علم اور عصبیت باہم مغائر ہیں۔ علم کی بنا تفہیم و تدبر اور عقل و استدلال پر قائم ہے، جب کہ عصبیت رشتہ و تعلق اور نسبت و محبت کو بنیاد بناتی ہے۔ چنانچہ علم کا مسئلہ صحت، اور عصبیت کا مسئلہ شناخت قرار پاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فہم دین میں اتفاق و اختلاف کی بنیاد علم پر ہے یا عصبیت پر؟ اِس کا صحیح جواب علم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اِسی کو اپنی ہدایت کی اور انبیا نے اِسی کو اپنی دعوت کی بنیاد بنایا ہے۔
ہمارے جلیل القدر علما نے اِسی کی پیروی کی ہے۔ چنانچہ جب وہ عقل و نقل کی بنا پر کسی بات کو صحیح یا غلط قرار دیتے ہیں تو اُن کے لیے معیار کی حیثیت علم کو حاصل ہوتی ہے۔
یہ درست ہے کہ عصبیت بذات خود کوئی غلط جذبہ نہیں ہے، یہ اگر علم و اخلاق اور حق و صداقت کے لیے ہو تو انسانوں کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، لیکن جب یہ غلو، جبر اور عدم برداشت کی حد کو پہنچ جائے تو فتنہ و فساد کا باعث بن جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہماری اکثر مذہبی عصبیتیں علم و نظر کے اختلاف ہی سے پروان چڑھی ہیں۔ یہ فرقہ بندی میں کبھی تبدیل نہ ہوتیں، اگر اِن کا رخ علم و اخلاق اور حق و صداقت کی جانب رہتا۔ لیکن جب بعض وقتی ضرورتوں یا سیاسی، معاشی اور سماجی مفادات کے تحت اِن کا رخ تشخص اور شناخت کی طرف موڑ دیا گیا تو پھر اِن کے بطن سے اُس عفریت نے جنم لیا جسے دور حاضر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ انتہا پسندی کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ مذہبی شناختوں، فرقوں یا گروہوں کی عصبیت کو اصل، برحق اور لازم مان کر بقاے باہمی کی روش اپنانے کی تلقین کی جائے، بلکہ یہ ہےکہ فرقوں اور شناختوں کی عصبیت کو باطل قرار دیا جائے اور علم و استدلال کو اصل مان کر بحث و مکالمے کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔ علم و استدلال ہی انسان کا شرف ہے اور اِسی میں اُس کی بقا ہے۔
اِس نکتے کی تفصیل کے لیے سب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اسلام ایک فکر ہے، ایک علم ہے، ایک نظریہ ہے، اِس لیے اِس کی شرح و وضاحت اور تعبیر و تاویل بھی علمی، فکری اور نظریاتی بنیادوں پر ہو تی ہے۔ پھر اُس شر ح و تعبیر سے اتفاق و اختلاف یا اُس کے ردو قبول کا فیصلہ بھی فکری زاویۂ نظر پر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ معلوم و معروف ہے کہ اہل سنت، اہل تشیع، احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، ظاہریہ، صوفیا اور دیگر فرقوں کے نقطہ ہاے نظر میں جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے، اُس کا اصل سبب نظریاتی ہے۔ یعنی اِن کے مابین علم و عقل کے مقدمات، تحقیق و استدلال کے اسالیب اور اخذو استنباط کے اصولوں کا فرق قائم ہے جس نے اُنھیں الگ الگ گروہوں یا شناختوں میں تقسیم کیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ شناختیں دین اسلام کے اساسی یا فروعی تصورات کی تعبیر و تاویل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ نظری تفریق یا فکری اختلاف کیسے انتہا پسندی تک پہنچ جاتاہے تو تاریخی تناظر میں اِس کی ایک سادہ ترتیب یہ ہے کہ پہلے علما کے مابین علمی اختلاف پیدا ہوتا ہے، پھر اُس اختلاف کا دائرہ اُن کے شاگردوں اور متفقین تک وسیع ہوتا ہے، پھر مدرسوں اور مسجدوں کی تقسیم عمل میں آتی ہے، پھر ادارے، جماعتیں اور تنظیمیں تشکیل پاتی ہیں، پھر جلسے جلوسوں اور مناظرہ بازی کا ہیجان برپا ہوتا ہے، پھر ایک دوسرے کے لیے کفر و ارتداد ، توہین و تکذیب، بغاوت اور غداری کے فتوے صادر کیے جاتے ہیں اور پھر بالآخر خون کے مباح اور قتل کے واجب ہونے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
اِس تفصیل سے واضح ہے کہ انتہا پسندی کا مسئلہ اپنی اصل کے لحاظ سے سیاسی یا سماجی نہیں، بلکہ نظریاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ اِس کو شعلۂ جوالہ بنانے میں سیاسی اور سماجی عوامل بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، مگر اِس صورت میں بھی فکر و خیال کی شرر انگیزی کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔ چنانچہ انتہا پسندی کے حل کو عصبیت و شناخت اور سیاست و معاشرت کے مظاہر میں نہیں، بلکہ علم و نظر اور ان کی تفہیم وتعبیر کی اساسات میں تلاش کرنا چاہیے۔
اِس زاویۂ نظر سے دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ انتہا پسندی کا مسئلہ دین کے بعض مباحث کی غلط تاویل یا غلط اطلاق سے پیدا ہوا ہے۔ اِن میں تکفیر، دائرۂ اسلام سے اخراج، ارتداد اور اُس کی سزا، غلبۂ اسلام، خلافت، نفاذ شریعت اور جہاد و قتال نمایاں ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اِن کے حوالے سے رائج تعبیرات کی غلطی کو واضح کیا جائے اور اُن کے مقابل میں دین کے صحیح تصور کو اُس کے پورے استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے ۔ اِس مقصد کے لیے لازم ہے کہ اتفاق کو عقیدت اور اختلاف کو عناد سے الگ کر کے دلیل اور مکالمے کی فضا کو پروان چڑھایا جائے۔
رائج تعبیرات کی غلطی کو واضح کرنے اور اُن کے مقابلے میں اپنے علم و فہم کے مطابق دین کی صحیح فکر کو پیش کرنے کا کام مدر سۂ فراہی کے علما نے بہ تمام و کمال انجام دے دیا ہے۔ یہ کام استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ میں یکجا ہے۔ موجودہ مذہبی فکر کے مقابلے میں یہ گویا ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے جو انتہا پسندی کا اصل سبب بعض مسلمہ مذہبی تعبیرات کو قرار دیتا، اُن کی غلطی کو واضح کرتا اور اُن کے مقابل میں قرآن و سنت کے صحیح تصور کو پیش کرتا اور پورے عزم و جزم کے ساتھ اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ انتہا پسندی سے نجات اِسی متبادل تصور کو رائج کرنے میں ہے۔ دینی اخلاص، قومی حمیت اور علمی دیانت کا لازمی تقاضا ہے کہ اِس جوابی بیانیے پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے، اِس پر بحث و مکالمے کا آغاز کیا جائے اور خالص علمی اور دینی بنیادوں پر اِس کے رد و قبول کا فیصلہ کیا جائے۔
اِس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ علما، اہل دانش اور ارباب حل و عقد رائج بیانیے اور اِس جوابی بیانیے کو علمی انداز سے سمجھیں اور اِن کے باہمی تقابل سے واضح راے تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ کسی بات کی صحت یا غلطی واضح کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اُسے علمی دلائل کی بنا پر اور تہذیب اور شایستگی کے ساتھ پیش کیا جائے۔ مختلف مذہبی گروہ اگر اپنے ساتھ اختلاف رکھنے والوں کی غلطی واضح کرنا چاہتے ہیں تو اُن کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اُسے علم و استدلال سے واضح کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ علم کی دنیا اور دین کے دائرے میں ہنگامہ و احتجاج اور جبر و استبداد کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں انتہا پسندی کا مسئلہ سیکولرازم کی تبلیغ سے یا مذہبی شناختوں کے بقاے باہمی کے اصول کو ماننے سے نہیں، بلکہ فکر اسلامی کی تشکیل جدید سے حل ہو گا۔ اِس کا آغاز رائج مذہبی فکر کے جوابی بیانیےکی صورت میں ہو گیا ہے۔ اللہ کو منظور ہوا تو یہ بیانیہ مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی اور سماجی شعور میں ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ هٰذا ما عندي والعلم عند الله۔
___________