(قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے موضوع پر زیر تکمیل کتاب کی ایک فصل)
شاہ ولی اللہ پر قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اصول فقہ کی کلاسیکی بحث ایک طرح سے اپنے منتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے بعد کلاسیکی تناظر میں اس بحث میں کوئی خاص اضافہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ امام شافعی اور حنفی اصولیین کے مابین تخصیص کی ہر صورت کو بیان قرار دینے یا بعض صورتوں کو نسخ شمار کرنے کے حوالے سے جو اختلاف پیدا ہوا تھا، اس میں شافعی فقہا سمیت جمہور اصولیین کا عمومی رجحان بتدریج حنفی نقطۂ نظر کی طرف ہوتا چلا گیا اوریہ تسلیم کر لیا گیا کہ احادیث میں تخصیص وزیادت کی جو مثالیں ثابت ہیں، ان میں سے بعض کو نسخ قرار دیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور یہ کہ اصولاً قابل اطمینان احادیث سے قرآن کا نسخ جائز ہے۔ تاہم اس رجحان کی شیوع کی بنیادی وجہ، جیسا کہ ہم نے تفصیلاً دیکھا، یہ تھی کہ اصولیین کو بعض روایات کو ان کے ظاہر کے لحاظ سے تبیین کے اصول پر قرآن سے متعلق کرنا مبنی بر تکلف محسوس ہو رہا تھا اور اس کے لیے دلالت کلام کے بنیادی تصورات پر ایک طرح کا سمجھوتا کرنا پڑتا تھا۔ اس الجھن سے بچنے کے لیے اصولیین کے ایک بڑے گروہ کو احناف کا یہ موقف زیادہ معقول دکھائی دیا کہ سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کو اصولاً درست تسلیم کر لیا جائے۔
ق یوں دلالت کلام کے حوالے سے درپیش الجھن کا ایک عملی حل تو نکال لیا گیا، تاہم سنت کو قرآن کا ناسخ قرار دینے پر جو اصولی اشکالات واعتراضات وارد ہوتے تھے، وہ اپنی جگہ برقرار تھے۔ نہ صرف یہ، بلکہ بعض مثالوں میں حدیث میں وارد تخصیص یا زیادت کو نسخ کے اصول پر بھی قرآن سے متعلق کرنا اتنے تکلفات کو مستلزم تھا کہ علمی ذہانت مجبوری ہی کے درجے میں اس پر مطمئن ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اصولیین کے اس رجحان کے باوجود امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے ایک بار پھر یہ کوشش کی کہ سنت کو قرآن کا ناسخ قرار دینے کے بجاے متعلقہ مثالوں کی ایسی تفہیم وتوجیہ کی جائے جس سے نسخ کو ماننا لازم نہ آتا ہو۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ نے پرزور انداز میں امام شافعی کے اس موقف کی تائید کی ہے کہ سنت، قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتی اور یہ کہ ایسی تمام مثالوں میں ناسخ خود قرآن میں موجود ہے۔ ابن تیمیہ اس بحث میں بنیادی طور پر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۰۶ سے استدلال کرتے ہیں، جس کی رو سے ناسخ کا منسوخ سے بہتر یا اس کے مساوی ہونا ضروری ہے۔ ابن تیمیہ یہاں بہتری یا برابری کے مفہوم میں درجے اور فضیلت میں برابری کو بھی شامل قرار دیتے ہیں اور چونکہ سنت، درجے اور فضیلت کے اعتبار سے قرآن کے مساوی نہیں، اس لیے وہ قرآن کے حکم کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ ابن تیمیہ اس سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ صحابہ وتابعین کے آثار میں قرآن کے کسی حکم کی منسوخی کا ذکر کرتے ہوئے قرآن ہی کے کسی دوسرے حکم کا حوالہ ملتا ہے اور کوئی ایسی مثال موجود نہیں جس میں انھوں نے قرآن کے حکم کے ناسخ کے طور پر کسی حدیث کا حوالہ دیا ہو (مجموع الفتاویٰ ۱۷/ ۱۹۵- ۱۹۸)۔
ابن تیمیہ نے یہ واضح کرنے کے لیے قرآن کے منسوخ احکام کا ناسخ لازماً قرآن میں ہی موجود ہوتا ہے، ایک تو ورثاکے حق میں وصیت کی منسوخی کی مثال بیان کی ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ والدین اور اقرباکے حق میں وصیت کی ہدایت کو آیت مواریث نے منسوخ کیا ہے، کیونکہ اس میں ورثا کے حصے مقرر کرنے کے بعد اس میں تعدی کرنے پر جہنم کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، جس کامطلب یہ ہے کہ ورثاکو مقررہ حصوں سے زیادہ دینا حدود اللہ سے تجاوز کے مترادف ہے اور اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وصیت کے ذریعے سے بھی ان حصوں میں زیادتی نہیں کی جا سکتی (مجموع الفتاویٰ ۱۷/ ۱۹۸)۔
ابن تیمیہ نے اس ضمن میں دوسری مثال رجم کے حکم کی پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سورۂ نور میں زانیوں کے لیے کوڑوں کی جو عمومی سزا بیان کی گئی ہے، اسے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت کے ذریعے سے منسوخ کر دیا گیا تھا جو قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی (بخاری، رقم ۶۳۲۸) اور بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی ہے (ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۰/ ۳۹۸ - ۳۹۹)۔
ابن تیمیہ یہاں اس الجھن سے کوئی تعرض نہیں کرتے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو بظاہر اس کی معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔اگر شارع کے پیش نظر رجم کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اسے اس سے نکال کیوں لیا گیا، کیونکہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بہرحال ان کی طرف سے مذکورہ طرز استدلال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جمہور اصولیین کی طرف سے نسخ القرآن بالسنۃ کے جواز کو مجبوراً قبول کر لیے جانے کے باوجود اس پر اصولی عدم اطمینان اہل علم کے ذہن میں باقی رہا اور نسخ کے قول سے بچنے کے لیے ایسی کم زور توجیہات بھی گوارا کی گئیں جن کے مطابق قرآن میں نازل ہونے والی آیت تو منسوخ ہو چکی ہے، لیکن اس کا حکم اب بھی باقی ہے۔
امام شاطبی اور پھر شاہ ولی اللہ نے سنت میں بیان ہونے والی زیادات اور تخصیصات کی تفہیم شریعت کے عمومی مقاصد اور تشریعی اصول کے تحت کرنے کا منہج اختیار کیا جو بہت متاثر کن اور ان کی غیر معمولی ذہانت کا مظہر ہے اور بیش تر مثالوں میں اس کی تطبیق بھی بہت معقول اور اطمینان بخش دکھائی دیتی ہے، لیکن بعض جزوی مثالوں کی توجیہ میں یہ منہج بھی زیادہ مطمئن نہیں کرتا۔ ان میں رجم کی سزا کا اضافہ کرنے والی احادیث، مثال کے طو رپر، سب سے نمایاں ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے منہج میں اصول تشریع کے لحاظ سے عقلی طور پر تو یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے کہ جرم کی سنگینی کے لحاظ سے سزا میں بھی اضافہ ہونا چاہیے، لیکن وہ دلالت نصوص کے زاویے سے اس اشکال کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ اگر قرآن کا مدعا کوڑوں کی سزا کو صرف کنوارے زانیوں کے لیے بیان کرنا تھا تو اس کے لیے تخصیص کے کسی قرینے کے بغیر عموم کا اسلوب کیوں اختیار کیا گیا۔
یوں اصولیین کا جو مکتب فکر سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کو اصولاً درست نہیں سمجھتا، اس کے زاویۂ نظر سے بعض خاص مثالوں کے حوالے سے یہ الجھن مختلف اور متنوع کاوشوں کے باوجود باقی تھی کہ ان کی تفہیم نسخ کے اصول کو بروے کار لائے بغیر کیسے کی جائے۔
تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری میں سنت کی تشریعی حیثیت اور قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث ایک نئے فکری تناظر میں ازسرنو اہل علم کے غور وخوض اور مباحثہ ومناقشہ کا موضوع بنی۔ اس نئے فکری تناظر کی تشکیل میں جدید سائنس اور جدید تاریخی وسماجی علوم کے پیدا کردہ سوالات نیز ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے حوالے سے مستشرقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا کردار بنیادی ہے۔ جیسا کہ ہم نے تفصیلاً دیکھا، کلاسیکی تناظر میں بنیادی نکتۂ نزاع سنت کی تشریعی حیثیت کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا نہیں تھا، بلکہ احادیث کے ثبوت کے، قرآن کے مقابلے میں، ظنی ہونے کے پہلو سے بعض ایسی احادیث زیر بحث تھیں جو قرآن کے ظاہری عموم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف، دور جدید میں بعض فکری حلقوں کی طرف سے جو بنیادی سوال اٹھایا گیا، وہ فی نفسہٖ سنت کی تشریعی حیثیت سے متعلق ہے، جب کہ احادیث کے ظنی الثبوت ہونے اور ذخیرۂ حدیث کے تاریخی استناد کے علاوہ احادیث میں، ظاہر قرآن میں تخصیص وزیادت کی مثالوں کو سنت کی تشریعی حیثیت کی نفی کے معاون اور موید دلائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران میں عالم اسلام کے طول وعرض میں یہ بحث اہم ترین اعتقادی واصولی سوال کے طور پر اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور بلا مبالغہ سینکڑوں اہل علم نے ان سوالات کو اپنے اپنے انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ زیر نظر سطور میں ہمارے پیش نظر اس خاص علمی رجحان کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے جس کی اصولی ابتدا برصغیر کے جلیل القدر عالم اور مفسر مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ہوئی اور جو کئی اہم اضافوں کے ساتھ اپنی تفصیلی شکل میں جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔
مولانا حمید الدین فراہی کے ہاں ان مباحث پر غور وفکر کا آغاز قرآن مجید کی تفسیر کے اصول وقواعد کی تعیین کے حوالے سے ہوا تھا جس نے جدید سائنس کے پیدا کردہ سوالات کے تناظر میں ایک خاص اہمیت اختیار کر لی تھی۔ سرسید احمد خان نے قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں جن میں مختلف انبیا کے معجزات کا ذکر ہوا ہے، یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ جدید سائنس نے قوانین فطرت کے مطالعے کی روشنی میں قطعی طور پر یہ دریافت کر لیا ہے کہ ان قوانین میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور خود قرآن مجید بھی ’سنت اللہ‘ کے تبدیل نہ ہونے کی بات بیان کرتا ہے، اس لیے خرق عادت کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ اس بحث میں سرسید نے ایک مستقل تفسیری اصول کے طور پر یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ اللہ کا کلام، (یعنی قرآن) اور اللہ کا فعل، (یعنی قوانین فطرت) باہم متعارض نہیں ہو سکتے، اس لیے معجزات سے متعلق آیات کی جو تفسیرعلماے سلف نے عموماً کی ہے، وہ درست نہیں ہو سکتی اور ان کا ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو سائنس کی فراہم کردہ نئی معلومات اور قوانین فطرت کے مشاہدے سے ہم آہنگ ہو۔
آیات کے ظاہری مفہوم میں تاویل کی بحث کلاسیکی اسلامی روایت میں بھی مختلف حوالوں سے موجود تھی اور خاص طور پر معتزلی واشعری متکلمین یہ اصولی موقف رکھتے تھے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یقینی عقلی دلائل کے معارض ہو تو آیت کی تاویل ضروری ہے۔ فقہی مضمون رکھنے والی آیات کے حوالے سے اسی نوعیت کا موقف، نسبتاً مختلف تناظر میں، امام شافعی نے پیش کیا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر حدیث میں کسی حکم کی تشریح اس طرح کی گئی ہو جو آیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہو تو آیت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہے جو حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ قرآنی آیات کی ظاہری دلالت کے حوالے سے مفسرین کا عمومی رجحان بھی یہی ہے کہ ان میں ایسی قطعیت نہیں پائی جاتی جس سے کسی ایک ہی مفہوم کا حتمی طور پر مراد ہونا طے کیا جا سکے، چنانچہ تفسیری ذخیرے میں بیش تر آیات کی ایک سے زیادہ قریب یا بعید تاویلیں ذکر کرنے کا اسلوب عام ہے اور اس کے لیے الفاظ کے مختلف ممکنہ مفاہیم کے علاوہ تفسیری روایات وآثار سے بھی استشہاد کیا جاتا ہے۔
اس پس منظر میں مولانا فراہی نے قرآن مجید کے الفاظ واسالیب کی دلالت اور مختلف احتمالات میں سے کسی احتمال کی تعیین کے سوال سے بطور خاص اعتنا کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کے الفاظ اور تعبیرات قطعی الدلالۃ ہیں جو ایک ہی متعین مراد کی نشان دہی کرتے ہیں اور یہ کہ فہم مدعا کے اس عمل میں قرآن کے اپنے الفاظ، اسالیب، سیاق وسباق، عرف اور نظم کلام فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ اس بنیادی موقف کی روشنی میں مولانا فراہی نے تاویل وتفسیر کے تمام معاون ذرائع، مثلاً احادیث وآثار اور تاریخی روایات پر قرآن کے اپنے الفاظ کی حاکمیت کو ہر حال میں قائم رکھنے کے اصول پر اصرار کیا اور یہ قرار دیا کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ایسی روایات جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں، وہ تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے (مجموعہ تفاسیر فراہی)۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کیا اور ان پر تنقید کی(مجموعہ تفاسیر فراہی)۔
مولانا فراہی نے اپنے اسی اصولی موقف کے تحت اپنی مختلف تصانیف میں حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلوؤں پر بھی اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی اور احادیث کے ذریعے سے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ ومستنبط قرار دیا ہے جو بظاہر قرآن کے حکم سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
فهذہ ثلاثة أقسام موجودة، وأما القسم الرابع وهو ما یزید علی الکتاب من الأحکام التي لا یحتملها الکتاب وکذالک القسم الخامس الذي ھو مخالف ما في الکتاب فھذان قسمان مفروضان لا وجود لھما في الحقیقة فإن فیھما نسخًا خفیًا أو جلیًا للکتاب. (احکام الاصول ۶)
’’یہ تینوں اقسام (جن میں سنت، قرآن میں موجود کسی قرینے کی روشنی میں حکم کی تخصیص کرتی ہے) موجود ہیں، لیکن جہاں تک چوتھی قسم کا تعلق ہے جس میں حدیث، کتاب اللہ پر ایسے احکام کا اضافہ کرے جن کا کتاب اللہ احتمال نہیں رکھتی، اور اسی طرح پانچویں قسم جس میں حدیث، کتاب اللہ کے خلاف ہو، تو یہ دو قسمیں محض فرضی ہیں، ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں، کیونکہ ان دونوں صورتوں میں کتاب اللہ کا واضح یا مخفی نسخ پایا جاتا ہے (جو جائز نہیں)۔‘‘
سنت میں مذکور زائد احکام یا تخصیصات کو قرآن پر مبنی قرار دینے میں مولانا فراہی کا زاویۂ نظر امام شاطبی اور شاہ ولی اللہ کے قریب تر ہے اور وہ متعلقہ مثالوں میں عموماً قرآن کے حکم کی علت ومصلحت یا تشریع کے عمومی مقاصد اور اصولوں کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ احادیث میں ان احکام کا کیسے قرآن سے استنباط کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر کسی عورت کے ساتھ اس کی پھوپھی یا خالہ کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں کہ چونکہ ہماری ملت میں احکام وشرائع مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی روشنی میں ہمارے لیے حکم کے ایسے پہلو بھی واضح فرما دیتے ہیں جو قرآن میں صراحتاً مذکور نہیں، لیکن اس کے حکم کی دلالت میں شامل تھے۔ چنانچہ دو بہنوں کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت چونکہ حیا اور صلۂ رحمی کی وجہ سے کی گئی ہے، اس لیے یہ نامناسب ہوتا کہ پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کی اجازت دے دی جائے۔ قرآن مجید نے اس اصول کے تحت جو صورت ممکنہ طور پر زیادہ عام الوقوع ہو سکتی تھی، یعنی دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کرنا، اس کا ذکر کر دیا، جب کہ نادر صورتوں کا بیان اپنے عام اسلوب کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کر دیا (احکام الاصول ۸)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعے میں ایک صحابی کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے ترکے میں ایک تہائی سے زیادہ صدقے کی وصیت نہ کرے۔ جمہور فقہا اس کی بنیاد پر وصیت کے حق کو ترکے کے ایک تہائی تک محدود قرار دیتے اور مذکورہ حدیث کو قرآن کی تخصیص کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مولانا فراہی فرماتے ہیں کہ اصولاً یہ تحدید قرآن سے یوں مستنبط ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے ترکے میں تین حقوق بیان فرمائے ہیں، یعنی ورثا، مرنے والے کی وصیت اور قرض خواہ۔ اس سہ گانہ تقسیم سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تینوں مدات کے لیے ترکے کا ایک ایک حصہ صرف کیا جانا چاہیے۔ تاہم چونکہ یہ مقدار قرآن نے نصاً بیان نہیں کی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے زیادہ کی وصیت کو حرام قرار نہیں دیا، بلکہ اس طرف توجہ دلائی کہ اس سے زیادہ وصیت تقسیم وراثت کے احکام کے مقاصد اور حکمتوں کے خلاف ہے۔ البتہ مولانا کی راے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ یہ بات ایک خاص واقعے میں ارشاد فرمائی ہے، اس لیے اسے منصوص معنوں میں تو عمومی ممانعت نہیں سمجھا جا سکتا، اگرچہ مصلحت کے پہلو سے اس کی عمومی پابندی کرنا مناسب ہے تاکہ ورثا کے حق کی حفاظت کی جا سکے (احکام الاصول ۲)۔
تاہم مولانا فراہی اس طرز استدلال کی ایسی تعمیم کو درست نہیں سمجھتے جس میں قرآن کے الفاظ کی داخلی دلالت کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ اس پہلو سے وہ حنفی اصولیین کے نقطۂ نظر سے اتفاق رکھتے ہیں کہ قرآن کی داخلی دلالت اگر حکم کے دائرۂ اطلاق پر قطعی اور واضح ہو تو اس میں تخصیص یا اس پر زیادت نسخ کے زمرے میں آتی ہے۔ احناف ایسی صورت حال میں حدیث کے مشہور ومستفیض ہونے کی شرط کے ساتھ قرآن کی تخصیص کو قبول کر لیتے ہیں، لیکن مولانا کے نزدیک حدیث کسی بھی حال میں قرآن کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ اس تناظر میں مولانا نے متعدد احادیث کی ان معروف توجیہات وتعبیرات سے اختلاف کیا ہے جن کی بنیاد حدیث کے ذریعے سے قرآن کے حکم کے نسخ کے تصور پر ہے۔
اس ضمن میں اہم ترین مثال وہ احادیث ہیں جن میں کنوارے زانی کے لیے سو کوڑوں کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی کی اور شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کے ساتھ رجم کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ مولانا فراہی ان کو قرآن کا ناسخ قرار دینے کے موقف کو درست نہیں سمجھتے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
وأما بعد النبي فلیس المعول علی ما خالف محکم القرآن وحدیث الرجم منه لا ثقة به وقد قال عبد اللہ ابن أوفی: لا أدري هل نزلت سورة النور قبله أو بعده. (اصول الشرائع ۲۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی حدیث پر جو قرآن کے محکم حکم کے معارض ہو، اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ آپ سے رجم کی جو حدیث مروی ہے، اس (کو قرآن کے حکم کا ناسخ سمجھنے) کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں، جب کہ عبد اللہ بن ابی اوفی ٰ نے بھی کہا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ سورۂ نور، رجم کے واقعے سے پہلے نازل ہوئی یا بعد میں۔‘‘
مولانا کہتے ہیں کہ ان احادیث کا ماخذ قرآن میں مخفی رہنے کی وجہ سے علما نے انھیں قرآن کے حکم کے لیے ناسخ قرار دیا ہے جو درست نہیں۔ مولانا کی راے میں درست صورت حال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، پہلی مرتبہ پکڑے جانے پر سو کوڑے ہی لگانے کی ہدایت فرمائی ہے، جب کہ اس کے بعد دوبارہ ماخوذ ہونے کی صورت میں یہ ہدایت کی ہے کہ اب ان پر زیادہ سخت سزا جاری کی جائے، کیونکہ اس صورت میں زنا کے ساتھ ساتھ حدود اللہ کے باب میں تجاسر کا جرم بھی شامل ہو گیا ہے۔ مولانا یہ واضح کرنے کے لیے کہ جرم کی سنگینی کی وجہ سے سزا میں اضافہ کرنا تشریع کے اصولوں میں سے ایک مستقل اصول ہے، سورۂ مائدہ کی آیت حرابہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں جرم کے مختلف مدارج کے لحاظ سے ہلکی، سخت اور سخت ترین سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
آیت محاربہ کے علاوہ مولانا اس اصول کی نظیر کے طور پر سورۂ احزاب میں منافقین سے متعلق وارد ہدایت ’الَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا ‘ اور بنو قریظہ کے واقعے کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصول کی روشنی میں سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطنی اور رجم کی سزا کا اضافہ کیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ پہلی دفعہ ارتکاب جرم پر مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، قرآن کے حکم کے مطابق سو کوڑے لگائے جائیں گے، جب کہ باز نہ آنے اور دوبارہ زنا کے ارتکاب پر کنوارے زانی کو کوڑے لگانے کے بعد جلا وطن، جب کہ شادی شدہ زانی کو سنگ سار کیا جائے گا۔ مولانا کہتے ہیں کہ ماعز کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی نوعیت کے جرم کے مرتکب ہوئے تھے (احکام الاصول ۱۰۔ اصول الشرائع ۹)۔
حدیث کے ذریعے سے قرآن کی تخصیص پر اسی نوعیت کا سوال مولانا نے آیات میراث میں کلالہ کی تفسیر کے ضمن میں اٹھایا ہے۔ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۲ میں ’وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امْرَاَةٌ وَّلَهٗ٘ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ‘ کی تفسیر میں جمہور فقہا ومفسرین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہاں مرنے والے کے والدین اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے بہن بھائیوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے، تاہم یہاں بہن بھائیوں سے مراد صرف ماں شریک بہن بھائی ہیں، کیونکہ سورہ کی آخری آیت میں اللہ تعالی ٰ نے بہن بھائیوں کا حصہ دوبارہ بیان کیا ہے اور وہاں عینی یا علاتی بہن بھائی مراد ہیں۔ اس تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں بہن بھائیوں کا حصہ ایک سدس یا ثلث بتایا گیا ہے، جب کہ آخری آیت میں بہن بھائیوں کو مختلف صورتوں میں بعینہٖ اتنے حصوں کا حق دار قرار دیا گیا ہے جو آیت میں اولاد کے لیے بیان ہوئے ہیں۔ جمہور کے نزدیک ان دو بظاہر متعارض حکموں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ آیت کو ماں شریک بہن بھائیوں، سے جب کہ آخری آیت کو سگے اور باپ شریک بہن بھائیوں سے متعلق قرار دیا جائے اور اس کی تائید سعد بن ابی وقاص سے منسوب ایک قراء ت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیت میں ’وَلَهٗ٘ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ‘ کے ساتھ ’من ام‘ کے الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے۔
مولانا فراہی فرماتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ اور سیاق وسباق میں آیت کو ماں شریک بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص قرار دینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں اور قرآن کے باہر کی کسی دلیل سے ایسی تخصیص پید اکرنا جس کا قرینہ قرآن میں موجود نہ ہو، درست نہیں۔ چنانچہ مولانا نے مذکورہ آیات کی ایک مختلف تاویل بیان کی ہے جو جمہور کی راے سے مختلف ہے۔ مولانا کے نزدیک ان دونوں آیات میں کسی فرق کے بغیر مرنے والے کے سبھی بہن بھائیوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے، البتہ یہاں حکم کے بیان میں تدریج کا اصول ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چونکہ بہن بھائیوں کو ترکے میں حصہ دار تسلیم کرنا لوگوں کے لیے مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے پہلے مرحلے پر بہن بھائیوں کو بالکلیہ اولاد کے قائم مقام قرار دینے کے بجاے انھیں جزوی طور پر، یعنی ایک سدس یا ثلث میں حصہ دار قرار دیا اور پھر تعمیل حکم کے لیے آمادگی پیدا ہو جانے کے بعد سورہ کے آخر میں پورا حکم بیان کر دیا گیا (اصول الشرائع ۳۰)۔
سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ یا تخصیص کے باب میں اسی نقطۂ نظر کو مولانا امین احسن اصلاحی نے آگے بڑھایا اور اطلاق وانطباق کی سطح پر قرآن مجید اور احادیث کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے کئی اہم اضافے کیے ہیں۔ اس حوالے سے مولانا کے نتائج فکر ’’تدبر قرآن‘‘ میں متعلقہ آیات کے تحت بھی بیان ہوئے ہیں اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے عنوان سے ان کے محاضرات میں بھی اس سوال کے حوالے سے ان کا اصولی موقف بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
’’مبادی تدبر حدیث‘‘ میں مولانا نے قرآن کے ساتھ سنت کے تعلق کے ضمن میں درج ذیل تین سوالات پر کلام کیا ہے:
پہلا یہ کہ قرآن کے مجمل اور اصولی احکام کی تفصیل میں سنت کی کیا اہمیت ہے؟
دوسرا یہ کہ کیا سنت، قرآن کے کسی حکم کی ناسخ ہو سکتی ہے؟
تیسرا یہ کہ کیا سنت، قرآن کے عموم کی تخصیص یا اس پر زیادت کر سکتی ہے؟
پہلے سوال کے حوالے سے مولانا کہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کا معنوی تعلق روح اور قالب کا ہے جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور دونوں کا احترام اور اتباع واجب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید نے زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس کے صرف چاروں گوشے متعین کر دیے ہیں، اس کے اندر رنگ بھرنے کا کام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا۔ اس کو ممثل اور مشکل کرنا سنت کا کام ہے۔ قرآن نے دین کے کلیات اور اصول ومبادی پر جامع بحث کی ہے، لیکن کسی باب میں بھی تفصیلات اس میں نہیں ملتیں۔ ... ان سب تفصیلات کو جاننے کے لیے ہمیں سنت اور حدیث کے علم کا سہارا لینا پڑتا ہے۔‘‘ (مبادی تدبر حدیث ۳۳- ۳۴)
تاہم مولانا سنت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اس طرح کی تعبیرات کو بھی غلو اور بے اعتدالی کا مظہر قرار دیتے ہیں کہ ’’سنت جتنی قرآن کی محتاج ہے، اس سے زیادہ قرآن، سنت کا محتاج ہے۔‘‘ مولانا کہتے ہیں کہ ’’...اگر قرآن نہ ہو تو سنت کیا کرے گی؟ اس کی عمارت کس چیز پر استوار ہوگی؟ سنت کی اساس تو بہرحال قرآن مجید ہی ہے۔ اس کے بغیر سنت کھڑی نہیں ہو سکتی‘‘ (مبادی تدبر حدیث ۳۸)۔
ایک دوسرے مقام پر مولانا نے سنت اور حدیث کے، تمام تر قرآن سے مستنبط ہونے کے نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا اور جو کچھ فرمایا، سب سرتاسر قرآن سے ماخوذ ہے۔ اوپر ضمناً امام شافعی کا قول نقل ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے فیصلے فرمائے، سب قرآن مجید سے ماخوذ ہیں۔ ... ایسی حالت میں قرآن اور حدیث میں تعارض کیونکر ہو سکتا ہے۔ عموماً لوگ احادیث کے ذخیرہ میں سے صرف اتنے ہی حصہ کو قرآن سے متعلق سمجھتے ہیں جو ابواب تفسیر کے عنوان سے درج ہوتا ہے، بقیہ کو قرآن سے غیرمتعلق خیال کرتے ہیں، حالانکہ حدیث سرتاسر فہم قرآن ہے۔ احادیث پر اگر دقت نظر کے ساتھ غور کیا جائے تو حدیث وقرآن کا گہرا تعلق نہایت واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے۔‘‘ (مبادی تدبر قرآن ۱۶۷)
دوسرے سوال کے حوالے سے مولانا امام شافعی اور جمہور محدثین کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ سنت یا حدیث، قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے مولانا نے سورۂ یونس (۱۰) کی آیت ۱۵ ہی کا حوالہ دیا ہے جو امام شافعی کے بعد اس نقطۂ نظر کے مویدین کا ہمیشہ سے مستدل رہی ہے۔ مولانا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’قرآن مجید خدا کی طرف سے آیا ہے تو اس میں تبدیلی کا حق اسی کو ہے۔ اس کے کسی حکم کو تبدیل کیا ہے تو اللہ تعالی ٰ ہی نے کیا ہے اور ناسخ اور منسوخ، دونوں قرآن میں موجود ہیں۔ ... جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام ہی نہیں ہے کہ وہ قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکیں تو ان کی طرف منسوب کسی سنت یا حدیث کو آپ یہ درجہ کس طرح دے سکتے ہیں کہ وہ قرآن میں کوئی تبدیلی کر سکتی ہے‘‘ (مبادی تدبر حدیث ۴۰- ۴۱)۔
ہم حدیث سے قرآن کے نسخ کے عدم جواز کے حق میں مولانا قرآن کے اصل اور حدیث کے فرع ہونے کے نکتے کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ قرآن جس طرح تمام کتب سابقہ کے لیے کسوٹی ہے، اسی طرح تمام کتب مابعد کے لیے بھی کسوٹی ہے۔ چنانچہ ’’...اگر کسی روایت اور آیت میں تعارض ہوگا تو آیت کی تاویل نہیں کی جائے گی، روایت کی تاویل کی جائے گی، آیت اپنی جگہ پر بدستور قائم رہے گی‘‘ (مبادی تدبر قرآن ۱۶۷)۔
حدیث وسنت سے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص کے امکان کے حوالے سے مولانا نے یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ یہاں تخصیص کی نوعیت متعین کرنا بنیادی طور پر اہم ہے۔ اگر تخصیص ، قرآن کے مدعا ہی کو واضح کرتی ہو اور اس سے ’’کسی ایسی چیز کے اس عموم میں شامل ہونے کی راہ مسدود ہو جائے جس کا شامل ہونا لفظ کے مفہوم اور آیت کے منشا کے خلاف ہے تو یہ تخصیص نہ صرف حدیث وسنت کے ذریعے سے، بلکہ ہمارے نزدیک قیاس و اجتہاد کے ذریعے سے بھی ہو سکتی ہے‘‘ (مبادی تدبر حدیث ۴۱)۔
مولانا کی تحقیق کے مطابق احادیث میں وارد تخصیصات یا زیادات بیش تر اسی نوعیت کی ہیں اور مولانا نے اپنی تصانیف میں مختلف مقامات پر ان تخصیصات کے قرائن خود قرآن مجید کے حکم میں واضح کیے ہیں۔ یہاں اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے وضو کرتے ہوئے پاؤں کو دھونا ثابت ہے۔ اس پر بظاہر قرآن مجید کی آیت سے اشکال ہوتا ہے جس میں ’فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَي الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘ (المائدہ ۵: ۶) کے الفاظ آئے ہیں اور ’اَرْجُلَكُمْ ‘ کا عطف اس سے بالکل متصل ’رُءُوْسَكُمْ ‘ پر ہونے سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ پاؤں کا وظیفہ بھی مسح کرنا ہے۔ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ اگر پاؤں کا حکم مسح ہوتا تو اس کے ساتھ ’اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘ کی قید بالکل غیر ضروری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وضو میں ہاتھ دھونے کا حکم بیان کرتے ہوئے تو ’اِلَي الْمَرَافِقِ ‘ کی قید ذکر کی گئی ہے، لیکن تیمم میں مسح کا حکم دیتے ہوئے اس کو حذف کر دیا گیا ہے، کیونکہ مسح میں اس قسم کی پابندی بالکل غیر مفید بات تھی (تدبرقرآن ۲/ ۴۶۸)۔
یہی نکتہ امام الحرمین الجوینی اور الکیا الہراسی نے بھی پیش کیا ہے (البرہان فی اصول الفقہ ۱/ ۵۴۹۔ الکیا الہراسی، احکام القرآن ۲/ ۴۱) اور علمی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ عمومی استدلال کی رو سے قرآن مجید کا زیر بحث حکم فی نفسہ ٖصریح نہ ہونے کی وجہ سے محتمل اور قابل تاویل ہے جس کی تفسیر وتفصیل سنت میں کی گئی ہے، جب کہ الجوینی اور مولانا اصلاحی کے استدلال کے مطابق خود قرآن مجید میں ایک واضح قرینہ موجود ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ’اَرْجُلَكُمْ ‘ کا تعلق کسی بھی طرح ’وَامْسَحُوْا‘ کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور اسے ’فَاغْسِلُوْا‘ سے متعلق ماننا ہی بلاغت کلام کا مقتضی ہے۔
۲۔ وضو کرتے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی رخصت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی روایا ت میں ثابت ہے، تاہم قرآن مجید میں پاؤں کو دھونے کے حکم کے تناظر میں یہ روایات صدر اول میں خاصی بحث و نزاع کا موضوع رہی ہیں۔ خوارج نے ان روایات کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا، جب کہ فقہاے صحابہ میں سے بعض نے یہ راے اختیار کی کہ یہ طریقہ سورۂ مائدہ کی آیت نازل ہونے کے بعد منسوخ ہو چکا ہے۔ جمہور فقہا نے، البتہ اس رخصت کو قرآن کے حکم کی تبیین کے طور پر، جب کہ فقہاے احناف نے سنت مشہورہ سے قرآن کی تخصیص کی مثال کی حیثیت سے قبول کیا۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک یہ رخصت قرآن مجید کے بیان کردہ ایک بنیادی اصول تشریع، یعنی تیسیر پر مبنی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ نے ’يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ‘کے الفاظ میں ایک اصولی ہدایت بیان فرما دی ہے اور اسی کے تحت بہت سے شرعی احکام میں رعایتیں دی ہیں۔ موزے پر مسح کی رخصت بھی اسی اصول کی ایک فرع ہے (تدبر حدیث، شرح صحیح البخاری ۱/ ۳۰۰)۔
ی ۳۔ سورۂ نساء (۴: ۱۰۱) میں سفر کی حالت میں دشمن کے خوف کی صورت میں نماز کو قصرکرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کو حالت خوف تک محدود نہیں رکھا، بلکہ عام اسفار میں بھی اس رخصت پر عمل فرمایا۔ جمہور فقہا نے عموماً اس قید کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ بطور احتراز نہیں، بلکہ اس واقعاتی تناظر میں آئی ہے جس کا اس آیت کے نزول کے وقت مسلمانوں کو سامنا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اسی بات کو واضح فرمایا ہے کہ حالت خوف کی قید، اس رخصت کو صرف اس حالت تک محدود رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ مولانا اصلاحی اس راے سے اتفاق کرتے ہیں اور اس کی تائید میں سفر جہاد اور عام سفر میں اشتراک علت کے علاوہ قرآن مجید کے اسلوب سے یہ قرینہ بھی پیش کرتے ہیں کہ یہاں ’وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ‘ کے آئے ہیں جو ہر سفر کے لیے عام ہیں اور اس میں سفر جہاد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا تقاضا یہی ہے کہ قصر کی اجازت ہر سفر کے لیے عام ہو، جب کہ اس کے بعد ’اِنْ خِفْتُمْ ‘کی شرط صرف آیت کے موقع نزول کی مناسبت سے ذکر کی گئی ہے جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ رخصت سفر جہاد ہی کے ساتھ مخصوص ہے (تدبر قرآن ۲/ ۳۷۰)۔
۴۔ پھوپھی اور بھتیجی کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ اسی علت ، یعنی رحمی رشتوں کو جلاپے اور رشک ورقابت کے جذبات سے محفوظ رکھنے پر مبنی ہے جس کے تحت دو بہنوں کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے۔ چونکہ یہی صورت خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کی شکل میں بھی موجود تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرما دیا (تدبر قرآن ۲ / ۲۷۶)۔
۵۔ قرآن مجید میں حرمت رضاعت کا ذکر کرتے ہوئے مقدار رضاعت کا ذکر نہیں کیا گیا، جب کہ احادیث میں حرمت رضاعت کو بچے کے دودھ پینے کی عمر تک محدود قرار دیا گیا ہے اور اتفاقاً ایک دو گھونٹ پی لینے کو حرمت کا موجب تسلیم نہیں کیا گیا۔ مولانا اصلاحی ان احادیث کو قرآن ہی کے منشا کا بیان قرار دیتے ہیں، کیونکہ ’’قرآن نے یہاں جن لفظوں میں اسے بیان کیا ہے، اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طور پر نہیں، بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو، تب اس کا اعتبار ہے۔ اول تو فرمایا ہے: ’’تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہے۔‘‘ پھر اس کے لیے ’رضاعت‘ کالفظ استعمال کیا ہے: ’وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ‘۔ عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ’ارضاع‘ باب افعال سے ہے جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’رضاعت‘ کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں لگا دے تو یہ رضاعت کہلائے‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۷۵)۔
۶۔ وہ تمام احادیث جو قطع ید کے عام حکم کی تخصیص کرتی ہیں، مولانا کے نزدیک لفظ ’سَارِقُ ‘ ہی کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں جو قرآن کی مراد ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ’السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ ‘ صفت کے صیغے ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ’’ارتکاب فعل کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کے ارتکاب پر چوری اور اس کے مرتکب پر چور کا اطلاق ہو سکے‘‘، چنانچہ راہ چلتے کسی درخت سے پھل توڑ لینا یا کسی کھیت سے کچھ سبزیاں لے لینا ناشایستہ افعال تو ہیں، لیکن یہ وہ چوری نہیں جس پر آدمی کا ہاتھ کاٹا جا سکے۔ مولانا اسی نکتے پر ان تمام تخصیصات اور قیود و شرائط کو مبنی قرار دیتے ہیں جو قطع ید پر فقہا نے بیان کی ہیں (تدبر قرآن ۲/ ۵۱۱- ۵۱۲)۔
۷۔ آیت میراث بظاہر اپنے حکم میں عام ہے، لیکن مولانا کے نزدیک یہ تخصیص اس کے اندر ہی مضمر ہے کہ اختلاف دین کی صورت میں توارث کا حکم جاری نہیں ہوگا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ’’ہر عموم کے لیے کچھ فطری قیدیں اور تخصیصات ہوتی ہیں جو اس عموم کی مقترن اور ہمزاد ہوتی ہیں‘‘ (مبادی تدبر حدیث ۴۳) اور فقہا تخصیص کے جواز کے لیے جو اقتران کی شرط لگاتے ہیں، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے قرائن وآثار روز اول سے مخصص کے اندر موجود ہوتے ہیں (ایضاً ۴۶)۔
۸۔ وارثوں کے حق میں وصیت کی ممانعت کی حدیث (لا وصیة لوارث) کی بنیاد بھی قرآن مجید میں ورثا کے حصے متعین کر دیے جانے کے حکم پر ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب ترکے کی تقسیم میں مرنے والے کا صواب دیدی اختیار باقی نہیں رہا (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۱)۔
۹۔ مبادی تدبر حدیث کے حوالے سے اوپر ذکر کیا گیا کہ اگر تخصیص قرآن کے حکم ہی کی مراد کو واضح کرتی ہو تو ایسی تخصیص نہ صرف حدیث، بلکہ قیاس واجتہاد کی روشنی میں بھی درست ہے۔ اس کا اطلاق مولانا کے ہاں سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۸۲ کی تفسیر میں ملتا ہے جہاں مالی لین دین کے معاملات میں ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مولانا یہاں اس فقہی اختلاف کا ذکر کرتے ہیں کہ کیا عورت کی گواہی ہر طرح کے معاملات میں مرد کی گواہی کے نصف ہے یا یہ ہدایت صرف مالی معاملات کے ساتھ مخصوص ہے۔ مولانا کی راے میں آیت قرض کے لین دین کے معاملات میں آئی ہے اور اس ہدایت کو اسی نوعیت کے معاملات کے ساتھ مخصوص سمجھنا قرین قیاس ہے، کیونکہ عورتیں اپنے مزاج اور فطری دائرۂ کار کی وجہ سے خاندان کے اندرونی واقعات اور ان کی تفصیلات کو تو خوب یاد رکھتی ہیں، لیکن مالی معاملات اور ان کے طے شدہ شرائط کو پوری تفصیلات کے ساتھ زیادہ عرصے تک یاد رکھنا اور پھر عدالت کچہری کا سامنا ان کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے ان معاملات میں شریعت نے دو عورتوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے (تدبر حدیث، شرح صحیح بخاری ۲/ ۴۳۶)۔
مولانا اصلاحی نے قرآن اور حدیث کی باہمی موافقت کو واضح کرتے ہوئے متعدد ایسی آیات کا صحیح مفہوم بھی ان کے سیاق وسباق کی روشنی میں واضح کیا ہے جسے ملحوظ رکھنے کی وجہ سے احادیث، قرآن سے متعارض محسوس ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ میں کھانے کی چیزوں کی حرمت کے چارچیزوں تک محدود ہونے کی ہدایت کا سیاق واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ یہ تحدید شریعت محمدی کے ضابطۂ حلت وحرمت کو بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ملت ابراہیمی کے تناظر میں آئی ہے، اور اس سے دراصل یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مشرکین نے جن بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا ہے، وہ سرتا سر افترا اور بدعت پر مبنی ہے، کیونکہ ملت ابراہیمی میں اللہ تعالی ٰ نے صرف ان چار چیزوں کو حرام ٹھیرایا تھا (تدبر قرآن ۳/ ۱۸۹- ۱۹۰)۔
لق اسی طرح سورۂ محمد (۴۷) کی آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے پر پابندی عائد کر دی ہے اور :’فَاِمَّا مَنًّاۣ بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآءً ‘کے الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ ایسے قیدیوں کو فدیہ لے کریا بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ آیت بظاہر جنگی قیدیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے اختیار کو دو باتوں میں محصور کر دیتی ہے، یعنی یہ کہ یا تو انھیں احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ چھوڑ دیا جائے یا ان سے فدیہ لے کر انھیں رہا کر دیا جائے۔ تاہم حدیث وسیرت میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں جنگی قیدیوں کو رہا کرنے کے بجاے قتل کر دیا گیا یا انھیں غلام باندیاں بنا کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
مولانا اصلاحی آیت کے سیاق وسباق کی روشنی میں واضح کرتے ہیں کہ یہاں حصر کا اسلوب اسیران جنگ کو غلام بنانے کی ممانعت کے لیے نہیں، بلکہ ایک مختلف تناظرمیں استعمال کیا گیا ہے۔ مولانا کی راے میں اس ہدایت کا مدعا دراصل یہ ہے کہ : ” ...اس کے بعد اگر یہ تمھارے ہاتھ سے چھوٹیں تو صرف دو ہی شکلوں سے چھوٹیں۔ یا تو تمھارے احسان کا قلادہ اپنی گردن میں لے کر یا فدیہ دے کر“ (تدبر قرآن ۷/ ۳۹۷)۔ گویا مولانا کے نقطۂ نظر سے یہاں جنگی قیدیوں سے متعلق کسی قانون کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ اہل ایمان پر یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا انکار کرنے پر اہل کفر کو رسوا کرنے اور انھیں سزا دینے کے لیے اہل ایمان کو بطور آلہ وجارحہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا منشا یہ ہے کہ کفار کو اس جنگ میں خدا کا دشمن سمجھ کر میدان جنگ میں بھی ان کی خوب خون ریزی کی جائے اور پھر جب انھیں شکست ہو جائے تو قید کرنے یا قید سے آزاد کرنے کا معاملہ بھی پوری طرح ان کو نیچا دکھا کر اور ان کے کبر وغرور کو توڑ کر ہی کیا جائے۔
حدیث کو قرآن مجید کی فرع قرار دینے کے اصول کا اطلاق مولانا اصلاحی نے متعدد مثالوں میں اس پہلو سے بھی کیا ہے کہ قرآن مجید سے کسی حکم کی جو تحدید واضح ہوتی ہے، احادیث کو اسی کی روشنی میں سمجھا جائے، چاہے احادیث میں بظاہر وہ اس تحدید وتخصیص کے ساتھ بیان نہ ہوا ہو۔ اس ضمن میں مولانا نے متعدد احادیث کی تفہیم وتشریح میں عمومی فقہی آرا سے اختلاف بھی کیا ہے۔
مثال کے طور پر صلوٰة الخوف سے متعلق مولانا کی راے یہ ہے کہ میدان جنگ میں نماز کی ادائیگی کا یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کے ساتھ خاص تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی مسلمان آپ کے علاوہ کسی کی اقتدا میں نماز ادا کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے جذبات کی رعایت سے عام معمول سے ہٹ کر ایک ایسا طریقہ اختیار کرنے کی رخصت دے دی جس میں دشمن سے غافل ہوئے بغیر مسلمان دو جماعتوں میں تقسیم ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر سکیں۔ یہ راے سلف میں سے امام ابویوسف سے منقول ہے اور مولانا اصلاحی نے بھی قرآن مجید کے الفاظ ’وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ ‘ (النساء۱۰۲:۴) سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے (تدبر قرآن ۲/ ۳۷۲)۔
سورۂ احزاب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے تناظر میں قرآن مجید میں جو ہدایات دی گئی ہیں، مولانا اصلاحی نے ان کی تفسیر میں اس نکتے کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں تعدد ازواج کے باب میں چار بیویوں کی تحدید کے عام ضابطے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا، وہاں آپ پر کچھ ایسی پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جو عام امت پر لاگو نہیں ہوتیں۔ چنانچہ آپ کو پابند ٹھیرایا گیا کہ اگر آپ مزید نکاح کرنا چاہیں تو اس کی اباحت مطلق نہیں، بلکہ آپ تین میں سے کسی ایک مقصد کے تحت ہی نکاح کر سکتے ہیں: پہلا یہ کہ جنگی قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آنے والی کسی خاتون کے خاندانی شرف ونسب کی بنیاد پر اس کی عزت افزائی مقصود ہو؛ دوسرا یہ کہ کوئی خاتون محض آپ کے ساتھ نسبت اور تعلق پیدا کرنے کے ایمانی جذبے کے تحت خود کو آپ کے نکاح کے لیے پیش کرے؛ اور تیسرا یہ کہ آپ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد یا خالہ زاد بہنوں میں سے کوئی ہجرت کر کے آ گئی ہو اور آپ اس کی تالیف قلب کے لیے اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں۔ ان خواتین کے علاوہ دوسری تمام عورتوں سے نکاح کو آپ کے لیے ممنوع قرار دیا گیا اور یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ ان میں سے کسی سے نکاح کے بعد آپ اسے الگ کر کے اس کی جگہ کوئی دوسری بیوی نہیں لا سکتے، چاہے وہ آپ کو کتنی کہی پسند ہو (تدبر قرآن ۶ / ۲۵۳- ۲۵۶) ۔
ارتداد کو مستوجب قتل قرار دینے والی احادیث کو جمہور فقہا شریعت کے عمومی ضابطۂ تعزیرات کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ مولانا اصلاحی کی آخری دور کی بعض عبارات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اسے بنی اسمٰعیل کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ مولانا فرماتے ہیں:ت
’’ارتداد کی ایک شکل بنی اسماعیل کے ارتداد کی تھی۔ مشرکین عرب یا دوسرے الفاظ میں بنی اسماعیل کے متعلق شریعت کا جو مسلمہ قانون قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد ان کے لیے دو ہی راستے تھے۔ ایمان لائیں یا پھر تلوار ان کا فیصلہ کرے۔ وہ ذمی یا غلام نہیں بنائے جا سکتے تھے، کیونکہ ان پر اللہ کی طرف سے براہ راست حجت تمام کر دی گئی تھی۔ وہ اگر اسلام لا کر پھر کفر کی طرف آتے تو ان کی سزا بھی قتل تھی۔‘‘ (تدبر حدیث، موطا امام مالک ۱۶۸)
مولانا اصلاحی تخصیص کی دوسری نوعیت یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے قرآن کے عموم کے اندر سے کوئی ایسی چیز خارج ہو جائے جو لفظ کے مفہوم میں واضح طو رپر داخل ہو اور اس خارج شدہ چیز کے لیے قرآن کے حکم سے بالکل الگ کوئی حکم بیان کیا جائے۔ مولانا ایسی تخصیص کو نسخ قرار دیتے ہیں جس کا اختیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں تھا اور اسی وجہ سے حدیث وسنت کی بنیاد پر بھی ایسی تخصیص کا جواز نہیں مانا جا سکتا (مبادی تدبر حدیث ۴۱)۔
اس کی مثال کے طور پر مولانا سورۂ نور میں مذکور زنا کی سزا کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ بعض روایات کی بنا پر اس حکم کو غیر شادی شدہ کے ساتھ خاص کرنا اور شادی شدہ کے لیے اس سے الگ ایک مستقل اور اس سے زیادہ سخت حکم مقرر کرنا نسخ ہے، کیونکہ الفاظ اور آیت کے اندر اس امتیاز کے لیے کوئی قرینہ یا اشارہ موجود نہیں (مبادی تدبر حدیث ۴۵)۔
ان روایات کی توجیہ سے متعلق مولانا نے اپنے موقف کی تفصیل’’تدبر قرآن‘‘ میں کی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ زانی کے لیے سورۂ نور میں بیان کی گئی سزا کو کسی حدیث نے منسوخ نہیں کیا اور یہ کہ احادیث میں جن واقعات میں مجرموں کو سنگ سار کرنے کا ذکر ملتا ہے، اس کی اصل وجہ ان کا شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ ’مفسد فی الارض‘ ہونا تھا جس کی سزا خود قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بیان کی ہے۔ مولانا اس حوالے سے سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو بنیاد بناتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کی راے میں یہاں حرابہ اور فساد فی الارض کی پاداش میں فتقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی جس سزا کا ذکر ہوا ہے، رجم اسی کی ایک صورت ہے۔ یوں آیت محاربہ کی رو سے کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جا سکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی، یعنی وہ زنا کے عام مجرم نہیں تھے جن کی سزا سورۂ نور میں بیان کی گئی ہے۔
اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد مائة والرجم‘کے بارے میں مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۶۔ ۵/ ۳۶۷- ۳۶۹) ۔
یہاں مولانا اصلاحی اور مولانا فراہی کے استدلال میں ایک اہم فرق یہ دکھائی دیتا ہے کہ مولانا فراہی اس بحث میں آیت محاربہ کا حوالہ رجم کے حکم کے ماخذ کے طور پر نہیں ، بلکہ ایک شرعی اصول کی نظیر کے طور پر دیتے ہیں، یعنی یہ کہ جرم کی نوعیت کے لحاظ سے سزا کو بھی ہلکا یا سنگین ہونا چاہیے، جب کہ مولانا اصلاحی رجم کو براہ راست آیت محاربہ میں منصوص قرار دیتے ہیں۔
دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ مولانا اصلاحی زنا کو آیت محاربہ کے تحت اس صورت میں لاتے ہیں جب جرم نے اوباشی اور غنڈہ گردی کی صورت اختیار کر لی ہو، جب کہ مولانا فراہی پہلی بار کے بعد دوسری مرتبہ پکڑے جانے پر انھیں اضافی سزاؤں کا مستحق قرار دیتے ہیں۔
تیسرا اہم فرق یہ ہے کہ مولانا اصلاحی محاربہ کے تحت سزا دینے کے لیے مجرم کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کو محض ایک ضمنی عامل قرار دیتے ہیں، جب کہ مولانا فراہی کا موقف یہ ہے کہ دوسری مرتبہ ماخوذ ہونے کی صورت میں، حدیث کے مطابق، بہرحال کنوارے کو جلاوطنی کی اور شادی شدہ کو رجم ہی کی سزا دی جائے گی۔
حدیث سے قرآن کے ظاہر کی تخصیص وتقیید کو قبول نہ کرنے کی ایک اور مثال مولانا کے ہاں سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۳۰ کی تفسیر میں ملتی ہے جہاں تیسری طلاق کے بعد عورت کو کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا پابند کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے تو پھر وہ پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ مولانا یہاں جمہور فقہا کے اس موقف کو بے دلیل قرار دیتے ہیں کہ ’حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا ‘ کا مطلب دوسرے شوہر کے ساتھ ہم بستری کرنا ہے۔ مولانا کی راے میں قرآن کے الفاظ کو وطی پر محمول کرنا غیر ضروری تکلف ہے اور دراصل یہ مسئلہ ایک حدیث سے پیدا ہوا ہے۔ مولانا متعلقہ حدیث سے فقہا کے استدلال کو بھی کم زور قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حدیث کے مختلف طرق سے حدیث کا جو مفہوم سامنے آتا ہے، وہ قرآن کے بالکل موافق ہے۔ تاہم مولانا نے اس اصولی تبصرے پر ہی اکتفا کیا ہے اور حدیث کے درست مفہوم کی وضاحت نہیں کی (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۸- ۵۳۹)۔
اسی اصول کے تحت مولانا نے قضاء بالیمین مع الشاہد کی روایت کے حوالے سے احناف کے موقف سے اتفاق کیا ہے جو اس روایت کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ایک تو یہ قرآن کے بیان کردہ نصاب شہادت ، یعنی دو مرد یا ایک مرد اور عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے کے اصول کے خلاف ہے اور دوسرا، ان احادیث سے بھی متعارض ہے جن میں قسم کھانے کی ذمہ داری، مدعا علیہ پر ڈالی گئی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ’’یہ نیا اصول عدل قرآن میں متعارف نہیں کرایا گیا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’قسم کو قرآن نے بھی اور حدیث نے بھی جو تسلیم کیا ہے، وہ صرف مدعا علیہ کی طرف سے کیا ہے نہ کہ مدعی کی طرف سے‘‘ (تدبر حدیث، موطا امام مالک ۱۵۹) ۔
البتہ ایک خاص مثال میں مولانا کا نقطۂ نظر ان کے مذکورہ اصولی موقف اور رجحان سے بظاہر ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتا۔ کلالہ کی وراثت سے متعلق آیات کی تفسیر میں مولانا فراہی نے جمہور فقہا کی راے پر یہ تنقید کی تھی کہ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۲ کو اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص قرار دینے کا کوئی قرینہ قرآن کے سیاق وسباق میں موجود نہیں۔ مولانا اصلاحی نے، بظاہر حیرت انگیز طور پر، یہاں مولانا فراہی کی اس تنقید کو وزن نہیں دیا اور اس کے بجاے جمہور فقہا کی راے سے اتفاق ظاہر کیا ہے۔ سورۂ نساء کی ابتدا میں ورثا کے حصے بیان کرنے والی آیات کی تفصیلی وضاحت کو تو مولانا اصلاحی نے سرے سے موضوع ہی نہیں بنایا اور یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان احکام کا مفہوم واضح ہے اور تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۰)۔ البتہ سورہ کی آخری آیت کے تحت وہ اس اشکال سے تعرض کرتے ہیں کہ سورہ کی ابتدا اور انتہا میں کلالہ کے بہن بھائیوں کے حصے مختلف کیوں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں مولانا یہ مختصر تبصرہ کر کے بات کو ختم کر دیتے ہیں کہ ’’ کلالہ سے مراد وہ مورث ہے جس کے نہ اصول میں کوئی ہو، نہ فروع میں، صرف بھائی بہن وغیرہ ہوں۔ اگر آیت ۱۲ کے حکم کو صرف اخیافی بہن کے ساتھ مخصوص مان لیا جائے تو اس توضیحی حکم کے بعد کلالہ کی وراثت کے حکم کا ہر پہلو واضح ہو جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات فقہ وفرائض کی کتابوں میں موجود ہیں‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۳۹- ۴۴۰)۔
مکتب فراہی کے دو اساطین کے نقطۂ نظر کے تناظر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی نے اس بحث کو کن پہلوؤں سے آگے بڑھایا اور اس میں کن مختلف جہتوں کا اضافہ کیا ہے (اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ہمارا سلسلۂ مضامین، اشراق جنوری تا اپریل ۲۰۲۰ء)۔
ـــــــــــــــــــــــــ