ڈاکٹر عدیل احمد
قرآن کوئی ناول نہیں ہے، نہ ہی شاعری کا مجموعہ۔ یہ تاریخ یا فلسفے کی کوئی کتاب بھی نہیں ہے۔ یہ وعظ و نصیحت کے اقوال زریں بھی نہیں ہیں ۔ قرآن پاک سیاست کے اصولوں کا بیان بھی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ قانون کی دفعات کا دفتر ہے۔ یہ نہ تو کسی پیغمبر (یا رہنما) کی سوانح عمری ہے اور نہ ہی سائنس یا دیگر علوم کے انکشافات پر مبنی کوئی رسالہ۔ لیکن اس میں تھوڑا تھوڑا یہ سب کچھ ہی موجود ہے۔ یہ ایسا کلام ہے جس میں شاعری کی سی خوب صورتی اور نثر کی سی روانی ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ادب اور فن کلام سے ماورا ہے۔ جیسے کسی قادرالکلام کی گفتگو، جس میں آپ شاعری کا حسن تو پاتے ہیں، لیکن خالص شعر میں بات کرنا جیسے اس کے مقام و مرتبے سے ہیچ ہو۔ اس میں کہانیاں بھی ہیں ، قوموں کے عروج وزوال کا بیان بھی ہے، سوانحات اور واقعات بھی ہیں ، پندونصائح بھی اور اصول اور علوم بھی، لیکن ان میں سے کسی کی بھی بنیادی و مرکزی حیثیت نہیں ہے۔ سب ایک پیغام کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ۔ اہمیت اس پیغام کی ہے اور باقی سب حاشیہ آرائی۔ یہ ایک کتاب تو ہے، لیکن کسی بھی دوسری کتاب کے مثل نہیں ہے۔ آپ اس میں دیگر کتابوں کی سی ترتیب تلاش کریں گے تومایوس ہوں گے۔ اس میں تو آپ کو تکرار ملے گی۔ واقعات بیان ہوں گے تو ہوسکتا ہے کہ بیچ کی کچھ کڑیاں کسی ایک جگہ غائب ہوں اور کسی دوسری جگہ موجود ہوں ۔ کچھ مرکزی کردار وں کے پورے تعارف کے بجاے بس سرسری تذکرہ کیا گیا ہو۔ آپ کی دل چسپی کے چند سوالوں کو غیر اہم سمجھ کر نظرانداز کردیا گیا ہو۔ کائنات کے عظیم ترین مظاہر اور کسی حقیر ترین مخلوق کا ذکر ایک جیسی بے نیازی سے ہوا ہو۔یہ سب اس لیے کہ یہ شاہی دربار میں پڑھا جانے والا کوئی قصیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ خود شاہی فرمان ہے، بے پروا، بے نیاز، جسے یہ خیال نہیں رکھنا پڑتا کہ کہیں ترتیب نہ ٹوٹے ، حسن کلام میں فرق نہ آئے ، حقیقت حال سے انحراف نہ ہوجائے، کیونکہ یہاں تو جو فرمادیا گیا، وہی خود حق ہے، حسن ہے۔
یہ کتاب درحقیقت خطبات پر مشتمل ہے۔ خطبات بھی کسی ایک مضمون پر تیار کیے گئے سلسلہ وار لیکچرز نہیں، بلکہ تئیس سالوں پر محیط مختلف مواقع، واقعات اور تبدیلی حالات پر تبصرہ کرتے، ان کے حوالے سے ہدایات دیتے، موقع بہ موقع اٹھنے اور اٹھائے جانے والے سوالوں کے جواب دیتے، الجھنوں کو رفع کرتے، اعتراضات کا رد کرتے، سیاسی، سماجی اور ایمان و عقیدے کے اعتبار سے لوگوں کے مختلف گروہوں سے خطاب کرتے، گاہے ڈراتے، گاہے خوش خبری سناتے اور ان کی عمومی عقل(Common Sense) اور بنیادی انسانی شعور کو اپیل کرتے ہوئے توحید اور آخرت کی دعوت کے سرمن ہیں ۔ مخاطبین کی متنوع حیثیت اور شان نزول کا اختلاف انھیں کلاس روم لیکچرز سے بالکل علیحدہ نوعیت فراہم کرتے ہیں ۔ یہ کہیں ڈانٹ ہے تو کہیں نصیحت، کبھی یہ کسی معاملے میں ہدایات ہیں تو کبھی قطعی احکامات۔ کسی جگہ مثالوں سے بات سمجھائی جارہی ہے تو کہیں قصوں اور داستانوں سے سبق سکھائے جارہے ہیں ۔ کبھی انسان کی اپنی ذات اور اس کے ارد گرد کے ماحول سے چن چن کر معمولی چیزوں کا انتہائی غیر معمولی پن واضح کیا جاتا ہے تو کہیں ایک اور ہی جہان کا منظر کھینچ کر رکھ دیا جاتا ہے جو ہمارے حیطۂ علم وادراک سے فزوں ہے۔ کبھی کسی سازش سے خبردار کیا جاتا ہے اور کبھی کسی آزمایش میں حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ کبھی، ایسے ہی، بالکل سرسری انداز میں کوئی پیشین گوئی کردی جاتی ہے تو کبھی ماضی کے پردے ہٹا کر دنیا کی رسائی سے اوجھل کسی گم گشتہ معاملے کو بے نقاب کردیا جاتا ہے، لیکن وہ بھی کسی خبر کی تفصیلات یا کہانی کے لوازمات کے ساتھ نہیں، بلکہ فقط اسی بنیادی پیغام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انداز میں ۔
ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ یا شاید کہنا چاہیے کہ ان کے باوجود،یہ کلام زبان کی ایسی ناقابل بیان خوب صورتی کا حامل ہے کہ ایمان اور عقیدہ تو ایک طرف، ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی صاحب ذوق کو اس کی جمالیاتی حس کی تسکین کا سفر ہی بالآخر قرآن کے در پہ لے آئے۔ یہ ایک انوکھا کلام ہے۔ شاعری نہیں ہے، لیکن اس میں شعر کا سا ردھم ہے، قوافی کی ایک منفرد ترتیب ہے، ایک آزاد نظم کا سا بہاؤ ہے، ایک گیت کا سا ترنم ہے، یہ نثر ہے، لیکن ایسے آہنگ، ایسے اسلوب کی حامل ہے جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔آپ اگر عربی پڑھ سکتے ہیں تو معانی سے ناواقفیت بھی آپ کو اس لطف سے محروم نہیں کرتی جو محض اس کلام کی تلاوت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ درحقیقت زبان و بیان کی یہی خوب صورتی تھی جس نے سب سے پہلے عرب کے اس معاشرے کو دنگ کردیا تھا جو اپنی زبان کے زعم میں دوسروں کو گونگا(عجمی) کہا کرتا تھا۔ قرآن کے پہلے مخاطبین کی گفتگو ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ان کی شاعری، ان کی داستان گوئی کے چرچے تھے۔ ان کا ایک عام آدمی بھی، یہ تو ہوسکتا تھا کہ لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، لیکن یہ ممکن نہیں تھا کہ بات کا سلیقہ نہ رکھتا ہو۔ برجستہ اور برمحل فی البدیہہ شعر کہنا ان کے ہاں معمول تھا۔اس ماحول میں جب اس شان کا کلام پیش کیا جاتا ہے، اور اس دعوے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا کچھ کہہ سکتا ہے تو کہہ کے دکھائے، تو لوگوں نے اور ہر طرح کے اعتراض اٹھائے: نبوت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا انتخاب کیوں ہوا؟ کوئی مافوق الفطرت نشانی کیوں نہیں اتری؟اتنے بہت سارے خداؤں (یا شریکوں )کے مقابلے میں توحید کا تصور سماجی اور سیاسی لحاظ سے ناقابل قبول سمجھا گیا، آخرت کا عقیدہ ان کے لیے ناقابل فہم تھا، یہ بھی کہا گیا کہ بس وہی پرانی کہانیاں دہرائی گئی ہیں ۔ لیکن کسی نے زبان کے معیار پر انگلی نہیں اٹھائی۔ نہ صرف یہ ، بلکہ کسی کو یہ جرأت بھی نہیں ہوئی کہ اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش ہی کرسکے جو قرآن نے باربار اپنے جیسی (پہلے دس اور پھر)ایک سورت ہی بنا لانے کے حوالے سے اپنے منکرین کے سامنے رکھا تھا۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام آپ کے فرامین اور مختلف مواقع پر دیے گئے خطبات کی صورت میں آج تک محفوظ ہے، اور اپنی جامعیت اور اختصار کے حوالے سے عربی ادب کا شان دار نمونہ ہے۔لیکن ایک ہی شخصیت کی زبان سے ادا ہونے والے ان دونوں طرح کے کلام، یعنی وحی الہٰی اور حدیث رسول کے اسلوب اور ادائیگی میں ایسا بین فرق ہے جو کسی بھی صاحب ذوق کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ارشادات رسول اگر دیگر عرب کلام میں سنگ ریزوں میں جواہرات کی سی حیثیت رکھتے ہیں تو یہی مقام آیات قرآنی کو حدیث رسول کے مقابلے میں حاصل ہے۔ اور جیسے جواہرات سنگ ریزوں میں شامل بھی ہوں تو صاف الگ نظر آتے ہیں ، بالکل ویسے ہی اگر یہ دونوں کلام ملا بھی دیے جائیں تو ذوق نظر رکھنے والے نہایت آسانی سے انھیں الگ شناخت کرلیتے ہیں ۔ا گر یہ خود محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کی تصنیف ہوتی تو قرآن کی۱۱۴ سورتوں میں سے کسی پوری سورت میں نہ سہی ۶۶۶۶ آیات میں سے چند آیات میں ہی یہ امتیاز دھندلا جاتا۔
ایک اور دل چسپ مشاہدہ یہ ہے کہ اس کتاب میں جہاں کم وبیش ۲۵ پیغمبروں کا ذکر آیا ہے، اور باربار آیا ہے، وہاں خود صاحب کتاب کا نام سب سے کم دفعہ لیا گیا ہے۔ جہاں عیسیٰ علیہ السلام مجموعی طور پہ قرآن میں سب سے زیادہ آیات میں مذکور ہیں اور ۲۵ بار اسی نام عیسیٰ سے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور موسیٰ علیہ السلام کا نام۱۲۵ بار دہرایا گیا ہے، وہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام فقط ۴ بار آیا ہے(احمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل کرلیں تو ۵ مرتبہ)۔گو اس حقیقت کو قرآن کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تخلیق نہ ہونے کے ثبوت کے طور پہ تو نہیں پیش کیا جاسکتا، لیکن ایک ایسے ذہن کے لیے جو پہلے سے قائم کیے گئے نظریات سے پاک ہو، اس امر میں اس حقیقت کی طرف ایک واضح اشارہ ضرور موجود ہے۔
قرآن کی حیثیت کے بارے میں کوئی بے لاگ اور غیر متعصب راے قائم کرنے کے لیے صاحب قرآن کی شخصیت کے کم از کم چند پہلو جاننا بہت ضروری ہے ۔اور وہ پہلو ہیں : صدق، سنجیدگی اور امانت داری۔ یوں تو آپ کی ذات تمام انسانی خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ صبر واستقلال، استقامت، بہادری، ایفاے عہد، عفو و درگذر، شفقت اور رحم دلی، بلند ترین اخلاق و آداب، ذہانت اور برجستگی۔ غرض ہر طرح کے اچھے اوصاف آپ کی شخصیت میں اپنے کمال کو پہنچے ہوئے تھے، لیکن اول الذکر تین خصوصیات موضوع سے زیادہ متعلق ہیں ، اور آپ کے دیگر خصائص کے مقابلے میں مشرکین مکہ ان خوبیوں کے زیادہ معترف تھے اور اپنی تمام تر مخالفت کے باوجود ان حوالوں سے کبھی آپ پر کوئی الزام نہیں عائد کرسکے تھے۔آغاز نبوت سے پہلے بھی آپ کے راست باز ہونے پر پورے معاشرے کا مکمل اتفاق تھا، جھوٹ آپ کے منہ سے کبھی مذاق میں بھی نہیں نکلا تھا۔ آپ ایک انتہائی سنجیدہ اور متین شخصیت کے حامل تھے۔خود رائی اور خود نمائی سے کوسوں دور، اورامانت کی حفاظت آپ کے نزدیک اہم ترین ذمہ داری تھی۔اگر ہم کوئی بات نہ ماننے پر تل ہی جائیں تو اور بات ہے، ورنہ عقل سلیم یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی کہ ایک شخص جس نے ساری زندگی کبھی جھوٹوں بھی جھوٹ نہ بولا ہو، کیسے اپنی ہی شخصیت کے عین تانے بانے کے خلاف خالق اور مخلوق، دونوں کے حوالے سے تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ، بلکہ جھوٹوں کا پلندہ منظر عام پر لے آئے اور پھر آخری دم تک اسے سچ سمجھنے پر نہ صرف اصرار کرتا رہے، بلکہ باقی کی تمام عمر اور اپنی ساری توانائیاں اور قابلیتیں اسی کی ترویج اور تعلیم میں لگادے۔ اپنی دنیا میں مگن، ایک قانع، کم گو اور بردبار آدمی جو نہ شعر و نغمے کی محفلوں میں شریک ہوتا ہو، نہ معاشرے کے معمول کی شیخی خوری سے اسے کوئی علاقہ ہو اور نہ ہی وہ مجلسوں کا شوقین ہو؛ زیادہ سے زیادہ کسی انتہائی اہم شخصی یا سماجی حقوق کے معاملے پر اپنی صائب راے کا اظہار کرتا ہو اور وہ بھی مطالبے پر(جسے فوراً مان بھی لیا جاتا ہو)، ایک ایسا شخص جسے کبھی یاوہ گوئی یا خود پسندی کا مظاہرہ کرتے نہ دیکھا گیا ہو اور نہ ہی اس کے کسی عمل سے ایسی کوئی بات مترشح ہوتی ہو، وہ بغیر کسی تیاری، بغیر کسی تدریج کے، اچانک ایک دن سب سے اعلیٰ انسانی مرتبے پر فائز ہونے کا دعویٰ کردے، جو اگر جھوٹ ہے تو اس کی چالیس سالہ زندگی کے تاروپود جن خصوصیات سے بنے ہیں ، وہ سب غلط ثابت ہوجاتی ہیں ۔ اور یوں ان کے بارے میں معاشرے کے کافر زعما کا دو میں سے ایک فیصلہ غلط ثابت ہوجاتا ہے، جب کہ وہ دونوں پر ہی اصرار کرتے ہیں ۔ ان کا پیغام بھی مان کر نہیں دیتے اور انھیں ایک جھوٹا شخص بھی قرار نہیں دیتے۔ پھر اپنی امانتیں بھی انھی کے سپرد کرنے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں ۔
ایک اور قابل غور نکتہ وحی کی آمد پر آں حضرت کا رد عمل ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ غار حرا کے اعتکاف اسی منصوبہ بندی میں گزرے تھے اور قرآن کا نزول، نبوت کا اعلان، تبلیغ کی حکمت عملی اور انقلاب کے تمام مراحل اسی ایک اسکیم کے اجزا تھے جو وہیں ترتیب دی گئی تھی تو بھی پہلی وحی کی آمد پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا جو حال ہوا، وہ قطعی ناقابل فہم ہے۔ یہ عین ویسا رد عمل تھا جو کسی ایسے شخص کا ہوسکتا ہے جسے ایسے کسی واقعے کی بالکل توقع نہ ہو، اور نہ ہی وہ اس کیفیت کو سمجھ پایا ہو۔اگر اسے بھی منصوبے کا حصہ تسلیم کرلیا جائے تو یہ معاملہ مزید الجھ جاتا ہے۔اول تو ایسے شان دار اور جامع پلان میں اس طرح کا رد عمل سوچ سمجھ کر دینا قریش مکہ کے سب سے زیادہ دہرائے جانے والے الزام کو تقویت فراہم کرنے کے مترادف ہوتا کہ آں حضرت (معاذاللہ) جنون، یا جنات کی پکڑ میں مبتلا ہیں ۔ منصوبہ مکمل تھا۔ سب جزئیات اور تفصیلات پوری سوچ بچار کے ساتھ طے کر لی گئی تھیں (یہاں یہ بات بھی دھیان میں رکھنی چاہیے کہ اس حجم کا کوئی منصوبہ شاید ہی کبھی کسی شخص نے بغیر مشاورت کے تن تنہا ترتیب دیا ہو)،کام شروع کر دیا جاتا، اور شاید اس صورت میں سب سے پہلے لابیئنگ (lobbying) کے عمل کا آغاز کیا جاتا، جو کہ حقیقت میں اس پوری جدوجہد میں کبھی بھی نہ کیا گیا۔ فرض کیجیے بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا یا ورقہ بن نوفل اس دن وہ رد عمل دینے کے بجاے جو انھوں نے دیا، اس سارے واقعے کو کسی بیماری کا یا آسیب کا اثر سمجھ لیتے تو ظاہر ہے کہ ایک پیچیدگی شروع میں ہی پیداہوجاتی۔ پھر کچھ عرصہ جب وحی کا سلسلہ منقطع رہا تو جس ذہنی کرب کی کیفیت سے آں حضرت گزرے، وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے میں کسی طرح بھی فٹ نہیں بیٹھتی، خاص طور پہ جب اس دوران میں آپ کے مخالفین آپ کو اس بات کے طعنے بھی دے رہے ہوں کہ (خدانخواستہ) اللہ نے آپ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور اگر اسے بفرض محال کسی بیماری یا ا یبنارمل (Abnormal) کیفیت کا شاخسانہ قرار دے دیا جائے تو سلام ہے اس مرض پر کہ جس کا مبتلا ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست ترین شخص تھا اور جس کے نتیجے میں وہ دنیا کو اولاً ایک لازوال کلام اور ثانیاً ایک بے مثال نظام دے گیا، اور مزید برآں جس بیماری یا کیفیت کا کوئی اثر اس شخص کی حرکت و عمل سے بھرپور زندگی کے کسی اور پہلو پرکبھی ظاہر نہ ہوتا ہے ۔ نہ میدان جنگ میں ، نہ ازدواجی تعلقات میں ، نہ ریگستانوں کے طویل سفر میں ، نہ کسی انتظامی امر میں اور نہ کسی ذاتی معاملے کے نمٹانے میں ۔ اور (نعوذباللہ) مریض کی صحت آخری وقت تک مثالی رہتی ہے۔
قرآن میں مذکور متعدد کائناتی اور دیگر سائنسی اور طبیعیاتی حقائق پر متعلقہ علوم کے کئی ماہرین نے بہت کچھ لکھ رکھا ہے ۔ نیز آئے دن ایسے مشاہدات اور انکشافات ہوتے رہتے ہیں جو قرآن کے اپنے اعلان کے مطابق سورۂ حٰم السجدہ (۴۱) کی آیت ۵۳: ’’عنقریب ہم انھیں آفاق میں اور خود انھی کی ذات میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہ (قرآن) حق ہے، تو کیا اللہ اس پر گواہ (ہونے کے لیے) کافی نہیں ہے)‘‘دن بدن اس کی حقانیت کو عیاں تر کرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ مضمون چونکہ ایک عام پڑھے لکھے آدمی کی سمجھ بوجھ کو خطاب کرتا ہے اور اپنے جملہ نکات کا صرف ایک سرسری جائزہ لیتا ہے، لہٰذا اس کے دامن میں اتنی گنجایش نہیں ہے کہ کائنات کی تخلیق، زندگی کی ابتدا، ارتقا کے مدارج، اجرام فلکی کی گردش، زمین کی ہیئت، پہاڑوں کے کردار، حیات کے آغاز اور بقا کے لیے پانی کی اہمیت، انسانی پیدایش کے مراحل اور اس طرح کے کتنے ہی اور موضوعات کو زیر بحث لایا جائے اور ایک ایک پر تحقیق نو اور قرآن کے بیان میں مماثلت واضح کی جائے۔ یوں بھی ان سب باتوں کے حوالے سے قرآنی بیانات اور سائنسی تحقیق میں ربط تسلیم شدہ ہے۔ اصل نکتہ اور ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل جب یہ حقائق بیان ہوئے، اس وقت کی سائنس نے بھی، وہ جس نہج پر بھی تھی، قرآن سے اختلاف نہیں کیا۔ اور یہی درحقیقت قرآن کا اعجاز ہے۔ سائنس کھوج کا سفر ہے۔ اس کی کل کی حقیقت آج غلط ثابت ہوجاتی ہے، اور آج کا مفروضہ کل قانون بن جاتا ہے۔ہر ہزار پانچ سو سال بعد منظر کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ بلکہ اب تو اس سے بہت جلدی۔ آج کا جانا مانا نظریہ لے کر آپ چند سو سال پہلے چلے جائیں ، اس کے سب سے بڑے مخالف اس دور کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سائنس کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہوں گے۔ قرآن کا کمال یہ نہیں کہ اس نے سائنسی حقائق بیان کیے، بلکہ یہ ہے کہ ان حقائق سے نہ اس دور میں کسی نے اختلاف کیا اور نہ آج کرسکتا ہے۔
(۱۸/ مئی ۲۰۲۰ء)
____________