بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
طٰسٓمّٓ ١ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ ٢ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ٣ اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ ٤ وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّا كَانُوْا عَنْهُ مُعْرِضِيْنَ ٥ فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَيَاْتِيْهِمْ اَنْۣبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ٦
ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
یہ سورۂ ’طٰسٓمّٓ‘ ہے[85]ل۔ یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنا مدعا وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے[86]۔ شاید تم اِس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو اِن پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں کہ اِن کی گردنیں اُس کے سامنے جھک کر رہ جائیں[87]۔ (لیکن ہم سمجھا رہے ہیں اور) اِن کا حال یہ ہے کہ خداے رحمٰن کی طرف سے اِن کے پاس جو تازہ یاد دہانی بھی آتی ہے، یہ اُس سے اعراض ہی کیے رہتے ہیں۔ سو اِنھوں نے جھٹلا دیا ہے تو اُس چیز کی خبریں عنقریب (اپنی حقیقت کے ساتھ) اِن کے آگے ظاہر ہوجائیں گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں[88]۔ ۱- ۶
اَوَلَمْ يَرَوْا اِلَي الْاَرْضِ كَمْ اَنْۣبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ ٧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٨ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ٩
(یہ نشانیوں کے منتظر ہیں)۔ کیا اِنھوں نے زمین کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اُس میں ہر طرح کی کتنی نفع بخش چیزیں اگائی ہیں؟ اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور تیرا پروردگار،اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[89]۔ ۷- ۹
وَاِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰ٘ي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ١٠ﶫ قَوْمَ فِرْعَوْنَﵧ اَلَا يَتَّقُوْنَ ١١ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ٘ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ ١٢ﶠ وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ فَاَرْسِلْ اِلٰي هٰرُوْنَ ١٣ وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْۣبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِ ١٤ ﶔ
اِنھیں اُس وقت کا قصہ سناؤ، جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکارا [90] کہ تم ظالم قوم کے پاس جاؤ، قوم فرعون کے پاس ــــ کیا وہ ڈریں گے نہیں[91]؟ اُس نے عرض کیا: پروردگار،مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے اور میرا حال یہ ہے کہ (اِس ذمہ داری کے احساس سے) میرا سینہ گھٹتا ہے[92] اور میری زبان بھی رواں نہیں ہے[93] تو آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں (کہ وہ اِس کام میں میری مدد کرے[94])۔ اور اُن کا ایک جرم بھی میرے اوپر ہے[95]، اِس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔۱۰- ۱۴
قَالَ كَلَّاﵐ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَا٘ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ١٥ فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا٘ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٦ﶫ اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ١٧ﶠ قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِيْنَ ١٨ﶫ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ١٩
فرمایا: ہرگز نہیں، (وہ تمھیں قتل نہیں کر سکتے) تواب دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ، ہم تمھارے ساتھ سب سنتے رہیں گےب[96]۔ سو دونوں (بغیر کسی تردد کے) فرعون کے پاس جاؤ اور اُس سے کہو کہ ہم خداوند عالم کے رسول ہیں اور اِس لیے آئے ہیں کہ تم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو[97]۔ (اُنھوں نے یہ بات فرعون سے آ کر کہی تو) اُس نے کہا: کیا ہم نے تمھیں بچپن میں اپنے ہاں رکھ کر پالا نہیں تھا اور (تم وہی نہیں ہو کہ ) اپنی عمر کے کئی سال تم نے ہمارے اندر بسر کیے اور پھر اپنی وہ حرکت کی جو کی [98] (اور بھاگ گئے)؟ تم بڑے ہی ناشکرے ہو[99]۔ ۱۵- ۱۹
قَالَ فَعَلْتُهَا٘ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّآلِّيْنَ ٢٠ﶠ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ٢١ وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ٢٢ﶠ
موسیٰ نے جواب دیا: میں نے یہ کیا تھا اور (مجھے اعتراف ہے کہ) اُس وقت میں چوک گیا تھا[100]۔ پھر مجھے تم لوگوں سے اندیشہ ہوا (کہ اِس کی پاداش میں تم مجھے قتل کر دو گے) تو میں تم سے بھاگ گیا۔ پھر میرے پروردگار نے مجھے حکمت و دانش سے نوازا اور مجھ کو اپنے پیغمبروں میں سے (ایک پیغمبر) بنا دیا۔ اور یہ احسان ہے جو تم مجھے جتا رہے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے[101]! ۲۰- ۲۲
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ٢٣ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَاﵧ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ ٢٤ قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗ٘ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ ٢٥ قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَآئِكُمُ الْاَوَّلِيْنَ ٢٦ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْ٘ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ ٢٧ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَاﵧ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ٢٨ قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ ٢٩ قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِيْنٍ ٣٠ﶔ قَالَ فَاْتِ بِهٖ٘ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ٣١ فَاَلْقٰي عَصَاهُ فَاِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ ٣٢ﶗ وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِيَ بَيْضَآءُ لِلنّٰظِرِيْنَ ٣٣ قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗ٘ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ ٣٤ﶫ يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ بِسِحْرِهٖﵲ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ ٣٥
ن: فرعون نے کہا: اور یہ رب العٰلمین کیا ہے[102]؟ موسیٰ نے جواب دیا: زمین اور آسمانوں کا اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، سب کا پروردگار، اگر تم لوگ یقین کرنے والے بنو۔ فرعون نے اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہا: سنتے نہیں ہو[103]؟موسیٰ نے (اِس پر اپنی دعوت کا ایک قدم اور آگے بڑھادیا اور) کہا: تمھارا بھی پروردگار اور تمھارے اگلے بزرگوں کا بھی پروردگار[104]۔ فرعون نے کہا: تمھارا یہ رسول ، جو تمھاری طرف بھیجا گیا ہے، بالکل ہی خبطی ہے۔ موسیٰ نے کہا: (اورمزید یہ کہ) مشرق و مغرب اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، سب کا پروردگار، اگر تم عقل رکھتے ہو[105]! فرعون (یہ سن کر) چلا اٹھاکہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تمھیں قید کرکے رہوں گا۔ موسیٰ نے پوچھا: کیا اُس صورت میں بھی کہ میں تمھارے پاس ایک واضح نشانی لے کر آیا ہوں؟فرعون نے کہا: پھر اُسے پیش کرو، اگر تم سچے ہو۔ اِس پر موسیٰ نے اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی تو یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا[106]اور اُس نے اپنا ہاتھ باہر نکالا تو دیکھنے والوں کے لیے دفعتاًوہ چمکتا ہوا نکلا[107]۔ فرعون نے (یہ دیکھا تو) اپنے گردوپیش کے سرداروں سے کہا: یہ شخص یقیناً ایک ماہر جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمھارے ملک سے نکال دے[108]۔ سو کیا مشورہ دیتے ہو[109]؟ ۲۳- ۳۵
قَالُوْ٘ا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَآئِنِ حٰشِرِيْنَ ٣٦ﶫ يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ ٣٧ فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ٣٨ﶫ وَّقِيْلَ لِلنَّاسِ هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ ٣٩ﶫ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ اِنْ كَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ ٤٠ فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ٤١ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ٤٢
اُنھوں نے کہا:اِسے اور اِس کے بھائی کو ابھی ٹالیے ا[110]اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے جو سب بڑے بڑے ماہر جادوگروں کو آپ کے پاس لے آئیں۔ چنانچہ ایک مقرر دن[111] کے طے کیے ہوئے وقت پر جادوگر اکٹھے کر لیے گئے اور لوگوں میں منادی کر دی گئی کہ کیا تم لوگ جمع ہوتے ہو؟ اِس لیے کہ ہم جادوگروں کا ساتھ دیں، اگر وہی غالب رہتے ہیں[112]۔ پھر جب جادوگر (میدان میں) آئے تو اُنھوں نے فرعون سے کہا: ہمارے لیے صلہ تو ہو گا، اگر ہم ہی غالب رہے[113]؟ فرعون نے جواب دیا: ہاں، اور اُس وقت تو تم ہمارے مقربین میں شامل ہوجاؤ گے۔ ۳۶- ۴۲
قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰ٘ي اَلْقُوْا مَا٘ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ ٤٣ فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ ٤٤ فَاَلْقٰي مُوْسٰي عَصَاهُ فَاِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ ٤٥ﶗ فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ ٤٦ﶫ قَالُوْ٘ا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٤٧ﶫ رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ٤٨
(چنانچہ مقابلہ شروع ہوا تو) موسیٰ نے جادوگروں سے کہا: پھینکو جو تمھیں پھینکنا ہے[114]۔ اِس پر اُنھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے: فرعون کے اقبال کی قسم[115]، ہم ہی غالب رہیں گے۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ اُن کے اُس طلسم کو نگلتا چلا جا رہا تھا جو وہ بنا لائے تھے[116]۔ سو (خدا کی اِس نشانی کو دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے[117]۔ اُنھوں نے (بے اختیار) کہا: ہم جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں، موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر[118]۔۴۳- ۴۸
قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْﵐ اِنَّهٗ لَكَبِيْرُكُمُ الَّذِيْ عَلَّمَكُمُ السِّحْرَﵐ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَﵾ لَاُقَطِّعَنَّ اَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِيْنَ ٤٩ﶔ قَالُوْا لَا ضَيْرَﵟ اِنَّا٘ اِلٰي رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ٥٠ﶔ اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰيٰنَا٘ اَنْ كُنَّا٘ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٥١ ﶠ
فرعون نے کہا: تم نے اُس کو مان لیا، اِس سے پہلے کہ میں تمھیں اجازت دوں! یقیناً وہی تمھارا گرو ہے جس نے تمھیں جادو سکھایا ہے۔ سو ابھی جان لو گے کہ اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کٹوا ؤں گا اور تم سب کو سولی چڑھا کر رہوں گا[119]۔ جادوگروں نے جواب دیا: کوئی ڈر نہیں، ہم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا، اِس لیے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لے آئے ہیں[120]۔۴۹- ۵۱
وَاَوْحَيْنَا٘ اِلٰي مُوْسٰ٘ي اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ٘ اِنَّكُمْ مُّتَّبَعُوْنَ ٥٢ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَآئِنِ حٰشِرِيْنَ ٥٣ﶔ اِنَّ هٰ٘ؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ ٥٤ﶫ وَاِنَّهُمْ لَنَا لَغَآئِظُوْنَ ٥٥ﶫ وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ ٥٦ﶠ
(اِس کے بعد کئی سال گزرے، یہاں تک کہ حجت پوری ہو گئی، تب) ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جاؤ، اِس لیے کہ تمھارا پیچھا کیا جائے گالشع[121]۔ اِس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں ہرکارے دوڑا دیے کہ یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں اور کچھ شک نہیں کہ (اپنی حرکتوں سے) یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں اور ہم ایک ایسی جمعیت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے، (لہٰذا ہم اِنھیں کسی فساد کا موقع نہیں دیں گے)[122]۔ ۵۲- ۵۶
فَاَخْرَجْنٰهُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍ ٥٧ﶫ وَّكُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ كَرِيْمٍ ٥٨ﶫ كَذٰلِكَﵧ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ ٥٩ﶠ
ر اِس طرح فرعونیوں کو ہم (اُن کے ) باغوں اور چشموں اور خزانوں سے اور رہنے کی باعزت جگہ سے نکال لائے۔ ہم اِسی طرح کرتے ہیں[123] اور ہم نے بنی اسرائیل کو (سرزمین فلسطین میں) اِنھی سب چیزوں کا وارث بنا دیا[124]۔ ۵۷- ۵۹
فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِيْنَ ٦٠ فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰ٘ي اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ ٦١ﶔ قَالَ كَلَّاﵐ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ٦٢
(یہ اِس طرح ہوا کہ موسیٰ نکلے) تو صبح ہوتے ہی وہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے۔ پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو موسیٰ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا: ہرگز نہیں، اِس لیے کہ میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا[125]۔۶۰- ۶۲
فَاَوْحَيْنَا٘ اِلٰي مُوْسٰ٘ي اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَﵧ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ ٦٣ﶔ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِيْنَ ٦٤ﶔ وَاَنْجَيْنَا مُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ٘ اَجْمَعِيْنَ ٦٥ﶔ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ ٦٦ﶠ
اِس پر ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا دریا پر مارو۔ اُس نے مارا تو وہ پھٹ گیا اور ہر حصہ ایسے ہو گیا، جیسے ایک بڑا پہاڑ۔ ہم نے دوسرے گروہ کو بھی (اِسی اثنا میں) اُسی جگہ قریب پہنچا دیا اور موسیٰ کو اور اُن سب لوگوں کو بچا لیا جو اُس کے ساتھ تھے، پھر اُن دوسروں کو ہم نے وہیں غرق کر دیا[126]۔ ۶۳- ۶۶
اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةًﵧ وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٦٧ وَاِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ٦٨
اِس میں، یقیناً بہت بڑی نشانی ہے ، لیکن اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں[127]۔ اور تیرا پروردگار، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ زبردست بھی ہے اور نہایت مہربان بھی[128]۔ ۶۷- ۶۸
[85]۔ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
[86]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا جو مضمون آگے آرہا ہے، یہ اُس کی تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بات ایسی واضح اور مبرہن ہے کہ اُس کے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ آپ ہی اپنی دلیل ہے۔ لہٰذا جو نشانیاں اور معجزات یہ مانگ رہے ہیں، اُن کے لیے آپ اِن کی کوئی پروا نہ کریں۔
[87]۔ مطلب یہ ہے کہ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن جب ارادہ و اختیار کا امتحان مقصود ہے تو اِس کی گنجایش نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ سمجھا رہے ہیں تو آپ کو بھی اِن کے مطالبات سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
آیت میں ’خاضعة‘ کی جگہ ’خٰضِعِيْنَ‘ مضاف الیہ کی رعایت سے آگیا ہے۔ یہ عربیت کا معروف اسلوب ہے۔
[88]۔ یعنی قرآن جو اِنھیں خبردار کرتا رہا ہے کہ اُس کی تکذیب کے نتیجے میں اِنھیں کیا نتائج بھگتنا ہوں گے۔
[89]۔ اوپر جو بات بیان ہوئی ہے، یہ اُسی کو اپنی صفات کی روشنی میں واضح فرمایا ہے کہ خدا زبردست ہے، وہ چاہے تو اِن پر اپنا عذاب نازل کر دے، لیکن وہ رحیم و کریم بھی ہے، اِس لیے عذاب میں جلدی نہیں کرتا اور اپنے بندوں کو اُن کی سرکشی کے باوجود مہلت دیتا ہے کہ سمجھانے ہی سے سمجھ جائیں اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آئیں۔
[90]۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ یہ واقعہ وادی مقدس طویٰ میں اُس وقت پیش آیا، جب موسیٰ علیہ السلام کئی برس کی جلاوطنی کے بعد مدین سے واپس آ رہے تھے۔
[91]۔ یعنی اپنے طغیان اور سرکشی میں بڑھتے ہی جائیں گے اور خدا کے قہر و غضب سے ڈریں گے نہیں؟ استاذ امام کے الفاظ میں،اِس اسلوب خطاب میں حسرت، غصہ، زجر و ملامت اور عذاب الہٰی کے قرب کی جو وعید ہے، وہ محتاج تشریح نہیں ہے۔
[92]۔ یہ اُس اضطراب و تردد کی تعبیر ہے جو وہ ایک فرض شناس آدمی کی حیثیت سے اُس عظیم منصب کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اپنے دل میں محسوس کر رہے تھے جو اُنھیں دیا جا رہا تھا۔
[93]۔ یعنی میں کوئی زبان آور خطیب بھی نہیں ہوں کہ اپنی بات موثر طریقے سے مخاطبین تک پہنچا سکوں۔ یہ نہایت خاکسارانہ انداز اپنی عاجزی کا اظہار ہے۔ اِس کا کسی جسمانی نقص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[94]۔ یہودی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام نہایت فصیح اللسان آدمی تھے۔ حضرت موسیٰ نے جس اعتماد کے ساتھ اُن کا نام لیا ہے، اُس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اپنے بھائی کو اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی وہ اِس منصب کا اہل سمجھتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے یہ غیر معمولی درخواست پیش کر دی۔ اُن سے پہلے کسی نبی کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ ایک دوسرے نبی کو اِس طرح اُس کا ساتھی بنا دیا گیا ہو۔
[95]۔ اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں ایک قبطی اُن کے ہاتھ سے نادانستہ قتل ہو گیا تھا اور اُس کے انتقام سے بچنے کے لیے وہ ملک چھوڑ کر مدین چلے گئے تھے۔ آگے سورۂ قصص (۲۸) میں اِس کی تفصیل ہے۔
[96]۔ یعنی سنتے اور دیکھتے رہیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان دلانے کے لیے یہ نہایت بلیغ فقرہ ہے۔ اِس کے اجمال میں جو تفصیل مضمر ہے اور اِس سے جس سطوت و جلالت اور تحفظ و ضمانت کا اظہار ہوتا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
[97]۔ اصل الفاظ ہیں:’اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ‘۔’اَنْ‘ سے پہلے ’ب‘عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئی ہے۔ دعوت و انذار کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یہ مطالبہ اِس لیے کرنے کی ہدایت فرمائی تھی کہ اِس سے اُس اسکیم کو بروے کار لانا مقصود تھا جس کے تحت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو عالمی سطح پر ابلاغ دعوت اور اتمام حجت کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس اسکیم کے مطابق یہ ضروری تھا کہ اُنھیں ایک خاص علاقے میں آباد کرکے وہاں دعوت حق کا مرکز قائم کیا جائے۔ بائیبل کی کتاب خروج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ پوری اسکیم فرعون اور اُس کے درباریوں کے سامنے واضح نہیں فرمائی، بلکہ صرف اتنا کہا کہ وہ قربانی کی عبادت کے لیے تین دن کی راہ بیابان میں جانا چاہتے ہیں، اِس لیے کہ جس چیز کی قربانی کرنا پیش نظر ہے، اُس کی قربانی اگر مصر میں کی گئی تو وہاں کے لوگ اُنھیں سنگ سار کر دیں گے۔
[98]۔ یہ اُسی واقعۂ قتل کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔
[99]۔ مطلب یہ ہے کہ تمھاری یہ حیثیت کہ ہمارے سامنے آ کر اِس طرح کے مطالبات کرو۔ یہ انتہائی ناشکرا پن ہے۔ تم ہمارے پروردہ بھی ہو اور مجرم بھی، اِس لیے ایاز قدر خود بہ شناس۔ تمھیں تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہم تمھارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔
[100]۔ آیت میں لفظ ’ضَآلّ‘ ٹھیک اُس مفہوم میں آیا ہے، جس میں یہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸۲ میں ہے۔
[101]۔ حضرت موسیٰ نے یہ فرعون کو نہایت بلیغ جواب دیا ہے ۔ مدعا یہ ہے کہ جی ہاں، کیا کہنے ہیں اِس احسان کے، اِسی کے نتیجے میں تو آپ بنی اسرائیل سے بیگار لیتے، اُن کی پیٹھ پر تازیانے برساتے اور اُن کے بیٹوں کو قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں تاکہ مائیں اُن کی جان بچانے کے لیے اُن کو ٹوکریوں میں رکھ کر دریا میں بہاتی رہیں اور آپ اُن کی پرورش کرکے اُن پر احسان فرمایا کریں۔
[102]۔ فرعون کے طعنے کا جواب حضرت موسیٰ نے ایسا مسکت دیا ہے کہ اُس کے لیے مزید کچھ کہنے کی گنجایش نہیں رہی۔ چنانچہ اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے اُس نے موسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے کہ تم اپنے آپ کو رب العٰلمین کا رسول کہہ کر پیش کر رہے ہو تو ذرا بتاؤ کہ یہ رب العٰلمین کیا چیز ہے؟ یہ سوال جس ذہنی پس منظر کے ساتھ کیا گیا ہے، وہ قرآن نے دوسری جگہ بیان کر دیا ہے۔اُس کی روشنی میں اِس جملے کو سمجھا جائے تو گویا مدعا یہ ہے کہ پورا مصر تو سورج دیوتا کے مظہر کی حیثیت سے مجھے اپنا رب مانتا ہے، پھر یہ تم دونوں کس رب العٰلمین کے رسول بن کر آگئے ہو؟ اِس سے پہلے تو میں نے کسی ایسے پروردگار کا ذکر تم لوگوں سے نہیں سنا جو میری بادشاہی میں مداخلت کرے اور مجھ سے کہے کہ میں بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ جانے دوں۔ زمین و آسمان کا کوئی خالق ہے تو ہوا کرے، اِس سرزمین کے لوگوں کا رب اور معبود تو میں ہی ہوں۔
[103]۔ یعنی سنتے نہیں ہو کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔ فرعون کا یہ سوال بتا رہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے جواب سے وہ فی الواقع تلملا اٹھا ہے۔
[104]۔ یعنی اُن کا بھی پروردگار جن کی روایات پر بھروسا کرکے تم سورج دیوتا کے اوتار بنے بیٹھے ہو۔ یہ ضرب نہایت شدید تھی۔ چنانچہ ردعمل بھی نہایت شدید ہوا اور فرعون نے وہ بات کہی جو اگلے جملے میں نقل ہوئی ہے۔
[105]۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم عقل سے کام لو تو اپنی اِس حماقت پر متنبہ ہو سکتے ہو کہ مصر کی فرماں روائی کے بل بوتے پر خدائی کا دعویٰ کر رہے ہو۔ میں جس رب العٰلمین کی بات کر رہا ہوں، وہ مشرق و مغرب اور اُن کے درمیان کی ہر چیز کا پروردگار ہے۔
[106]۔ یعنی ایسا کھلا اژدہا کہ جس میں ذرا کسی شبہے کی گنجایش نہ ہو۔ آیت میں ’ثُعْبَانٌ‘ کے ساتھ ’مُبِيْنٌ‘کی صفت اِسی مفہوم کے لیے لائی گئی ہے۔
[107]۔ اصل الفاظ ہیں:’بَيْضَآءُ لِلنّٰظِرِيْنَ‘۔’نَظْر‘ کا لفظ عربی زبان میں اصلاً غور و تامل کے ساتھ دیکھنے کے لیے آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ہاتھ میں جو چمک ظاہر ہوئی، وہ محض فریب نظر کی نوعیت کی نہ تھی، بلکہ غور و تامل سے دیکھا جائے تو صاف واضح ہو جاتا تھا کہ اُس کی تابانی بالکل اصلی اور حقیقی ہے۔
[108]۔ یعنی کچھ ایسا ویسا جادوگر نہیں ہے، بلکہ بڑا ماہر جادوگر ہے اور لوگوں کو متاثر کرکے اپنے پیچھے لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ اِسی لیے کر رہا ہے کہ اُنھیں منظم کرکے اپنی فوج بنائے اور تم پر حملہ کرکے تمھیں اِس ملک سے نکال دے اور یہاں اپنی حکومت قائم کر لے۔ فرعون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ ایک تو موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اثر مٹانے کی کوشش کی جائے، دوسرے اُنھیں سیاسی خطرہ قرار دے کر اپنے اعیان و اکابر اور اپنی قوم کے لوگوں کو ایسا مشتعل کر دیا جائے کہ وہ اُن کی دعوت کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں۔ یہاں صرف فرعون کا ذکر ہے۔ دوسری جگہ تصریح ہے کہ اِس میں فرعون کے بعض درباری بھی اُس کے ہم زبان تھے۔ حضرت موسیٰ کی غیر معمولی شخصیت اور بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کے پیش نظر یہ بات بالکل قرین قیاس تھی اور لوگ آسانی کے ساتھ اِسے باور کر سکتے تھے۔ تاہم اِس کا بھی امکان ہے کہ فرعون اور اُس کے درباریوں نے فی الواقع یہی سمجھا ہو۔
[109]۔ یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ اب وہ طنطنہ باقی نہیں رہا جو ابتدا میں تھا۔ چنانچہ درباریوں سے مشورہ مانگا جا رہا ہے کہ میری عقل تو کام نہیں کرتی کہ اِس خطرے کا مقابلہ کس طرح کروں، اب تمھی کچھ راے دو۔
[110]۔ اصل میں ’اَرْجِهْ وَاَخَاهُ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔’اَرْجِهْ‘ درحقیقت ’اَرْجِئْهُ‘ ہے۔ لفظ کو ہلکا کرنے کے لیے اِس طرح کے تصرفات عربی زبان میں عام ہو جاتے ہیں۔
[111]۔ دوسری جگہ تصریح ہے کہ یہ کسی میلے یا قومی تہوار کا دن تھا اور مقابلے کے لیے چاشت کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہو سکیں۔
[112]۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو جمع ہونے کے لیے خوب ابھارا بھی گیا کہ ہمارے ساحر اِس وقت قومی وقار کی حفاظت کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں، اِس لیے ہر شخص کی خواہش ہونی چاہیے کہ وہ فتح مند ہوں اور اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے اِس موقع پر ہر شخص کو موجود بھی ہونا چاہیے۔ اِس کے لیے ’هَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ‘ کا استفہامیہ اسلوب بھی قابل توجہ ہے۔ عربی زبان کے ذوق آشنا محسوس کر سکتے ہیں کہ اِس میں کس طرح کی ترغیب و تشویق ہے۔
[113]۔ قرآن نے یہ جملہ جادوگروں کی اخلاقی پستی اور دناء ت کو ظاہر کرنے کے لیے نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیشہ وروں کے عام طریقے کے مطابق اُنھوں نے اِس خوشامدانہ انداز میں انعام کی توقع کا اظہار کیا۔
[114]۔ جادوگر جب اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو جوے کے تیروں کی طرح کوئی چیز دیکھنے والوں کے سامنے پھینکتے اور اُس پر اپنا جادو دکھاتے ہیں۔ آیت میں ’اِلْقَاء‘ یعنی پھینکنے کا لفظ اِسی مناسبت سے آیا ہے۔
[115]۔ اصل میں ’بِعِزَّةِ فَرْعَوْنَ‘ کے الفاظ ہیں۔ اِن میں ’ب‘قسم کے لیے ہے۔ بائیبل میں اِس کے شواہدموجود ہیں کہ مصر کے لوگ دیوتا کی حیثیت سے فرعون کے عزت و اقبال کی قسم کھاتے تھے۔
[116]۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ جب جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ بہت سے سانپوں کی شکل میں لہراتی اور لپکتی ہوئی نظر آئیں۔ اُن کے جواب میں حضرت موسیٰ نے اپنا عصا پھینک دیا جو سانپ بن کر اُن رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنے لگا اور ہر رسی اور لاٹھی کو اُس نے اُسی طرح رسی اور لاٹھی بنا دیا، جس طرح وہ حقیقت میں تھی۔ چنانچہ سارا طلسم نابود ہو گیا۔ اِس کے لیے آیت میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...’مَا يَاْفِكُوْنَ‘ کے اسلوب سے یہ بات نکلتی ہے کہ صرف یہی نہیں ہوا کہ اِس موقع پر ساحروں نے جو کرتب دکھایا ، عصاے موسیٰ نے اُس کا بھرم کھول دیا، بلکہ اُس نے اُن کے اب تک کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اِس لیے کہ یہی ہنر کا شاہ کار تھا، جب اِس کا یہ حشر ہوا تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ عصاے موسیٰ نے سحروساحری کے سارے طلسم ہی کو باطل کر دیا۔‘‘ (تدبرقرآن۵/ ۵۱۳)
[117]۔ اصل الفاظ ہیں:’فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ‘۔’اُلْقِيَ‘ مجہول کا صیغہ ہے۔ یہ جادوگروں کے جذبۂ تعظیم و اکرام کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ سحر و ساحری اور اِس طرح کے دوسرے علوم و فنون کو اُن کے ماہرین ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اِن میں اور معجزے میں فرق کے لیے یہ نہایت واضح معیار ہے کہ اِن علوم و فنون کے ماہرین بھی اُس کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
[118]۔ فرعون جس رب العٰلمین کا مذاق اڑا رہا تھا، جادوگروں نے اُسی پر اپنے ایمان کا اعلان کر دیا اور وہ بھی اِس تصریح کے ساتھ کہ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ یہ صاف فرعون کی خدائی اور بادشاہی، دونوں کا انکار تھا جسے، ظاہر ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
[119]۔ اوپر جادوگروں کے جس اعتراف حق کا بیان ہے، اُس سے مجمع پر جو اثر پڑا اور فرعون اور اُس کے درباری جس طرح رسوا ہو کر رہ گئے، اُس کی خفت مٹانے اور بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے یہ اُس نے کائیاں سیاسیوں کی طرح فوراً اُن پر سازش کا الزام رکھ کر سزا سنا دی ہے کہ سب تمھاری اور تمھارے گرو موسیٰ کی ملی بھگت ہے۔ اُس نے ڈرا دھمکا کر تمھیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اب تم لوگ ہمارے خلاف بغاوت کرنا چاہتے ہو۔ تم نے یہ سب اِسی لیے کیا ہے کہ کھلے میدان میں اپنے گرو سے شکست مان لو گے تو اُس کی دھاک عام لوگوں پر بیٹھ جائے گی اور ہماری حکومت کے خلاف تمھاری سازش کامیاب ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تم نے میری اجازت کا انتظار بھی نہیں کیا اور موسیٰ پر ایمان کا اعلان کر دیا ہے۔ اب میں تمھیں وہی سزا دوں گا جو سلطنت کے باغیوں کو دی جاتی ہے۔
[120]۔ آیت میں ’اَنْ‘ سے پہلے ’ل‘عربیت کے اسلوب پر محذوف ہے۔ جادوگروں کے جواب سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سچا ایمان آن کی آن میں انسان کو کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ وہی جادوگر ہیں کہ جب مقابلے کے لیے میدان میں اترے تھے تو بڑی لجاجت کے ساتھ فرعون سے اپنی کامیابی کی صورت میں انعام کی درخواست کر رہے تھے یا اب یہ حال ہے کہ ایمان کے نور نے اِن کے دلوں کو ایسا منور کردیا ہے کہ خدا اور آخرت کے سوا اِس دنیا کی کسی چیز کی اِن کی نگاہوں میں کوئی وقعت باقی نہیں رہی، یہاں تک کہ اپنے ایمان کی حفاظت کی راہ میں اپنی زندگی کو بھی قربان کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔
[121]۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پے در پے تنبیہات کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کو مصر سے جانے کی اجازت دے دی تھی، لیکن بعد میں اُس کی راے تبدیل ہو گئی اور اُس نے اُن کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اِس تبدیلی سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اور اِسی بنا پر ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنی قوم کو رات میں لے کر نکلیں۔
[122]۔ حضرت موسیٰ کی شخصیت اور اُن کے معجزات سے قبطی پوری طرح مرعوب ہو چکے تھے۔ چنانچہ فوجیں بلاتے وقت فرعون کی طرف سے یہ تمام باتیں اِسی مرعوبیت کو دور کرنے کے لیے کہی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی حیثیت تو کچھ نہیں، مگر جہاں پناہ نہیں چاہتے کہ سلطنت میں کوئی ذرا بھی سر اٹھانے کی جرأت کرے، اِس لیے اِن کی سرکوبی ضروری ہو گئی ہے۔
[123]۔ یعنی ایسے مجرم لوگوں کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ آیت میں ’كَذٰلِكَ‘ کے بعد ’نفعل بالمجرمين‘ یااِس کے ہم معنی الفاظ محذوف ہیں۔ اہل ذوق اندازہ کر سکتے ہیں کہ اِس سے کلام میں کس قدر زور پیدا ہو گیا ہے۔
[124]۔ آیت میں ’اَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’هَا ‘کی ضمیر بالکل اُسی طرح آگئی ہے، جس طرح سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ’قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ‘ (۱۰۲) میں بنی اسرائیل کے سوالات کے لیے آئی ہے۔ قرآن کے طالب علموں کو متنبہ رہنا چاہیے کہ اُس کی عربی معلیٰ میں ضمیریں اِس طرح بھی آتی ہیں۔
[125]۔ بائیبل کی کتاب خروج میں یہ ماجرا اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’جب مصر کے بادشاہ کو خبر ملی کہ وہ لوگ چل دیے تو فرعون اور اُس کے خادموں کا دل اُن لوگوں کی طرف سے پھر گیا۔ اور وہ کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا کیا کہ اسرائیلیوں کو اپنی خدمت سے چھٹی دے کر اُن کو جانے دیا۔ تب اُس نے اپنا رتھ تیار کروایا اور اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لیا ... اور مصری فوج نے فرعون کے سب گھوڑوں اور رتھوںسمیت اُن کا پیچھا کیا ... اور جب فرعون نزدیک آگیا، تب بنی اسرائیل نے آنکھ اٹھا کر دیکھا کہ مصری اُن کا پیچھا کیے چلے آتے ہیں اور وہ نہایت خوف زدہ ہو گئے۔ تب بنی اسرائیل نے خداوند سے فریاد کی اور موسیٰ سے کہنے لگے:کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو وہاں سے مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے؟ تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصرسے نکال لایا؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں؟ کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔ تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا: ڈرو مت۔ چپ چاپ کھڑے ہو کر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو جو وہ آج تمھارے لیے کرے گا،کیونکہ جن مصریوں کو تم آج دیکھتے ہو، اُن کو پھر کبھی ابد تک نہ دیکھو گے۔ خداوند تمھاری طرف سے جنگ کرے گا اور تم خاموش رہو گے۔‘‘ (۱۴ :۵- ۱۴)
[126]۔ یہ ایک عظیم معجزہ تھا۔ بائیبل کی کتاب خروج میں اِس کی تفصیل ہے۔ چنانچہ لکھاہے:
’’پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اورسمندر کو پیچھے ہٹا کر اُسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور اُن کے دہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔ اور مصریوں نے تعاقب کیا اور فرعون کے سب گھوڑے اور رتھ اور سوار اُن کے پیچھے پیچھے سمندر کے بیچ میں چلے گئے ... اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری الٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ و بالا کر دیا۔‘‘ (۱۴ :۲۱- ۲۷)
[127]۔ یعنی قریش مکہ جو سورہ کے مخاطبین ہیں۔
[128]۔ یہ وہی آیت ترجیع ہے جس کی وضاحت اوپر حاشیہ ۸۹ میں ہو چکی ہے۔
[باقی]
________