HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

بے بسی، اُس وقت کی

محمد تہامی بشر علوی

 

دنیامیں اگر سارے انسانوں کو دو سادہ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو ایک طبقہ ہے کم زوروں اور ماتحتوں کا اور دوسرا طبقہ طاقت وروں اور با اختیار لوگوں کا ۔ اور طاقت وروں میں بھی کچھ ایسے طاقت ور ہیں کہ ان سے اوپر مزید کچھ اور طاقت ور ہیں۔ تو ہر ایک انسان کی دونوں حیثیتیں ہیں، کچھ پہلوؤں سے وہ خود طاقت ور ہے اور کچھ پہلوؤں سے وہ کم زور بھی ہے ۔مثال کے طور پر اگر کوئی خاوند ہے تو وہ اپنی بیوی کے لیے طاقت ور ہی ہوگا، لیکن وہی خاوند کسی جگہ ملازمت کر رہا ہے تو وہ وہاں اپنے آفیسر کے ماتحت کم زور حیثیت میں ہو گا ۔

اب جس حیثیت سے وہ خود کم زور ہوتا ہے ،وہاں اپنے سے بڑے طاقت ور کے حوالے سے اس کو ہمیشہ شکایت رہتی ہے ۔وہ کہتارہتا ہے کہ وہ مجھے ستا رہا ہے،تنخواہ اپنے وقت پر نہیں دے رہا ، وہ یہ مسائل پیدا کر رہا ہے ،وہ مسائل پیدا کر رہا ہے ۔ لیکن یہاں وہ ماتحت کی حیثیت سے اپنے سینئرز کے لیے جو شکایات کررہا ہے، خود جو اس کے ماتحت ہیں، وہ بھی اس کے بارے میں یہی شکوے کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے آفیسر کی شکایت کرنے والا جہاں خود آفیسر کی حیثیت سے طاقت ور ہوتاہے، مثلاً اپنے خاندان کے ادارے میں سربراہ ہے تو اس کی بیوی اس کے بارے میں شکایت کر رہی ہو گی کہ یہ گھر میں سیدھے منہ سے بات نہیں کرتا۔ جب بھی گھر آتا ہے، بدتمیزی کرتا ہے۔ بے وجہ گالیاں دیتاہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر میری بے عزتی کرتا ہے اور میرے والدین کو برا بھلا کہتا ہے وغیرہ۔

پھر یہی بیوی جب کسی کی ماں بنتی ہے تو وہ اپنے ماتحت اولادکے اوپر زیادہ طاقت وربن جاتی ہے۔ اگر اس کی اولاد سے پوچھیں تو وہ بھی شکوے کرے گی کہ ہماری ماں ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی ،چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہمیں برا بھلا کہتی ہیں ۔ اس کا مطلب کیا ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو طاقت دی ہے یا تھوڑا بہت اختیار دیا ہے، یہ اسے صحیح استعمال نہیں کرتا اور جب یہ اپنے سے زیادہ طاقت ور کی شکایت کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت یہ نہیں سوچتا کہ کہیں مجھے بھی کسی کم زور کے اوپر طاقت حاصل ہے، وہاں میں اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کر رہا ہوتا ہوں ؟ ہوتا یہی ہے کہ لوگ اپنی اپنی جگہ اپنے اختیارات درست استعمال نہیں کرتے۔ وہ جس چیز کی شکایت دوسروں کے حوالے سے کر رہے ہوتے ہیں، اسی برائی میں یہ خود مبتلا ہوتے ہیں۔ تو یہ ساری چیزیں اصل میں اس وقت تک بیلنس میں نہیں آ سکتیں جب تک کہ مذہب کادیا ہو ا تصور قیامت ہم صحیح طرح سے سمجھ نہیں لیتے ۔

قرآن مجید ہمیں بتاتاہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو، خواہ وہ طاقت ور کی حیثیت سے کسی پر ظلم کر رہے ہو یا کسی مظلوم کی حیثیت سے ظلم سہ رہے ہو ،تم سب نے لوٹ کر پھر میرے پاس آنا ہے ، وہاں سب سے طاقت ور ذات انصاف کا ترازو لگا دے گی ۔وہاں ہر طاقت ور سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا ؟ وہاں چھوٹا سا کیا گیا ظلم بھی ہمارے سامنے آ جائے گا اور ہمیں اس کا حساب دینا ہو گا۔ جس جس طاقت ور نے کم زور پر کوئی ستم کیا ہے، بہت بڑی طاقت ور ذات کے سامنے کل اس نے پیش ہونا ہے اور وہ طاقت ور ذات ہر کم زور کا بدلہ اسے دلا کر چھوڑے گی۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کو اپنے رویے میں بالکل محتاط کر دیتا ہے ۔

کل جب خدا کے سامنے سارے کے سارے پیش ہوں گے، وہاں یہ آج کے طاقت ور بھی ہوں گے اور یہ آج کے کم زور اور مظلوم بھی ہوں گے، تب اللہ کہے گا:بتائیے، آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟[1]بتاؤ، آج کون طاقت ور ہے؟ عالم کے بادشاہ کی آواز سن کر ہر طرف سناٹا چھا جائے گا۔ کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ وہاں جتنے بھی انسان ہوں گے، سب پر سناٹا چھا جائے گا، کسی کو ہمت نہیں ہو گی کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ خودہی کہے گا کہ آج کے دن تنہا اسی رعب اور دبدبے والے رب کی بادشاہی ہے۔ وہاں پھر ہر ایک کے اعمال کی ترازو بالکل انصاف کے ساتھ لگا دی جائے گی ۔جس جس کے ساتھ جو جو زیادتی ہوئی ہے، اس کا بدلہ وہاں چکا دیا جائے گا۔ اور پھر ضابطہ یہ ٹھیرایا گیا ہے کہ کسی بندے نے کسی پر کوئی زیادتی کی ہوئی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ اپنے اختیار سے کبھی معاف نہیں کرے گا، جب تک کہ وہ بندہ معاف نہ کرے ۔

آج اگر خاوند صاحب بہت طاقت ور ہیں تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کل قیامت کے دن اس کی بیوی طاقت ور ہو گی۔ اگر آج خاونداپنے اختیارکے زور پر کہتاہے کہ میری اجازت کے بغیرتو کچھ بھی نہیں کر سکتی ،جو میں چاہوں گا تجھے وہی کرنا ہو گا، کیونکہ تو میری بیوی ہے اور میرے ماتحت ہے۔وہ اختیارات کے گھمنڈ میں ہر جائز و نا جائز پابندیاں لگانا شروع کر دیتا ہے۔اسے یہ سب کرتے ہوئے اتنا یاد رہنا چاہیے کہ کل وہاں پر اس کی بیوی کے اختیارات بڑھ جائیں گے۔ بیوی سے کہا جائے گا کہ یہ تیرے سامنے تیرا خاوند بیٹھا ہوا ہے ، بتا اس نے تیرے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تھا یا برا ؟ جب تک بیوی اس کی Ok رپورٹ نہیں دے دیتی ، خاوند کو جنت میں نہیں بھیجا جا سکتا ۔ اس وقت آپ کی حیثیت یہ ہو گی کہ آپ کی نجات بیوی کی رپورٹ پر منحصر ہو جائے گی۔ تب آپ بے بسی میں یہ حسرت کریں گے کہ کاش! آج بیوی مجھے معاف کر دے، پر تب یہ اس کی مرضی ہو گی، وہ چاہے تو معاف کر دے چاہے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے لے۔ اسی طرح آج آپ کا آفیسر بڑا طاقت ور ہے تو کل یہ مزدور اور ملازم وہاں طاقت ور ہو جائیں گے۔ وہاں پھریہ آفیسرصاحب اپنے غرور کو بھول کر بھکاریوں کی طرح کھڑے ہوں گے۔ اپنے ملازموں سے معافی کی بھیک مانگ رہے ہوں گے۔ آج آفیسرصاحب کے Yes اور No میں بڑی طاقت ہے، مگر کل اس کے ملازم کے Yesاور No پر معاملہ اٹکا رہے گا۔اگر اس کے ملازم نے Yesکر دیا تو ٹھیک ہے اور اگر Noکر دیاتویہ آفیسر صاحب پھنس جائیں گے۔

یہاں آج ہم جتنے بھی طاقت ور ہیں ، کل وہاں ہم اتنے ہی کم زور اور بے بس ہوں گے ۔ اوریہ جتنے جتنے لوگوں کو یہاں ہم نے ماتحت سمجھ کر اپنا غلام بنایا ہوا ہے، کل سب کے سامنے ہم ان سے معافی کی بھیک مانگ رہے ہوں گے ۔ مثال کے طور پر ہمارے ایم این اے صاحب ہیں۔ ان کو اس پورے حلقے کی نمایندگی ملی ہے اور اگر وہ اس پورے حلقے کے لوگوں کو ستا کر چلے جائیں گے تو پھرکل وہاں خدا کے سامنے ان سب ستائے ہوئے لوگوں کیOk رپورٹ ملے گی تو ان کی بخشش ہو سکے گی۔ اگر ایم این اے صاحب یا کوئی اور وزیر صاحب اپنے اختیارات غلط استعمال کریں گے، میرٹ کی پامالی کریں گے، لوگوں کی حق تلفی کریں گے ،تو کل وہاں ان کی جان چھوٹنی مشکل ہو جائے گی۔

آج ہم بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں طاقت مل گئی ہے اور لوگوں کے اوپر ستم ڈھانا، انھیں ستانا، ان پر اپنے اختیارات چلانا، ہمارے لیے آسان ہو گیا ہے۔ لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ کل قیامت والے دن جب سارا معاملہ الٹے گا تو پھر ہماراکیا بنے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دو صحابہ کے حوالے سے تبصرہ فرمایا، ایک بڑے امیر صحابی تھے اور دوسرے بالکل غریب تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جو امیرہے، اس کے بارے میں جنت میں جانے کا فیصلہ بہت حساب دے دے کر بہت عرصے بعد ہوگا، اس لیے کہ جتنا زیادہ مال ہوگا ، اتنے زیادہ حقوق لوگوں کے اس کے متعلق ہو جاتے ہیں۔

سارا حساب کتاب ہونے کے بعد ہی جنت کا فیصلہ ہو گا۔ اوریہ جو غریب ہے بے چارہ، چند روپوں کا مالک، مشکل سے گزر اوقات کرنے والا،یہ تو چٹکیوں میں اپنا حساب دے گا، فارغ ہو جائے گا اور فوراً جنت کو چلا جائے گا ۔ باقی اس کے پاس اتنے پیسے تھے ہی کہاں جو زکوٰۃ ، حج اور صدقات کے بارے میں اس سے پوچھا جاتا۔ دولت مندوں سے تو پوچھا جائے گا کہ انھوں نے محروموں ، ضرورت مندوں ، بے بسوں ، مفلسوں اور حاجت مند رشتہ داروں کو بھی خدا کے دیے ہوئے مال میں سے کچھ دیا تھا یا نہیں ؟ وہ اپنے ہی محلات تعمیر کرتے رہے یا پڑوس میں بنے کسی غریب کے جھونپڑے کی بھی کبھی فکر کی؟ وہ اپنے بچوں کی شادیاں تو فائیوسٹار ہوٹلوں میں ایک دھوم کے ساتھ کرتے رہے، مگر کیا کسی غریب کے بچے یا بچی کی شادی کی خوشیوں میں بھی کوئی رنگ بھرنے کی کوشش کی ؟ تو یہاں جس کے پاس جتنا اختیار اور جتنی دولت ہے، اس سے اتنی ہی زیادہ پوچھ ہو گی۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی مشورہ دیا ہے کہ مانگ کر اختیار و ذمہ داری کبھی نہ لو، البتہ جب تمھیں اپنی صلاحیت کی وجہ سے اختیار سونپ دیا جائے توپھر اس اختیار کو امانت داری کے ساتھ ادا کرو تاکہ کل خدا کے سامنے پیش ہونے پر تمھیں ناکامی و شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ بہت اہم اور سنگین مسئلہ ہے، اس کو محض افسانہ یا کوئی ہلکی سی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ غریب کسے کہتے ہیں ؟صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ہمارے علم میں تو یہی ہے کہ جس کے پاس مال و دولت نہ ہو تو وہ غریب آدمی ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں،اصل غریب تو وہ ہو گا جس کی غربت کا عالم یہ ہو گا کہ دنیا میں بہت ساری نیکیاں کر کے چلا جائے گا،اور جب قیامت والے دن اللہ کے سامنے پہنچے گا تو بڑا خوش ہوگا کہ میں آج تو اپنے ساتھ نیکیوں کی بڑی دولت لے کر جا رہا ہوں، مگر وہاں اس سے حق طلب کرنے والے کئی لوگ کھڑے ہو جائیں گے۔ اس نے جس جس کی کوئی حق تلفی کی ہو گی، وہ سب خدا سے وہاں انصاف کا مطالبہ کریں گے۔ تو وہاں پھراللہ تعالیٰ یہی فیصلہ کریں گے کہ جس کا اس نے جو حق دینا ہے ،اس کے بدلے میں اس کی نیکیاں اس کو دے دو۔ باری باری سب مطالبہ کرنے والوں کو اس کی نیکیاں دی جاتی رہیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کرتے کرتے اس کی سب نیکیاں ان مطالبہ کرنے والوں میں تقسیم ہو جائیں گی، لیکن مطالبہ کرنے والے ابھی باقی رہیں گے۔ تب کہا جائے گا کہ اس کے پاس دینے کو نیکیاں تو رہی نہیں ہیں، سو مطالبہ کرنے والوں کے گناہ اس کے ذمے ڈال دو ۔ اس طرح ان کے گناہ اٹھا کر اس کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے ۔ یوں کرتے کرتے نتیجہ جب نکلے گا تو اس کی نیکیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور دوسروں کی برائیاں اس کے پلڑے میں آجائیں گی اور آخری رپورٹ یہ آئے گی کہ اس کو اٹھا کرجہنم میں پھینک دیا جائے۔

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہے وہ امیر آدمی جوبہت سی نیکیاں لے کر اس میدان میں پہنچا ، مگر وہاں اس کی ساری نیکیاں کسی اور کے کام آ گئیں، اس کی یہ دولت اس کے کچھ کام نہیں آئی، اصل مفلس یہی مفلس ہے، اصل غریب یہی غریب ہے[2]۔ 

کل کی اس بے بسی سے بچنے کے لیے ہمیں ابھی سے فکر کرنی ہو گی ۔ آج ہمیں دنیا میں جتنا اختیار اور مقام حاصل ہے، اس لحاظ سے ہم انصاف کے ساتھ لوگوں کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں ۔ اگر نہیں کر رہے تو پھر سمجھ لیں کہ ایک بہت بڑی آزمایش سے ہم دوچار ہو جائیں گے۔ آج بے فکری سے اختیار استعمال کر رہے ہوں گے تو کل ہم بالکل ذلیل و رسوا ہو جائیں گے۔ جن لوگوں کی نظر آخرت پر رہتی تھی، وہ بہت تقویٰ اور فکر مندی سے جیا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا گیاتھا کہ آپ اپنے بعد اپنے بیٹے کے لیے وصیت کر جائیں کہ آپ کے بعد امیرالمومنین وہ ہو گا۔ اِس پر آپ نے فرمایا کہ میرے گلے میں ہی یہ پھندا کافی ہے، میں نہیں چاہتا کہ یہ پھندہ میری اولاد میں سے کسی کے گلے میں بھی ڈالا جائے۔

ان کی نظر چونکہ آخرت پر جمی رہتی تھی، وہ یقین کیے ہوئے تھے کہ یہ یہاں کے لحاظ سے تو ایک حکومت ہے، لیکن آخرت کے لحاظ سے بڑی مصیبت ہے ۔ کل خدا کے سامنے اتنے لوگوں کا حساب دینا کوئی آسان کام ہے ؟ خود حضرت عمر فاروق کی فکر مندی کا عالم تو یہ تھا کہ آپ نے فرمایا: اگر نیل کے ساحل کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مر جائے تو مجھ سے اس کا حساب لیا جائے گا۔

ہم میں سے ہر ایک کچھ نہ کچھ اختیارات تو رکھتا ہے۔ تو ہمیں اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم اپنے اختیارات درست استعمال کر رہے ہیں ؟ آخرت کی اس پیشی کو سامنے رکھ کر اپنے اختیارات کو ٹھیک استعمال کرنا ضروری ہے۔ ہم نے اگر ایسا نہ کیا تو یہ بہت بڑی نادانی ہو گی اور اس غفلت کے نتیجے میں کل ہمیں بہت سخت سزا بھگتنی پڑ جائے گی ۔

________

[1]۔ المؤمن۴۰: ۱۶۔’يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَﵼ لَا يَخْفٰي عَلَي اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌﵧ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَﵧ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ‘۔

[2]۔   مسلم، رقم۶۷۴۴۔

____________

B