HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

صراط مستقیم

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیق انسانی کے آغاز میں ابلیس نے خدا کو یہ چیلنج دیا تھا: ’فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ‘ (الاعراف ۷: ۱۶)، یعنی چونکہ تو نے مجھے گم راہ کیا ہے، اِس لیے اب میں بھی اولاد آدم کو گم راہ کرنے کے لیے لازماًتیری صراط مستقیم پر اُن کی گھات میں بیٹھوں گا۔

اِس آیت میں ’صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ‘ سے کیا مراد ہے؟ عام طورپر اِس کی تشریح دین اسلام، شرائع، قرآن مجید[1] اور توحید[2] سے کی گئی ہے۔ تاہم غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ’صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ‘ کا لفظ اِس سے زیادہ وسیع اورعام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجاہد تابعی (وفات: ۷۲۲ ھ) نے اِس کی تشریح ’طریق الحقّ وسبیلُ النجاة‘ کے الفاظ میں کی ہے۔[3]

حقیقت یہ ہے کہ اِس سے مراد ایمان و احتساب اور اُس کے مطلوب تقاضوں کے مطابق دین فطرت کا اتباع ہے، یعنی سچی خدا پرستی جس کا ظاہر اسلامی شریعت کے مطابق اور باطن روح اسلام سے معمور ہو؛ جس میں ظاہر داری کے بجاے تقویٰ، رضاے الہٰی اوراللہ کے بندوں کے ساتھ ہم دردی و حسن اخلاق کی روح پوری طرح شامل ہو۔

ابلیس اور اُس کی ذریت (شیاطینُ الجنّ والإنس) کا اصل مقصد آدمی کو خدا کے دین اور اُس کی پیروی سے روکنا نہیں،بلکہ اِسی ’صراط مستقیم‘سے منحرف کرنا ہے تاکہ دین کے نام پر آدمی دین سے دور رہے، وہ ’ایمان‘ اور ’عمل‘ کے باوجود اُس کے اجر اورحقیقی ثمرات سے محروم رہے؛اُسے نہ دنیا میں اُس کے برکات حاصل ہوں اور نہ آخرت میں وہ خدا کی ابدی جنت کا مستحق قرار پاسکے۔اسلام کی ساری تعلیم، خصوصاً دعاؤں کا مقصد آدمی کو اِسی فتنے سے محفوظ رکھنا ہے۔

قرآن کی مذکورہ آیت سے بنیادی طورپر دو چیزیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ شیطان کا یہ اِغوا و انحراف دنیا سے زیادہ ’دین‘ کے راستے سے ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ اِغوا کا یہ عمل آدمی کو خدا کی مطلوب صراط مستقیم سے منحرف کردینے کی صورت میں پیش آتاہے۔

اصل یہ ہے کہ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک ’صراط مستقیم ‘مقرر کردی ہے۔ ایسی حالت میں ایک مومن سے جو چیز مطلوب ہے، وہ صرف ’عمل‘ نہیں، بلکہ اُس’ صراط مستقیم‘ کے مطابق عمل ہے جس پر چل کرہی اُسے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہوسکتی ہے۔ ابلیس کی اصل کوشش آدمی کو اِسی ’صراط مستقیم‘سے ہٹانا ہے ـــــ رضاے الہٰی کے بجاے دنیا طلبی، اعتدال کے بجاے غلو،سنت کے بجاے بدعت، حقیقی دین داری کے بجاے روح سے خالی’مذہبیت‘، حسن اخلاق کے بجاے ظاہر داری،وغیرہ۔یہ ابلیس کے وہ حربے ہیں جن کے ذریعے سے وہ آدمی پر وار کرتا اور اُسے اِس ’صراط مستقیم ‘ سے پھیرنے کی کوشش کرتاہے۔

خدا کے نزدیک وہی دین مقبول ہے جو خارجی اور داخلی، دونوں پہلوؤں سے خدا کی صراط مستقیم کے مطابق ہو؛ جس عمل میں ظاہر وباطن کی یہ پاکیزگی شامل نہ ہو، وہ صرف اِغواے شیطانی پر مبنی عمل ہوگا، نہ کہ کوئی سچا اور مقبول عمل۔

(لکھنؤ، ۲۵ / جون ۲۰۱۹ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ تفسیر الطبری۱۲/ ۳۳۴۔  إغاثة اللھفان في مصاید الشیطان، ابن القیم ۱/۱۶۳ ۔

[2]۔ تدبر قرآن ۳/ ۲۳۲ ۔

[3]۔ تفسیر ابن کثیر ۷۴۷۔


B