ڈاکٹر حافظ خورشید احمد قادری*
آج سے ٹھیک ایک برس قبل جون ۲۰۱۹ء کے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں ’’قرآن مجید کے حفظ کی رسم پر نظر ثانی کی ضرورت‘‘ شائع ہوا تو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور اسلاف علیہم الرحمۃ کی روایات کی پیروی کرنے والے سواد اعظم میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے ہی ماہ جولائی ۲۰۱۹ء کے ’’ضیائے حرم‘‘ بھیرہ میں راقم کے قلم سے ایک مضمون ’’حفظ قرآن کریم کی روایت پر نظر ثانی کی ضرورت ؟ ایک فکری مغالطے کا ازالہ‘‘ کے زیر عنوان سامنے آیا۔اگر چہ یہ مضمون سب سے پہلے ماہنامہ ’’اشراق‘‘کو ہی بھیجا گیا، لیکن اس علمی جریدہ کے ارباب حل وعقد نے اسے درخور اعتنانہ جانا۔شاید ایک ماہ کے غورو تدبر (جو اہل اشراق کا طرۂ امتیاز ہے) کے بعداگست ۲۰۱۹ء میں راقم کے مضمون کو (بزعم خود کچھ ضروری تر میمات کے بعد) ’’ کیا قرآن مجید کے حفظ کی روایت پر نظر ثانی ہو سکتی ہے؟‘‘ کے زیر عنوان شائع کیا۔ چونکہ بہت سی گرد اڑا دی گئی تھی، اس لیے بزرگ عالم دین اور وفاقی شرعی عدالت کے مشیر حافظ صلاح الدین یوسف(۱۹۴۵ء- ۲۰۲۰ء ) کے سلفیت کی بھر پور نمایندگی کرنے والے مضمون ’’کیا حفظ قرآن کی ’’رسم‘‘ غیر ضروری اور بدعت ہے؟ غامدی گروہ کا ایک اور نہایت فتنہ انگیز شوشہ‘‘ کو بھی ’’اشراق‘‘ کے صفحات پر جگہ دی گئی۔ قریباً تین صفحات پر مشتمل اپنے مضمون میں وفاقی شرعی عدالت کے مشیر نے پہلے ایک صفحے میں فراہی (۱۸۶۳ء- ۱۹۳۰ء)، اصلاحی (۱۹۰۴ء- ۱۹۹۷ء) اور غامدی گروہ کے خوب لَتّے لیے، تین سوالات کے مختصر جوابات دیے اور حفظ قرآن کی ترغیب میں چار احادیث نقل فرمائیں۔ ماہ اگست میں ڈاکٹر محمد امین (پ۱۹۴۷ء)نے ماہنامہ ’’البرھان‘‘ میں ’’ حفظ قرآن کو بدعت کہنا گم راہ کن ہے، غامدی مکتب فکرکے ڈاکٹر عرفان شہزاد کا موقف تجدد کاشاہکار ہے‘‘کے عنوان سے اپنی راے کا اظہار کیا ہے۔ انھی دنوں مفتی محمد منیب الرحمٰن (پ۱۹۴۵ ء ) نے بھی ’’دنیا نیوز‘‘ میں ’’زاویۂ نظر‘‘ کے کالم میں ’’کیاحفظ قرآن بدعت ہے؟‘‘ کے زیر عنوان دو اقساط میں ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار کی آرا کا محاسبہ ادارتی صفحے پر کیا۔ اس کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید جو گرد اڑا دی گئی تھی، وہ بیٹھ چکی ہے۔ ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار نے اپنی آرا سے رجوع کر لیا ہو گا، لیکن ٹھیک سال بعد جون ۲۰۲۰ء میں اسی مضمون نویس (پ ۱۹۷۶ء) نے ’’ہم جنس پرستی اور جنسی زیادتی: دینی اور سماجی تناظر میں متعلقہ مسائل کا جائزہ اور تجاویز‘‘ کے زیر عنوان جون ۲۰۱۹ء والی باتوں کو ہی ایک نئے انداز میں دہرایا ہے۔ اگر مقالہ نگار کی تحریر کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے دعاوی کی خود ہی تردید کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔جیسے کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس طرح کے انسانیت سوز واقعات کے تعدد (frequency)کا تاثر غیر حقیقی ہے۔ اس حقیقت سے آپ نے بہ ایں الفاظ پردہ اٹھایا ہے:
’’... ہر معلوم واقعہ کا سوشل میڈیا پر چرچا ہونااسے زبان زد عام کر دیتا ہے۔ جس سے ان کے کثرت وقوع کا تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے۔‘‘ [1]
ہمارا کہنا یہ ہے کہ جب اس جرم کی شرح وہی ہے، تو پھر اس واویلے کے کیا مقاصد ہیں ؟ فاضل مقالہ نگار خود تسلیم کرتے ہیں کہ:
’’ ...آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کی شرح کم وبیش وہی ہے جو سماج میں ہمیشہ سے رہی ہے۔‘‘[2]
’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار چونکہ خود ہی مدعی، خود ہی وکیل اور خود ہی منصف کا کردار سنبھالے ہوئے ہیں، اس لیے اسی زعم کے زیر اثر لکھتے ہیں :
’’...جنسی زیادتی کے بعد قتل کے جرم کے علاوہ، مدارس دینیہ کا حصہ اس معاملے میں تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے، جب کہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعات زیادہ تر مدارس کے باہر کے جارحین کی طرف سے صادر ہوئے ہیں۔ ‘‘ [3]
درج ذیل بیان سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقالہ نگار مدارس کے خلاف جیسے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ذرایہ بیان ملاحظہ ہو:
’’...جارح کو زیادتی کا موقع کیسے ملتا ہے، اس تناظر میں والدین اور تعلیم گاہوں، خصوصاً مدارس ــــــــ جہاں یہ واقعات تسلسل سے پیش آتے ہیں ــــــــ کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔‘‘[4]
ایک جگہ آپ نے اسے ایک معاشرتی انسانی مسئلے کی حیثیت سے خود ہی تسلیم کیا ہے:
’’ ...زیر بحث معاملہ میں کم زور فریق کم سن بچہ ہے، جو اپنے سے طاقت ور افراد (استاد، ہم سبق/ ہم مکتب، قریبی رشتہ دار، محلے دار وغیرہ) کی حراست میں آجاتا ہے اور استحصال سے مراد جنسی زیادتی ہے۔‘‘[5]
اس معاشرتی برائی اور انسانی المیہ کے وقوع کے امکانات کا اصول مقالہ نگارنے خود ہی بیان کر دیا ہے۔
’’ ...طویل یا معتد بہ اوقات کے لیے کم سن بچوں کا متعلقہ طاقت ور اور با اختیار افراد کو دستیاب ہونا انھیں بچوں کے استحصال پر ابھارتا ہے۔ جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب وہاں زیادہ ہو گا جہاں یہ امکانات زیادہ ہوں گے۔‘‘ [6]
یعنی اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں بھی مختلف عمروں کے لوگ جمع ہوں گے۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی یا اجتماعیت کا کوئی اور ادارہ وہاں اس کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنقید کا نشانہ مدارس ہی کیوں ؟
فاضل مقالہ نگارنے مذکورہ بالا ـــــــــ بچوں کی جاے تدریس سے متعلق ـــــــــ احتیاطی تدبیر پیش کرنے سے پہلے بالکل غور نہیں کیاکہ ہما را معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے۔صدیوں سے یہاں جو نظام تعلیم رائج ہے ـــــــــ جس میں حفظ قرآن کریم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ـــــــــ اس میں نگرانی اور دیکھ بھال کے موثر ذرائع اختیار کیے گئے ہیں۔مقالہ نگار کی تجویز ملاحظہ ہو:’’...گھر میں اور ٹیوشن سنٹر میں تدریس کی جگہ ایسی ہونی چاہیے کہ مختلف اطراف سے نظر رکھی جا سکے۔‘‘[7]
اس بات سے ہمارے معاشرے کے اکثراہل نظر آگاہ ہیں کہ حفظ قرآن کی تعلیم کے لیے عام طور پر مساجد کے بڑے ہال یا مساجد کی کسی بڑی،کھلی،ہوادار اور روشن جگہ کو منتخب کیا جاتا ہے،جہاں ہر وقت لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ایک معاشرتی مرکزکی حیثیت سے محلے کے مسائل،تقاریب نکاح،وفات و جنازے کے اعلان اورپنچائیت کے حوالے سے مساجد میں اکثر لوگوں کا آنا جانالگا رہتا ہے توپھر بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اس سے محفوظ جگہ کون سی ہو سکتی ہے۔ان سب حقائق کی موجودگی میں مقالہ نگارکا اپنی خود ساختہ راے پر اصرار حیران کن ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’بچے سے زیادتی سے متعلق... امکانات سب سے زیادہ مدارس کے ماحول میں میسر ہیں... یہاں اس جرم کے وقوع کا تناسب دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا تعجب انگیز نہیں ہے۔‘‘[8]
مقالہ نگار نے درست لکھا:
’’...حفظ قرآن ایک بہت بڑی سعادت ہے، جس کے حصول کے لیے بہترین عمر بچپن کی ہے۔‘‘[9]
’’شعب الا یمان‘‘ کی حدیث نے جس منزل کی طرف اشارہ کیا ہے، حفظ قرآن کریم اس منزل کے حصول کی جانب ایک پختہ قدم ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لحامل القرآن إذاعمل به، فأحل حلاله وحرم حرامه، یشفع في عشرة من أھل بیته یوم القیامة، کلھم قد وجبت له النار.[10]
’’اس حافظ قرآن کے لیے جو اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، اس کی حلال کردہ اشیا کو حلال اور حرام کردہ اشیا کو حرام کرتا ہو، وہ اپنے گھرانے کے دس افراد، جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی، کی سفارش کرے گا۔‘‘
جوش تعصب میں یہاں مقالہ نگار کا قلم چوک گیا، لکھتے ہیں :
’’...جہنم کی آگ کا خطرہ دنیا کے کسی بھی خطرے کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‘‘[11]
’’...بچے کو ان تمام رشتوں ناتوں سے دور کسی باہر کے مدرسے میں بھیجا جائے، جہاں وہ کوئی شنا سا نہ پائے اور یوں مختلف عمر اور مختلف علاقوں کے لڑکوں اور اساتذہ کے اجنبی ماحول میں وہ پوری توجہ سے قرآن مجید حفظ کرنے پر مجبور ہو جائے۔‘‘ [12]
اس میں ’’مجبور ہو جائے‘‘ کے الفاظ مقالہ نگار کی بیمار ذہنیت کا شاخسانہ ہیں۔اسلامی تاریخ میں بچے کی تربیت کے لیے گھر اور قریبی عز یزوں سے دور رضاعت اور ابتدائی تربیت کے لیے اجنبی ماحول میں بھیجا جانا سنت ہے۔ مغربی اقوام میں بورڈنگ اسکول کا تصور بھی تربیت کے اسی تصور کے گرد گھومتا ہے۔بورڈنگ اسکول صرف وہی نہیں جہاں بہت بھار ی فیسوں کی ادائیگی کی جاتی ہے، بلکہ وہاں چیریٹی(CHARITY)کے ادارے بھی بورڈنگ ا سکول چلاتے ہیں۔ مقالہ نگار نے یہاں بھی اپنی مخصوص ذہنیت کی بدولت ایک اورصغریٰ کبریٰ بنایا ہے، اور مدارس میں کم سن بچوں کے داخلے کی ایک وجہ غربت کو قرار دیا ہے:
’’گھرانے کی کم آمدنی اور مفلسی بچوں کو مدارس میں داخل کرانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔‘‘ [13]
حقیقت یہ ہے کہ ہماری مادری زبان میں کہتے ہیں کہ ’’دنیا بھلیو بھلی‘‘، اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کے بچوں کے لیے بھی مدارس جاے پناہ ہیں۔ جیسے فقہ حنفی کے بہت بڑے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ (۱۱۳ھ -۱۸۲ھ) اسی کم سنی اور غربت کے دور میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۸۰ھ-۱۵۰ھ)کے ہاں حصول علم کے لیے لائے گئے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بہت سے پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانے دینی علوم کے حصول کی خاطر باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنے بچوں کو حفظ قرآن کریم کی دولت کے حصول کے لیے گھر سے دور مدارس میں بھیجتے ہیں۔ راقم کے ہم جماعتوں میں سے ایک ساتھی ڈنگہ ضلع گجرات کے عطاء المصطفیٰ (پ۱۹۵۹ء)میڑک کا امتحان دینے کے بعد ۱۹۷۶ء میں حفظ قرآن کریم کی دولت کے حصول کے لیے آئے۔ ایک سال سے بھی کم مدت میں حفظ مکمل کر کے انھوں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ ایم- اے کے فوراً بعد حکومت پنجاب کے محکمۂ تعلیم میں لیکچرر کے طور پر گورنمنٹ زمیندارہ کالج گجرات میں خدمات انجام دیتے رہے۔ڈنمارک کے پاکستانی تارکین وطن نے ۱۹۹۱ء میں آپ کو اپنے نونہالوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے دعوت دی تو آپ ایک استاد اور مبلغ کے طور پر وہاں تشریف لے گئے۔ چند سالوں بعد ناروے میں مقیم اہل وطن نے یاد کیا تو آپ اردو، انگریزی،عربی، فارسی اور ڈینش زبانوں میں لکھنے اور بولنے کی صلاحیت کے ساتھ ناروے منتقل ہو گئے۔ ایک سال سے بھی کم مدت میں آپ نے نار و یجین زبان میں بھی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت میں مہارت کا درجہ حاصل کر لیا۔ اب پچھلے ۲۵ سال سے تبلیغ، تدریس اور تفہیم دین کے مقدس کام کے ساتھ وابستہ ہیں۔وہ اپنی تمام کامیابیوں کی بنیاد حفظ قرآن کریم کو قرار دیتے ہیں۔
ایک اور ساتھی، منڈی بہاؤالدین کے محمد سرفراز اختر مڈل کے امتحان میں پورے ضلع جہلم میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر کے حفظ قرآن کریم کے لیے آئے۔ قریباً ایک سال کی مدت میں حفظ مکمل کر کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ آج وہ بھی اپنے علاقے منڈی بہاؤالدین کے ڈگری کالج میں حکومت پنجاب کے محکمۂ تعلیم کے تحت اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
راقم (پ ۱۹۶۹ء) نے دس سال سے بھی کم عمری میں حفظ قرآن کریم کی دولت حاصل کی۔ تعلیمی سلسلہ الحمد للہ(پی-ایچ-ڈی) کے بعدبھی رکا نہیں۔یورپ کے مختلف ممالک امریکا، کینیڈا،آسٹریلیااور بہت سے عرب ممالک کے ان گنت اداروں میں ہمارے حفظ کے ساتھی ہی امام، خطیب، استاد اور اسکالر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تین مرتبہ ترکی کے وزیر اعظم اور دو مرتبہ صدر منتخب ہونے والے رجب طیب اردگان (پ ۱۹۵۴ء) ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو انھیں اسکول داخل کرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ انھیں ایک دینی مدرسے میں حفظ قرآن کریم کے لیے بھیج دیا گیا۔ اردگان نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ میری زندگی کی تمام کامیابیاں حفظ قرآن کریم کی برکت سے ہیں۔ آپ کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے۔سید الایام جمعۃ المبارک کے بابرکت دن ۲۴/ جولائی ۲۰۲۰ء کوآیا صوفیہ میں ۸۶ برس بعدنماز جمعہ کا اہتمام بھی رب العزت نے اسی حافظ قرآن کی قسمت میں ہی لکھا تھا۔وما توفیقی الا باللہ
ما لدیپ کے تیس برس (۱۹۷۸ء- ۲۰۰۸ء) صدر رہنے والے مامون عبد القیوم (پ ۱۹۳۷ء)دس برس کی عمر میں تعلیم کے لیے الازہر چلے گئے۔ آپ نے بھی الازہر کے نصاب کے مطابق حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی۔ دس برس کی عمر میں آپ کا اپنے گھر اور شہر نہیں، بلکہ وطن سے دور جانا،ایک نظام کے تحت حفظ قرآن کریم کی دولت حاصل کرنا،’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار کی بہت سی غلط فہمیوں اور کج بحثیوں کا واضح جواب ہے۔
’’اشراق‘‘کے مقالہ نگار نے چھوٹی عمر کے طالب علموں کے حوالے سے اپنے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، وہ ہر وقت، ہر جگہ اور ہر شخص کے ساتھ نہیں ہوتے۔ انسانی طبائع سے متعلق کہا جاتا ہے کہ Every Person is Unique in this World،یعنی اس دنیا میں جتنے انسا ن ہیں، خالق نے اتنی ہی طبائع پیدا کی ہیں۔ جہاں جہاں شیطان کی ذریت اپنا اظہار کرتی ہے، فاضل مقالہ نگار نے ا یسے معدودے چندواقعات کوبہت مبالغے کے ساتھ نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اچھے یا برے لوگ ہر جگہ اور ہر نظام میں موجود ہوتے ہیں۔ نہ بہت زیادہ اچھائی اور نیک نامی کی وجہ سے کسی نظام کو زندگی کے باقی نظاموں پر فوقیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ایک دو بری مثالوں کی وجہ سے کسی نظام کو لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ البتہ بہتری اور اصلاح کی گنجایش ہر شخصیت، ادارے، اور نظام میں موجود رہتی ہے، اس کے لیے ہر ذی شعور کو اپنی اپنی اہلیت کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے۔
مغربی تعلیم اور سوچ کے زیر اثر ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار اس بات کو ایک نوحے کے طور پر بیان کر رہے ہیں کہ بچوں کی سال میں والدین سے ایک دو ہی ملاقاتیں ہو پاتی ہیں:
’’...مدارس میں یہ کئی کئی ماہ اپنے بچوں کی خبر نہیں لیتے۔ بعض بچوں کی تو اپنے والدین سے سال میں ایک یا د و بار ہی ملاقات ہو پاتی ہے۔‘‘[14]
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے علما،ائمۂ فن اور محققین اپنی تعلیم کے لیے کئی کئی سال گھر سے دور رہ کر جدوجہد کرتے رہے۔ خود اصحاب صفہ کی عمروں، قبائل اور علمی استعداد میں جو تنوع تھا، اس سے اہل علم آگاہ ہیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسے نوجوان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے اطفال سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے پختہ عمر کے صحابہ ایک ہی جگہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتے۔
مقالہ نگار خود تسلیم کرتے ہیں کہ مدارس کے نظام میں کسی بھی طرح کی بے ہودگی پر سخت سزا دی جاتی ہے، لیکن ان کے بقول جس چیز کی کمی ہے، وہ خاص طرح کی حساسیت ہے۔ فرماتے ہیں :
’’...ایسا نہیں کہ مدارس میں اس کام کی کھلی چھٹی ہے، پکڑے جانے پر سخت سزا اور سرزنش کی جاتی ہے، لیکن اس معاملہ میں حد درجہ کم حساس ہونے کی بنا پر وہ ایسے اقدامات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن بنا سکیں۔‘‘[15]
کالی بھیڑیں ہر شعبے، علاقے اور ادارے میں پائی جاسکتی ہیں۔ لاہور میں اشرافیہ کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے معروف ادارے لاہور گرامر اسکول 1 / 1A گلبرگ غالب مارکیٹ کے پوش علاقے میں واقع ہے۔ سرخ ٹائلوں سے مزین اس کی شان دار عمارت اور اس میں پڑھنے والوں کی رنگا رنگ لمبی لمبی گاڑیاں اور پیجیرو زدیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہ چاند پر رہنے والی مخلوق ہے۔ ان کی ایک ایک ادا سے خوش حالی ٹپکتی ہے۔ ایک مشاہد یہ سوچ سکتا ہے: چونکہ یہ لوگ معاشی مسائل سے ناآشنا ہوتے ہیں، اس لیے ذہنی اور اخلاقی مسائل کبھی انھیں چھو کر بھی نہیں گزرے ہوں گے۔ ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار کے بقول غربت، احساس احسان مندی اور عدم حساسیت کی وجہ سے ـــــــــ حفظ قرآن کریم کے طلبا، اساتذہ، بڑی عمر کے ہم جماعتوں اور دیگر جارحین کے سامنے صداے احتجاج بلند نہیں کرپاتے، اس لیے ـــــــــ وہ ان کی ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
معتبر انگریزی اخبار ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ (Daily Times) کی ۲۹؍ جون ۲۰۲۰ء کی رپورٹ اس حوالے سے چشم کشا ہے، جو درج ذیل عنوان سے شائع ہوئی:
Students Come Forward as Sexual Harassment Cases Rife in LGS
’’لاہور گرامر اسکول میں بہ کثرت ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات پر طالبات کا سامنے آنا۔‘‘
’’...مدارس کاروباری نفسیات سے آزاد ہوتے ہیں۔ عطیات اور چندے کے پیسوں سے مدارس کے اخراجات چلائے جاتے ہیں۔ تعلیم مفت ہے۔ مفت میں دی چیز احسان مندی کا تقاضا کرتی ہے اور احسان مند کا استحصال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‘‘ [16]
پیش نظر لاہور گرامر اسکول میں تعلیمی سال کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کو ربع (Quarter) کا نام دیا جاتا ہے۔ اسکالر شپ کے بغیر یہاں پڑھنے والے ہر طالب علم سے ایک ربع کی فیس ایک لاکھ روپے سے صرف دو ہزار کم، یعنی ۹۸۰۰۰ روپے لی جاتی ہے۔ اتنی بھاری بھرکم فیسوں اور اعلیٰ شعوری درجہ رکھنے والے اس اسکول سے متعلق اخلاقی حوالے سے ہوش ربا باتیں پچھلے کئی سالوں سے گردش میں رہی ہیں۔ لیکن وہاں پڑھنے پڑھانے والوں کے معاشرتی مقام کے پیش نظر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ روزنامہ ڈیلی ٹائمز کی ۲۹ ؍ جون کوشائع ہونے والی رپورٹ پڑھنا شروع کی تو سچی بات ہے ایک استاد، ایک الفاظ ومعانی سے آشنا فرد اور ایک باپ کی حیثیت سے حوصلہ بالکل جواب دے گیا۔ حقائق تک رسائی کے خیال سے بمشکل تمام اسے مکمل کیا تو جن حقائق سے آگاہی ہوئی، انھیں قلم پر لانا مشکل ہوگیا۔ نورالعین علی نے اشرافیہ کے اس اسکول براے طالبات کی جن غیر اخلاقی باتوں کا ذکر کیا، وہ اسلامی مدارس اور ان کے نظام پر بے جا تنقید کرنے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی سے زیادہ ہیں :
۱۔اساتذہ اور دفتر کے ذمہ داران طالبات کے حوالے سے غیر مہذب اور غیر شائستہ زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں ۔
۲۔نامناسب طریقے سے طالبات کے جسم کو دست گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
۳۔تیرہ سے انیس سال (teenagers)کی طالبات کو اساتذہ اور دفتر کے ذمہ داران کی طرف سے تہذیب سے عاری تصاویر بھیجی جاتی ہیں۔
۴۔ ایک طالبہ نے ہیڈمسٹریس سے شکایت کی کہ (رپورٹ میں بدمعاشوں کے نام لکھے ہیں، لیکن راقم یہاں ان ناموں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا) فلاں استاد کو آپ نے میرا ٹیوٹر کیوں مقرر کیا ہے، وہ تو ہر وقت میری چھاتی پر نظریں جمائے رکھتا ہے۔ میں کرسی پر بیٹھی ہوں تو میری کمر پر تھپکیوں کے بہانے ہاتھ پھیرتا ہے۔ میں اس حرکت سے بچنے کے لیے اپنی کرسی پرے کرتی ہوں تو وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے آپ تو میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔ مختصراً یہ کہ وہ بہت بیمار ذہن کا آدمی تھا۔
کیمسٹری سائنس کا ایک اہم مضمون ہے۔ اس مضمون کے استاد بارے ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ اکثر طالبات کی کمر پر ہاتھ پھیرتارہتا۔ طالبات میں سے ہر کوئی اس سے دور رہنے کی کوشش کرتی۔ کیا کہوں، کیمسٹری کا استاد بہت بکواس انسان، بلکہ زیادہ درست یہ ہے کہ گندا آدمی تھا۔
لاہور اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کے نام ور نجی (private) اسکولوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات کومستقبل کی سیاسی ذمہ داریاں اْٹھانے کے قابل بنانے کے لیے فرضی پارلیمان، یعنی Modelیا Mock Parliament منعقد کی جاتی ہے۔ اس کے لیے کسی بڑے شہر کے بڑے ادارے کاانتخاب کیا جاتا ہے۔ پورے پاکستان سے طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداداپنے اساتذہ کی زیرنگرانی اس میں شرکت کے لیے آتی ہے۔ مستقبل کے لیے حقیقی قیا دت تیار کرنے کے لیے (Model United Nations) MUN، یعنی فرضی اقوام متحدہ کے اجلاس کسی بڑے تعلیمی ادارے میں منعقد کیے جاتے ہیں، جس میں مختلف اداروں سے آئے طلبا و طالبات کو ایک وفد کی شکل دے کر کسی ملک کی نمایندگی کے لیے کہا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں طرح کے اجلاس ایک خاص طرح کے ماحول میں کئی دنوں تک جاری رہتے ہیں۔
۔1/ 1A-LGSکے ایک خوش شکل اور خوش گفتار استاد جو سیاسیات کی اعلیٰ ڈگری رکھتے ہیں، وہ Mock Parliament اور MUNs کے لیے کئی سالوں سے طلبا و طالبات کو وطن عزیز کے مختلف شہروں، حتیٰ کہ بیرون ملک بھی لے جاتے رہے ہیں۔ ان کے حوالے سے ایک طالبہ نے بتایا کہ میں ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی تھی کہ MUN Coach نے مجھے اپنا دوست بنا لیا۔ جب میں نے اٹھارہ سال کا سنگ میل عبور کرلیا تو وہ مجھے ایک دن اپنی تنہائی میں لے گیا اور میری عصمت کا لبادہ اتار پھینکا۔ میں تو بچی تھی، ناتجربہ کار تھی، لیکن وہ تو بچہ نہیں تھا۔ اس سب کے باوجود میں اسے دوست ہی سمجھتی رہی۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ میں طالبہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہی۔ ایک دن اپنی خواہش پوری کرنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا: تم ٹھیک ہو نا؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سننا تھا کہ اس نے مجھے تھپڑ دے مارا۔ میں اپنے استاد کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے خاموش رہی۔ اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس کی دست درازی پر میں نے کبھی انکار نہیں کیا، لیکن میں نے اسے کافی دفعہ بتایا کہ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ چونکہ سب کچھ وہ محفوظ جگہ پر کرتا تھا، اس لیے اسے پروا نہیں تھی کہ کوئی اسے پوچھے گا۔ اس نے یہ حقیقت مجھ پر واضح کر دی تھی۔ اس نے عمر میں مجھ سے چھوٹی بہت سی طالبات کی پاکیزگی کو بھی تباہ کیا تھا۔ وہ یہ سب کچھ مجھے بتاتا رہتا تھا۔ میری طرح کے تجربے سے گزرنے والی چار طالبات کوتو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں۔
یہ MUN Coachکئی سالوں سے طالبات کو MUNs میں لے جا کر ان کی معصومیت سے کھیلتا رہا ہے۔ وہ شہر اور ملک سے باہر تعلیمی دوروں اور ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلوں کے اسفار میں الکوحل پیتا اور ہمیں (کم عمر بچیوں کو) پلاتا۔ ایک طالبہ کو اس نے اتنی الکوحل پلائی کہ وہ مدہوش ہوگئی تو پھر اس نے اسے ا پنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ دفتر میں اچھے عہدے پر فائز ایک معروف اداکار کی بیوی خاص طور پر اس طرح کے معاملات پر پردہ ڈالتی۔ ہم کئی سالوں تک دفتر میں شکایت کرتے رہے۔ وہ الٹا یہ کہہ کر ٹال دیتی:
These girls are shameless and go after a bachelor.
’’یہ بے حیا لڑکیاں ایک کنوارے لڑکے کے پیچھے پڑی ہیں۔‘‘
بین الاقوامی دوروں پر طالبات مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر ہوتیں تو وہ خاص طور پر انھیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتا۔ ہر کلاس میں وہ اپنے شکار کو تاڑ لیتا، لیکن بچیاں استاد کے احترام اور رعب کی وجہ سے کھلونا بنی رہتیں۔ بے بسی میں وہ اسے صرف پلے بوائے (Playboy) کہہ پاتیں۔ وہ سولہ سال سے کم عمر طالبات کا بھی لحاظ نہ کرتا۔ چھوٹی بچیوں نے کافی دفعہ اس کی شکایت کی، لیکن دفتر والوں نے کبھی بچیوں کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
کیمسٹری کے استاد بارے ایک طالبہ نے بتایا کہ وہ ہمیشہ ہوس ناک نگاہوں سے طالبات کو تاڑتا رہتا۔ جسم کے مختلف حصوں پر بہانے بہانے سے ہاتھ لگا کر اذیت دیتا رہتا۔ ایک اور طالبہ نے بتایا کہ ایک مرتبہ تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر بہت قریب کیا اور بوسہ لیا۔ میں استاد کے سامنے بے بس تھی۔ پھر ایک دوست کی مداخلت سے میری جان چھوٹی۔ استاد کے اذیت ناک رویے کی وجہ سے میں نے اس کی کلاس پڑھنا چھوڑ دی، جس سے میں کیمسٹری میں بہت پیچھے چلی گئی۔ وہ طالبات سے بات کرتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے مخصوص اعضا سے کھیلتا رہتا۔ دفتر کے ایک کارندے نے بھی اس بہتی گنگا سے صرف ہاتھ نہیں دھوئے، بلکہ کئی دفعہ اشنان کیا اور بہت سی معصوم کلیوں کو روندا۔ میں نے اپنے بھائی کو اس اذیت ناک احساس کا کچھ حصہ بتایا تو اس نے دفتر کے اس کارندے کو کھری کھری سنائیں، حالاں کہ میں ایسا نہیں چاہتی تھی، کیونکہ اس طرح میرا تعلیمی نقصان ہوسکتا تھا۔ اگر کوئی متاثرہ مظلوم لڑکی ـــــــــ ایکٹر کی بیوی کے پاس ـــــــــ دفتر میں شکایت لے کر جاتی تو وہ الٹا ڈانٹنے لگتی کہ تم اپنے کپڑوں کا دھیان رکھا کرو۔ چست اور آدھے بازو والی قمیص پہن کر اسکول نہ آیا کرو، حالاں کہ ہم تو اسکول کا مجوزہ یونیفارم ہی پہن کر آیا کرتے۔ یہ کام LGS میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر بات آنے کے بعد بہت سی سابقہ طالبات نے اپنے بھیانک تجربات بلاکم و کاست بتا کر اسے ایک مکمل رپورٹ بنانے میں مدد دی۔ ایک سابقہ طالبہ نے بتایا کہ LGS کی پرنسپل اس گندے کاروبار کی سب سے بڑی سرپرست ہے۔ اسی لیے اپنے چار گناہ شریک دوستوں کے جانے پر وہ افسردہ ہے۔ پرنسپل نے دکھ اور نیک خواہشات کے ساتھ ان گندی مچھلیوں کو رخصت کیا۔ اس ساری قیامت کے بعد صرف چار شیاطین کو ایک غیر واضح الزام کا ذکر کرکے فارغ کیا گیا:
Terminated due to breach of Code of Conduct.
’’ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر فارغ کردیا گیا۔‘‘
جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر آیا تو پانچ ہزار(۵۰۰۰) سے زیادہ سابقہ طالبات نے ان شیاطین کے خلاف ایک دستاویز پر دستخط کیے۔
یہ سارا معاملہ ہی دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور کلیجے کو پاش پاش کرنے والے واقعات پر مشتمل ہے، لیکن جس انداز اور الفاظ کے ساتھ ان شیاطین کو فارغ کیا گیا، وہ اپنی جگہ ایک ستم ظریفی ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا بتایا گیا کہ:
Breach of Code of Conduct.
’’ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی۔‘‘
ان بھیڑیوں کی درندگی کو کس قدر نرم الفاظ میں چھپا دیا گیا۔ ان کے Termination Letterکی زبان سے بھی پرنسپل اور انتظامیہ کا خبث باطن اور شیاطین کے لیے نرم گوشے کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو مستقبل کے لیے نیک خواہشات سے بھی نوازا گیا ہے۔
اگلے دن ۳۰؍ جون ۲۰۲۰ء کو روزنامہ ’’ DAWN‘‘ نے اسی معاملے پر ایک تفصیلی مضمون شائع کیا:
Harassment Scandal as School in Lahore Raises Alarm Over Safety.
’’جنسی ہراسانی کا اسکینڈل، لاہور کے ایک اسکول نے (طالبات کے عدم تحفظ پر) گھنٹی بجا دی۔‘‘
اس میں صاحب مضمون نے ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ کی مضمون نگار نورالعین علی کی تحقیق کے نکات کو دہرانے کے ساتھ بتایا کہ نظربازی1/ 1A-LGS کے مرد اساتذہ اور دفتر میں کام کرنے والوں کا عمومی وطیرہ ہے۔ یہاں اساتذہ اور اسٹاف کے بے ہودہ رویے کی شکا یت کرنے والی طالبہ کو ہی بدنام کردیا جاتا ہے۔ ’’ڈان‘‘ کے مضمون نگار کی راے کے مطابق اس طرز کے تمام اسکولوں کا یہی حال ہے۔ ایک طالبہ نے صاحب مضمون کو بتایا کہ میں نے اساتذہ اور دفتری عملے کی بدنظری اور دست درازیوں سے بچنے کے لیے عبایا پہننا شروع کردیا، لیکن بدنامی کے ڈر سے کسی کی شکایت نہیں کی۔ اس طرح کے بوائز اسکولوں کے طلبہ کے گروپ کرونا وبا کے ان دنوں میں بھی اجتماعی زیادتی کی مختلف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
محولہ بالا ساری رپورٹ پڑھتے اور اس کے کچھ حصوں کو اس تحریر کا حصہ بناتے ہوئے محسوس ہوا کہ تہذیب مغرب کے ان علم برداروں کے ہاتھوں انسانیت شرم سار اور تہذیب سرجھکائے کھڑی ہے۔ ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار نے حفظ قرآن کریم کے مدارس ـــــــــ جن کی بنیاد ہی تقویٰ اور خدمت دین کے جذبے پر رکھی جاتی ہے ـــــــــ وہاں ذریت ابلیس کے در آنے والے اکادکا نمایندوں کے کارناموں کو بنیاد بناکر مدارس کے وجود، حفظ قرآن کریم کی ساڑھے چودہ سو سالہ روایت، اور ’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘ (الحجر۱۵: ۹) سے مستنبط فرض کفایہ سے روگردانی کی بات تو کی، لیکن جہاں ایک،دو،چار، نہیں ان گنت معصوم کلیوں کو بھاری فیس لے کر بھی روند دیا جاتا ہے، ان سے متعلق ایک لفظ بھی ان کے قلم سے نہ نکلا۔ دو معتبر انگریزی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق یہ انسانیت سوز عمل اشرافیہ کی طالبات کے لیے مخصوص اسکولوں میں ہوتا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی مستقبل کی قیادت جن گودوں میں پروان چڑھے گی، اشرافیہ کے یہ اسکول ان مقدس گودوں کو تقویٰ، معصومیت اور پاکیزگی سے محروم کر رہے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے رک کر اگر غور کیا جائے کہ مغربی تہذیب کے علم بردار، ان اسکولوں سے تعلیمی حوالے سے کیا صلاحیت حاصل ہوتی ہے جس کے لیے یہ لوگ۳۹۲۰۰۰روپے سالانہ ادا کرتے ہیں۔ وہ صرف غلط سلط انگریزی زبان بولنے کی صلاحیت ہے۔ اس ایک صلاحیت کے حصول کے لیے اتنی بھاری فیس کے ساتھ عصمت، تہذیب، کردار اور حقیقی خود اعتمادی کی قربانی ایک مہنگا سودا ہے۔
دیکھو انھیں اگر دیدۂ عبرت نگاہ ہو
’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار اور محترم قارئین سے التماس ہے:
اب جس کے دل میں وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
مقالہ نگار کے بقول حفظ قرآن کریم ہر کسی کے لیے واجب نہیں ہے۔ فرماتے ہیں :
’’...پورے قرآن مجید کا زبانی یاد کرنا واجب عمل نہیں ہے اور کسی غیر واجب کام کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔‘‘[17]
اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ حفظ قرآن کریم ہر مسلمان کے لیے واجب نہیں ہے، لیکن ایک طالب علم کے تعلیمی سلسلے کے اہم مرحلے کے طور پر اس کی اہمیت سے کسی صاحب عقل کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک جامعۃالا زھر کے شیخ الجامعہ کا یہ قول زبان زد عام ہے:
من لم یحفظ القرآن ھو لیس بأزھري.
’’جو حفظ قرآن کریم کی دولت سے محروم ہے، وہ ازہری نہیں ہو سکتا۔‘‘
الازہر کے نظام میں ہر مقامی طالب علم کے لیے پرائمری میں کچھ پارے یاد کرنا ضروری ہیں۔ ان حفظ شدہ پاروں کے امتحان میں کامیابی کے بغیر پرائمری سر ٹیفکیٹ کا اجرا نہیں کیاجاتا۔ اجزاے قرآن کریم کی تعداد بڑھتے بڑھتے گریجویشن میں ۱۲ پارے اور پی- ایچ- ڈی تک پورا قرآن کریم حفظ کرکے اس کے امتحان میں کامیابی ایک لازمی تقاضا ہے۔ ’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار کے بقول تو یہ ایک غیر واجب عمل ہے اور کسی غیر واجب کام کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔[18]
ایک ہزار سال سے قائم یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم جس چیز کو لازم قرار دے رہے ہوں، اگر کوئی ایک شخص اپنے تعصب، لاعلمی یا کسی خاص ایجنڈے کی ترویج کے لیے اسے غیر واجب قرار دے تو یقیناًاس کی راے محترم نہیں رہتی۔
’’اشراق‘‘ کے مقالہ نگار پنڈی وال ہیں اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے قریب ہیں۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے واقف ہوں گے۔ وہاں بھی ایم- فل کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کوئی سے دو پاروں کے زبانی امتحان میں کامیابی ضروری ہے۔ اسی طرح وہاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول کے لیے تین پاروں کے حفظ کے امتحان میں کامیاب ہونا لازم ہے۔
اگر حفظ قرآن کریم کا عمل اتنا غیر اہم ہوتا تو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں یورپ اور امریکا میں مقیم مسلمانوں کے بچے آن لائن حفظ قرآن کریم کی دولت حاصل نہ کر رہے ہوتے۔
مقالہ نگار نے متن قرآن کی بے سمجھے تلاوت و حفظ قرآن کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے جو مثال پیش کی ہے، وہ حروف مقطعات الف- لام- میم کی ہے۔ ملا حظہ ہو:
’’اس مفہوم کی حدیث سے بے سمجھ تلاوت وحفظ کے جو از پراستدلال سوء فہم ہے، جس میں ا-ل-م کی تلاوت پر تیس نیکیوں کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ طرز تکلم تشویق پیدا کرنے کے لیے ہے، نہ کہ بے سمجھ تلاوت کی ترغیب دینے کے لیے ا- ل- م کو بطور مثال ثواب کا حجم بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بات کسی طرح درست قرار نہیں دی جا سکتی کہ قرآن جس کا مقصد ابلاغ معنی ہے، اسے بے سمجھ پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔‘‘ [19]
یہاں اس نکتے کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے کہ حدیث مبارکہ میں تین حروف کی تلاوت کے ثواب کی بات کی گئی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ الف- لام- میم کا شمار تو حروف مقطعات میں ہوتا ہے، جن کے معانی سے کسی کو واقفیت ہے بھی نہیں۔ یہاں ان حروف کی مثال ہی اس لیے دی گئی ہے تا کہ قرآن کریم کی مجرد تلاوت سے بھی اللہ رب العزت کی خوش نودی کو نمایاں کیا جا سکے۔
قرآن کریم کی چند سورتوں کے شروع میں مذکور حروف مقطعات کے معانی و مفہوم سے متعلق پیر محمد کرم شاہ (۱۹۱۸ء- ۱۹۹۸ء)نے لکھا: ’’میرے نزدیک احسن قول یہ ہے کہ ’الم‘ اوردیگر حروف مقطعات ’سربين اللّٰه ورسوله‘‘ہے۔ یہ وہ راز ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان ہیں۔‘‘[20]
پیر صاحب کی راے کا لب لباب یہ ہوا کہ حروف مقطعات کے معانی اﷲ اور رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ اللہ اور رسول کے علاوہ سب کے لیے ان حروف کے معانی پردۂ خفا میں ہیں۔
جاوید احمد غامدی (پ ۱۹۵۱ء)نے حروف مقطعات بارے اپنی راے یوں ظاہر کی ہے:
’’...انھیں حروف مقطعات کہتے ہیں...یہ سورتوں کے نام ہیں۔ اِن کے معنی کیا ہیں ؟ اِس باب میں سب سے زیادہ قرین قیاس نظریہ برصغیر کے جلیل القدر عالم اور محقق امام حمید الدین فراہی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف تہجی چونکہ اصلاً عرب قدیم میں رائج وہی حروف ہیں جو صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ چینی زبان کے حروف کی طرح معنی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے، انھی کی صورت پر لکھے بھی جاتے تھے۔‘‘[21]
غامدی صاحب نے خط تمثالی( Pictography )کے نظریے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس بیان کو ’’البیان‘‘کی چوتھی جلد میں بھی دہرایا ہے۔[22]
جاوید غامدی تو اپنے اس نقطۂ نظر سے آگے نہ بڑھ سکے، لیکن امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء-۱۹۹۷ ء) نے اس حوالے سے کوئی قطعی بات کہنے سے معذوری ظاہر کی ہے اور اس پر ایک منطقی بحث کے بعد کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔
اصلاحی صاحب لکھتے ہیں :
’’...چونکہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کوحروف مقطعات کہتے ہیں۔...یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔... ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے۔‘‘ [23]
اصلاحی صاحب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان حروف کے معانی کی جستجو کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’...جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا، کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمیٰ کا اس نام کے ساتھ خاص ہو جانا ہے، نہ کہ اس کے معنی۔‘‘[24]
قرآن کریم کی تفہیم کے حوالے سے حروف مقطعات کے معانی کی جستجو کو کارلا حاصل قرار دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :
’’...کم از کم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ ‘‘[25]
مذکورہ حروف کے معانی کی تلاش میں جن علماو محققین نے اپنی اٹکل یا جستجو کے گھوڑے دوڑائے، اصلاحی صاحب اسے بے فائدہ قرار دیتے ہیں۔
’’...بہت سے پچھلے علما نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کو ئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔‘‘ [26]
اصلاحی صاحب نے ان حروف کی تحقیق کو مستحسن، لیکن ان کے معانی تک انسانی علم کی نا رسائی اور قرآنی علم کی نا قابل بیان اور ناقابل تصور گہرائی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’...اگر اس کوشش سے کوئی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے ا تھا ہ ہونے پر محمول کریں گے۔‘‘[27]
تلمیذ فراہی کی درج ذیل راے تو علوم انسانی، فہم انسانی اور ادراک انسانی کے حدود کا واضح تعین کر دیتی ہے۔قرآنی حروف کے معانی تک انسانی علم وفہم کی نارسائی کو بھی وہ قرآن کے معجزے سے تعبیر کرتے ہیں:
’’اپنے علم کی کمی اور قرآن کے ا تھاہ ہونے کا یہ احساس بجاے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لیے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سر بستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے دلیل راہ بنی۔‘‘ [28]
اصلاحی صاحب نے اس سلسلے میں مسلمان علما کی چودہ سو سالہ کاوشوں کو کسی مضبوط بنیاد سے محروم اور ناقابل ذکر گردانا ہے:
’’ان حروف پر ہمارے پچھلے علما نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہو گا۔‘‘[29]
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘نے فراہی صاحب کی راے کو بیان ضرور کیا، لیکن غامدی صاحب کی طرح اسے حرف آخر نہیں، بلکہ جادۂ تحقیق کی ایک کرن قرار دیا ہے:
’’...استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی راے ... سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا، لیکن اس کے حل کے لیے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ ‘‘[30]
اصلاحی صاحب اپنے بیان کو مکمل کرتے ہوئے بھی صاحب ’’نظام القرآن‘‘ کی راے کو ایک غیر حتمی نظریے سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں :
’’...میرے نز دیک اس کی حیثیت ابھی تک ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ... اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہو گا۔‘‘ [31]
سید مودودی (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء)بھی ان حروف کے مفہوم پر غور وتدبر اور تحقیق و جستجو کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’...ظاہر ہے کہ نہ تو ان حروف کا مفہوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے اور نہ یہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنیٰ نہ جانے گا تو اس کے راہ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں کہ وہ ان کی تحقیق میں سر گرداں ہو۔‘‘[32]
پانچ صاحب طرز اور مختلف الراے (غامدی صاحب اپنے استاذ امام سے اور اصلاحی صاحب امام فراہی سے اختلافی آرا رکھتے ہیں ) مفسرین قرآن ـــــــــ حمید الدین فراہی، سید مودودی، امین احسن اصلاحی، پیر محمد کرم شاہ، جاوید احمد غامدی ـــــــــ میں سے تین اس راے سے متفق ہیں کہ حروف مقطعات کے معانی تک انسانی علم، فہم اور تحقیق کی رسائی نہیں ہے۔ راقم اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہے کہ حدیث مبارکہ میں حروف مقطعات کی مثال اسی لیے دی گئی تا کہ ثابت ہو سکے کہ قرآن کریم کی مجرد تلاوت بھی اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کا باعث ہے۔
حدیث مبارکہ: ’’تزوجوا الودود الولود، إني مکاثر الأنبیاء یوم القیامة‘‘ [33] کے ترجمہ میں مقالہ نگار نے ـــــــــ زیادہ کے بجاے قابل فخر بچے پیدا کرنے کا ـــــــــ جو تکلف کیا ہے او رمعنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے، اہل علم اس سے آگاہ ہیں۔پھر اگلے ہی پیرا گراف میں اپنے پچھلے بیان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر آپ [ﷺ]نے آبادی بڑھانے کی ترغیب میں درج بالا ارشاد فرمایا تھا تو یہ قرین قیاس ہے۔‘‘ [34]
حال ہی میں گورنر پنجاب کی صدارت میں ـــــــــ جو بر بنا ے عہدہ صوبے کی تمام جامعات کے چانسلر بھی ہیں ـــــــــ وائس چانسلرز کا ایک اجلاس ہوا۔ جس میں اتفاق راے سے یہ تجویز منظور کی گئی کہ جامعۃ الازہر اور انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی طرزپر پنجاب کی تمام جامعات میں قرآن کریم کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ راقم کا خیال ہے کہ مقالہ نگار نے اپنے تئیں اس تجویز کے ثمرات کو ہوا میں اڑا دینے کے لیے زیر نظر مضمون کے ذریعے سے ایک زور دار آندھی چلانے کی کوشش کی، لیکن ہمارا یقین ہے کہ:
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
________
* اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ علوم اسلامیہ، جی سی یونیورسٹی، لاہور۔
[1]۔ ماہنامہ اشراق،جون ۲۰۲۰ء،۳۶۔
[2]۔ ایضاً۔
[3]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۳۷۔
[4]۔ ایضاً۔
[5]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۳۸۔
[6]۔ ایضاً۔
[7]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۳۸۔
[8]۔ ایضاً۔
[9]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۴۰۔
[10]۔ شعب الا یمان ۲/ ۱۰۳۸۔
[11]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۴۱۔
[12]۔ ایضاً۔
[13]۔ ماہنامہ اشراق جون ۲۰۲۰ء، ۴۲۔
[14]۔ ماہنامہ اشراق، جون۲۰۲۰ء،۴۳۔
[15]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۴۴۔
[16]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۳۹۔
[17]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۴۷۔
[18]۔ ایضاً۔
[19]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء، ۵۱۔
[20]۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن پبلیکیشنز، گنج بخش روڈ، لاہور ۱۹۹۵ء ۱/ ۲۹۔
[21]۔ البیان۱/ ۲۶۔
[22]۔ البیان۴/ ۱۳۔
[23]۔ تدبر قرآن۱/ ۸۲۔
[24]۔ تدبر قرآن۱/ ۸۳۔
[25]۔ تدبر قرآن۱/ ۸۳۔
[26]۔ ایضاً۔
[27]۔ ایضاً۔
[28]۔ ایضاً۔
[29]۔ تدبر قرآن۱/ ۸۳۔
[30]۔ ایضاً۔
[31]۔ تدبر قرآن۱/ ۸۵۔
[32]۔ تفہیم القرآن۱/ ۴۹۔
[33]۔ مسنداحمد الرسالۃ۲۰ / ۶۳۔
[34]۔ ماہنامہ اشراق، جون ۲۰۲۰ء،۵۲۔
____________