HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

میٹرک اور او لیول کے اسلامیات کے نصابات کا تقابلی تجزیہ

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

Abstract

 

There are mainly two systems of education running currently at secondary education level in Pakistan: Martic and O level. Matric system runs under the federal and provincial educational boards, while O level runs here generally under Cambridge University London. Many schools cater both the systems under one roof. Both the systems have significant differences in their syllabi, teaching methodologies and examination system. These differences produce different results on knowledge and understanding of students.

Education of Islamiyat is the constitutional responsibility of the Government of Pakistan. However, Islamiyat syllabus of Matric contains many flaws from educational point of view. In this paper, a compartive analysis of O level Islamiyat and Martic Islamiat is presented to suggest revision and improvement of the syllabus of Islamiat at Martic level.

Keywords: Education, Matric, O Level, Cambridge, Islamiyat, Syllabus, Reforms.


خاکہ

پاکستان میں دسویں درجے کی تعلیم میں او لیول اور میٹرک، دو تعلیمی نظام رائج ہیں۔ میٹرک کا نصاب اور امتحان قومی وفاقی بورڈ کے علاوہ صوبائی تعلیمی بورڈز کے تحت بھی ہوتاہے، جب کہ او لیول کا نصاب اور امتحان زیادہ تر کیمبرج یونیورسٹی لندن کے تحت منعقد کیا جاتاہے۔ متعدد اسکولوں میں دونوں نصاب متوازی طو رپر متعلقہ طلبہ کو پڑھائے جاتے ہیں۔ دونوں نصابوں، طریقۂ تدریس اور طریقۂ امتحان میں بہت فرق ہے جس سے طلبہ کے علم، فہم اور اپروچ پر مختلف طرح سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دونوں کی افادیت میں بھی بہت فرق پایا گیا ہے۔ قوم کو اسلامیات کی بہتر تعلیم دلانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔تاہم، میٹرک کے اسلامیات کے نصاب میں تعلیمی نقطۂ نظر سے بہت سے جھول اور کم زوریاں پائی جاتی ہیں۔ درج ذیل مقالے میں میٹرک اور اولیول کے اسلامیات کے نصابات کا موازنہ پیش کرنا مقصودہے جس سے یہ طے کرنے میں مدد ملے گی کہ کون سا نصاب اور نظام کس لحاظ سےزیادہ مفید ہے اور یہ بھی کہ کس طرح اخذ و استفادہ کے اصول پر میٹرک کے اسلامیات کے نصاب میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔یٹر

کلیدی الفاظ: تعلیم ،میٹرک، او لیول،  کیمبرج، نصاب، اسلامیات، اصلاحات۔

۱۔ تعارف

اسلامیات کی معیاری تعلیم کی فراہمی حکومت پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے، جس کا مقصد دین اسلام کی درست تعلیمات کی روشنی میں مسلم طلبہ میں دین سےمحبت اور وابستگی پیدا کرنا ہے[1]۔تاہم میٹرک کی سطح کا اسلامیات کا نصاب ان مقاصد کو کما حقہٗ پورا کرتا محسوس نہیں ہوتا۔

میٹرک اور اولیول کے دو نظام ہاے تعلیم ہمارے ہاں سیکنڈری سطح کی تعلیم میں رائج ہیں۔ میٹرک، قومی سطح پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت رائج نظام تعلیم ہے اور او لیول، کیمبرج یونیورسٹی لندن کے تحت بین الاقوامی سطح کا نظام تعلیم ہے جو ہمارے ہاں برٹش کونسل اسلام آباد کی زیر نگرانی چلایا جاتا ہے۔ تعلیم کے ان دونوں نظاموں میں اسلامیات کا نصاب کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ زیرنظر مقالے میں ان دونوں نظاموں کے نصابوں کا موازنہ پیش نظر ہے جس کے نتیجے میں میٹرک کے نصاب میں اصلاحات کی تجاویز دی جائیں گی۔

اس تقابلی مطالعہ کے اگلے مراحل میں ان دونوں نظاموں کے تحت ان کے طریقہ ہاے تدریس اور طریقہ ہاے امتحان کا موازنہ بھی پیش کیا جائے گا، جو الگ مقالہ جات کا متقاضی ہے۔

۲۔ اولیول اور میٹرک کے نصاب کے اہداف و مقاصد

اولیول کے نصاب میں اس نصاب کے اہداف و مقاصد درج ذیل بیان کیے گیے ہیں:

۱۔ اسلام کے بنیادی ماخذوں، بنیادی عقائد اور ابتدائی تاریخ کا علم حاصل کرنا۔

۲۔ مطالعۂ اسلام کے لیے تفتیشی رجحان پیدا کرنا۔

۳۔ زیر مطالعہ نصاب میں اٹھائے گئے دینی، تاریخی اور اخلاقی نوعیت کے سوالات کی سمجھ اور ان کے جوابات کے لیے جستجو پیدا کرنا۔

۳۔ جانچ کے مقاصد

قسم سوال ۱: ایمانیات اور تاریخ اسلام کے مرکزی عناصر کے بارے میں متعلقہ حقائق و معلومات کو یادداشت میں لانا، انتخاب کرنا اور پیش کرنا۔

قسم سوال۲: تعلیمات اسلام اور مسلمانوں کی زندگیوں میں ان حقائق و معلومات کی اہمیت و افادیت کے فہم کا اطلاقی اظہار کرنا۔

اولیول کے نصاب میں اہداف اور مقاصد متعین صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ یہ جامع مقاصد ہیں جو جدید تعلیمی اہداف کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ ان کا مقصد طلبہ کو نہ صرف معلومات فراہم کرنا ہے، بلکہ ان میں علم کا فہم، جستجو اور تفتیش کا رجحان پیدا کرنا اور حاصل نتائج کا انفرادی اور سماجی سطح پر اطلاق کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے۔

جب کہ میٹرک کے موجودہ نصاب میں اہداف اور مقاصد سرے سے بیان ہی نہیں کیے گئے، یعنی یہ معلوم نہیں کہ اس مخصوص نصاب کی تدریس سے مرتبین نصاب کے پیش نظر مقاصد کیا ہیں۔ نصاب سازی کے نقطۂ نظر سے نصاب میں اہداف و مقاصد کی عدم موجودگی ایک حیرت انگیز امر اور ایک بنیادی خلا ہے۔

۴۔ میٹرک کا اسلامیات کا نصاب

میٹرک کے اسلامیات کے نصاب کو جماعت نہم اور دہم کے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور دونوں کا امتحان الگ الگ ہوتاہے۔

۱۔جماعت نہم کے لیے اسلامیات کا نصاب:

۱۔ سورۂ انفال مکمل۔

۲۔ دس مختصر احادیث مع ترجمہ و تشریح۔

۳۔موضوعاتی مطالعہ چار ابواب:

۱۔ قرآن مجید (تعارف ،حفاظت، فضائل)۔

۲۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت و اطاعت۔

۳۔ علم کی فرضیت و فضیلت۔

۴۔ زکوٰۃ (فرضیت، اہمیت، مصارف)۔

۲۔جماعت دہم کے لیے اسلامیات کا نصاب:

۱۔ سورۂ احزاب مکمل۔

۲۔ سورۂ ممتحنہ مکمل۔

۳۔ دس مختصر احادیث مع ترجمہ و تشریح۔

۴۔ موضوعاتی مطالعہ:

۱۔ طہارت اور جسمانی صفائی۔

۲۔ صبر و شکر اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی۔

۳۔ عائلی زندگی کی اہمیت۔

۴۔ ہجرت و جہاد۔

۵۔ حقوق العباد (انسانی رشتوں سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ارشادات)[2]۔

۵۔ اولیول اسلامیات کا نصاب

او لیول کا نصاب بھی دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے جو دو پرچوں میں لیا جاتا ہے، تاہم یہ یک بارگی لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں اسے عموماً دو یا تین درجوں، یعنی تین سالوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

۱۔ پرچہ اول کا نصاب:

۱۔ منتخب آیات میں قرآن کے نمایاں موضوعات۔

اس کے تحت تین موضوعات شامل ہیں:

۱۔ تعارف خدا (God in Himself)۔

منتخب آیات یہ ہیں:

۲: ۲۵۵، ۶: ۱۰۱ - ۱۰۳، ۴۱: ۳۷، ۴۲: ۴- ۵، ۱۱۲۔

۲۔ خدا کا اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلق۔

 منتخب آیات یہ ہیں:

۲: ۲۱ - ۲۲، ۹۶: ۱ - ۵، ۹۹: ۱۱۴۔

۳۔ خدا کا اپنے رسولوں کے ساتھ تعلق۔

منتخب آیات یہ ہیں:

۲: ۳۰ - ۳۷، ۶: ۷۵ - ۷۹، ۵: ۹۳، ۱۰۸، ۱۱۰۔

۲۔ قرآن مجید کی تاریخ اور اہمیت۔ ذیلی موضوعات میں درج ذیل عنوانات شامل ہیں:

۱۔ تاریخ وحی۔

۲۔ تاریخ تدوین قرآن۔

۳۔ قرآن کے نمایاں موضوعات کا مطالعہ، مقرر شدہ آیات اور اس سے ملتی جلتی آیات کے ساتھ۔

۴۔ اسلامی قانون سازی میں قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کا باہمی تعلق۔

۵۔ اسلامی فکر و عمل میں قرآن کی اہمیت۔

۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اہمیت۔

۱۔ اس میں مکمل سیرت شامل ہے اور اس کے ساتھ سیرت بطور نمونۂ عمل سے متعلق عنوانات شامل ہیں۔

۴۔ پہلی اسلامی برادری۔

۱۔ ازواج مطہرات، اولاد و احفاد، مہاجرین اور انصار، عشرۂ مبشرہ، کاتبین وحی۔

۲۔ پرچہ دوم کا نصاب

۱۔ منتخب احادیث میں موجود نمایاں تعلیمات۔ اسے دو بڑے موضوعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے:

۱۔ انفرادی رویہ۔

۲۔ اجتماعی یا سماجی رویہ۔

اس درجے میں۲۰احادیث شامل ہیں۔

۲۔ تاریخ حدیث اور اس کی اہمیت۔ اس میں درج ذیل عناوین شامل ہیں:

۱۔ تاریخ تدوین حدیث۔

۲۔ ابتدائی کتب احادیث۔

۳۔ نمایاں مسند اور مصنف کتب احادیث۔

۴۔ نمایاں جامعین حدیث اور ان کی سرگرمیاں۔

۵۔ جرح وتعدیل کے اصول۔

۶۔ صحاح ستہ اور کتب اربعہ (اہل تشیع) کی چیدہ چیدہ خصوصیات۔

۷۔ منتخب احادیث کے نمایاں موضوعات۔

۸۔ حدیث بطور ماخذ قانون، اور قران، اجماع اور قیاس کے ساتھ اس کا تعلق۔

۹۔ اسلامی فکر و عمل میں حدیث کا کردار۔

۳۔ سیرت خلفاے راشدین۔

۴۔ بنیادی عقائد۔

۵۔ ارکان اسلام[3]۔

۶۔ تنقید اور موازنہ

میٹرک کے نصاب کے مقابلے میں دیکھاجا سکتا ہے کہ اولیول کا نصاب دین اسلام کے تقریباً تمام بنیادی علمی، تاریخی، اصولی اور اخلاقی پہلوؤں کا ایک جامع انتخاب پیش کرتا ہے؛ جب کہ میٹرک کے نصاب کا زیادہ تر حصہ قرآنی سورتوں، سورۂ انفال، سورۂ احزاب اور سورۂ ممتحنہ پر مشتمل ہے۔ حدیث کا نصاب اس کے مقابلے میں بہت کم، یعنی صرف ۲۰ مختصر احادیث شامل ہیں۔ بقیہ نصاب ۸ مختصر موضوعاتی ابواب پر مشتمل ہے جو طہارت اور جہاد کے علاوہ اخلاقی موضوعات پر مشتمل ہے۔

۷۔ قرآنی سورتیں اور منتخب آیات

و ل میٹرک کا اسلامیات کا مروجہ نصاب ایک غیر متوازن نصاب ہے[4]۔ اس میں شامل سورتوں کا انتخاب کن اصولوں کے تحت کیا گیا ہے، یہ واضح نہیں۔ تینوں سورتیں مدنی ہیں، کوئی مکی سورہ شامل نہیں، جب کہ دونوں طرح کی سورتوں کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ سورۂ انفال اور سورۂ احزاب دو جنگوں ـــــــــیو  جنگ بدر اور جنگ خندق ـــــــــ  سے متعلق ہیں، جب کہ سورۂ ممتحنہ میں بھی اہل مکہ سے دشمنی اور دوستی کا پہلو زیر بحث ہے۔ یوں غالب موضوع جنگی موضوعات بنتے ہیں۔ ابواب میں بھی ایک باب ہجرت و جہاد سے متعلق شامل ہے۔ گویا تقریباً ۷۵ فی صد نصاب جنگ و جہاد کے موضوعات پر مشتمل ہے ۔اس سے پہلے سورۂ توبہ بھی نصاب میں شامل تھی جو تمام تر جہاد سے متعلق تھی، مگر بعد ازاں اسے خارج کر دیا گیا تھا۔

پیغام پاکستان کے تناظر میں ہماری ریاست نج کے جہاد سے کنارہ کشی کا اعلان کر چکی ہے اور تمام مکاتب فکر سے اس اعلامیے پر دستخط بھی کرا چکی ہے۔ اس نئے تناظر میں جنگ و جہاد سے متعلق مواد بغیر مناسب احتیاطی تدابیر کے شامل نصاب کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس نصاب میں شرائط جہاد، اقسام جہاد وغیرہ پر کوئی باب یا بحث شامل نہیں ہے۔

جنگ و جہاد میں کیا نازک امور پیش نظر ہوتے ہیں، یہ کن شرائط اور مواقع پر کیے جاتے ہیں، حالات و زمانہ، یعنی عرف کی تبدیلی سے ان کے اطلاقات میں مزید کن رعایتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہو جاتا ہے، بین الاقوامی قانون کے تحت بین الاقوامی معاہدات سےپیدا ہونے والے حالات سے کیا فرق پڑا ہے[5]، یہ سب اہل علم کے درمیان پیچیدہ مباحث کا میدان ہے[6]۔ ایک بی اے یا ایم اے پاس اسلامیات یا دینی مدرسہ کے فاضل استاد سے جہاد اور شرائط جہاد جیسےنازک موضوعات کے لیے درکار علمیت کی توقع عموماً نہیں کی جاسکتی۔ نیز استاد اگر ان مباحث اور ان کی باریکیوں سے واقف بھی ہو تو وہ اس درجے کے کم سن طلبہ کو یہ باریکیاں باور نہیں کرا سکتا ۔

ہماری یونیورسٹیز میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کے ان درجوں میں اسلامیات کا نصاب ان تمام احتیاطوں کے ساتھ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ پڑھایا جاتا ہے جس کا یہ نازک مضمون تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی اساتذہ کی اس لحاظ سے مناسب تربیت ہی کی جاتی ہے۔[7]

سورۂ احزاب میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔ جنگ احزاب کے بیان کے علاوہ، ظہار، متبنیٰ بنانے اور اس کی مطلقہ سے نکاح کا مسئلہ، ازاوج مطہرات کا پردہ، عام خواتین کا پردہ، منافقین کا طرز عمل، غزوۂ بنوقریظہ، رسول اللہ سے متعلق خصوصی قوانین، تعدد ازواج نبی کا مسئلہ، ختم نبوت، طلاق و عدت، جیسے مسائل پر مشتمل اس سورہ کے مضامین کو میٹرک کے طلبہ کو ایک سال کے مختصر سے وقت میں سمجھانا ہی ایک مشکل، بلکہ ناممکن امر ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی جیسے مفسر کبیر اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’...یہ سورہ قرآن حکیم کی مشکل سورتوں میں سے ہے اور میں اس پر قلم اٹھانے سے گھبراتا رہا ہوں۔ اگرچہ اس کی مشکلات، اپنے علم کے حد تک، میں نے بہت پہلے حل کر لی تھیں، لیکن یہ تردد سراسر دامن گیر رہا کہ دل و دماغ میں جو کچھ ہے قلم اس کو ادا بھی کر سکے گا یا نہیں۔ اب یہ فیصلہ تو کتاب کے صاحب نظر قارئین کرسکیں گے کہ میں مشکلات سے عہدہ برآ ہو سکا یا نہیں اور ہو سکا تو کس حد تک۔ لیکن میں نے کوشش بہت کی ہے۔‘‘[8]

میٹرک کے طلبہ کو اسلامیات کے علاوہ دیگر سات مضامین بھی پڑھائےجاتے ہیں جن میں سائنس کے مضامین، خصوصاً ان کے اذہان پر چھائے رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ خصوصاً سورۂ احزاب میں شامل ان دقیق مسائل کو سمجھنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں نہ وقت۔ یہ سورہ تعلیم کے اگلے درجوں میں پڑھائی جانی چاہیے جب طلبہ کی ذہنی سطح ان مباحث کے سمجھنے کے لائق ہو۔ ان معروضا ت کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سورۂ احزاب کو اس سطح کے طلبہ کے لیے اتنے کم وقت کے نصاب میں شامل نصاب کرنا درست نہیں ہے۔

طلبہ کی دینی تعلیم کی ضروریات متنوع ہوتی ہیں۔ کسی ایک سورت میں تمام مطلوب مضامین اس ترتیب سے شامل نہیں ہو سکتے جو تعلیمی ضروریات کے لیے مرتب نصابات میں ہونے چاہییں۔ اسی لیے ماہرین تعلیم یہی بہتر سمجھتے ہیں کہ بچوں کی ذہنی سطح اور تعلیمی ضرورت کے پیش نظر قرآن مجید سے آیات کا انتخاب مختلف موضوعات کے تحت پیش کیا جائے۔ اس کا ایک نمونہ او لیول کے نصاب میں دیکھ لیا جا سکتا ہے جہاں تین مرکزی موضوعات کے تحت پانچ پانچ آیات کا ایک انتخاب مرتب کیا گیا ہے۔ میٹرک کے نصاب کی تیاری میں زیادہ یا مختلف اور بہتر موضوعات طے کر کے ان کے تحت آیات کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

اس درجے میں پوری سورتیں شامل نصاب کرنے سے یہ مسئلہ بھی پیش آتا ہے کہ سورتوں کی تفسیر بھی کرنا پڑ جاتی ہے جو سورتوں کا پس منظر اور سیاق و سباق سے اچھی واقفیت کے بنا ممکن نہیں۔ اس کے لیے تفاسیر کو دیکھنا پڑتا ہے۔ بی اے یا ایم اے پاس اساتذہ عموماً اتنے معیار علم کے حامل نہیں ہوتے کہ وہ ان مباحث کو تفاسیر کی مدد سے سمجھا بھی سکیں اور اگر وہ کوشش بھی کریں تو اس کے لیے میسر وقت کم ہوتا ہے۔ نتیجتاً طلبہ ان سورتوں کے مطالب اچھی طرح سمجھے بنا ہی ترجمہ کو رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، سورتوں کے مطالب کی تفہیم پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ چنانچہ مرتبین نصاب کا مقصد اگر طلبہ میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا تھا تو یہاں حاصل نہیں ہو پا رہا۔

۸۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ

میٹرک کے نصاب میں قرآنی سورتوں کے اس طویل نصاب اور ان سورتوں کا ترجمہ رٹنے کی مشقت کی وجہ سے عملاً یہ ممکن نہیں کہ اس نصاب میں سیرت نبی، سیرت خلفاے راشدین، تعارف حدیث، تاریخ تدوین حدیث، اصول جرح و تعدیل، ماخذ شریعت اور دیگر ضروری موضوعات شامل کیے جا سکیں جیسا کہ اولیول کے نصاب میں شامل ہیں۔ سیرت نبی اور سیرت خلفاے راشدین کو تعلیمی نصاب کا حصہ نہ بنا سکنے کی بنا پر یہ میدان قصہ گو واعظوں اور غیر مستند معلومات کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک عام فرد کی سیرت نبی اور سیرت خلفاے راشدین سے متعلق معلومات عموماً نہایت سطحی ہوتی ہیں، چنانچہ یہ ادھوری، بلکہ بسا اوقات غلط معلومات مسلمانوں میں آپس کی فرقہ واریت، شدت پسندی، حد سے بڑھے ہوئے جذبات کی شکل میں مختلف المیوں کو جنم دیتی رہتی ہے۔ اس کا مناسب حل یہی ہے کہ ابتدائی تاریخ اسلام سے متعلق متوازن اور مستند معلومات کو نصاب کا حصہ بنایا جاتا۔

یہ درست ہےکہ اسلام کی ابتدائی تاریخ، خصوصاً شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے درمیان کچھ مقامات پر نزاعی نوعیت کی ہے، لیکن اس نزاع کے منفی نتائج سے بچنے کا حل بھی اس نزاع کا سامنا کرنا اور دونوں نقطہ ہاے نظر کو طلبہ کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان تاریخی نزاعات کا حل تو ممکن نہیں، لیکن ایک دوسرے کا نقطۂ نظر مثبت انداز میں احترام باہمی کے ساتھ جان لینے سے کم از کم وہ قوت برداشت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اختلاف کے رہتے ہوئے بھی اختلاف راے جھگڑے کا روپ نہیں دھارتا۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنے سے ہمارا سماج شدت پسندوں اور فرقہ پرست مقررین کی شعلہ بیانی کی وجہ سے نئی نسلوں میں ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت پیدا کرتا ہے۔ مکالمہ شدت پسندی کے خاتمہ کا بہترین ذریعہ ہے اس کی بنیاد نصاب کی صورت میں دسویں کی سطح پر کرنا بہترین حکمت عملی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے استاد کی مناسب تربیت کی ضرورت ہے جس کا اہتمام او لیول کی تعلیم کے حامل اسکول عموماً کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداے اسلام کی تاریخ پڑھانے کے باوجود او لیول کے اسکولوں میں فرقہ داریت پر مبنی کوئی نمایاں واقعہ اور رجحان ریکارڈ پر موجود نہیں۔ او لیول کے طلبہ میں مذہبی شدت پسندی بھی عموما ًدیکھنے میں نہیں آتی۔

۹۔ عقائد اور ارکان اسلام

بنیادی عقائد اور ارکان اسلام کی اہمیت مسلمہ ہے، لیکن شایداس بھروسے پر کہ نیچے کے درجوں میں یہ معلومات اسلامیات کے نصاب میں پڑھا دی جاتی ہیں، میٹرک کے نصاب میں شامل نہیں کی گئیں۔ یہ ایک مناسب جواز ہو سکتا ہے، تاہم اس درجے میں طلبہ کی سطح فہم زیادہ بہتر ہوتی ہے،نیز اس درجے کے طلبہ نو بالغ ہوتے ہیں۔ ارکان اسلام پر عمل کا وقت حقیقتاً یہی ہے۔ مناسب ہے کہ اس درجے میں بھی عقائد اور ارکان اسلام کے موضوعات شامل نصاب کیے جانے چاہییں۔

مزید برآں، یہ بھی ہونا چاہیے کہ اس عمر کے نو بالغ طلبہ کی جنسی اور اخلاقی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے متعلقہ آیات اور احادیث اور ابواب کو بھی شامل نصاب کیا جائے۔ معلومات کے وفور کے اس دور جدید میں جب ہر قسم کی معلومات انٹر نیٹ سے ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہوتی ہے، ان کی جنسی اور جذباتی ضروریات کے پیش نظر مواد شامل نصاب کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی درست رہنمائی کی جا سکے۔ ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن جیسا کھلا ڈھلا نصاب شامل نہیں کرنا تو اس کا متبادل بھی ہمیں مہیا کرنا ہوگا تاکہ اپنی دینی اور تہذیبی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے طلبہ کو اس قسم کے چیلنجز کے لیے بھی تیار کیا جا سکے۔ طہارت و پاکیزگی کے عنوان سے ایک باب شامل نصاب ہے، لیکن وہ طلبہ کی یہ ضروریات پوری نہیں کرتا۔

۱۰۔ ماخذ شریعت

اولیول کے نصاب میں شریعت کے بنیادی ماخذ ـــــــــ  قرآن، سنت، اجماع اور قیاس ـــــــــ  کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ اس سے دین کی علمی بنیادوں کے بارے میں طلبہ کو علم حاصل ہوتا ہے۔ نیز وہ اجتہاد کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہوتےہیں۔ میٹرک کے اسلامیات کے نصاب میں یہ موضوع سرے سے شامل ہی نہیں۔

۱۱۔ حدیث، تاریخ تدوین حدیث اور اصول جرح و تعدیل کا تعارف

او لیول کے اسلامیات کے نصاب میں نہ صرف ۱۵ احادیث نصاب کا حصہ ہیں، بلکہ تعارف حدیث، تاریخ تدوین حدیث، احادیث کو پرکھنے کے معیارات اور احادیث کی اقسام سے متعلق جامع موضوعات پر مشتمل تعارف، شامل نصاب ہے، جس سے طلبہ میں حدیث کے ساتھ علم و فہم پر مبنی رویہ استوار ہوتا ہے اور حدیث سے متعلق اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے۔ لیکن میٹرک کے اسلامیات کے نصاب میں یہ موضوعات سرے سے موجود نہیں۔

۱۲۔ سنی اور شیعہ کتب اور ائمہ کا تعارف

او لیول کے نصاب میں سنی مکتبۂ فکر کی صحاح ستہ کے علاوہ، شیعہ کی کتب اربعہ کا تعارف بھی شامل ہے۔ نیز اہل سنت و الجماعت کے ائمۂ اربعہ کے علاوہ ائمۂ اہل بیت کا تعارف بھی شامل ہے۔ اس طرح ایک ہی چھت کے نیچے اسلام کے دو بڑے مکاتب فکر کے طلبہ کا ایک دوسرے سے مثبت انداز میں تعارف کرانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ میٹرک کے نصاب میں ایسا کوئی مواد شامل نہیں۔ چنانچہ یہاں بھی یہ میدان خطبا اور ذاکرین کے لیے کھلا ہے جو ایک دوسرے کے منفی تعارف سے فرقہ داریت پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں یا کم از کم دونوں مکاتب کے افراد ایک ہی سماج میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مکمل طور پر اجنبی اور متنفر رہتے ہیں۔ جب تقابل ادیان کے مطالعہ کے تحت غیر اسلامی ادیان کا علمی تعارف و مطالعہ اس بنا پر کرایا جاتا ہے کہ دیگر مذاہب بھی ایک سماجی حقیقت ہیں، ان کا جاننا بھی ضروری ہے تو سنی اور شیعہ مکاتب فکر بھی ایک سماجی حقیقت ہیں ان کے بارے میں بھی تعارفی مواد نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔

۱۳۔ جہاد اور اقسام جہاد

لام او لیول میں جہاد، اقسام جہاد، مسلم ریاست کا دیگر ریاستوں سے تعلق کی نوعیت وغیرہ سے متعلق جامع موضوعات شامل ہیں، جب کہ میٹرک کے نصاب میں ہجرت و جہاد سے متعلق ایک باب شامل ہے جو مختصر ہونے کی بنا پر اس نازک موضوع کے ضروری پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتا۔

۱۴۔ متعین نصابی کتاب اور نامزد کتب

او لیول میں فقط نصاب فراہم کیا جاتا ہے، بورڈ کی طرف سے کوئی کتاب بطور نصابی کتاب نہیں دی جاتی۔ یہ طلبہ اور اساتذہ کے انتخاب پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ نصاب پر مشتمل کون کون سی کتب اور ماخذات سے تیاری کریں گے۔ البتہ کچھ کتب نامزد کر دی جاتی ہیں۔ لیکن میٹرک کی اسلامیات کا نصاب اور اس کی متعین نصابی کتاب بھی بورڈ کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ طلبہ میں دیگر کتب سے استفادہ اور جستجو کی راہ بند ہو جاتی ہے، بلکہ بنے بنائے نوٹس کی مدد سے وہ بغیر کچھ سمجھے امتحان کی تیاری کر کے پرچہ حل کرآتے ہیں۔ متعین کتاب کے بجاے کتب نامزد کرنی چاہییں۔

۱۵۔ سروے

مقالے کے موضوع سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک سروے راقم نے منعقد کیا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ والدین، اساتذہ اور تعلیمی ماہرین کے علاوہ مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والے والدین اور اساتذہ بھی شامل تھے، ان سب نے میٹرک کے نصاب کو ناقص قرار دیا اور ان میں سے جن افراد کو اولیول کے بارے میں بھی علم تھا، انھوں نے او لیول کے نصاب کو بہتر قرار دیا، تاہم کچھ افراد نے اسے بھی ناکافی قرار دیا۔ او لیول کے اساتذہ اور اولیول کے طلبہ کے والدین نے یہ اعتراف کیا کہ او لیول کے طلبہ کی دینی معلومات اور فہم میٹرک کے طلبہ کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ مولانا عمران بابر معلم اسلام آباد ماڈل کالج براے طلبہ جی سکس/ تھری کے مطابق، ’’اسلامیات کی کتب سازی اورکریکولم ونگ میں میٹرک اور انٹر کا تجربہ رکھنے والے اساتذہ کی نمایندگی معدوم ہے۔ یہاں یونیورسٹی کے وہ اساتذہ شامل ہیں جن کے تعلقات عامہ کا شعبہ تو مضبوط ہے، لیکن عملاً پڑھانے کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے... آپ ان کتابوں کے مصنفین کے ناموں پر بھی غور کرکے اصل نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ ویسے دونوں نصاب میں خامیاں موجود ہیں۔‘‘[9]

شہنیلہ بیلگم والا، معلم سینٹ کیتھولک ہائی اسکول دوبئی نے تبصرہ کیا: ’’میں پچھلے تیرہ سالوں سے religious studies پڑھا رہی ہوں او لیولز کو۔ اس کے موضوعات بہت ہی دل چسپ اور پریکٹیکل ہیں۔ بچوں کو بالکل رٹنا نہیں پڑتا۔ سمجھ کر خود جواب لکھتے ہیں اور اس سبجیکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘[10]

خلاصۂ کلام اور سفارشات

ی میٹرک کا نصاب غیر ضروری طور پر تین قرآنی سورتوں اور ان کے ترجمے کو یاد کرنے کی مشقت کی وجہ سے ایک غیر متوازن اور بوجھل نصاب ہے۔ قرآنی سورتیں بھی سب مدنی ہیں جو زیادہ تر جنگ و جہاد سے متعلق ہیں۔ جنگ و جہاد کا نازک موضوع جن احتیاطوں اور علمی نزاکتوں کا متقاضی ہے، وہ یہاں مفقود ہیں۔ اب جب کہ ریاست پاکستان جہاد سے متعلق نج کے مسلح گروہوں سے دست کش ہو چکی اور پیغام پاکستان کے نام سے شدت پسندی کے خلاف ایک متفقہ بیانیہ بھی اختیار کر چکی ہے، ہمارے میٹرک کے نصاب میں بھی اس نئے تناظر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

یہ نصاب طلبہ کی دینی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ نصاب میں سیرت نبی شامل ہے نہ سیرت خلفا، قانون اسلامی کے بنیادی ماخذات، تعارف حدیث، تاریخ تدوین حدیث، اصول جرح و تعدیل، جہاد اور اقسام جہاد، مسلم ریاست کے دیگر ریاستوں سے تعلقات، عقائد اسلام، ارکان اسلام وغیرہ جیسے ضروری موضوعات جو کہ اولیول کے اسلامیات کے نصاب میں شامل ہیں، میٹرک کے نصاب میں نہیں پائے جاتے۔

 متعین نصابی کتاب کے بجاے کتب نامزد کی جائیں اور کتب کا انتخاب اساتذہ اور طلبہ پر چھوڑ دیا جائے۔ شیعہ اور سنی ائمہ اور بنیادی کتب کا تعارف، دونوں مکاتب فکر کے بارے میں ایک مناسب تعارف ہے۔ اس سے اجنبیت کی دیواریں گریں گی اور اختلاف راے رکھتے ہوئے بھی باہمی احترام کی فضا ہموار ہوگی۔

او لیول کا اسلامیات کا نصاب جو جدید تعلیمی معیارات کے مطابق تیار کیا گیا ہے، میٹرک کے نصاب کی تیاری میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ نیشنل ایجوکیشنل پالیسی ۲۰۱۷ء - ۲۰۲۵ء، باب ششم ۲۰-۲۵، وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، پاکستان۔

[2]۔ اسلامیات، نصابی کتاب براے نہم و دہم، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ، لاہور۔

[3]. O Level Islamiyat, Syllabus for 2017, 2018, 2019, Code: 20158, Cambridge International Examination.

[4]. “Teaching Islamiat, Amin Valliani”, Newspaper Dawn, 7 Nov, 2014, https://www.dawn.com/news/1142758

[5]۔تفصیل کے لیے دیکھیے:جہاد، مزاحمت اور بغاوت از ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، کتاب محل، لاہور ۔

[6]۔تفصیل کے لیے دیکھیے: جہاد: ایک مطالعہ، عمار خان ناصر، المورد ،لاہور ۔

[7]. For details see, “Rise in extremism”, Arsla Jawaid, Newspaper Dawn, January 02, 2018, https://www.dawn.com/news/1380278

“Pakistani universities battle on-campus extremism”, “Extremism at universities is a complex threat, says an Institute of Strategic Studies report”, By Javed Mahmood, Pakistan Forward: http://pakistan.asia-news.com/en_GB/articles/cnmi_ pf/features/2017/10/17/feature-01 Extremism in Universities by Yaqoob Khan Bangash, Daily Times, Sep 19, 2017, https://dailytimes.com.pk/116285/extremism-in-universities/

’’مدرسے کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طالب علم لے رہے ہیں‘‘، ریاض سہیل، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی،۱۳؍ جولائی ۲۰۱۷ء، https://www.bbc.com/urdu/pakistan-40588909

۸۔ اختتامی نوٹ تفسیر سورۂ احزاب۶/ ۲۸۲۔

[9].  https://www.facebook.com/irfan.shahzad.2008/posts/2313779251986584? comment_id=2313795815318261&reply_comment_id=2313886285309214&notif_id=1552809059440022&notif_t=feed_comment

10۔  ایضاً۔


B