HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

دو جہتی تصور زندگی

محمد تہامی بشر علوی


اللہ تعالیٰ نے انبیا کے ذریعے سے انسانوں کے لیے ایک اہم پیغام بھیجا ہے۔اس پیغام میں انسانوں کے لیے بڑی امیدبھی ہے اور سکون بھی۔انسان جس دنیا میں یہاں آباد ہے، یہ دنیا انسانی خواہشات اور امنگوں کے مطابق نہیں ہے۔ انسان اور یہ دنیا ایک دوسرے سے میچ ہی نہیں کر رہے۔انسان کی سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ اس کی خواہشات اور آرزوئیں پوری ہونے سے رہ ہی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ[1] نے دکھ کو انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے[2]۔ خدا کا یہ پیغام انسان کو اس مایوسی سے نکالتا ہے۔ وہ ہرانسانی خواہش کے پوری طرح پورا ہوجانے کے امکان کی نفی نہیں کرتا۔ وہ بتاتا ہے کہ ایسا ہو جائے گا کہ انسان کی تمام خواہشات پوری ہو جائیں گی۔اس ٹارگٹ تک پہنچنے کے لیے خدا نے اپنی کتاب میں اپنا پورا پلان سمجھایا ہے۔ وہ زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: ایک مرنے سے پہلے کی زندگی اور ایک مرنے کے بعد کی زندگی۔ مرنے سے پہلے کی جو زندگی ہے، یہ عارضی، ادھوری اور محدود سی زندگی ہے۔

یہاں wish basis life (خواہشات کی زندگی) ناممکن ہے۔ یہاں آپ کی بس ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ۔ قانون آزمایش کے تحت یہاں ہر ایک کو سب کچھ برابربھی نہیں ملا ہو ا۔ کسی کی مرضی کا یہاں کسی کوکچھ بھی نہیں ملا اور مرنے سے پہلے کسی کی مرضی پوری بھی نہیں ہو سکتی۔ تو یہ خدا کے پلان کے مطابق زندگی کا پہلا حصہ ہے۔

زندگی کا دوسرا حصہ مرنے کے بعد ہو گا۔وہ حصہ مکمل، ہمیشہ اور لامحدود ہو گا۔انسانی خواہشات درحقیقت کسی ایسی ہی زندگی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ اور یہ زندگی خدائی پلان کے مطابق مرنے سے پہلے میسر ہی نہیں ہو سکتی۔جو زندگی مرنے کے بعد شروع ہو گی، اسی میں ہی انسان کی ساری خواہشات پوری ہو جائیں گی[3]۔

ہم زندگی کے دوحصوں والے خدائی پلان کو تفہیم کے لیے ’’دوجہتی تصور زندگی‘‘ کا عنوان دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ خواہشات و عیش کی زندگی مرنے کے بعد بھی ہر انسان کو میسر نہیں ہو سکے گی۔خدائی پلان کے مطابق یہ زندگی صرف ان منتخب لوگوں کو دی جائے گی جو دنیا کی آزمایشی زندگی میں پاکیزگی سے جی آئے ہوں۔جن کی یہ آزمایشی زندگی پاکیزگی کے ساتھ نہیں گزری، وہ مختلف برائیوں سے خود کو آلودہ کیے ہوئے ہیں، وہ اس عیش و سرور والی زندگی سے محروم کر دیے جائیں گے۔ یعنی یہ ہمیشہ سرور والی زندگی صرف منتخب لوگوں (selected people) کے لیے ہو گی۔

اس زندگی کے لیے کس میرٹ پر لوگوں کو منتخب کیا جائے گا ؟ کون لو گ اس کے لیے اہل ہوسکیں گے؟ یہی تفصیلات خدا نے اپنی آخری کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں تاکہ اب کوئی بے خبری کی موت نہ مرے۔ جو بھی جیے، اب یہ جان کر جیے کہ انسانی زندگی کے بارے میں خدا کا پلان کیا ہے؟ یہ جانے بغیر جینا جہالت اور بے چینی کا جینا ہے۔دنیا کی تو چھوڑیے، حیرت مسلمانوں پر ہے کہ وہ اس روشن کتاب کے ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں چھلانگیں لگائے جا رہے ہیں۔ وہ جھوٹی امیدوں کا سرمایہ لیے قطار اندر قطارموت کے گھاٹ اترتے چلے جا رہے ہیں۔

مولانا امین احسن اصلاحی کا جملہ یاد آیا کہ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے اندھیروں میں کودنا ایسے ہی ہے، جیسے سورج کی روشنی میں کوئی شخص کسی کھڈ میں جا گرے ۔ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے ہر شخص کو جہالت اور اندھیروں سے نکل کر ہدایت اورروشنی میں آ جانا چاہیے۔ بات ہو رہی تھی ہمیشہ سرور کی زندگی گزارنے کے لیے منتخب ہونے والے لوگوں کی؛ اس کے لیے قرآن مجید نے واضح طور پر جو نشانہ ہمیں بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ میں سے کامیابی صرف اس کو ملے گی جو اپنی زندگی کو پاکیزگی کے ساتھ گزار لے[4]۔ جو شخص اپنی زندگی کو پاکیزگی کے ساتھ گزارلے گا تو وہ اللہ کی نظر میں اس زندگی کے لیے منتخب ہو جائے گا ۔ اوراس کو اپنی خواہشات کے مطابق جینے کا بھرپورموقع دے دیا جائے گا، اور جو پاکیزگی سے جینے میں ناکام ہو جائے گا، اس کو پھر یہ موقع نہیں ملے گا۔

ہر انسان کی زندگی کے دو رخ ہیں: ایک رخ ہے خدا کی طرف اور دوسرا رخ ہے اس کے بندوں کی طرف۔ انسانی زندگی کے یہ دو رخ ایک انسان کا تعلق خدا سے بھی جوڑ دیتے ہیں اور اس کے بندوں سے بھی جوڑ دیتے ہیں۔ انسان کا تعلق خواہ خدا کے ساتھ ہو یا اس کے بندوں کے ساتھ، دونوں میں پاکیزگی ہونی چاہیے ۔ یعنی اللہ کے ساتھ جو تعلق ہے، وہ بالکل صاف ستھرا اور پاکیزہ ہواور اس کے بندوں کے ساتھ ہمارا جو تعلق ہے، وہ بھی بالکل صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے ۔ ہمارے اندر پاکیزگی تب پیدا ہوگی کہ ہمارے اندر جتنی بھی اللہ تعالیٰ نے خوبیاں ، خصوصیات اور صلاحیتیں رکھی ہیں، ان سے ہم جو جو کام بھی لیں، وہ بہت پاکیزگی کے ساتھ لیں ۔ مثلاً ہم بول رہے ہوں تو بالکل پاکیزگی کے ساتھ بول رہے ہوں ۔پاکیزہ بولنے سے مراد یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو؛اس میں کوئی غیبت نہ ہو؛ کوئی بہتان نہ ہو؛ کوئی طعنہ نہ ہو اور کوئی چغلی نہ ہو، وغیرہ۔

برائی کا شعور ہر انسان کی فطرت میں ہی ہوتا ہے۔ وہ بولتے ہی سمجھ جاتا ہے کہ میرا یہ بولنا پاکیزہ ہے کہ نہیں۔ اسی طرح اگر وہ سن رہا ہو تو اس کے اندر بھی پاکیزگی ہو اور جب وہ دیکھ رہا ہو تو اس کے اندر بھی پاکیزگی ہو اور وہ جب مل رہا ہو تو اس کے جذبوں میں دوسرے کے ساتھ محبت ، احترام اور یہ سارے پاکیزہ جذبے ہوں ۔ اس میں نام و نمود کی ہوس،ریا کاری ، دوسرے کو دھوکا دینا ،یہ چالاکیاں، مکاریاں اور یہ عیاریاں نہیں ہونی چاہییں ۔

زندگی کا فکری، عملی، اخلاقی ہرپہلو پاکیزہ رہنا چاہیے۔ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہوں ،جو کچھ سوچ رہے ہوں، جو کچھ دل میں خیالات آ رہے ہوں، بس یہ ایک فارمولا ہے کہ وہ سب کچھ پاکیزہ ہو۔

آپ خود احاطہ کر سکتے ہیں اپنی زندگی کا کہ ہم بیٹھ رہے ہیں تو کیا اس میں پاکیزگی ہے یا نہیں ،ہم چل رہے ہیں تو کیا اس میں پاکیزگی ہے یا نہیں ۔ یعنی پاکیزگی نے پوری زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہو۔منتخب ہونے کے لیے بس یہی ایک بڑا فارمولا ہے ۔ البتہ پاکیزہ رہنے کی انسان جتنی بھی کوشش کر لے، یہ کبھی نہ کبھی اس ٹریک سے اترتا رہتا ہے؛ یہ اپنی زندگی کو آلودہ کر ہی لیتا ہے ۔ مستقل فرشتوں کی طرح اس کے لیے جینا مشکل ہے۔ انسان کی اسی کم زوری کی وجہ سے ایک آپشن اللہ تعالیٰ نے رکھ لیا ہے کہ آپ میں سے کوئی شخص کسی موقع پر پاکیزگی کے ساتھ دیکھ نہیں سکا، پاکیزگی کے ساتھ بول نہیں سکا ،کچھ معاملات میں اس سے اونچ نیچ ہو گئی، تو متنبہ ہوتے ہی وہ اپنی زندگی کو اس آلودگی سے فوری طور پر الگ کر دے۔ اس آپشن کو قرآن کے الفاظ میں ’’توبہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

توبہ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ انسان آلودگی کی زندگی سے واپس پاکیزگی کی زندگی کی طرف پلٹ آئے۔

مرنے سے پہلے پہلے اسے اپنا ہر معاملہ صاف کرنا پڑے گا ۔آلودگی کی حالت میں موت واقع ہو جانا بڑے خسارے کا سودا ہے۔انسان کو ایسے خسارے میں جانتے بوجھتے نہیں کود جانا چاہیے۔ہر انسان کی موت اس حالت میں آنا ضرور ی ہے کہ وہ بالکل پاکیزگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جان دے دے۔ یہ حقیقت قرآن مجید بہت واضح بتا رہاہے اور بار بار مختلف انداز سے بتا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس نے یہ مدعا واضح کرنے کے لیے آیات کو کھول کھول کر آسان کر کے بیان کیا ہے[5]۔ اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ ہر انسان کواس میرٹ پر آنے کے لیے اپنے اندریہ کوائف یا یہ صلاحیتیں پیدا کرنی ہوں گی ۔ اگر وہ یہ نہیں کر سکا تو وہ اپنا ذمہ دار خود ہے۔ کل وہ ناکام و نامرادہو گیا تو پھر وہ کسی سے کوئی شکوہ نہ کرے۔ خدا نے اسی لیے یہ سب بہت کھول کھول کر ہمارے سامنے بیان کر دیا ہے ۔

احباب ! آج ہم نے بڑے اہتمام کے ساتھ جوچیز سمجھی، وہ یہی ہے کہ ہماری زندگی کا ہر ہر پہلو بالکل پاکیزہ ہو۔

ہمارے اخلاق پاکیزہ ہوں،ہماری سوچ و فکر پاکیزہ ہو،ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں۔ دوسروں کے ساتھ ہمارے جو رویے ہیں، ان میں پاکیزگی ہو، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے، اس میں پاکیزگی ہو۔ یہ چونکہ زندگی کا ایک اہم ترین سبق ہے ،کہنے میں تو یہ ایک جملہ ہے، لیکن اس کو اپنی شخصیت کا ایک حصہ بنا لینا ، یہ ذرا محنت طلب کام ہے، اس لیے یہ معاملہ ہم سب کی بہت زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ اس قسم کی باتیں تو بہت سادہ ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کتنا آسان ہے کہ آدمی کو سچ بولنا چاہیے ، لیکن عملا ًاس پر قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ یہ ضرورت محسوس ہو جاتی ہے کہ ہمیں جھوٹ کا سہارا لینا پڑجاتا ہے۔ کچھ کو تو جھوٹ کی ایسی عادت پڑجاتی ہے کہ وہ بلاضرورت اور بے وجہ جھوٹ بول، بلکہ چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا معاملہ یوں ہو جاتا ہے کہ اگر دن بھر کوئی جھوٹ نہ بولا تو رات کو نیند کیسے آئے گی؟ جھوٹ ان کی تفریح بن جاتا ہے۔ ان کا سکون ہی خراب ہو جائے، اگر وہ بالکل ہی جھوٹ چھوڑ دیں۔ انھیں اپنی زندگی کا لطف لینے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کئی لوگوں کا مزاح مکمل نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ جھوٹ کی آمیزش نہ کر لیں۔

آج کی گفتگو کا تعلق انسانی زندگی کی بہت بڑی حقیقت سے ہے۔ اس گفتگو کو محض سن لینا کافی نہیں۔ احباب سے درخواست ہو گی کہ وہ آج کی گفتگو پر بعد میں بھی خوب وقت دے کر غور فرمائیں۔ اس ہمیشہ کی زندگی میں سرور والی زندگی جینے کے میرٹ پر آنے کے لیے ہمیں سنجیدگی سے منصوبہ بنانا ہو گا، ورنہ ظاہر ہے کہ ہم اس آزمایشی زندگی کا موقع ضائع کر کے اکثر انسانوں کے مانند خسارے میں پڑ جائیں[6]۔

____________

[1]۔ گوتم بدھ کو بدھا اور بدھ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سدھارتھ تھا۔ یہ۵۶۳ یا ۴۸۰ قبل مسیح  میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ایک ریاست ، جو علاقہ اب موجودہ نیپال میں شامل ہے، کا راجہ تھا، اس ریاست کو کپل وستو کہا جاتا تھا۔ گوتم بدھ ’’بدھ مت‘‘ مذہب کے بانی ہیں۔ دنیاکے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب ’’بدھ مت‘‘ بھی ہے۔ گوتم بدھ شمال مشرقی برصغیر میں رہتے تھے اور تعلیمات دیتے تھے۔ انھیں بدھ مت لوگ ’’ایک جاگت‘‘ یا ’’روشن خیال ٹیچر‘‘ کے نام سے مانتے ہیں۔ انھوں نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل کرنا،نروان کو حاصل کرنا اور تکلیف اور دوسرے جنموں کی مشکلات سے بچنا سکھایا (ویکیپیڈیا، گوتم بدھ، بدھ مت)۔

[2]۔ گوتم بدھ،راج محل سے جنگل تک، کرشن کمار۔

[3]۔ حٰم السجدہ۴۱: ۳۱۔ ’وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ٘ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ‘۔

[4]۔ الاعلیٰ۸۷: ۱۴۔ ’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰي‘۔

[5]۔ ’الٓرٰ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ ‘(ہود۱۱: ۱)۔ ’وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ‘(القمر۵۴: ۱۷)۔ ’وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ‘ (الانعام۶: ۵۵)۔

[6]۔ العصر۱۰۳: ۱- ۲۔’وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ‘۔


B