تیاری کے دور میں غفلت اور ظہور نتائج کے دور میں ماتم کسی زندہ قوم کا شعار نہیں۔ زندہ قوموں کے لیے یہ احتساب کا وقت ہوتا ہے ، نہ کہ شکایت کا وقت۔ پیش آمدہ حالات پر منفی ردعمل صرف ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے، وہ پہلا مو قع کھونے کے بعد دوسرے موقعے کو بھی کھودینا ہے۔
ہمارے لیے اب کرنے کا پہلا کام صرف یہ ہے کہ ہم آج ہی سے اُس غیر مومنانہ روش کو مکمل طورپر چھوڑ دیں جو ہماری ناکامی کا اصل سبب ہے، اوروہ ہے خدا اور رسول سے بغاوت اور اپنے ازلی دشمن شیطان اور اُس کے ساتھیوں سے محبت۔
اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایمان اور اخلاق کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا شعار بنائیں۔ گروہی ’مذہبیت‘ اور تعصبات سے بلند ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔اپنے اندر تعلیم اور شعوری بیداری کو فروغ دیں۔انسانوں کے درمیان نفرت اور تشدد کے بجاے محبت اور خیرخواہی کے کلچر کو عام کریں۔ ملک کے لیے ایک وفادارشہری اور دینے والے ممبر (giver member) ثابت ہوں ۔اپنی دینی، دعوتی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داریوں کی نسبت سے اپنے تمام معاملات کا جائزہ لے کر اُن کی ازسر نو منصوبہ بندی کریں۔ نفس و شیطان اور دنیا پرستی سے اپنارخ پھیر کر خدا پرستی اختیار کریں۔ ذکر ودعا اور مسجد سے اپنا ربط استوار کریں۔ صادقین کی صحبت اختیار کریں۔ا للہ کی کتاب قرآن مجید سے تلاوت و تدبراور تذکر کے درجے کا زندہ تعلق قائم کریں۔ رسول خدا کی سیرت کو اپنی زندگی بنائیں اور خدا کے دوسرے بندوں تک اُس کے پیغام کو علم وحکمت اور خیرخواہی کے ساتھ پہنچائیں۔
کیا عجب کہ موجودہ صورت حال ہمارے لیے ایک خدائی دھکا ہو تاکہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں، حالات سے گہرا سبق لیں اور دنیا کے عارضی اسٹیج پر ظاہر ہونے والی انسانی جماعتوں کے بجاے صرف اللہ سے خوف اور امید کا تعلق قائم کریں۔ ہم خدا کے فرماں بردار بن کر اُس کے اُن بندوں میں شامل ہوجائیں جن کے لیے نہ مایوسی ہے اور نہ ناکامی کبھی اُن کا مقدر بن سکتی ہے: ’وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ‘ [1] (المائدہ۵: ۵۶) ۔
اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل ایمان ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اٰمِنُوْا ‘ [2] (النساء ۴: ۱۳۶) کی خدائی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً ‘[3] (البقرہ ۲: ۲۰۸)کا مجسم نمونہ بن جائیں۔ اِسی حقیقت پسندی اور اِسی جوہری تبدیلی و اصلاح میں ہماری کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ اِس کے سو ا کامیابی کا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔
(لکھنؤ، ۲۳/ مئی ۲۰۱۹ء)
________
[1]۔ ’’جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول اور سچے اہل ایمان کو اپنا دوست بنالیں(وہی غالب ہوں گے)، اِس لیے کہ یقیناً یہ اللہ ہی کا گروہ ہے جو غالب رہنے والا ہے۔‘‘
[2]۔ ’’ایمان کا دعویٰ کرنے والو،تم اللہ پر ایمان لاؤ، جیسا کہ اُس پر ایمان کا حق ہے۔‘‘
[3]۔ یہ اشارہ ہے اُس آیت کی طرف جس میں ارشاد ہواہے کہ :’’ایمان والو، تم سب اللہ کی اطاعت میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔بے شک، وہ تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘
نوٹ: ۲۳؍ مئی ۲۰۱۹ء کو انڈیا کے سترھویں جنرل الیکشن کے موقع پر ’وِزڈم فاؤنڈیشن‘ (لکھنؤ) میں کچھ احباب کے سامنے راقم نے ایک مختصر گفتگو کی۔ یہ تحریر اِسی گفتگو کے خلاصے پر مبنی ہے۔
____________