قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سے زائد مقامات پر یہ بات فرمائی ہے کہ مسلمان دوسروں کی طرف سے اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور برائیوں کا برابر کی سطح تک بدلہ لےسکتے ہیں ۔ یہ حکم کیا ہے؟ اِس کو قرآن مجید کے نصوص اور شریعت واخلاق کے حدود کی روشنی میں کیسے سمجھا جائے؟ زیر نظر مضمون میں قرآن کے اِس حکم پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔اِس کا ماخذ، اِس کا مفہوم اور اِس کے حدود و ضوابط راقم الحروف نے اِس مضمون میں قارئین کو مثالوں کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
سورۂ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُﵧ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ. وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖﵧ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ. (۱۶: ۱۲۵- ۱۲۶)
’’تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور اِن کے ساتھ اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے۔ یقیناً تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ اُن کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔ اگر تم لوگ (کسی وقت) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمھارے ساتھ کیا گیا ہے، لیکن اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے ۔‘‘
اِس حکم کی وضاحت میں امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’...اِس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم بدلہ لینا ہی چاہو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمھارے ساتھ کیا گیا ہے۔ جرم اور سزائے جرم میں عدم توازن نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ تم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔ علاوہ ازیں منہیات سے اجتناب مسلمان کے لیے ہر صورت میں لازم ہے۔ اگر مخالف ہمیں گالیاں دے تو ہم اس کے جواب میں گالیاں نہیں دے سکتے۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۴۶۴)
استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب اِس حکم کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ...دعوت کے مخاطبین اگر ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی پر اتر آئیں تو داعی کو اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے اتنا بدلہ لینے کا حق ہے جتنی تکلیف اُسے پہنچائی گئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو پسند یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔ اِس صبر کے معنی یہ ہیں کہ حق کے داعی ہر اذیت برداشت کر لیں، لیکن نہ انتقام کے لیے کوئی اقدام کریں، نہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبرا کر اپنے موقف میں کوئی ترمیم و تغیر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس موقع پر صبر کرنے والوں کے لیے بڑی نعمت کا وعدہ ہے۔‘‘(البیان۳/ ۶۰)
سورۂ نحل ایک مکی سورہ ہے۔ مذکورہ بالا آیت کے مخاطب معاشرے کے افراد ہیں۔اِس میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے خطاب نہیں ہے کہ افراد معاشرہ میں اگر کہیں کوئی باہمی مخاصمت ہوجائے تو مظلوم کو برابر کا بدلہ دلانا تمھاری ذمہ داری ہے اور تم معاف کردو تو بہت بہتر ہے۔یہاں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون شریعت کے مطابق کوئی متعین سزا دینا یا دلانا بھی زیر بحث نہیں ہے، بلکہ انفرادی معاملات میں ایک دوسرے کے خلاف عام ظلم وزیادتی اور ایذا رسانی زیر بحث ہے کہ کوئی شخص اگر کسی دوسرےکے خلاف تعدی اور زیادتی پر اتر آتا ہے، جس سے اُسے کسی نوعیت کی ایذا پہنچے تو وہ در اصل ظالم ہے، چنانچہ یہاں اُس کے بالمقابل مظلوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو باتیں کہی گئی ہیں:
ایک یہ کہ وہ چاہے تو تعدی کرنے والے کی ایذا کا برابر جواب دے کر عدل کرسکتا ہے، لیکن اِس قصاص سے آگے بڑھ کر تعدی کرنا اورخود ظالم بن جانا اُس کے لیے بالکل جائز نہیں ہوگا، خواہ وہ ایذا پہنچانے والا غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو۔ برابری کی حد تک معاملہ کرنا، البتہ اُس کے لیے جائز ہے۔
دوسرے یہ کہ آدمی کے پاس بدلہ لینے کی استطاعت ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں اگر وہ بدلہ لینے کے بجاے صبر کر کے ظالم کی تعدی اور اذیت کو برداشت کرلے تو یہ رویہ خود اُس کے لیے بہت بہتر ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس طرح کی صورت میں اذیت برداشت کر کے صبر کر لینے کے رویے کے بہتر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اِس کی وضاحت خود قرآن مجید نے زیر بحث حکم ہی کے سیاق میں سورۂ شوریٰ کی ایک آیت میں کردی ہے، جس کو ذیل میں ہم یہاں بیان کریں گے۔
ر سورۂ نحل کی مذکورہ بالا آیات اپنے موقع ومحل کے اعتبار سے دین اسلام کی دعوت اور اُس کی حکمت عملی کے سیاق میں وارد ہوئی ہیں۔ باہمی معاملات میں زیادتی کا جواب دینے اور برابر کا بدلہ لینے کا یہی حکم سورۂ شوریٰ میں کچھ تفصیل سے اور دعوت دین کے موضوع سے مجرد ہوکر بھی آیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ اِذَا٘ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ. وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَاﵐ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِﵧ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ. وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ. اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَي الَّذِيْنَ يَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَيَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّﵧ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ. (۴۲: ۳۹ -۴۲)
’’اور وہ کہ جو بدلہ اُس وقت لیتے ہیں، جب اُن پر زیادتی کی جائے۔ اِس لیے کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جس نے معاف کیا اور معاملے کی اصلاح کر لی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ہاں جن پر ظلم ہوا اور اُس کے بعد اُنھوں نے بدلہ لیا تو یہی ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام تو اُنھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
فہم قرآن کے ایک بنیادی اُصول، یعنی ’القرآن يفسر بعضه بعضًا‘ (قرآن کی بعض آیات دوسری آیات کی خود وضاحت کردیتی ہیں) کو پیش نظر رکھ کر یہاں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ‘ پر غور کیجیے کہ سورۂ نحل کی آیت میں جو یہ کہا گیا تھا کہ ’وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ‘ (لیکن اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے ) تو اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ کسی کی تعدی و زیادتی کے جواب میں صبر کرنا اِس لیے بہتر ہے کہ بدلہ لینے سے اللہ کے دین کی دعوت کو نقصان پہنچتا ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔بلکہ سورۂ شوریٰ کی اِس آیت نے بالکل واضح کردیا ہے کہ اِس کا مطلب صرف یہ تھا کہ جو شخص زیادتی کرنے والے کی طرف سے ملنے والی تکلیف کو برداشت کرلے، انتقام کے جذبات کو قابو کرلے اور فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر کے ظلم واذیت کو سہ کر بدلہ نہ لے تو اُس کے لیے یہ بات درحقیقت اِس وجہ سے بہت بہتر ہے کہ اِس کا اجر اُس کے لیےاللہ کے ہاں محفوظ ہے، وہ قیامت کے دن اِس کی جزا اور بدلہ اُسے ضرور دلادے گا۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’ ... اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگرچہ جائز ہے، لیکن جہاں معاف کردینا اصلاح کا موجب ہوسکتا ہو، وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجاے معاف کردینا زیادہ بہتر ہے۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کر کے دیتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔‘‘(تفہیم القرآن ۴ / ۵۱۱-۵۱۲)
اِس سیاق میں قرآن کے فرمان ’اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ‘ پر کلام کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اُسے ایک ہی تھپڑ مار سکتا ہے۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کرسکتا۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اُس کے لیے حلال نہیں ہوجائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے ۔‘‘(تفہیم القرآن ۴/ ۵۱۲)
آیت کے الفاظ ’وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ‘ (اِس لیے کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے) پر سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو، اتنی ہی برائی وہ اُس کے ساتھ کرلے، اِس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا۔‘‘ (تفہیم القرآن۴/ ۵۱۱)
اِسی آیت کی توضیح میں استاذ مکرم جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’برائی کے جواب میں جو کچھ کیا جائے، وہ برائی نہیں، بلکہ قصاص ہے، لیکن یہاں اُس کو برائی کے لفظ سے مجانست کے اسلوب پر تعبیر کیا ہے۔ یہ عربی زبان کا معروف اسلوب ہے، جیسے ’دناھم کما دانوا‘۔‘‘ (البیان ۴/ ۴۳۹)
لہٰذا اگر کوئی آدمی برائی اور اذیت کے بدلے کو بھی ’غیر اخلاقی زیادتی‘ کہتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔
یعنی کسی برائی کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے جو جواب دیا جاتا ہے،خود اُس کو برائی یا جوابی ’غیر اخلاقی زیادتی‘ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ تو بدلہ اور قصاص ہے۔جیسا کہ شرعی سزاؤں میں زانی ، چور ، تہمت زنا لگانے والے یا قاتل کو بغیر کسی عفو و درگذر کے جو سزا دی جاتی ہے، وہ بدلہ، عدل اور قصاص ہوتا ہے، نہ کہ مجرم کے ساتھ زیادتی۔ بلکہ قانونی سزاؤں میں بھی بعض اوقات مجرم کی سنگ دلی اور اُس کےجرم کی شدت کے لحاظ سے سزا میں بھی پوری سختی کے ساتھ مظلوم کو پورا پورا بدلہ دلایا جاتا ہے۔ یہ طرز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ثابت ہے۔
و حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچلا تھا۔ جب اُس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟کیا فلاں نے؟کیا فلاں نے؟یہاں تک کہ اُس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا۔چنانچہ اُس یہودی کو گرفتار کرلیا گیا اور اُس نےاپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اُس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچلا گیا (بخاری، رقم ۲۴۱۳)۔
بالبداہت واضح ہے کہ جب معاملہ باہمی عام انسانی معاملات اور اخلاقیات کا ہو تو ایذا پہنچانے اور تعدی کرنے والا در اصل ظالم ہوتا اور بالمقابل شخص مظلوم ہوتا ہے۔چنانچہ ظلم کے جواب میں ہونے والا عمل اگر اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی حد کے اندر ہی رہے تو یہ جوابی رد عمل ’غیر اخلاقی عمل‘ یا ’زیادتی‘ بالکل نہیں کہلائے گا، بلکہ ظلم کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے بدلہ، جزا اور قصاص کہلائے گا۔البتہ اِس جواب میں اللہ کی مقرر کردہ حد سے تعدی کی گئی توبدلہ لینے والا یہ شخص بھی ظالم ہی قرار پائے گا۔یعنی اللہ تعالیٰ نے زیادہ سے زیادہ برابری کی حد تک جانے کی اجازت دی ہے، ظالم بننے کی نہیں۔
انتقام میں توازن
امام امین احسن اصلاحی ’’تدبر قرآن ‘‘ میں ’’انتقام میں توازن‘‘ کے عنوان کے تحت سورۂ شوریٰ کی اِنھی آیات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ پھر یہ کہ بدلہ لیتے بھی ہیں تو یہ نہیں کرتے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کریں۔ بلکہ وہ اس معاملے میں بھی پورا توازن قائم رکھتے ہیں۔ جواب میں صرف اتنی ہی کارروائی کرتے ہیں جو برائی کے ہم وزن ہو۔
کوئی انتقامی کارروائی کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ قصاص ہے، لیکن یہاں اِس کو ’سَيِّئَةٌ ‘ کے لفظ سے عربی زبان کے اس اسلوب کے مطابق تعبیر کیا گیا ہے جس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے کہ بعض اوقات الفاظ مجانست کے اصول پر استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ’دِنَّاهُمْ كَمَا دَانُوْا‘ ظاہر ہے کہ اس میں ’كَمَا دَانُوْا‘ بالکل ’كَمَا فَعَلُوْا‘ کے معنی میں ہے، لیکن محض ہم آہنگی کے پہلو سے ’كَمَا فَعَلُوْا‘ کی جگہ ’كَمَا دَانُوْا‘ استعمال ہوا۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی میں بھی کسی ایسے فعل کا ارتکاب جائز نہیں ہے جو شریعت میں بہرشکل ممنوع ہے۔‘‘( ۷/ ۱۸۱)
چنانچہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ زیادتی کرنے اوراذیت پہنچانے والوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حدود میں رہتے ہوئے بدلہ لینے کو کبھی کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعدی کے جواب میں ’غیراخلاقی زیادتی‘ ہے۔ بلکہ اِس تعبیر سے تو خود قرآن مجید پر اعتراض وارد ہوجاتا ہے کہ وہ جواب میں غیر اخلاقی عمل اور زیادتی کو کیسے جائز قرار دے رہا ہے۔دین و اخلاق کے حدود سے تجاوز کرنا، البتہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔ اِس سیاق میں قرآن نے کہہ دیا ہے کہ ’اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِينَ‘ (بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا)۔
اِس کی توضیح میں استاذ گرامی غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’یعنی کوئی شخص ظلم کرے تو وہ بھی اللہ کے نزدیک مبغوض ہے اور اُس کے جواب میں اگر ظلم کا جواب اُس سے بڑھ کر ظلم و عدوان سے دیا جائے تو اُس کو بھی اللہ سخت نا پسند کرتا ہے۔‘‘(البیان ۴/ ۴۳۹)
سورۂ نحل اور سورۂ شوریٰ کی موضوع بحث آیات میں برائی کا بدلہ لینے کی جو رخصت بیان ہوئی ہے، اُس میں اور معاشرے کے مجرمین کی شرعی وقانونی سزاؤں میں بعض پہلوؤں سے جوواضح فرق ہے، اُس کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔
ایک یہ کہ عام نوعیت کی تعدی واذیت کے جواب میں قرآن نے ’مثلیت‘، یعنی ہوبہو بدلہ لینے کی اجازت دی ہے، جب کہ شریعت یا نظم اجتماعی کی قانونی سزا ؤں میں ’مثلیت‘ اور برابری کا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ عام طور پر یہ سزائیں مجرم کے عمل سے بالکل مختلف نوعیت کی ہوا کرتی ہیں۔ جیسے زنا کے جرم میں سو کوڑے ، قذف کے جرم میں اسی کوڑے، فساد فی الارض کے جرم میں متنوع عبرت ناک سزائیں،چوری کرنے پر ہاتھ کاٹ دینے کی سزا اور انسانوں کے خلاف بعض جرائم میں ریاست کےقانون کا قید کی سزا دینا وغیرہ۔ اِن سب میں دیکھ لیجیے ، لوگوں کے جان ومال اور آبرو کے خلاف کی جانے والی تعدی پر جو سزائیں دی جاتی ہیں، اُن میں ’مثلیت‘ اور برابری کے بدلے کا سوال ہی نہیں ہے، یعنی جرم جس نوعیت کا ہوتا ہے، سزا بالکل اُسی طرح کی نہیں ہوتی، سواے اسلامی شریعت میں قتل وجراحت کی سزاؤں کے۔
دوسرے یہ کہ اِن بڑےجرائم میں دین وشریعت نےمظلوم سے یہ کہیں نہیں کہا کہ صبر کر کے ظالم کو معاف کرلینا بہت بہتر اور باعث اجر ہے اور نہ یہ بات نظم اجتماعی سے قطعاً کبھی کہی جاسکتی ہے کہ مجرمین سے عفوو درگذر کرنا پسندیدہ رد عمل ہے، جب کہ زیر بحث حکم میں معاملہ اِس کے برعکس ہے،یعنی جرم کے ثابت ہوجانے کے بعد شرعی وقانونی سزائیں دینا نظم اجتماعی پر لازم ہے، اُس میں معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ جب کہ باہمی انفرادی ظلم وزیادتی کے معاملات میں جوابی اقدام جائز ہے، لازم نہیں ہے۔
تیسرے یہ کہ جان، مال اور آبرو کے خلاف کیے جانے والے بڑے جرائم کے سوا باقی عام نوعیت کی ظلم و زیادتی، جو محرمات اخلاقیات کے درجے کی نہ ہو؛ اُس کے لیے شریعت نے کوئی متعین سزائیں مقرر ہی نہیں کی ہیں۔چنانچہ انفرادی معاملات میں آدمی اپنی صواب دید پر جس برائی کا آگے بڑھ کر خود برابری کا بدلہ لینے کا اختیار رکھتا ہے، وہ در اصل اِسی زمرے کی ایذا اور زیادتیاں ہیں۔لہٰذا یہ واضح رہنا چاہیے کہ ظلم وزیادتی کی انتہائی شنیع صورتوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے قانون سازی کردی ہے، جب کہ اِس عام نوعیت کی صورتوں کے لیے شریعت نے کوئی متعین قانون نہیں دیا ہے اور نہ نظم اجتماعی کو اِس باب میں کوئی ذمہ داری دی ہے۔
بدلہ لینے کے موضوع بحث حکم اور شرعی وقانونی سزاؤں کے مابین تفریق کی یہ تفصیل یہاں اِس لیے کی گئی ہے کہ قاری پر یہ بات واضح کی جائے کہ ’وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ‘ اور ’وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ‘ کی آیات میں کوئی قانونی سزا یا معروف کے مطابق سزا دینا یا دلانا اصلاً زیر بحث نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے انفرادی معاملات میں برائی اور تعدی کو نمٹانے کے لیے اُنھیں برابر کی سطح تک خود قصاص لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ ‘ پرامام اصلاحی لکھتے ہیں:
’’ان لوگوں کے شبہ کا جواب جو انتقام کو دین داری کے خلاف سمجھتے ہیں: یہ ان لوگوں کے شبہ کا جواب ہے جو دین داری کا ایک تقاضا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آدمی دوسروں کے ہاتھوں پٹتا رہے اور ان سے کوئی انتقام نہ لے۔ اگر کوئی انتقام لے تو یہ چیز دین داری کے خلاف سمجھی جاتی ہے اور اس کو بھی برابر کا مجرم سمجھ لیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اِس طرح کے معاملات میں الزام اُن لوگوں پر نہیں ہے جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیے جانے کے بعد انتقام لیا، بلکہ الزام اُن لوگوں پر ہے جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور بلاکسی استحقاق کے خدا کی زمین میں سرکشی اور طغیان کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘(تدبر قرآن۷ /۱۸۲)
سید ابو الاعلیٰ مودودی سورۂ شوریٰ کی آیت ’وَالَّذِيْنَ اِذَا٘ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ ‘ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ اُن کی نرم خوئی اور عفو و درگزر کی عادت کمزوری کی بنا پر نہیں ہوتی۔ اُنہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ اُن کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کردیں، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزریں، اور جب کسی زیر دست یا کمزور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اُس سے چشم پوشی کر جائیں، لیکن جب کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں اُن پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اُس کے دانت کھٹے کردیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اِس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔‘‘(تفہیم القرآن۴/ ۵۱۱)
قرآن مجید کی روشنی میں بالبداہت واضح ہے کہ ایک بندۂ مومن کے لیے عام حالات اور معاملات میں لوگوں سے پہنچنے والی اذیت وزیادتی کے جواب میں صبر اور عفو ودرگذر کا رویہ اختیار کرنا ہی بہتر اور عند اللہ باعث اجر ہے،تاہم وہ کسی خاص موقع پر یا کسی متعین شخص کی طرف سے ملنے والی برائی کے معاملے میں کبھی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے حق کی بنیاد پر اپنا بدلہ لینے کا فیصلہ کرے تو اُس کے اِس رویے کو، جیسا کہ امام اصلاحی نے فرمایا ہے، دین داری کے خلاف سمجھنا بالکل درست نہیں ہے۔اپنے اِس حق کو کسی موقع پر استعمال کرنا اُس کی اپنی صواب دید اور فیصلے پر منحصر ہے۔اِس حق کے استعمال سے کوئی دوسرا شخص اُسے روک بھی نہیں سکتا۔جب اِس طرح کی صورت حال میں دو راستوں کا اختیار خود اللہ تعالیٰ نے اُس کو دیا ہے تو اُن میں سے کسی ایک کے انتخاب میں حالات، موقع ومحل ،مخالف اور ایذا رسانی کی نوعیت کو سامنے رکھ کر اپنے اقدام کی وجہ ترجیح بھی وہ خود ہی قائم کرے گا۔
اِس بات کو ذرا تفصیل سے اور مثالوں کے ساتھ سمجھیے۔بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ کسی شخص سے ایک موقع پر آپ کے ساتھ زیادتی ہوجاتی ہے اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس سے اِس طرح کی برائی پہلے کبھی نہیں ملی اور آپ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے بالمقابل اُس کا رویہ کبھی تعدی و سرکشی کا نہیں رہا ہے۔ غالباً جذبات سے وقتی طور پر مغلوب ہو کر اور نادانستہ طور پر اُس سے آپ کے خلاف ایسا سرزد ہوگیا ہے۔ ایسی صورت میں توقدرت رکھنے کے باوجود بھی، بلاشبہ اُس کو معاف کرنا، معاملے کی اصلاح کرلینا اور بدلہ نہ لیناہی نہایت مطلوب اور باعث اجر ہوگا۔
تاہم بعض اوقات آدمی کو کسی ایسے مخالف سے اذیت پہنچتی ہے جس کے بارے میں بالخصوص وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی یہ تعدی اتفاقی اور وقتی طور پر سر زد ہونے والی چیز نہیں ہے، بلکہ ماضی میں بھی اُس کی اِس طرح کی سرکشی واضح اور معلوم ہے اور اِس بار بھی اُسی برائی کا تسلسل ہے اور اُس کے ساتھ معاملے کی اصلاح کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰذا ایسے کسی فرد کے بارے میں آدمی اگر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خاص اِس موقع پر اُس سے بدلہ لینا اُس کی سرکشی کو توڑنے اور تادیب کے لیے ضروری ہے تا کہ یہ رد عمل آیندہ اُس کی تعدی کو قابو میں رکھنے کے لیے معاون ہو تو ایسی صورت حال اور ایسے اذیت پہنچانے والوں کے معاملے میں راقم الحروف کے نزدیک مطلوب اقدام عفو ودرگذر کرنا بالکل نہیں ہوگا، بلکہ تادیب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بدلہ اور قصاص لینا ہی بہتر ہوگا۔
مکہ مکرمہ کے ابو عزہ جمحی نامی ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ (جنگ بدر میں) اُس کے عہدکرنے پر بغیر کسی فدیے کےچھوڑ دیا تھا کہ وہ آپ کے خلاف کبھی جنگ میں شریک نہیں ہوگا ۔ لیکن پھر اُس نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی اور جنگ احد میں ایک مرتبہ پھر قریش کے ساتھ آپ کے خلاف لڑنے کے لیے آگیا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اپنے صحابہ سے کہا کہ یہ شخص اِس بار بچنے نہ پائے۔پھر یوں ہوا کہ مشرکین میں سے قید ہونے والوں میں صرف یہی ابو عزہ جمحی تھا ۔اور اِس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت منت سماجت کی ، اپنی بیٹیوں کا واسطہ دے کر معافی مانگتا رہا۔اُس نے کہا: میں ایک مرتبہ پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ آیندہ کبھی آپ کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوں گا۔ آپ نے اِس بار یہ فرماتے ہوئے معافی دینے سے انکار کردیا کہ تم کیا سمجھتے ہو، میں تمھیں معاف کردوں گا اور تم مکہ جاکر لوگوں سے کہو گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو میں دو مرتبہ دھوکا دے چکا ہوں،(بالکل نہیں)۔ چنانچہ آپ کے حکم پر اُس کا سر قلم کردیا گیا( السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم۱۸۰۲۸)۔
اِس قصے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ بات واضح کرنا ہے کہ ہر موقع اور ہر مخالف کی ایذا کے جواب میں ہمیشہ معاف کرتے رہنا ،نہ قرآن نے واجب کیا ہے، نہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی اسوہ ہے اور نہ یہ آدمی کی دین داری کے خلاف ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت وحدود کے مطابق اُس کی دی ہوئی رخصت پر آدمی اپنی صواب دید پر جب مناسب سمجھے بغیر کسی تردد کے عمل پیرا ہوسکتا ہے۔اِس حوالے سے اُسے زیادتی کی نوعیت اور تعدی کرنے والے کا جائزہ لے کر جوابی رد عمل کے لیے اپنے وجوہ ترجیح کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
اوپر علما کی توضیحات میں بعض مختصر اشاروں سے واضح ہے کہ برائی اور زیادتی کا بدلہ لینے کی قرآنی رخصت علی الاطلاق نہیں ہے، بلکہ ایک مسلمان کو اِس باب میں بھی بعض حدود وقیود کی رعایت لازماً کرنا ہوگی۔چنانچہ یہاں ہم اِن حدود وضوابط کی وضاحت کریں گے۔
دوسروں سے برائی کا بدلہ لینے والے کے لیے جس طرح قرآن کی بتائی ہوئی برابری کی حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے، اُسی طرح اپنے کسی بھی جوابی اقدام میں شریعت واخلاق کی قطعی محرمات کا لحاظ رکھنا بھی اِس باب میں ہر مسلمان پر لازم ہے۔ قرآن مجید نے برائی کا برابر کی سطح تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے تو یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ خود دین اسلام کی رو سے اِس اجازت کے اندر بھی کچھ عقلی استثناءات مقدر ہیں۔
چنانچہ واضح رہے کہ کسی شخص کا دوسرے کے خلاف ظلم وعدان اگر من جملہ صریح محرمات دین واخلاق کے ہے تو اِس صورت میں مظلوم کے لیے ناجائز ہوگا کہ وہ اُس بغی کا ترکی بہ ترکی جواب دے۔ مثال کے طور پر قول وفعل کے تمام فواحش ، تہمت زنا، کسی کے خلاف جھوٹی گواہی، غیبت، یا مالی حق تلفی وغیرہ ۔ اِس طرح کے افعال در حقیقت دوسروں کی جان یا مال یا آبرو کے خلاف آخری درجے کا ظلم وتعدی شمار ہوتا ہے، اِس لیے یہ ہمارے دین میں صراحتاً حرام قرارد یے گئے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’يَنْهٰي عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ‘، ’’ (اللہ تعالیٰ) بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے‘‘(النحل۱۶: ۹۰)۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيْسَ بِاللَّعَّانِ، وَلَا الطَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيء».
’’ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان نہ دوسروں کو لعن طعن کر نے والا ہوتا ہے، نہ بد خلق اور نہ فحش گوئی کرنے والا۔‘‘ (احمد، رقم ۳۹۴۸)
اِس روایت کی توضیح میں استاذ مکرم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اسلام کا مقصد ہی تطہیر اخلاق ہے۔ اُس میں داخل ہونے کے بعد بھی کوئی شخص اگر دوسروں کو لعن طعن کرتا ہے یا بد خلق اور فحش گو ہے تو اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ در حقیقت اسلام میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اُس کے لیے اسلام محض ایک نام ہےجو اُس نے اپنے لیے اختیار کر لیا ہے۔‘‘(ایمان واسلام کے منافی (۱)، ماہنامہ اشراق، جولائی ۲۰۱۶، ص۲۲)
چنانچہ جو فعل ہمارے دین میں اپنی ذات ہی میں قطعاً ممنوع ہے، وہ کسی ظالم اور برائی کرنے والے کے جواب میں بھی جائز نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا یہ سمجھنا چاہیے کہ زیادتی، برائی اورایذا رسانی میں کوئی شخص اگر ہمارے خلاف اِس طرح کے منہیات دین کے ارتکاب پر اتر آئے تو بالبداہت واضح ہے کہ کوئی مسلمان اپنا بدلہ لینے کے لیے اِس طرح کے محرمات کے قریب بھی نہیں جاسکتا۔مثال کے طور پر کوئی عورت کسی دوسری عورت کے شوہر کو اپنی گھڑی ہوئی جھوٹی باتوں سے متاثر کر کے اُسے اپنی بیوی سے نفرت میں اِس سطح تک پہنچادے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اِس صورت میں وہ مظلوم عورت بھی اِس طرح کی صریح تعدی کرنے والی عورت کا گھر خراب کرنے کے لیےاِسی طرح کے جھوٹ گھڑ کے اُس کی زیادتی کے برابر جواب قطعاً نہیں دے سکتی۔ ایسا کرنا اُس کے لیے حرام ہوگا۔اِس لیے کہ ایک تو کسی انسان کو نقصان پہنچانے کے لیے اِس درجے کا جھوٹ بولنا بجاے خود دین واخلاق کی رو سےحرام ہے ، دوسرے یہ کہ اِس عورت کے جوابی رد عمل کا شر صرف اُس ظلم کرنے والی عورت تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اُس کا گھر ٹوٹنے کی صورت میں اِس جوابی رد عمل کا شر اُس کے شوہر اور بچوں تک بھی متعدی ہوگا۔چنانچہ اِس طرح کا بدلہ لینا من جملہ کبائر ذنوب کے شمار ہوگا۔اِس صورت میں صرف صبر اور دوسرے جائز طریقوں سے اپنے گھر کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش ہی کی جائے گی۔ اِسی طرح کسی شخص نے آپ کے بھائی کو قتل کیا ہے تو جواب میں آپ کے لیے یہ حرام ہوگا کہ آپ بھی اُس کے بھائی کو قتل کردیں۔ اِسی نوعیت کی مثالیں کسی کے مال کے خلاف عدوان کے باب میں بھی سمجھ لینی چاہییں۔یہ پہلا ضابطہ تھا۔
دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ آدمی کے خلاف اگر کسی ایسے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو جو بذات خود من جملہ اُن جرائم کے ہے جن کی سزا خود شریعت نے مقرر کردی ہے، مثال کے طور پر قتل نفس، چوری، ڈاکا، قذف وغیرہ۔اِس نوعیت کا جرم اگر کسی فرد کے خلاف کیا گیا ہے تو اِس کا جواب بھی وہ خودنہیں دے سکتا، بلکہ اسلامی شریعت کی رو سے اِس مظلوم کے لیے صرف یہی راستہ ہے کہ قانون ہی کی طرف رجوع کرے۔ اِس طرح کا کوئی فعل اگر کسی نے ایک ظالم کے جواب میں برابری کا بدلہ لینے کے لیے کیا تو ایک طرف یہ حرام فعل کا ارتکاب کرکے اللہ کی مقرر کردہ حد سے تجاوز شمار ہوگا اور دوسری طرف اِس کے نتیجے میں خود یہ شخص بھی نظم اجتماعی کے قانون کے تحت ، ظاہر ہے کہ شرعی سزا کے لیے ماخوذ ہوگا ۔ اور جرم ثابت ہونے پر یہ بھی تعدی کرنے والے مجرم ہی کی طرح سزا پائے گا۔
اِس تفصیل سے واضح ہے کہ عام نوعیت کی ایذا، تعدی اور ظلم، جس کا جواب دینا اور برابر کا بدلہ لینا ، نہ محرمات شریعت واخلاق میں آتا ہو اور نہ اُس کے نتیجے میں آدمی کسی شرعی حد کا مستحق ٹھیرتا ہو، آدمی اپنی صواب دید پر ایسا برابری کا بدلہ لے سکتا ہے۔ تاہم دین میں گالم گلوچ کرنا، لعن طعن کرنا، اور کسی کوفحش گالیاں دینا اور لکھنا حرام ہے، لہٰذا کوئی مسلمان اِس طرح کے کسی سب وشتم کا برابر جواب قطعاً نہیں دے سکتا۔
لیکن اگر کسی نے ایک شخص پر ناجائز ہاتھ اٹھایا ، تمسخر وتضحیک کی، اُس پر طنز وتعریض کی ، عیب جوئی کی یا لوگوں کے درمیان اُس کی تذلیل کی ہے یا اِسی نوعیت کی کوئی ایذا پہنچائی ہے تو بلاشبہ وہ ظالم ہے۔ اب یہ مظلوم کی اپنی صواب دید پر ہے کہ وہ اپنی استطاعت کا اندازہ لگاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی انصاف کی حد میں رہتے ہوئے اگر کوئی جوابی اقدام کرنا چاہے تو کرلے،اِس لیے کہ یہ اختیار خود قرآن نے اُس کو دیا ہے۔
انفرادی معاملات کے علاوہ جہاد وقتال کے ایک اجتماعی معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک صورت میں اپنی مقرر کردہ حرمتوں کی پامالی کی اجازت دیتے ہوئے زیادتی کا برابر جواب دینے کا بھی باقاعدہ حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌﵧ فَمَنِ اعْتَدٰي عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰي عَلَيْكُمْﵣ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ. (البقرہ ۲: ۱۹۴)
’’ ماہ حرام کا بدلہ ماہ حرام ہے اور اِسی طرح دوسری حرمتوں میں بھی بدلے ہیں۔ لہٰذا جو تم پر زیادتی کریں، اُن کو اپنے اوپر اِس زیادتی کے برابر ہی جواب دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے حدود کی پابندی کرتے ہیں ۔‘‘
دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر اہل عرب میں یہ حکم معلوم تھاکہ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینا عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن وامان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اِس بنا پر اِن مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا، یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اِس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں، تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔
امام امین احسن اصلاحی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ اشہر حرم میں یا حدودحرم میں لڑائی بھڑائی ہے تو بہت بڑا گناہ، لیکن جب کفار تمھارے لیے اِس کی حرمت کا لحاظ نہیں کرتے تو تمھیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ قصاص کے طور پر تم بھی اُن کو اُن کی حرمت سے محروم کر دو۔ ہر شخص کی جان شریعت میں محترم ہے، لیکن جب ایک شخص دوسرے کی جان کا احترام نہیں کرتا، اُس کو قتل کر دیتا ہے تو اُس کے قصاص میں وہ بھی حرمت جان کے حق سے محروم کرکے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اِسی طرح اشہر حرم اور حدودحرم کا احترام مسلم ہے، بشرطیکہ کفار بھی اِن کا احترام ملحوظ رکھیں اور اِن میں دوسروں کو ظلم و ستم کا ہدف نہ بنائیں۔ لیکن جب اِن کی تلواریں اِن مہینوں میں اور اِس بلد امین میں بے نیام ہوتی ہیں تو وہ سزاوار ہیں کہ اُن کے قصاص میں وہ بھی اُن کے امن و احترام کے حقوق سے محروم کیے جائیں۔ مزید فرمایا کہ جس طرح اشہر حرم کا یہ قصاص ضروری ہے، اِسی طرح دوسری حرمتوں کا قصاص بھی ہے۔ یعنی جس محترم چیز کے حقوق حرمت سے وہ تمھیں محروم کریں، تم بھی اُس کے قصاص میں اُس کے حق حرمت سے اُنھیں محروم کرنے کا حق رکھتے ہو۔ پس جس طرح کے اقدامات حرم اور اشہر حرم کی حرمتوں کو برباد کر کے وہ تمھارے خلاف کریں، تم اُن کے جواب ترکی بہ ترکی دو۔ البتہ تقویٰ کے حدود کا لحاظ رہے۔ کسی حد کے توڑنے میں تمھاری طرف سے پیش قدمی نہ ہو اور نہ کوئی اقدام حد ضروری سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اُنھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو ہر طرح کے حالات میں اُس سے ڈرتے رہتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۷۹-۴۸۰)
سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’اِس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اِس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہل عرب نے جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خاطر نسی کا قاعدہ بنا رکھا تھا، جس کی رو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے، تو کسی حرام مہینے میں اُس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اُس مہینے کی جگہ کسی دوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اِس حرمت کا بدلہ پورا کردیتے تھے۔ اِس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کارروائی کر بیٹھیں، تو اِس صورت میں کیا کیا جائے۔ اِسی سوال کا جواب اِس آیت میں دیا گیا ہے۔‘‘(تفہیم القرآن ۱/ ۱۵۲-۱۵۳)
استاذ گرامی غامدی صاحب اِس حکم کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ یعنی ماہ حرام کی حرمت اگر یہ ملحوظ نہیں رکھتے تو اِس کے بدلے میں تمھیں بھی حق ہے کہ اِس کی پروا کیے بغیر اِن کے خلاف جنگ کرو، اِس لیے کہ اِس طرح کی حرمتیں باہمی طور پر ہی قائم رہ سکتی ہیں، اِنھیں کوئی ایک فریق اپنے طور پر قائم نہیں رکھ سکتا۔‘‘(البیان ۱/ ۲۰۸)
یعنی جہاد وقتال کے اِس اجتماعی معاملے میں خود اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمتوں کو پامال کر کے کوئی قوم مسلمانوں کے خلاف چڑھائی میں پہل کرتی ہے تو اِس صورت میں جواز کے درجے میں نہیں، بلکہ وجوب کے درجے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ بھی اِن حرمتوں کا لحاظ کیے بغیر بھر پور جواب دیں اور اِس زیادتی پر برابر کا جواب دیں، اِس لیے کہ اِس طرح کے امور میں حرمتوں کا قیام فریقین کے لحاظ رکھنے ہی سے ممکن ہوتا ہے۔
اللهم أرنا الحق حقًا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه۔
ـــــــــــــــــــــــــ