[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
جنگ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی میں ایک سفید چٹان حائل ہو گئی جو صحابہ سے نہ ٹوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود خندق میں اترے اور تین ضربوں میں اسے پاش پاش کر دیا۔ تینوں بار آپ کی ضرب سے تیز روشنی نکلی۔ آپ نے فرمایا کہ اس چمک میں میں نے حیرہ، مدائن، روم اور صنعا کے محلات دیکھے، مجھے جبریل نے بتایا کہ میری امت ان محلات کو فتح کرے گی۔ آپ کی پیشین گوئیوں کا منافقین نے (معاذ اللہ) مذاق اڑایا۔ عہد فاروقی اور خلافت عثمانی میں یہ محلات مسلمانوں کے قبضے میں آگئے تو حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:جو شہر تمھارے سامنے آئے، زیر کر لو۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں ابوہریرہ کی جان ہے، قیامت تک جتنے شہر تم فتح کرو گے، ان کی کنجیاں محمد صلی اللہ علیہ سلم کو پہلے ہی عطا کی جا چکی ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے جامع اورفصیح کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے اور دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال کر مجھے فتح دلائی گئی ہے۔ میں سویا ہوا تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ پر رکھ دی گئی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب کے پاس جا چکے، اب تم ان خزانوں کوکھودکر نکال رہے ہو (بخاری، رقم ۲۹۷۷۔ مسلم، رقم ۱۱۶۸۔ نسائی، رقم ۳۰۸۷۔ احمد، رقم ۷۵۷۵۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۳۶۳)۔
بنوامیہ سے تعلق کا مطلب یہ نہ تھا کہ حضرت ابوہریرہ ان کے تابع مہمل تھے۔ وہ ان کو نصیحت کرتے اور ان کی غلطیوں پر ٹوکتے۔
حضرت حسن کی وفات پرمروان نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ان کی تدفین کرنے سے روکا تو انھوں نے اسے جھاڑ دیا اور کہا: تم معاویہ کو خوش کرنے کے لیے بلاوجہ جھگڑا کر رہے ہو۔ ابن حجر کہتے ہیں: وہ اس وقت مدینہ کاگورنر نہیں تھا۔
۵۰ھ میں حضرت معاویہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور عصا کو یہ کہہ کر مدینہ سے شام منتقل کرنا چاہا کہ یہ حضرت عثمان کے قاتلوں کے تصرف میں ہیں۔ انھوں نے حضرت سعد قرظ سے عصاے نبوی مانگا اور منبر کو ہٹایا تو سورج مکمل گرہن میں چلا گیا۔ مدینہ کے آسمان پر تارے نظر آنے لگے۔ لوگ خوف زدہ ہو گئے، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوہریرہ آئے اور کہا: امیر المومنین، یہ مناسب نہیں کہ آپ منبر رسول کو اس کی جگہ سے ہٹائیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا، آپ کے عصا کو بھی شام لے کر نہ جائیں۔ اس طرح تو مسجد نبوی ہی منتقل کر دیں گے۔ حضرت معاویہ نے اپنا منصوبہ ترک کر دیا۔ انھوں نے منبر میں چھ سیڑھیاں بڑھادیں اور اپنی کارروائی پر معذرت کی۔
ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ مروان کے گھر گئے اور وہاں ٹنگی ہوئی تصاویر دیکھ کراسے تنبیہ کی(مسلم، رقم ۵۵۴۳۔ احمد، رقم ۷۱۶۶)۔
حضرت ابوہریرہ نے مروان سے پوچھا: تم نے بیاج کی بیع حلال قراردے دی ہے؟اس نے کہا:میں نے ایسا کب کیا؟تم نے پروانہ یا تحریر (document) کے ذریعے سے سودا کرنا جائز ٹھیرایا، حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ دینے سے پہلے غلہ فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس پر مروان نے لوگوں سے خطاب کیا اور اس طرح خرید و فروخت کرنے سے روک دیا۔ حدیث کے راوی سلیمان بن یسار کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اہل کار لوگوں کے ہاتھوں سے ان کی دستاویزات چھین رہے تھے (مسلم، رقم ۳۸۴۹)۔
حضرت ابوسعید خدری کا سماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ساٹھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ایسے ناخلف لوگ سامنے آئیں گے جو نماز ضائع کریں گے اور شہوات کی پیروی کریں گے۔ ان کے بعد کے لا خیرے قرآن کی تلاوت کریں گے، لیکن وہ ان کی ہانسوں سے نیچے نہ اترے گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ مدینہ کے بازار سے گزرتے اور دعا کرتے جاتے:اللہ، مجھے ۶۰ھ تک زندہ نہ رکھنا؛ اے اللہ، مجھے لڑکوں کی حکومت نہ دکھانا(البدایہ والنہایہ ۸/ ۱۱۴)۔
دور اموی میں حضرت ابوہریرہ مسجدنبوی میں مروان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا:میں نے سچے اور سچایقین کیے جانے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن رکھا ہے:میری امت کی تباہی قریش کے کچھ(نادان) نوجوانوں کے ہاتھوں ہو گی۔ مروان نے کہا: ان نوجوانوں پر لعنت ہو۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں وضاحت کر سکتا تھا: فلاں کے بیٹے، فلاں کی اولاد۔ حدیث کے راوی عمرو بن یحییٰ کہتے ہیں: جب بنومروان کی شام میں حکومت قائم ہوئی تو میں اپنے داداسعید بن عمرو کے ساتھ ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ میرے دادانے ان لڑکوں بالوں کو دیکھ کر کہا:ہو سکتا ہے، یہ وہی نوجوان ہوں (بخاری، رقم ۷۰۵۸۔ مسلم، رقم ۷۴۳۱۔ احمد، رقم ۸۰۰۵)۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ’يا ابا هرّ‘کہہ کر پکارتے اور لوگ ابوہریرہ کہتے(بخاری، رقم ۶۲۰۱۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۴۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۸۱۳۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۷۳۸۷)۔ حضرت ابوہریرہ لوگوں کو بھی کہتے تھے کہ مجھے ابو ہرّکی کنیت سے بلاؤ۔ نر مادہ سے بہتر ہوتا ہے (مستدرک حاکم، رقم ۶۱۴۴)۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:میں تین سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا۔ مجھے اس سے زیادہ کسی بات کی حرص نہ ہوتی تھی کہ آپ کے ہر فرمان کو ذہن نشین کر لوں۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوہریرہ کی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رفاقت چار برس رہی(طبقات ابن سعد۴/۳۲۷)۔ ذہبی کہتے ہیں: یہ صحیح تر ہے، اس لیے فتح خیبر سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک چار سال کا عرصہ بنتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ نے ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:میں نوجوان ہوں اور گناہوں کے اندیشے میں مبتلا رہتا ہوں۔ میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ کسی خاتون سے شادی کر سکوں۔ آپ خاموش رہے، انھوں نے دوبارہ اور سہ بارہ کہا تو بھی آپ نے سکوت فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ نے چوتھی بارگزارش کی ( اور خصی ہونے کی اجازت چاہی ) تو ارشاد کیا: ابوہریرہ، تم خصی ہو یا نہ ہو جو تقدیر میں ہے، لکھا جا چکا اوراس پر قلم خشک ہو چکاہے (بخاری، رقم ۵۰۷۶۔ نسائی، رقم ۳۲۱۵۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۶۸۱۴۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۸۴۷)۔
ایک بار حضرت ابوہریرہ نے اپنی کتان (linen، باریک سوتی کپڑا)کی رنگی ہوئی قمیص سے ناک صاف کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ، کیا کہنے، ابوہریرہ کتان سے ناک پونچھتا ہے(بخاری، رقم ۷۳۲۴۔ ترمذی، رقم ۲۳۶۷۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۱۰۶۸۹۔ طبقات ابن سعد۴/ ۳۳۴۔ حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۰۶)۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ میں کھجوریں بانٹیں۔ آپ نے ہرایک کوسات کھجوریں عنایت فرمائیں۔ مجھے دی جانے والی کھجوروں میں سے ایک خشک اورسخت تھی، لیکن مجھے وہی سب سے اچھی لگی، کیونکہ میں اسے دیر تک چباتا رہا(بخاری، رقم ۵۴۱۱)۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ کو سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی ہدایت فرمائی(بخاری، ابواب الوتر:۲۔ ترمذی، رقم ۴۵۵)۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی نصیحت کی اور فرمایا:انھیں مرتے دم تک سفر و حضر میں نہ چھوڑنا: ہر ماہ کے تین روزے، چاشت کے نوافل اور وتر پڑھ کر سونا(بخاری، رقم ۱۱۷۸۔ مسلم، رقم ۱۶۷۳۔ ابوداؤد، رقم ۱۴۳۲۔ ترمذی، رقم ۷۶۰۔ احمد، رقم ۷۵۱۲)۔دوسری روایات میں چاشت کے نوافل کے بجاے جمعہ کے دن غسل کرنے کا ذکر ہے(احمد، رقم ۷۱۳۸۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۲۱۹) ۔
ایک بار حضرت ابوہریرہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میں جو کچھ سنتا ہوں، بھول جاتا ہوں۔ فرمایا:میں جب کچھ کہہ رہا ہوں تو تم اپنا جبہ پھیلا دو اور جب کلام ختم کر دوں تو اپنے گرد لپیٹ لو۔ حضرت ابوہریرہ نے آپ کے اس فرمان پر عمل کیا تو آپ سے سماع کردہ کوئی بات نہیں بھولے (بخاری، رقم ۳۶۴۸)۔ دوسری روایت میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت سے فرمایا: جو آج اپنی چادر پھیلا لے گا، میری کوئی بات نہ بھولے گا۔ تب حضرت ابوہریرہ نے اپنی چادر بچھائی اور آپ کے ارشادات سن کر اپنے سینے سے لگا لی (بخاری، رقم ۷۳۵۴۔ مسلم، رقم ۶۳۹۹۔ ابن ماجہ، رقم ۲۶۲۔ احمد، رقم ۷۲۷۵۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۲۴۱۔ حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۱۷)۔ ایک روایت میں ہے:حضرت ابوہریرہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کے لیے گئے تو وہاں حضرت علی موجودتھے۔ آپ نے ابوہریرہ کو پاس بٹھا کر نصیحت فرمائی کہ جمعہ کے دن غسل کر کے نماز کے لیے جلد آ جانا، ہر ماہ تین روزے رکھنا اور فجر کی رکعتوں کی حفاظت کرنا۔ پھر آپ نے ان کا کپڑا اپنے قریب کر کے انھیں سینے سے لگانے کو کہا۔
حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ علم کا ذخیرہ (اصل: ’وعاء ‘ بمعنی برتن)ہیں (مستدرک حاکم، رقم ۶۱۵۹)۔ کعب کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ سے بڑاعالم نہیں دیکھا جس نے تورات نہیں پڑھی، پھر بھی تورات کے علوم کو خوب جانتا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں:ابوہریرہ اپنے زمانے کے رواۃ حدیث میں سب سے زیادہ حافظہ رکھتے تھے۔
ایک دفعہ مروان نے حضرت ابوہریرہ کے حافظے کا امتحان لیا۔ ا س نے حضرت ابوہریرہ کو بلا کراحادیث سنانے کوکہا۔ پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا مروان کا کاتب ابو زعیزعہ سن کر لکھتا جا رہا تھا۔ سال بھر کے بعد مروان نے یہی عمل دہرایا۔ اس نے دیکھا کہ دو مختلف اوقات میں حضرت ابوہریرہ کی املا کرائی ہوئی احادیث میں ایک حرف کا بھی فرق نہیں (مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۴)۔
حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر حضرت ابوہریرہ سے احادیث دریافت کرتے۔ حضرت ابوایوب انصاری نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت بیان کی توسننے والے نے کہا:آپ بھی تو صحابی رسول ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: ابوہریرہ نے یہ ارشاد رسول سن رکھاہے، بہتر ہے کہ میں انھی کے واسطے سے آگے سناؤں۔ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ اور حضرت جابر بن عبداللہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد، اپنی وفات تک مدینہ میں فتویٰ دیتے اور احادیث بیان کرتے رہے۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن زبیر سے طلاق کا مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس یا حضرت ابوہریرہ کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابن عباس نے حضرت ابوہریرہ سے رابطہ کرنے کوکہا۔ ذہبی کہتے: امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام مالک نے کئی مسائل میں قیاس کو ترک کر کے حضرت ابوہریرہ کی روایات پر فتاویٰ دیے۔
کچھ اصحاب کو حضرت ابوہریرہ کے تفقہ پراعتراض تھا۔ امام شافعی کہتے ہیں: حفظ حدیث کے باوجود حضرت ابوہریرہ کو افضل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حضرت ابوہریرہ کے نسیان کی بھی ایک مثال ملتی ہے۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا کہ ’’کوئی شخص اپنے بیماراونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے‘‘ تو ان کے چچا زاد حارث بن ابوذباب نے کہا: آپ یہ روایت بھی تو بیان کیا کرتے تھے:چھوت لگنے کی کوئی حقیقت نہیں اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے یہ ماننے سے انکار کر دیااور جب حارث نے تکرار کی توغصے سے حبشی زبان بولنا شروع کر دی۔ حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں:میں نے ابوہریرہ کو اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا، کیا پتا کہ وہ بھولے نہ ہوں، بلکہ پہلا حکم اس فرمان نبوی سے منسوخ ہو گیا ہو (بخاری، رقم ۵۷۷۱۔ مسلم، رقم ۵۷۹۱۔ ابوداؤد، رقم ۳۹۱۱)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں حضرت ابوہریرہ صفہ میں مقیم رہے، پرانے اور نئے آنے والے اہل صفہ کی نگہداشت کرتے۔ آپ ان مساکین کی ضروریات پوری کرتے، انھیں جمع کرتے یاکھانے کی دعوت دیتے تو حضرت ابوہریرہ سے کہتے۔ آپ کی وفات کے بعدان کی زندگی مدینہ میں حدیث کی تعلیم دیتے ہوئے گزری۔
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک بازار (بنو قینقاع) گیا۔ آپ واپس ہوئے تو میں بھی ساتھ تھا۔ ( حضرت فاطمہ کے گھر پہنچے تو)آپ نے تین دفعہ پکارا: ’لُكَع‘ (بچونگڑا کہاں ہے)؟ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن آئے، ان کی گردن میں لونگ کا ہار تھا۔ آپ نے دست مبارک پھیلایا، حسن نے بھی ہاتھ بڑھایا، پھر آپ نے انھیں ساتھ لپٹا لیااور دعا فرمائی: ’ اے اللہ، میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے اوران لوگوں سے محبت کر جواسے چاہتے ہیں ‘‘ (بخاری، رقم ۵۸۸۴۔ مسلم، رقم ۶۲۵۷)۔
حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک باغ سے گزررہے تھے کہ باغ کوسیراب کرنے والے اونٹ نے آپ کودیکھا اور اپنی گردن جھکا کر زمین سے لگا لی۔ اصحاب نے کہا:اس اونٹ سے زیادہ ہمیں آپ کو سجدہ کرنے کاحق پہنچتا ہے۔ آپ نے فرمایا:سبحان اللہ، کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو میں عورت کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:مجھے قبیلہ بنو تمیم سے ہمیشہ محبت رہی، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میری امت میں سے بنوتمیم دجال کے لیے سخت رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ بنوتمیم کی ایک جنگی قیدی عورت حضرت عائشہ کو ملی تو آپ نے فرمایا: اسے آزاد کر دو، یہ اسمٰعیل کی اولاد میں سے ہے۔ بنو تمیم کے صدقات مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: یہ میری قوم کے صدقات ہیں (بخاری، رقم ۲۵۴۳۔ مسلم، رقم ۶۴۵۱۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۱۰۱)۔
ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے کسی راستے میں حضرت ابوہریرہ کو دیکھا، لیکن وہ پیچھے مڑ کر نکل گئے۔ واپس آئے تو آپ نے پوچھا: ابوہریرہ، کہاں رہ گئے تھے؟ بتایا: میں جنبی تھا، بغیرغسل کے آپ کے پاس بیٹھنا برا لگا۔ فرمایا:سبحان اللہ، مومن پلید نہیں ہوتا (بخاری، رقم ۲۸۳۔ مسلم، رقم ۸۲۴۔ ابوداؤد، رقم ۲۳۱۔ ترمذی، رقم ۱۲۱۔ احمد، رقم ۷۲۱۱)۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا جاتے تو میں ڈونگے یا کسی برتن میں پانی لا کر آپ کودیتا۔ آپ استنجا کر لیتے تو میں دوسرے برتن میں پانی لاتا جس سے آپ وضو کرتے (بخاری، رقم ۳۸۶۰۔ ابوداؤد، رقم ۴۵ )۔ حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں:ایک بار آپ رفع حاجت کے لیے نکلے، میں پیچھے چل رہا تھا۔ آپ نے فرمایا:پتھر ڈھونڈ لاؤ، ہڈی یا لید نہ لانا۔ میں نے اپنی قمیص کے کنارے سے روڑے پکڑے اور آپ کے پہلو میں رکھ کر پیچھے ہٹ آیا (بخاری، رقم ۱۵۵)۔
حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کرتے ہوئے شہداے احد کی قبور پر حاضری دیتے۔
حضر ت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔ یہ ارشاد نبوی بیان کرنے کے بعد حضرت ابوہریرہ فرماتے تھے:کیا وجہ ہے کہ تم اس حکم پر عمل کرنے سے گریزاں ہو، میں یہ فرمان نبوی تمھیں بار بار زور دار طریقے سے سناتا ہی رہوں گا(اصل: تمھارے کندھوں کے درمیان مارتا رہوں گا)(بخاری، رقم ۲۴۶۳۔ مسلم، رقم ۴۱۳۰۔ ابوداؤد، رقم ۳۶۳۴۔ ترمذی، رقم ۱۳۵۳۔ احمد، رقم ۷۲۷۸۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۲۴۲)۔
حضرت ابوہریرہ نے ایک عورت کو دیکھا کہ خوشبواس سے پھوٹ رہی تھی اور چادر کا پلو غبار اڑارہا تھا۔ انھوں نے پوچھا: اے خداے جبار کی باندی، مسجد سے آرہی ہواور خوشبو چھڑک رکھی ہے؟اس کے ہاں کہنے پر کہا:میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:اس عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی جو اس مسجد میں خوشبو لگا کر آئے، حتیٰ کہ لوٹ کر جنابت والا غسل نہ کر لے(ابوداؤد، رقم ۴۱۷۴۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۳۷۸)۔
حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کسے حاصل ہو گی ؟ تو آپ نے فرمایا:ابوہریرہ، مجھے یہی خیال تھا کہ سب سے پہلے یہ سوال تم ہی مجھ سے کرو گے، اس لیے کہ میں نے تم میں علم حدیث کی حرص دیکھ لی تھی۔ روز حشرمیری شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب وہ ہو گا جس نے خلوص دل سے ’لا إلٰه إلا اللّٰہ‘ کہا ہو گا(بخاری، رقم ۹۹۔ احمد، رقم ۸۸۵۸)۔
طفاوہ قبیلے کے ایک بزر گ مدینہ میں حضرت ابوہریرہ کے مہمان ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو مہمانوں کے معاملے میں ابوہریرہ سے زیادہ چاق وچوبند اور خاطر مدارات کرنے والا نہیں پایا۔ ایک دن وہ اپنی چارپائی پر بیٹھے تھے، میں بھی پاس تھا۔ ایک تھیلی میں کنکریاں یا گٹھلیاں بھری تھیں، ابوہریرہ گٹھلی نکالتے، اس پر تسبیح پڑھ کر نیچے پھینک دیتے۔ تھیلی خالی ہوئی تو انھوں نے نیچے بیٹھی ہوئی کالی کلوٹی لونڈی کو تھما دی، اس نے گٹھلیاں دوبارہ بھر کر ان کو واپس کردی۔ انھوں نے تھیلی پکڑی اور احادیث رسول بیان کرنا شروع کر دیں (ابوداؤد، رقم ۲۱۷۴)۔
حضرت ابو ہریرہ پہلے شخص تھے جنھوں نے حدیث روایت کرنا شروع کی۔ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین سال رہا۔ اپنی پوری عمر مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہوا جتنا ان تین سالوں میں تھا(بخاری، رقم ۳۵۹۱)۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں: وہ پہلے راوی ہیں جن پر تہمت لگی۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: اصحاب رسول میں مجھ سے زیادہ حدیث روایت کرنے والا کوئی نہ تھا، سواے عبداللہ بن عمرو (عمر:ابن حجر) کے، کیونکہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہ لکھتا تھا(بخاری، رقم ۱۱۳۔ احمد، رقم ۷۳۸۹) ۔
ان کے اپنے قول سے پتا چلتا ہے کہ کثرت سے احادیث بیان کرنے کی وجہ سے لوگ ان کے متعلق کیا گمان کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے پیشانی پر ہاتھ مار کرکہا:سنو، تم میرے بارے میں چہ مگوئیاں کرتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہوں، اس لیے کہ تم راہ یاب ہو جاؤ اور میں گم راہ ہو جاؤں (مسلم، رقم ۵۴۹۷)۔ مزید فرمایا: اگر کتاب الہٰی کی یہ دو آیات نہ ہوتیں تو میں کبھی حدیث رسول بیان نہ کرتا: ’اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَا٘ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰي مِنْۣ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِﶈ اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ ‘، ’’بے شک جو ہماری اتاری ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے ہم کتاب الہٰی میں انھیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر چکے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پراللہ اور تمام لعنت کرنے والے (فرشتے یا انسان) لعنت بھیجتے ہیں‘‘ (البقرہ ۲: ۱۵۹) (بخاری، رقم ۱۱۸۔ مسلم، رقم ۲۴۹۲۔ احمد، رقم ۷۲۷۶) ۔
حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا: تمھیں ابوہریرہ پر تعجب نہ ہوا، میرے حجرے کے پاس بیٹھ کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنے اور ’اے حجرے کی مالکن‘ کہہ کر مجھے سنانے لگے۔ میں نوافل پڑھ رہی تھی، میرے فارغ ہونے سے پہلے ہی اٹھ گئے۔ اگر مجھے ان سے بات کرنے کاموقع ملتا توبتاتی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ کی طرح لگاتار کلام نہیں کرتے تھے۔ آپ اس طرح کلام فرماتے تھے کہ کوئی بھی آپ کے ارشادات کو شمار کرکے یاد کر سکتا تھا (مسلم، رقم ۶۳۹۹۔ ابوداؤد، رقم ۳۶۵۵۔ ترمذی، رقم ۳۶۳۹۔ احمد، رقم ۲۴۸۶۵)۔ دوسری روایت ہے کہ آپ کی گفتگوایسی صاف ہوتی تھی کہ ہر سننے والا سمجھ جاتا تھا (ابوداؤد، رقم ۴۸۳۹)۔ شبیر احمد عثمانی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے حدیث روایت کرنے پر نہیں، بلکہ پے درپے، جلدی جلدی احادیث بیان کرنے پر اعتراض کیا، کیونکہ اس طرح ان کا سمجھ میں آنا اور ذہن نشین ہونا مشکل ہوسکتا ہے۔ ابن حجر نے اس اعتراض کو اس طرح رفع کیا کہ حضرت ابوہریرہ کے پاس وسیع ذخیرۂ احادیث تھا، ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ رک رک کر، ٹھیر ٹھیر کر روایت کرتے۔
ایک بار حضرت عائشہ نے حضرت ابوہریرہ کو بلا کر پوچھا کہ وہ حدیثیں کون سی ہیں جو تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کرتے ہو؟تم نے بھی وہی سنا جو ہم نے سنااور وہ دیکھا جوہم نے دیکھا۔ انھوں نے کہا، اماں جان،آپ سرمہ، آئینہ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے بناؤ سنگھار میں مصروف رہتی تھیں۔ مجھے، بخدا، ایسی کوئی مصروفیت نہ تھی جو آپ کے ارشادات سے غافل کرتی(مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۰)۔ حضرت عائشہ نے کہا: ہو سکتا ہے یہ بات ہو (ابن عساکر)۔
حضرت عبداللہ بن عمر کوپتاچلا کہ حضرت ابوہریرہ یہ حدیث بیان کررہے ہیں:’’جو جنازے میں شامل ہوا اور نمازجنازہ پڑھنے تک موجودرہا، اسے ایک قیراط اجر ملے گا اور جو تدفین تک شامل رہا، دو قیراط اجر پائے گا‘‘ (بخاری، رقم ۴۷۔ مسلم، رقم ۲۱۸۹۔ ابوداؤد، رقم ۳۱۶۸۔ احمد، رقم ۷۱۸۸۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۶۳۳)،تو کہا: ابوہریرہ، آپ نے ہمیں بہت احادیث سنالی ہیں اور انھیں پکڑ کر حضرت عائشہ کے پاس لے گئے۔ حضرت عائشہ نے اس روایت کی تصدیق کی(مسلم، رقم ۲۱۹۴۔ ابوداؤد، رقم ۳۱۶۹۔ ترمذی، رقم ۱۰۴۰) تو انھیں کہنا پڑ گیا: ہم نے تو کئی قیراط کھو دیے، آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اس لیے ہم سے زیادہ آپ کی حدیثوں کو جانتے ہیں (مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۷)۔ یہ روایت بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ نے قیراط کے معنی احد کے برابریا اس سے بھی بڑا پہاڑ بتائے، قیراط (carat)ہیرے جواہرات کا وزن کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس سیاق میں یہ ۲۰۰ ملی گرام کے برابر ہوتا ہے اور ۵ قیراط ایک گرام کے مساوی ہوتے ہیں۔
ایک شخص نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے پوچھا:ہم ابوہریرہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ باتیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سن پاتے۔ حضرت طلحہ نے جواب دیا: ہم گھر بار، مال مویشی او ر دھندوں والے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صبح یا شام کے وقت حاضر ہوتے۔ ابوہریرہ مسکین تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر مہمان بن کر پڑے ہوئے تھے، اس لیے ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ انھوں نے وہ ارشادات سماع کیے ہوں جو ہم نہیں کر سکے۔ ہم میں سے کوئی ان پر جھوٹ کاالزام نہیں لگاتا (ترمذی، رقم ۳۸۳۷۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۷۲)۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے شمار احادیث روایت کرتا ہے(گویا جھوٹ بولتا ہے)۔ اللہ حساب لینے والا ہے۔ میں اصحاب صفہ میں شامل ایک مسکین شخص تھا، کھا پی کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چپکا رہتا۔ میرے مہاجر بھائیوں کو بازاروں میں بیع و شرا مشغول رکھتی تھی اور انصارکو ڈھور ڈنگروں کے کام پڑے رہتے تھے۔ جب انصار و مہاجرین موجود نہ ہوتے، میں آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا، چنانچہ وہ کچھ یاد کرلیتاجو ان کے ذہنوں میں نہ ہوتا(بخاری، رقم ۱۱۸۔ مسلم، رقم ۶۳۹۷۔ احمد، رقم ۷۲۷۵۔ سنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۵۸۶۸۔ حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۰۵)۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا:تم ان غنیمتوں کا تقاضا کیوں نہیں کرتے جو تمھارے ساتھی مانگتے ہیں؟ حضرت ابوہریرہ نے کہا: آپ مجھے وہ علم سکھا دیجیے جو اللہ نے آپ کو عطا کررکھا ہے(حلیۃ الاولیاء، رقم ۱۳۱۸)۔
حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت پر نقد کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا:ابو ہریرہ بہ کثرت احادیث بیان کر کے اپنے اوپر بہت ذمہ داری لے لیتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا:کیا آپ ان کی کسی روایت کو غلط بھی قرار دیتے ہیں ؟ انھوں نے کہا: نہیں، تاہم وہ جرأت سے کام لیتے ہیں اور ہم بزدلی دکھا جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ کو ان کا تبصرہ معلوم ہوا تو کہا: میرا کیا گناہ اگر میں یادرکھتا ہوں اور وہ بھول جاتے ہیں (ابوداؤد، رقم ۱۲۶۱۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۵)۔ حضرت ابی بن کعب کہتے ہیں: حضرت ابوہریرہ جرأت سے کام لیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں پوچھ لیتے تھے جو کوئی اور نہ پوچھتا تھا۔ مثلاً انھوں نے سوال کیا: آپ نے امر نبوت میں سب سے پہلے کیا دیکھا؟ اس پر آپ متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور پہلے شق صدر کاواقعہ بیان فرمایا(احمد، رقم ۲۱۲۶۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۷۱۵۵۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۶)۔
حضرت زبیر بن عوام کہتے ہیں کہ مجھے ابوہریرہ کے سماع میں کوئی شک نہیں، لیکن کبھی وہ قول رسول کو اس کے محل سے ہٹا کر بیان کر دیتے ہیں۔
حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکثرت سے احادیث بیان کرنے پرکئی بار تنبیہ کی اورکہا:میں تمھیں دوس کی سرزمین میں واپس بھیج دوں گا۔ ان کاخیال تھا کہ لوگوں کی توجہ احادیث پر مرکوز ہو گی تو وہ ان سے غلط مطلب نکالیں گے، رخصتیں ڈھونڈیں گے اور قرآن سے غافل ہو جائیں گے۔ ایک دفعہ انھوں نے حضر ت ابوہریرہ کو بلا کر پوچھا: ایک بار تم ہمارے ساتھ فلاں صحابی کے گھرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوہریرہ نے جواب دیا: ہاں، مجھے معلوم ہے کہ آپ نے یہ کیوں مجھ سے پوچھا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: کیوں پوچھا ہے؟حضرت ابوہریرہ بولے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا تھا:جس نے جان بوجھ کر مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے(بخاری، رقم ۱۱۰۔ احمد، رقم ۹۳۱۶۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۶۱۱۶)۔ حضرت عمر نے کہا: اب کوئی رکاوٹ نہیں، جا احادیث بیان کر۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غزوۂ ہند (میں فتح)کی خوش خبری دی ہے۔ اگر میں نے اس میں شرکت کر کے شہادت پائی تو اعلیٰ شہید شمار پاؤں گا اور اگر زندہ لوٹ آیا تو ابوہریرہ کاتب (یا محدث)ہی رہوں گا(بخاری، رقم ۲۹۲۴۔ احمد، رقم ۷۱۲۸۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۱۷۷)۔ احمد کی روایت میں ’سند و ہند‘ کے الفاظ ہیں۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: میں نے ابن ام سلیم(خادم رسول حضرت انس بن مالک)کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھاکہ اس کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہ ہو۔ نہار (رحال)بن عنفوہ ایک بار حضرت ابوہریرہ اور حضرت فرات بن حیان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک کی ڈاڑھ جہنم میں احد پہاڑ سے بڑی ہو گی۔ آپ کی پیشین گوئی پوری ہوئی، رحال مسیلمہ کذاب کے ساتھ مرتد ہوا، قرآن مجید سے اس کے ادعاے نبوت کے دلائل پیش کرتا اور حالت ارتدادمیں، یمامہ کی جنگ میں حضرت زید بن خطاب کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دس صحابہ سے فرمایا: تم میں سے جو آخر میں وفات پائے گا، آگ میں جائے گا۔ ان دس میں حضرت ابوہریرہ، حضرت سمرہ بن جندب اور حضرت ابومحذورہ شامل تھے۔ یہ تینوں برابر ایک دوسرے کی خبررکھتے رہے، حتیٰ کہ حضرت ابومحذورہ کا انتقال ہوگیا۔ اب حضرت ابوہریرہ اور حضرت سمرہ بن جندب کو فکر لگی رہتی۔ کوئی حضرت ابوہریرہ کوتنگ کرنا چاہتا تو کہتا کہ سمرہ وفات پا گئے ہیں، وہ یہ سن کر بے ہوش ہو جاتے۔ آخر کار، حضرت ابو ہریرہ فوت ہوئے اور حضرت سمرہ اکیلے رہ گئے۔ بیہقی کہتے ہیں: یہ سب روایات ضعیف اور منقطع ہیں۔ ان پر اس لیے بھی یقین نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حضرت سمرہ مخلص صغار صحابہ میں سے تھے۔ کچھ علماے حدیث کہتے ہیں کہ حضرت سمرہ بن جندب کی وفات حضرت ابو ہریرہ کی وفات کے ایک سال بعد۵۹ھ میں ایک حادثے میں آگ (یا ابلتے پانی)میں جلنے سے ہوئی، یہی ارشاد نبوی کا منشا تھا(الاستیعاب:سمرہ بن جندب)۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:ہم کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے، ابوبکر و عمر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اچانک آپ اٹھ کر باہر تشریف لے گئے۔ آپ کی واپسی میں دیر ہوئی تو ہمیں فکر ہوئی۔ سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اورآپ کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا انصار کے قبیلہ بنونجارکے باغ جا پہنچا، کوئی دروازہ نظر نہ آیا تو باہر موجود کنویں سے باغ کو سیراب کرنے والے نالے کے ذریعے سے اندر جا پہنچا۔ وہاں آپ کو موجود پایا، آپ نے پوچھا: ابوہریرہ، کیا معاملہ ہے؟میں نے بتایا کہ آپ اٹھ کر آگئے اور لوٹنے میں تاخیر کی توہمیں اندیشہ ہوا کہ دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں۔ میں پریشان ہو کر اٹھ آیا، دوسرے لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں۔ فرمایا: ابوہریرہ، (مجھ سے ملاقات کے ثبوت کے طور پر)یہ میری جوتیاں لو، اس باغ کے باہر جوبھی تمھیں دل سے یقین رکھتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا نظر آئے، اسے جنت کی بشارت دے دو۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں: سب سے پہلے میرا سامنا عمر سے ہوا، انھوں نے پوچھا:ابوہریرہ، یہ جوتیاں کیسی ہیں؟میں نے جواب دیا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے کر فرمایا: جوبھی دل سے یقین رکھتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دے، اسے جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر نے میرے سینے پر زور سے ہتھڑ مارا جس سے میں پیٹھ کے بل گر گیا اور مجھے واپس چلنے کو کہا۔ میں بسورتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹا، عمر بھی آن پہنچے اور عرض کیا:یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس خوش خبری پر تکیہ کر بیٹھیں گے۔ آپ نے فرمایا:اچھا، ان کو عمل کرنے دو (مسلم، رقم ۱۴۷)۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کون مجھ سے یہ باتیں سیکھ کر ان پر خو د عمل کرے گا اور دوسروں کو سکھائے گا؟ حضرت ابوہریرہ نے جواب دیا: میں، یا رسول اللہ، آپ نے ان کا ہاتھ تھام کرنصیحت فرمائی: ابوہریرہ، شبہات سے بچتے رہو، عابد بن جاؤ گے؛ محرمات سے دور رہو، زاہد ہو جاؤ گے؛ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو، مسلمان ہو جاؤ گے؛ لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جواپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن بن جاؤ گے(مسند ابویعلیٰ، رقم ۵۸۵۸)۔ دوسری روایت میں ہے:جو اللہ نے تمھاری قسمت میں لکھا ہے، اس پر راضی ہو جاؤ توخوب مال دار ہوجاؤ گے، زیادہ مت ہنسنا، کیونکہ یہ دل کو مردہ کر دیتا ہے (احمد، رقم ۸۰۹۵۔ ترمذی، رقم ۲۳۰۵۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۷۰۵۴)۔
حضرت ابوہریرہ پودا لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے۔ فرمایا:اس سے بہتر بھی ایک پودا ہے، تمھیں اس کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ایک بار ’سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا إلٰه إلا اللہ، واللہ أکبر‘ کہنے سے جنت میں تمھارا ایک درخت لگ جائے گا(ابن ماجہ، رقم ۳۸۰۷)۔
کعب یہودی عالم تھا، اس نے حضرت عمر کے عہد خلافت میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمر نے ان کی بعض روایتوں کی تحسین کی، لیکن تنبیہ بھی کی کہ تم پہلے زمانے کی باتیں بیان کرنا چھوڑدو، نہیں تومیں تمھیں بندروں کی سرزمین میں پہنچا دوں گا۔ حضرت ابوہریرہ کعب سے تورات کے مسائل دریافت کرتے تھے۔ حضرت معاویہ کہتے ہیں:کعب الاحبار اگرچہ اہل کتاب کی روایتیں نقل کرنے والوں میں سب سے زیادہ سچے ہیں، اس کے باوجود ہمیں ان کے جھوٹ کا تجربہ ہوا ہے(بخاری، رقم ۷۳۶۱)۔ کئی بے سروپا اور باطل باتیں ان سے منقول ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:اللہ نے ہفتے کے روز مٹی، اتوار کے دن پہاڑ، پیر کے روز درخت، منگل کے دن مکروہات، بدھ کونور، جمعرات کوچوپایے اور جمعہ کے روز عصر سے رات تک کی آخری گھڑیوں میں حضرت آدم کو تخلیق کیا(مسلم، رقم ۷۰۵۴۔ احمد، رقم ۸۳۴۱)۔ طبری نے اس روایت کو مرجوح قرار دیا ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں: کعب الاحبار نے اپنے صحیفوں سے پڑھ کریہ قول حضرت ابوہریرہ کوسنایا، کسی راوی کو وہم ہوا اور اس نے اسے مرفوع روایت سمجھ لیا۔
حضرت بسر بن سعید کہتے ہیں:حدیث کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ میں نے دیکھا کہ ابوہریرہ نے چند احادیث رسول اور کعب الاحبار کے کچھ اقوال سنائے۔ ان کی مجلس ختم ہوئی تو ان سے سماع کرنے والے ایک شخص نے حدیث رسول کو قول کعب اور کعب کے قول کو حدیث رسول بناڈالا۔
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی زنا کا ر زنا کرتے ہوئے مومن نہیں ہوتا، کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا، نہ کوئی شرابی بادہ خواری کرتے ہوئے ایمان سے متصف ہوتا ہے۔ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں:ابوہریرہ یہ حدیث بیان کرتے ہوئے یہ فقرہ بڑھا دیتے تھے: ایک ڈاکو عوام کی نگاہوں کومتوجہ کرنے والا ڈاکا ڈالتے ہوئے ایمان سے خارج ہوتاہے(مسلم، رقم ۲۰۲۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۶۳۵۷)۔
ملا دینے(یا بڑھا دینے، اصل میں ’الحاق‘)کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ایک مرفوع روایت میں غیر مرفوع قول کا پیوند لگا رہے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں۔ یہ بات دوسرے طرق سے واضح ہو جاتی ہے۔ سنن دارمی میں حضرت ابوہریرہ ہی کی روایت(رقم ۲۰۳۰) ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ڈاکو ایسا بیش قیمت ڈاکا ڈالتے ہوئے، جس کی طرف اہل ایمان کی نگاہیں اٹھیں، دائرۂ ایمان میں نہیں ہوتا۔ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت (رقم ۲۲۷۶۳) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ڈاکو ایسا بیش قیمت ڈاکا ڈالتے ہوئے، جسے اہل ایمان سراٹھا کر دیکھیں، مومن نہیں ہوتا۔
کبھی حضرت ابوہریرہ روایت بیان کرنے کے بعد اپنا تبصرہ کردیتے ہیں یا کسی اور کا قول نقل کردیتے ہیں لیکن یہ ’قال أبوھریرة‘ کی وضاحت سے ممیز ہوتا ہے۔ اس کی مثال وہ روایت (بخاری، رقم ۲۷۸۔ مسلم، رقم ۷۷۰۔ احمد، رقم ۸۱۷۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۹۵۹)ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ نہا رہے تھے کہ پتھر ان کے کپڑوں سمیت لڑھک گیا(اصل:پتھر کپڑے لے دوڑا)۔ انھوں نے کپڑے پکڑنے کے بعد پتھر کو مارنا شروع کر دیا۔ روایت مکمل ہونے کے بعد حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:واللہ، پتھر پر حضرت موسیٰ کی چھ یا سات ضربوں کے نشانات ہیں۔ شارحین مسلم نے اس کے سوا کچھ نہیں بتایا کہ یہ ایک اثر ہے، جب کہ ابن حجر کہتے ہیں: یہ حضرت ابوہریرہ کا قول ہے۔
اگرچہ حضرت ابوہریرہ صدق، دیانت اور زہد کے عظیم منصب پر فائز تھے، تاہم شعبہ بن حجاج کہتے ہیں کہ انھوں نے کچھ روایتوں میں تدلیس سے کام لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان مسموع روایتوں کی طرح سنانااگرچہ اسے خود نہ سنا ہو۔ شعبہ نے حضرت ابو ہریرہ کی اس روایت کا حوالہ دیا: جس نے حالت جنابت میں صبح کر دی، اس کاروزہ نہ ہو گا۔ جب ان سے اس کی اصل پوچھی گئی تو بتایاکہ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، کسی نے مجھے بتایا ہے۔ مسلم کی روایت ۲۵۸۹ میں ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن اورعبدالرحمٰن بن حارث نے حضرت ابوہریرہ سے یہی روایت سنی تو امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ سے استفسار کرنے گئے۔ دونوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں صبح ہو جاتی تھی اور آپ ایسے ہی روزہ رکھ لیتے تھے۔ اب یہ دونوں مروان کے اصرار پرحضرت ابوہریرہ کے پاس پہنچے اور انھیں امہات المومنین کا مشاہدہ بتایا۔ حضرت ابوہریرہ نے پوچھا: کیا انھوں نے یہ کہا ہے؟اثبات میں جواب ملنے پر کہا: وہ بہتر جانتی ہیں۔ پھر بتایا کہ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں، بلکہ فضل بن عباس سے سنی ہے۔ اس کے بعدحضرت ابوہریرہ نے یہ روایت بیان کرنا چھوڑ دی۔
ذہبی کہتے ہیں:صحابہ میں تدلیس عام ہے، وہ اپنے سے بڑے صحابی کا نام ذکر نہیں کرتے، عادل ہونے کی وجہ سے ان کی روایت مانی جاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ بعض اوقات فرامین نبوی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مبالغے کی اس حد تک پہنچ جاتے جو شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا ہوتانہ آپ کی طرف سے اس کا تقاضا کیا گیا ہوتا۔ مثلاً یہ روایت کہ حضرت ابوہریرہ نے وضو کرتے ہوئے بازو سیدھا کیا، حتیٰ کہ اسے بغل تک دھو ڈالا۔ ان کے شاگرد ابوحازم نے جو پیچھے کھڑ ے دیکھ رہے تھے، پوچھا: یہ کیسا وضو ہے؟ انھوں نے کہا: او ابو العجم فروخ کی اولاد، مجھے پتا ہوتا کہ تو یہاں ہے تو وضو اس طرح نہ کرتا۔ میں نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا ہے: روز قیامت مومن کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا جہاں تک اس کا وضو پہنچا (مسلم، رقم ۵۸۶۔ نسائی، رقم ۱۴۹۔ احمد، رقم ۸۸۴۰۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۶۱۹۵)۔
ابراہیم نخعی حضرت ابوہریرہ کی وہی احادیث نقل کرتے تھے جن میں جنت دوزخ کا ذکر ہوتا۔ ذہبی کہتے ہیں:ان کے اس عمل کا کوئی اعتبارنہیں، کیونکہ مسلمان قدیم سے اب تک ان کی روایات کو درست اور محکم جانتے آئے ہیں۔ حضرت عائشہ نے حضرت ابوہریرہ کی کئی روایات کی تاویل کی اور کچھ کو ان کا وہم قرار دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے تلف کرنے کا حکم دیا ہے، سواے شکاری کتے، بکریوں کے گلے کے کتے اور اس کتے کے جوجانوروں کی حفاظت کرتا ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا گیا:ابوہریرہ تو کھیت کے کتے کو بھی مستثنیٰ کرتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، ان کی کھیتی باڑی ہے(مسلم، رقم ۴۰۱۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۸۸)۔ تقی عثمانی کہتے ہیں:ہمارے دور کے ملاحدہ نے حضرت ابن عمر کے اس تبصرے کو بنیاد بناکر صحت احادیث میں شک کرنا شرع کر دیا، حالاں کہ حضرت ابو ہریرہ کا بیان کردہ ٹکڑاان سے (مسلم، رقم ۴۰۳۰)، حضرت سفیان بن ابوزہیر(مسلم، رقم ۴۰۳۶) اور خود حضرت عبداللہ بن عمر (مسلم، رقم ۴۰۲۹)سے مرفوعاً مروی ہے۔ نووی کا کہنا ہے: چونکہ حضرت ابوہریرہ خود کسان تھے، اس لیے اس فرمان نبوی کا بالالتزام ذکر کرتے۔
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث کے دو دفتر (اصل: دوبرتن) حاصل کیے۔ ایک کوتومیں نے لوگوں میں بانٹ دیا اور اگر دوسرے کو بھی عام کر دیتا تو یہ حلق کاٹ دیا جاتا(بخاری، رقم ۱۲۰)۔ دوسری روایت:تم مجھے سنگ سار کر دیتے(مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۲)۔ ابن کثیر کہتے ہیں: جس دفترکوحضرت ابو ہریرہ نے نشر نہیں کیا، فتنوں اور صحابہ کے مابین ہونے والی جنگوں کے بارے میں ہو گا،جیسا کہ دیگر اصحاب کے اقوال سے اشارہ ملتا ہے۔ شیعہ محققین نے حضرت ابوہریرہ کے اس قول پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کی خدمت میں حضرت علی کا یہ ارشادپیش کیا جاتاہے:لوگوں کو وہ بتاؤ جو وہ پہچانتے ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ و رسول کی تکذیب کی جائے؟(بخاری، رقم ۱۲۷)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے کہا: میں جو احادیث آج بیان کرتا ہوں، عمر کے سامنے بیان کرتا تو وہ میراسر پھاڑ دیتے۔ ذہبی کہتے ہیں:حلال و حرام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کوچھپانا کسی طرح جائز نہیں، اسی طرح سنت کا احیا کرنے کے لیے بھی فرامین رسول کو عام کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ احادیث کادوسرا حصہ (برتن)نشر کرتے تو ہو سکتا ہے، انھیں ایذا دی جاتی یا قتل کر دیاجاتا۔
مروان نے مدینہ کی گورنری کے زمانے میں حضرت ابوہریرہ کی تمام مرویات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا ارادہ کیا۔ حضرت ابوہریرہ نہ مانے تو اس نے ایک کاتب کی مدد سے ان کی بیان کردہ احادیث لکھوا لیں۔ مجموعہ ان کودکھایا گیا تو انھوں نے تلف کر ادیا(مستدرک حاکم، رقم ۶۱۶۳)۔
’’صحیفہ ‘‘میں ہمام بن منبہ نے اپنے استاد حضرت ابوہریرہ کی روایات جمع کی تھیں۔
مطالعۂ مزید: الجامع المسند للبخاری(شرکۃ دار الارقم )، المسند الصحیح للمسلم (دارالسلام)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی أسماء الرجال(مزی)، البدایۃ والنہایۃ(ابن کثیر)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ:J Robson)، Wikipedia (English, Arabic, Persian, Urdu)، Al-Islam org (A shi'te Encyclopedia)، شیخ المضیرۃ ابوہریرۃ(محمود ابوریۃ)، Abu Hurayra and the Falsification of Traditions (یاسین الجبوری)۔
[باقی]
_______________