جناب جاوید احمد غامدی رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو کمال انسانیت کا مظہر اتم اور زمین پر خدا کی عدالت کہتے، آپ کی ہستی کو عقیدت اور اطاعت، دونوں کا مرکز مانتے اور آپ کے احکام کی بے چون و چرا تعمیل کو لازم قرار دیتے ہیں۔وہ دین کو آپ کی ذات میں منحصر سمجھتے اور اِس بنا پر آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو قیامت تک کے لیے حجت تسلیم کرتے ہیں۔ ماخذ دین کی بحث میں اُنھوں نے ’دین کا تنہا ماخذ‘ کی ایک منفرد تعبیر اختیار کی ہے۔ اِس کے نتیجے میں حصول دین کا سارا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور آپ کے وجود پر دین کا انحصار رائج تعبیرات کے مقابلے میں زیادہ نمایاں اور زیادہ مرتکز ہو کر سامنے آیا ہے[1]۔دین اسلام پر اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا ہے:
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔‘‘ (۱۳)
نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی ذات اقدس کو دین کا تنہا ماخذتسلیم کرنے کے لازمی نتیجے کے طور پر وہ تمام تر دین کو آپ کے قول و فعل اور تقریر وتصویب پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ درج بالا مقدمے کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’...یہ صرف اُنھی (یعنی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم)کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘( ۱۳)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی کے نزدیک:
۱۔ اِس کرۂ ارض پر دین دینے کا حق صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ آپ کے علاوہ کوئی اور اِس کا مجاز اور حق دار نہیں ہے۔
غ ۲۔ آپ کا یہ حق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلم ہے۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے، اُس وقت تک انسانیت کو اللہ کی ہدایت حاصل کرنے کے لیے آپ ہی سے رجوع کرنا ہے۔
۳۔ دین سے متعلق ہر عقیدہ و ایمان، علم و حکمت، طریقہ وعمل اور قانون و شریعت کا منبع، مصدر اور ماخذ آپ ہی کی ذات والا صفات ہے۔
۴۔ آپ اپنے قول سے دین کے بارے میں جو بات کہیں، وہ دین ہے۔
۵۔ آپ اپنے فعل سے جو دینی عمل صادر کریں، وہ دین ہے۔
۶۔ لوگوں کے علم و عمل پر آپ کاسکوت بھی دین ہے، آپ کی تقریر بھی دین ہے، آپ کی تائید بھی دین ہے،آپ کی تردید بھی دین ہے اورآپ کی تصویب بھی دین ہے۔
۷۔ قرآن اِس لیے دین ہے کہ وہ ہمیں آپ کے قول سے ملا ہے۔
۸۔ سنت اِس لیے دین ہے کہ وہ ہمیں آپ کے عمل سے ملی ہے۔
۹۔ حدیث اِس لیے دین ہے کہ وہ آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایت ہے۔
۱۰۔ سابق الہامی صحائف اور دین ابراہیمی کی روایت میں سے اُسی چیز کو دین کی حیثیت حاصل ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت ہے ۔
اِسی بات کو خاص قانون کے زاویے سے استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’...محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات قیامت تک کے لیے اُسی طرح واجب الاطاعت ہیں ، جس طرح خود قرآن واجب الاطاعت ہے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اُس کی کتاب پہنچا دینے کے بعد آپ کا کام ختم ہو گیا۔رسول کی حیثیت سے آپ کا ہر قول و فعل بجاے خود قانونی سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ ( ۳۸)
___________
[1]۔ اصول اور احکام کی کتابوں میں دین و شریعت کے بالعموم چار ماخذ بیان کیے گئے ہیں: قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔