HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الفرقان ۲۵: ۶۳-۷۷ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ٦٣ وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا ٦٤ وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ٦٥ اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ٦٦
 (وہی[68] رحمٰن ہے) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں[69] اور جاہل اُن سے الجھنے کی کوشش کریں تو اُن کو سلام کر کے الگ ہو جاتے ہیں[70]۔ جو راتیں اپنے پروردگار کے آگے سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں[71]۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بسنے اور ٹھیرنے کی بہت ہی بری جگہ ہے[72]۔ ۶۳- ۶۶
وَالَّذِيْنَ اِذَا٘ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ٦٧
اور (وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اڑاتے ہیں، نہ تنگی کرتے ہیں، اُن کا خرچ اِس کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے[73]۔ ۶۷
وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَﵐ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ٦٨ يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا ٦٩ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٧٠ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَي اللّٰهِ مَتَابًا ٧١
اور (وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں[74] ــــــ  یہ گناہ جو شخص بھی کرے گا، اِن کا نتیجہ بھگتے گا۔ قیامت کے دن اُس کا عذاب بڑھتا ہی جائے گا اور وہ اُس میں ذلیل ہو کر ہمیشہ رہے گا۔ مگر یہ کہ جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور اچھے عمل کیے تو اِسی طرح کے لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا[75]۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے اور جو توبہ کرے اور اچھے عمل کرے، اُس کو مطمئن ہونا چاہیے، اِس لیے کہ وہ پوری سرخ روئی کے ساتھ اللہ ہی کی طرف لوٹتا ہے[76]۔ ۶۸- ۷۱
وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا ٧٢ وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا ٧٣ وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ٧٤
  اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو کسی باطل میں شریک نہیں ہوتے اور جب کسی بے ہودہ چیز[77] پر اُن کا گزر ہوتا ہے تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ اور ایسے ہیں کہ اُنھیں جب اُن کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعے سے یاددہانی کی جاتی ہے تو اُن پراندھے اوربہرے ہو کر نہیں گرتے[78]۔ اور جوکہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما[79] اور (ہمارے اِن اہل وعیال میں) ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا[80]۔ ۷۲- ۷۴
اُولٰٓئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا ٧٥ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ٧٦
یہی ہیں جن کو اُن کی ثابت قدمی کے صلے میں بہشت کے بالاخانے ملیں گے[81] اور وہاں آداب و تسلیمات کے ساتھ اُن کا استقبال کیا جائے گا۔ وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ بسنے اور ٹھیرنے کی کیا ہی اچھی جگہ ہے[82]! ۷۵- ۷۶
قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ  فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا ٧٧
اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر) کہ اگر یہ پیش نظر نہ ہوتا کہ تمھیں (اِس مقام کی) دعوت دی جائے تو میرے پروردگار کو تمھاری کیا پروا ہے[83]! سو تم نے جھٹلا دیا ہے تو (جس کی وعید تمھیں سنائی گئی ہے)، وہ چیز اب عنقریب ہو کے رہے گی کہ جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی[84]۔ ۷۷

[68]۔ یہاں سے آگے اب بڑے ہی دل نواز اسلوب میں مخاطبین کو دعوت دی ہے کہ رحمٰن کی سچی معرفت ہو تو اُس کے بندے کن صفات کے حامل ہو جاتے ہیں۔ اِس میں قریش کے متمردین کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ وہ اِس آئینے میں اپنی سیرت وکردار کو دیکھیں اور ایمان لانے والوں کے لیے بھی ترغیب ودعوت ہے کہ اُن کا پروردگار اُن کو کس طرح کے محاسن سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔

[69]۔ یعنی اُن کی چال مغروروں اور متکبروں کی چال نہیں ہوتی۔ اِس طرح کی چال آدمی کے باطن کی ترجمان ہوتی ہے۔ دولت، اقتدار، علم وفن، حسن اور طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں آدمی کے اندر غرور پیدا کرتی ہیں ، اُن میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اُس کی چال کے ایک مخصوص ٹائپ میں نمایاں ہوتا ہے اور اِس بات پر دلیل بن جاتا ہے کہ اُس کا دل بندگی کے شعور سے خالی ہے اور اُس میں خدا کی عظمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جس دل میں بندگی کا شعور اور خدا کی عظمت کا تصور ہو، وہ اُنھی لوگوں کے سینے میں دھڑکتا ہے جن پر تواضع اور فروتنی کی حالت طاری رہتی ہے۔ وہ اکڑنے اور اترانے کے بجاے سر جھکا کر چلتے ہیں۔

[70]۔ سلام جس طرح خیر مقدم کے لیے ہوتا ہے، اُسی طرح کسی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ایک شایستہ اور خوب صورت طریقہ بھی ہے۔ اِسی طرح ’مخاطبت‘ کا لفظ ہے۔ یہ کئی پہلوؤں سے ہو سکتی ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یہ الجھنے کے مفہوم میں ہے۔

[71]۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ تہجد کے سجود وقیام کی شب بیداریوں اور بے قراریوں کی تعبیر ہے اور اِس کے اسلوب بیان سے جو شوق واضطراب نمایاں ہو رہا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔

[72]۔ آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک مستقر اور دوسرا مقام۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... ’مُسْتَقَرّ‘ اور ’مُقَام‘ یوں تو ہم معنی الفاظ کی حیثیت سے بھی استعمال ہوتے ہیں، لیکن جب یہ دونوں ایک ساتھ استعمال ہوں تو اِن کے درمیان کچھ فرق ہو جاتا ہے۔ میں اِن کے مواقع استعمال پر غور کرنے سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں، وہ یہ ہے کہ ’مُسْتَقَرّ‘ میں مستقل قیام گاہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اور ’مُقَام‘ عارضی جاے قیام کے لیے بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہنم ایک ایسی ہول ناک جگہ ہے کہ مستقل مستقر کی حیثیت سے تو درکنار، ایک عارضی منزل کی حیثیت سے بھی وہ گوارا کیے جانے کے قابل نہیں ہے، حالاں کہ کوئی بری سے بری جگہ بھی ایسی ہو سکتی ہے کہ کسی پہلو سے وہ وقتی طور پر گوارا کی جا سکے۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۴۸۷)

[73]۔ اِس کا تعین ہر آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے کر سکتا ہے اور ایسا کرنا ضروری ہے، اِس لیے کہ اخراجات میں اعتدال نہ ہو تو آدمی خدا کی راہ میں انفاق کی سعادت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

[74]۔ خدا کی شریعت میں یہی تینوں سب سے بڑے گناہ ہیں جن سے بندۂ مومن کو ہر حال میں بچنا چاہیے، اِس لیے کہ اِن کا نتیجہ آگے ہمیشہ کی جہنم بیان کیا گیا ہے۔

[75]۔ یعنی برائیاں نامۂ اعمال سے محو ہو جائیں گی اور اُن کی جگہ نیکیاں رکھ دی جائیں گی جو اُن کے گناہوں کو ڈھانک لیں گی۔

[76]۔ اصل الفاظ ہیں:’يَتُوْبُ اِلَي اللّٰهِ مَتَابًا‘۔ اِن میں ’مَتَابًا‘ کی تاکید تفخیم شان کے لیے ہے۔ ترجمے میں ہم نے اِس مفہوم کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ آیت میں توبہ کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت، دونوں میں بڑی بشارت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُنھیں ہر جگہ خدا کی معیت اور سرپرستی حاصل ہو گی، اِس لیے کہ وہ درحقیقت اُسی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

[77]۔ اصل میں لفظ ’لَغْو‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد وہ کام ہیں جنھیں دیکھتے ہی ہر سلیم الطبع آدمی یہ محسوس کرے کہ یہ شایستہ اور مہذب لوگوں کے کرنے کے کام نہیں ہیں، جیسے گالی گلوچ، ثقاہت سے گری ہوئی باتیں، اخلاقی حدود سے متجاوز ٹھٹا مخول اور لطیفے بازی وغیرہ۔

[78]۔ بلکہ اُن پر غور کرتے اور اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اِس میں قرآن کے اندھے بہرے مخالفین پر تعریض بھی ہے جو اُس کی آیتیں سن کراعتراض اور نکتہ چینی کے لیے اُس پر اِسی طرح پل پڑتے تھے۔

[79]۔ یعنی اپنی عاقبت کے ساتھ اُنھیں اپنے اہل وعیال کی عاقبت کی بھی فکر رہتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے اعمال واخلاق بھی خدا کی پسند کے مطابق ہوں تاکہ اپنے پیاروں کو وہ دنیا میں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتے نہ دیکھیں، بلکہ اُن کے حسن عمل سے اُن کی آنکھیں ہر وقت ٹھنڈی رہیں۔

[80]۔ مطلب یہ ہے کہ جس کنبے کے وہ سربراہ ہیں، وہ پرہیزگاروں اور خدا سے ڈرنے والوں کا کنبہ ہو، خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کا کنبہ نہ ہو۔

[81]۔ اِس لیے کہ دنیا میں حق کی خاطر اُنھوں نے اپنے آپ کو نیچا کر لیا تھا اور تواضع اور فروتنی کے ساتھ زندگی گزاری تھی۔ سیدنا مسیح نے فرمایا ہے: ’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔ آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔‘‘

[82]۔ اوپر دوزخ کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یہ اُنھی کے مقابل میں جنت کی تعریف ہے۔

[83]۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی جنت کی طرف بلانے کے لیے خدا اگر نبی بھیجتا اور کتابیں اتارتا ہے تو سر تا سر تمھارے ہی فائدے کے لیے اتارتا ہے، ورنہ اُس کی کوئی حاجت تم سے اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ وہ اُس کے لیے یہ سارا اہتمام کرے۔

[84]۔ یہ اُس عذاب کی طرف اشارہ ہے جو رسولوں کے مکذبین پر اِسی دنیا میں آتا ہے۔

_________

B