[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
علم حدیث میں فائق ہونے کے ساتھ حضر ت ابوہریرہ بہت عبادت گزار تھے۔ ان کے پوتے نعیم بن محرر بتاتے ہیں کہ ان کے پاس دوہزار دانوں والی تسبیح تھی۔ اس پر تسبیحات پڑھے بغیر نہ سوتے تھے(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۲۹)۔ ابوعثمان نہدی حضر ت ابوہریرہ کے مہمان ہوئے۔ سات دن کے قیام کے دوران میں انھوں نے دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ، ان کی اہلیہ اور بیٹی نے رات کو تین حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ایک نوافل پڑھتا، پھر دوسرے کو جگا دیتا۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: میں اپنی رات تین حصوں میں بانٹتا ہوں، ایک قرآن حکیم کی تلاوت کے لیے، ایک سونے کے لیے اور تیسرا حصہ حدیث یاد کرنے کے لیے خاص کر لیتا ہوں۔ انھوں نے اپنے گھر کی کوٹھڑی، حجرے اور صحن میں الگ الگ جائے نماز بنا رکھے تھے۔
حضر ت ابوہریرہ دن کے آغاز اور انجام پر درد ناک آواز میں پکارتے:’عرض آل فرعون علي النار‘ (آل فرعون کو(صبح و شام) جہنم پر پیش کیا جاتا ہے)، تو سننے والا دوزخ سے پناہ مانگنے لگتا(شعب الایمان، بیہقی ۱ /۳۶۰)۔ ایک بار نمازپڑھائی اور سلام پھیر کر بلند آواز سے کہا:اللہ کا شکر ہے جس نے دین کو بنیاد بنایا، ابوہریرہ کو امام بنایاجو پیٹ بھرنے اور چلنے پھرنے کے لیے (اپنی ہونے والی بیوی)بسرۃ بنت غزوان کی مزدوری کرتا تھا (حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۰۹)۔ ایک بار رات کے وقت سفر کرتے بہ آواز بلند نعرۂ تکبیر لگاتے جا رہے تھے، کسی گزرنے والے کے پوچھنے پر بتایا:میں بسرۃ بنت غزوان کے اونٹ ہانکتا اور اس کی خدمت کرتا تھا۔ اب وہ میری بیوی ہے(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۱۱)۔ حضرت ابوہریرہ سجدے میں پڑ کر زنا، چوری، کفر اور گناہ کبیرہ سے پناہ مانگتے۔ کسی نے پوچھا: آپ کو ان گناہوں کا اندیشہ ہے؟کہا: ابلیس زندہ ہے، میں نچنت نہیں ہو سکتا۔ ان کی بیٹی نے کہا: میری ہم جولیاں عار دلاتی ہیں کہ تمھارے ابا نے تمھیں سونے کا زیور کیوں نہیں پہنایا؟کہا: بچی، انھیں کہو، میرے ابا نہیں چاہتے کہ میں دوزخ کی آگ میں پڑوں (حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۱۳)۔ ایک بار حضرت ابوہریرہ کے پاس پندرہ کھجوریں تھیں، پانچ سے روزہ کھولا، پانچ سے سحری کی اور بقیہ پانچ اگلی افطاری کے لیے رکھ لیں (حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۳۴)۔ ایک بار حبشی باندی پر غصہ آیا تو اسے مارنے کے لیے کوڑا اٹھایا اور کہا: اگر روز قیامت قصاص کا خوف نہ ہوتا تو تجھے ضرور اس سے پیٹتا، جا تو اللہ کی رضا کے لیے آزادہے۔
ایک بار مروان نے حضرت ابوہریرہ کوآزمانے کے لیے سو دینا ربھیجے، اگلے دن پیغام بھیجاکہ وہ دینار غلطی سے آپ کے پاس آگئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے جواب دیا: میں نے تو ان کو صدقہ کر دیا ہے۔ جب میرا (ماہانہ) وظیفہ آئے تو اس میں سے کاٹ لیں۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:میں مہینے کی ابتدا میں تین روزے رکھتا ہوں تاکہ اس کے بعد اگر مجھے کوئی مجبوری پیش آ جائے تو پورے ماہ کا اجر مل جائے (حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۲۲)۔
مشہور شاعرفرزدق کا کہنا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے میرے پاؤں دیکھے تو نصیحت کی:یہ چھوٹے سے ہیں، ان کے لیے جنت میں جگہ ڈھونڈ لے۔ میں نے جواب دیا:میں بہت گناہ گار ہوں۔ فرمایا: کوئی بڑی بات نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:مغرب کی سمت میں توبہ کاایک دروازہ ہے جو اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔
حضرت ابوہریرہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ نماز بیٹھ کر ادا کررہے ہیں۔ عرض کیا: یا رسول اللہ، کیا کوئی عارضہ پیش آیا ہے ؟ فرمایا:بھوک۔ حضرت ابوہریرہ رونے لگ گئے تو ارشاد کیا:مت رو، روز قیامت کی سختی بھوکے شخص کو کچھ نہ کہے گی، اگر وہ دنیا میں اللہ کی رضا جوئی کے لیے قناعت کرتا رہا۔
ایک بارحضرت ابوہریرہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے جا رہے تھے:مجھے میرے پیٹ نے تباہ کر دیا، اسے بھر دوں تو اکساتا ہے اور اگر بھوکا رکھوں تو لاغر کر دیتا ہے(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۲۶)۔ کہا: میں دن میں بارہ ہزار دفعہ استغفار کرتا ہوں۔ وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت ابوہریرہ رونے لگے۔ لوگوں نے پوچھا: روتے کیوں ہیں؟ جواب دیا: میں تمھاری دنیا پر نہیں روتا، اس بات پر رو رہا ہوں کہ سفرلمبا اور توشہ تھوڑاہے(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۳۰)۔ مروان ان کی خبر لینے آیا اور صحت کی دعا کی تو فرمایا: اے اللہ، میں تجھ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تو بھی مجھ سے ملاقات پر راضی ہو جا(طبقات ابن سعد ۴/ ۳۳۹)۔
ایک شخص عصر کی اذان ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکل گیا تو حضرت ابوہریرہ نے کہا: ا س نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی(ابوداؤد، رقم ۵۳۶۔ ترمذی، رقم ۲۰۴) ۔
ایک بار حضرت ابوہریرہ نے جنت البقیع میں کھڑے ہو کر کہا:میں سب سے زیادہ جانتا ہوں کہ روز قیامت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا شفاعت کریں گے۔ ان کے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا تو بتایاکہ آپ فرمائیں گے: اے اللہ، ہر اس بندے کو بخش دے جو تیرے پاس اس حال میں آیا ہے کہ مجھ پر ایمان رکھتا تھا اور تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا تھا(احمد۲/ ۴۵۴)۔
حضرت ابوہریرہ فرض نماز پڑھاتے یا نفلی نمازپڑھتے، تکبیر اولیٰ کہہ کر قیام کرتے، رکوع میں جاتے ہوئے ’اللہ أکبر‘ کہتے، رکوع سے اٹھنے پر’ سمع اللہ لمن حمده‘ سجدہ میں جاتے اور اٹھتے ہوئے تکبیرات کہتے۔ ہر رکعت اسی طرح ادا کرتے اور نماز سے فارغ ہونے پرکہتے:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نماز پڑھنے میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہوں۔ یہی آپ کی نماز تھی جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے (بخاری، رقم ۷۸۵۔ ابوداؤد، رقم ۸۳۶)۔
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے خوشی ہوتی ہے کہ پورا پیمانہ بھر کر تولے، جب ہم اہل بیت پر درود بھیجے تویوں کہے: ’اللّٰھم صلّ علی محمد النبي وأزواجه أمھات المومنین وذریته وأھل بیته کما صلیت علی اٰل إبراھیم إنک حمید مجید‘، ’’اے اللہ سلامتی بھیج محمد نبی پر، ان کی ازواج پر جو امہات المومنین ہیں، ان کی اولاد اور اہل بیت پر جیسے تو نے ابراہیم کی اولاد پر سلامتی بھیجی، تو ستودہ صفات اور برتر ہے‘‘ (ابوداؤد، رقم ۹۸۲۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۸۶۶)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تلقین کردہ درود میں ازواج مطہرات بھی شامل ہیں اور یہ اہل بیت کو حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین تک محدود کرنے والوں کو پسند نہیں۔ یہ حدیث بیان کرنے میں حضرت ابو ہریرہ منفرد نہیں، اس سے ملتے جلتے الفاظ میں حضرت ابو حمید (منذربن سعد)ساعدی کی روایت بھی موجو د ہے (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۸۶۳)۔ بیہقی نے ان روایات کو اس دلیل کے طورپرپیش کیا ہے کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔ ابوداؤد کی روایت کو البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ فجر، ظہر اور عشا کی آخری رکعات میں ’سمع اللہ لمن حمدہ‘ کہنے کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے، اہل ایمان کے لیے دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے اور کہتے:میں تمھیں سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب لے آتا ہوں (بخاری، رقم ۷۹۷۔ مسلم، رقم ۱۵۴۴۔ ابو داؤد، رقم ۱۴۴۰۔ احمد، رقم ۷۴۶۴)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے قنوت نازلہ کو منسوخ قرار دیاہے۔ عینی کہتے ہیں:حضرت عبداللہ بن عمر بھی نسخ کے قائل ہو گئے تھے، ہو سکتا ہے، حضرت ابو ہریرہ کے علم میں یہ بات نہ آئی ہو۔ دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ کا اپنا قول نقل ہوا ہے:پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا ترک کر دی۔ یہ بات کہنے پر لوگ بولے: تب کٹے مشرک دائرۂ اسلام میں آ گئے تھے اور ان کے ہاتھوں اسیر اہل ایمان چھوٹ چکے تھے(مسلم، رقم ۱۵۴۲)۔
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ یکم ذی الحجہ سے عید الاضحیٰ تک کے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور بلند آواز میں تکبیر کہتے، لوگ بھی ان کی آواز سے اپنی آواز ملاتے(بخاری، کتاب العیدین،باب ۱۱)۔
مروان اور حضرت ابوہریرہ ایک جناز ے میں شریک تھے۔ ابھی جنازہ رکھا نہ گیا تھا کہ حضر ت ابو ہریرہ نے مروان کو پکڑ کر بٹھا لیا۔ حضر ت ابو سعید خدری آئے اور مروان کو یہ کہہ کر اٹھا دیا کہ ابو ہریرہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں میت رکھنے سے پہلے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ حضر ت ابو ہریرہ نے کہا: ہاں ابوسعید سچ کہتے ہیں (بخاری، رقم ۱۳۰۹)۔
شیعہ انسائیکلو پیڈیاAl-Islam.orgکے مضمون نگار یاسین الجبوری نے حضرت ابوہریرہ کو پال سے تشبیہ دی ہے۔ پال ایک یہودی تھا جس نے خواب آنے پر عیسائیت قبول کی اور پھر عیسائیوں کا بڑا پیشوا (saint) بن کر دین مسیحی کو بدل ڈالا۔ حضرت ابوہریرہ پر امامیہ کی طرف سے کیے جانے وا لے چند اعتراضات اس طرح ہیں:
حضرت ابوہریرہ کے نام اور ان کی ولدیت میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہے جس کی نظیر پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی۔
حضرت ابوہریرہ غزوۂ موتہ کے بھگوڑوں میں شامل تھے۔
حضرت عمر نے بحرین کی گورنری کے زمانے میں ان پر مال جمع کرنے کا الزام لگایا۔
حضرت ابوہریرہ نے بلوائیوں کے خلاف حضرت عثمان کی حمایت کی، اس طرح وہ حضرت عثمان کے بیٹوں اور حضرت معاویہ کے قریب آ گئے۔
باوجودیکہ حضرت ابوہریرہ نے حضرت معاویہ کو حضرت علی کے خلاف جنگ کرنے پر ملامت کی، تاہم جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ نہ دیا۔
حضرت معاویہ کے سالار بسر بن ارطاۃ نے مدینہ میں غارت گری کی اور مکہ جاتے ہوئے حضرت ابوہریرہ کو اپنا نائب مقرر کر دیا۔ وہ حضرت علی کے جرنیل حضرت جاریہ بن قدامہ کی آمد پر مدینہ سے بھاگ نکلے۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن کی بیعت کی گئی تو وہ مدینہ لوٹ آئے۔
حضرت علی اور حضرت معاویہ کی صلح کے بعد حضرت ابوہریرہ حضرت معاویہ سے مل گئے۔ وہ مروان کے مقربین میں شامل ہوئے اور متعدد بار اس کے قائم مقام بنے۔
عہد اموی میں انھیں قاضی بھی بنایا گیا۔ اس زمانے میں ان کے قصے مشہور ہوئے۔
قلیل مدت مصاحبت میں حضرت ابوہریرہ نے ہر موضوع پر کثرت سے احادیث نقل کیں۔ اگرچہ اہل سنت تمام صحابہ کوعدول مانتے ہیں، لیکن شیعہ امامیہ نے ان پر نقد کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
حضرت ابوہریرہ نے ہجرت سے قبل مکہ کے واقعات کے متعلق روایات نقل کیں، حالاں کہ وہ بہت بعد میں داخل اسلام ہوئے۔ اس ضمن میں ابوطالب کے قبول اسلام سے انکار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اقربا کو دعوت اور سلمہ بن ہشام، ولید بن ولیداور عیاش بن ابو ربیعہ کے لیے آپ کی بددعا کا ذکرکیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ان واقعات کا ایسے ذکر کرتے ہیں، گویا آنکھوں دیکھا ہو۔
ابراہیم معتزلی نے حضرت ابو ہریرہ پر کذب اور وضع حدیث کا الزام لگایا۔
یاسین الجبوری نے براہ راست حضرت معاویہ پر الزام دھر دیا کہ انھوں نے حضرت ابوہریرہ کو احادیث وضع کرنے کو کہا تاکہ ان کی خلافت و حکومت کو سند مہیا کی جا سکے، حالاں کہ حضرت ابوہریرہ برابر حضرت معاویہ پر نقد کرتے رہے۔ انھوں نے حضرت حسن کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کرنے کی کھل کر حمایت کی۔
حضرت ابوہریرہ سے پانچ ہزار تین سو پچھتر روایات مروی ہیں۔ ان میں سے بہت کم روایات ایسی ہیں جنھیں کسی دوسرے صحابی نے روایت نہیں کیا۔ جب متعدداصحاب نے ایک حدیث کو بیان کیا ہوتو اس کے صحیح و سقیم ہونے کا مدار صرف حضرت ابوہریرہ پر نہیں رہتا۔ ۱۹۷۳ء میں محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی نے اپنے ایم فل کے مقالہ ’أبو ھریرة في ضوء مرویاته بشواهدها وحال انفرادها‘ میں لکھا کہ’’ وہ صحیح روایات جنھیں اکیلے حضرت ابوہریرہ نے بیان کیا، دوسو بیس سے زیادہ نہیں۔ ہوسکتا ہے، آگے چل کر مجھے ان متفردات کے بھی شواہد مل جائیں۔ ‘‘چنانچہ ایسا ہی ہوا، ۲۰۱۴ء میں محمد بن علی مطری نے ان دوسو بیس میں سے کچھ ضعیف روایات کی چھانٹی کی اور کمپیوٹر اور جدید ضبط شدہ مجموعہ احادیث کی مدد سے مزید شواہدتلاش کیے توتفردات ابوہریرہ کی تعداد محض ایک سو دس رہ گئی۔ مطری نے انھیں مرتب بھی کر دیا ہے۔ اب حضرت ابوہریرہ کی پانچ ہزار اڑھائی سو روایتیں دیگراصحاب رسول کی تائید سے پایۂ ثبوت کو پہنچ چکیں تو صرف ایک سو دس پر شک کرنا اور ان کی بنیاد پرانھیں عہد اسلامی کا پال قرار دینا کسی طورپردرست نہیں، محض اس وجہ سے کہ وہ مذہب شیعہ پھیلنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ہم نے مطری کی مرتبہ تمام تفردات کو دیکھا ہے، ہمیں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملی جس سے اسلام کے کسی بنیادی عقیدے پر زد پڑتی ہو یا وہ اسلام کی عمومی تعلیمات کے منافی ہو۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک (مسلمانوں کے )دوبڑے گروہوں میں قتال نہ ہو گا جن کا دعواے مخاصمت ایک ہی ہو گا(مسلم، رقم ۷۲۵۶)۔
اس پیشین گوئی کا اطلاق جنگ صفین پر ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے دو نوں بڑے گروہ جن کی قیادت حضرت علی اور حضرت معاویہ کے ہاتھ میں تھی، اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے۔ حضرت علی کے ایک ساتھی نے کہا کہ حضرت معاویہ کے ساتھی کافر ہو گئے ہیں۔ حضرت عمار نے کہا: ایسا نہ کہو، ہمارے نبی ایک ہیں، لیکن یہ لوگ حق سے ہٹ گئے ہیں۔ شاید اسی ارشاد نبوی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت ابوہریرہ جمل و صفین کی جنگوں سے الگ رہے، انھوں نے اور حضرت ابوالدرداء نے قتال کر نے پر حضرت معاویہ کو ملامت کی۔ بعد میں حضرت ابوہریرہ کا میلان حضرت معاویہ کی طرف ہو گیا۔
حضرت ابوہریرہ کا رنگ گندمی، کندھے چوڑے اور دانت آب دار تھے۔ اگلے دو دانتوں (incisors) میں خلا تھا۔ سر کے بالوں کی دو چوٹیاں بناتے، ان پر زرد رنگ اور ڈاڑھی کو سرخ منہدی لگاتے تھے۔ سادہ رنگ دار لباس پہنتے تھے۔ عمدہ سوت، کتان کا بیش قیمت سوٹ بھی پہنا۔ ابن سیرین کہتے ہیں: ابوہریرہ ترش رو نہ تھے، ان کا رنگ گورا تھا۔
حضرت ابوہریرہ خود کہتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں میرا نام عبد شمس بن صخر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کے نام سے موسوم فرمایا (مستدرک حاکم، رقم ۶۱۴۶)۔ جب کہ ان کے بیٹے محرر کا کہنا ہے کہ میرے والد کا نام عبد عمرو بن عبد غنم تھا(مستدرک حاکم، رقم ۶۱۴۵)۔
حضرت ابوہریرہ کی اہلیہ کانام بسرہ بنت غزوان تھا۔ المحرر، بلال اور عبدالرحمٰن حضرت ابوہریرہ کے بیٹے تھے۔ ان کی بیٹی مشہور تابعی اور فقیہ سعید بن مسیب سے بیاہی ہوئی تھی۔ انس بن مالک، طاؤس بن کیسان اور محمد بن سیرین ان کے نمایاں شاگرد ہیں۔
حضرت ابوہریرہ کو حجاز کا بڑا قاری شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھا، حضرت ابی بن کعب کو سنایا۔ عبدالرحمٰن بن ہرمز نے ان سے سیکھا۔
حضرت ابوہریرہ کچھ فارسی بھی جانتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ حضرت ابوبکر کے حلیف تھے۔
ایک بار حضرت ابوہریرہ منبر رسول اور حجرۂ عائشہ کے درمیان گرے پڑے تھے۔ گزرنے والا ایک شخص مرگی کا دورہ سمجھ کر ان کے سینے پر جا بیٹھا۔ حضرت ابوہریرہ نے سر اٹھا کر کہا: آپ غلط سمجھے ہیں، میں تو بھوک سے بے حال پڑا ہوں (بخاری، رقم ۷۳۲۴۔ ترمذی، رقم ۲۳۶۷۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۴۹۴۱۔ حلیۃ الاولیاء، رقم ۳۰۴ ۱)۔ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم، اصحاب صفہ کوعجوہ کھجوریں بھیجیں تو ہم نے جوڑا جوڑا کر کے کھائیں (صحیح ابن جبان، رقم ۱۳۵۰)۔ ایک بار آپ خود تشریف لائے اور ہر ایک کودو کھجوریں دے کر فرمایا: انھیں کھا کر پانی پی لو، تمھارا آج کا دن گزر جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہ نے ایک کھجور کھائی اور دوسری چھپا لی۔ سوال فرمایا: ابوہریرہ، یہ کھجور الگ کیوں کی ہے؟بتایا: اپنی والدہ کے لیے رکھی ہے۔ اس پر آپ نے ان کی والدہ کے لیے دو اور کھجوریں عنایت کر دیں ( ابن عساکر)۔
ا حضرت ابوہریرہ میں مزاح کی حس پائی جاتی تھی۔ مدینہ کے گورنر تھے تو گدھے پر سوار ہو کر پھرتے اور کہتے: راستہ دو، امیر آ گیا ہے۔ مروان نے انھیں اپنا نائب مقرر کر رکھاتھا، لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے بازار سے گزرے اور کہا: حاکم کو راستہ دے دو(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۳۸)۔ رات کے وقت بدوؤں کے بچے کھیل رہے ہوتے توان کے درمیان ایسے جاپڑتے جیسے پاگل کو دورہ پڑا ہے اور وہ پاؤں مار رہا ہے۔ بچے انھیں دیکھ کر ہنستے یا خوف زدہ ہو کر بھاگ جاتے۔
ذوالحلیفہ میں حضرت ابوہریرہ کی ایک حویلی تھی جو انھوں نے اپنے غلاموں کو صدقہ کر دی(طبقات ابن سعد ۴ /۳۴۰)۔
حضرت ابوہریرہ کو بلیوں سے بہت انس تھا۔ اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے ہوئے دل بہلانے کے لیے بلی کا بچہ اپنے ساتھ رکھتے۔ ایک بار انھوں نے ایک جنگلی بلی پکڑی اور اسے آستین میں لیے ہوئے بارگاہ رسالت میں پیش ہوئے۔ آپ نے ابوہریرہ (بلیوں والا)کا لقب عطا کیا تب سے اس لقب نے ان کا نام گویا محو کر دیا (ترمذی، رقم ۳۸۴۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۴۱)۔
حضرت ابوہریرہ کے داماد سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جب تک ابو ہریرہ کی والدہ زندہ رہیں، وہ حج پر نہ گئے(مسلم، رقم ۴۳۲۰)۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: نیک غلام کو دہرا اجر ملے گا۔ اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر جہاد، حج اور والدہ سے حسن سلوک کے اجر نہ ہوتے تومیں غلامی کی حالت میں مرنا پسند کرتا(بخاری، رقم ۲۵۴۸)۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی روایات کی تعداد پانچ ہزار تین سو پچھتر ہے۔ انھوں نے حضرت ابوبکر سے ایک سوبیالیس، حضرت عمر سے پانچ سو سینتیس، حضرت عثمان سے ایک سو چھیالیس اورحضرت علی سے پانچ سو چھیاسی احادیث روایت کیں۔
تین سو چھبیس (یا پچیس)احادیث:بخاری ومسلم دونوں میں (متفق علیہ)، ترانوے:صرف بخاری میں، اٹھانوے: صرف مسلم میں، اڑتیس سو ستر:احمد میں۔ امام بخاری کہتے ہیں: قریباً آٹھ سو تابعین اور صحابہ نے حضرت ابوہریرہ سے براہ راست حدیث روایت کی۔
حضرت ابوہریرہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ میں سے حضرت ابی بن کعب، حضرت عائشہ، حضرت بصرہ بن ابوبصرہ غفاری، حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابوبکر، حضرت اسامہ بن زید اورحضرت فضل بن عباس سے روایات امت کو منتقل کیں۔ انھوں نے کچھ روایات کعب الاحبار سے لیں۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں:المحرربن ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک، حضرت واثلہ بن اسقع، مروان بن حکم، قبیصہ بن ذؤیب، عبداللہ بن ثعلبہ، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، شریح بن ہانی، ابوسعید مقبری، سلیمان بن یسار، سلمان الاغر، عبداللہ بن شقیق، عبدالرحمٰن بن ابوعمرہ، حفص بن عاصم، سالم بن عبداللہ، عراک بن مالک، بسر بن سعید، بعجہ بن عبداللہ، ثابت بن عیاض، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، زرارہ بن ابی اوفی، عامربن سعد، محمد بن سیرین، سعید بن مرجانہ، عبدالرحمٰن بن ہرمز، ابوصالح سمان، عبیدہ بن سفیان، عطا بن مینا، عطا بن ابورباح، عطا بن یسار، عنبسہ بن سعید، موسیٰ بن یسار، نافع بن جبیر، عبدالرحمٰن بن مہران مولیٰ ابوہریرہ، عبداللہ بن رباح، عیسیٰ بن طلحہ، محمد بن قیس، ہیثم بن ابی سنان، ابو حازم، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، حضرت یزید بن اصم، محمد بن منکدر، ہمام بن منبہ، اسود بن ہلال، اوس بن خالد، بشیر بن کعب، بکیر بن فیروز، ثابت بن قیس، ثور بن عفیر، جعفر بن عیاض، حریث بن قبیصہ، حسن بصری، حفص بن عبیداللہ، حکم بن مینا، خیثمہ بن عبدالرحمٰن، زیاد بن رباح، زیاد بن قیس، زیاد طائی، زید بن ابوعتاب، سعد بن ہشام، سعید بن حارث، سعید بن حیان، سعید بن ابوسعید المقبری، سعید بن سمعان، سلمہ بن ازرق، سلمہ لیثی، سلیمان بن حبیب، سلیمان بن سنان، شداد دمشقی، شقیق بن سلمہ، شہر بن حوشب، صالح بن نبہان، صعصہ بن مالک، ضحاک بن شرحبیل، طاووس بن کیسان، عامربن سعد، عامر شعبی، عبداللہ بن رافع، عبداللہ بن رباح، عبداللہ بن سعد، عبداللہ بن ضمرہ، عبداللہ بن عتبہ، عبداللہ بن فروخ، عبدالحمید بن سالم، عبدالرحمٰن بن اذینہ، عبدالرحمٰن بن حارث، عبدالرحمٰن بن ابوحدرد، عبدالرحمٰن بن خالد، عبدالرحمٰن بن سعید(المقعد)، عبدالرحمٰن بن صامت، عبدالرحمٰن بن عبداللہ، عبدالرحمٰن بن غنم، عبدالعزیزبن مروان، عبدالملک بن یسار، عبید بن عمیرلیثی، عثمان بن ابوسودہ، عثمان بن عبداللہ، عجلان، عزرہ بن تمیم، عطا بن ابوعلقمہ، عکرمہ مولیٰ ابن عباس، علی بن حسین، علی بن رباح، عمر بن الحکم، عمر بن خلدہ، عمر وبن دینار، عمر وبن عاصم، عمیر بن اسود، عمیر بن ہانی، عوف بن حارث، علابن زیاد، قاسم بن محمد، قیس بن ابوحازم، کثیر بن مرہ، کمیل بن زیاد، مالک بن ابوعامر، مجاہد بن جبر، محمد بن شرحبیل، محمد بن کعب القرظی، المطلب بن عبداللہ، موسیٰ بن طلحہ، موسیٰ بن وردان، میمون بن مہران، مینا بن ابومینا، نافع بن عباس، نافع مولیٰ ابن عمر، نضربن سفیان، ولید بن رباح، یحییٰ بن جعدہ، یحییٰ بن یعمر، یزید بن عبداللہ بن شخیر، یزید بن ہرمز، یعلیٰ بن مرہ، یوسف بن ماہک، ابوادریس خولانی، ابوامامہ بن سہل، سلیمان بن ابی حثمہ، ابوثور ازدی، ابوالحکم بجلی، ابوحی المؤذن، ابوخالد مولیٰ آل جعدہ، ابوزرعہ بن عمرو، ابوالسائب مولیٰ ہشام بن زہرہ، ابو سعید الازدی، ابو صالح الاشعری، ابوصالح الحنفی، ابوا لصلت، ابو الضحاک، ابو العالیہ الریاحی، ابو عبداللہ الدوسی، ابو عبداللہ المدنی، ابوعثمان التبان، ابوعثمان النہدی، ابو علقمہ مولیٰ بنوہاشم، ابو غطفان بن طریف، ابو المتوکل الناجی، ابو مدلہ عائشہ، ابو مرہ مولیٰ عقیل، ابو الولیدمولیٰ عمرو بن حریث، ابو یحییٰ اسلمی، ابویونس مولیٰ ابوہریرہ، ابن سیلان، ابن مکرز، کریمہ بنت حسحاس، ام الدرداء الصغریٰ، عطا بن ابومسلم خراسانی، عکرمہ بن خالد، ابو قلابہ، ابومیمونہ۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں:ابوہریرہ کی روایتوں میں سب سے زیادہ صحت رکھنے والی روایات وہ ہیں جو(۱) زہری نے سعید بن مسیب سے اور انھوں نے ابوہریرہ سے (۲)ابوالزناد نے اعرج سے اور انھوں نے ابوہریرہ سے(۳)اور جوعبدا للہ بن عون اور ایوب سختیانی نے محمد بن سیرین سے اور انھوں نے ابوہریرہ سے نقل کیں۔
علی بن مدینی کا خیال ہے کہ حماد بن زید کی ایوب سختیانی سے، ان کی محمد بن سیرین سے، ابوہریرہ سے کی جانے والی روایات اصح الاسانید ہیں۔
سلیمان بن داؤد کہتے ہیں:’یحییٰ بن أبي کثیر عن أبي سلمة عن أبي هریره‘ ہی اصح الاسانید ہے۔
موجودہ دور کے محقق احمد محمد شاکر نے حضرت ابوہریرہ کی صحیح ترین روایات کو یوں جمع کیا ہے:(۱)’إمام مالک، سفیان بن عیینه، معمر بن راشد عن الزھري عن سعید بن مسیب عن أبي ھریرة‘، (۲) ’حماد بن زید عن أیوب سختیاني عن محمد بن سیرین عن أبي ھریرة‘، (۳)’إسماعیل بن أبي حکیم عن عبیدة بن سفیان الحضرمي عن أبي ھریرة‘ اور(۴) ’معمر بن راشد عن ہمام بن منبه عن أبي ھریرة‘۔
مطالعۂ مزید: الجامع المسند للبخاری(شرکۃ دار الارقم )، المسند الصحیح للمسلم (دارالسلام)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی أسماء الرجال(مزی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:J Robson)، Wikipedia (English, Arabic, Persian, Urdu)، Al-Islam org (A shi'te Encyclopedia)، شیخ المضیرۃ ابوہریرۃ(محمود ابوریۃ)، Abu Hurayra and the Falsification of Traditions (یاسین الجبوری)۔
_________