶۔ چنانچہ اس طرح تصریح موجود ہوتی ہے: [כ= אשדת] [ק= אש] [ק= דת]۔
۷۔ عبرانی میں ’د‘ اور ’ر‘ میں تو اور بھی مماثلت ہے۔ یہ ’ד‘ ’د‘ ہے اور یہ ’ר‘ ’ر‘۔ چنانچہ انسانی ہاتھ سے ایک کا دوسرا بن جانا کوئی بعید از قیاس نہیں۔
۸۔ اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ عبرانی میں کتاب استثنا کا نام ’’دبریم‘‘ ہے۔
۹۔ نئے بین الاقوامی ورژن میں انھیں ’The Parable of the Mustard Seed‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
۱۰۔ اسے ’The Parable of the Growing Seed‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔