HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــــ توضیحی مطالعہ (۳)

مبادی تدبر حدیث

حدیث کے فہم اور تعبیر میں جن اصولوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، مصنف نے انھیں پانچ عنوانات کے تحت بیان کیا ہے: ان میں سے پہلا اصول حدیث کی زبان اور اسالیب سے متعلق ہے، دوسرا حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے، تیسرا حدیث کے موقع ومحل اور سیاق کو سمجھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے، چوتھا موضوع سے متعلق تمام احادیث کو پیش نظر رکھنے کی اور پانچواں عقل ونقل کی باہمی تطبیق کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

یہ بحث بنیادی طور پر فہم حدیث کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی کے بیان کردہ اصولوں کا اعادہ ہے، جس میں مصنف نے ضروری توضیحات وقیود اور کچھ اہم مثالوں کا اضافہ کیا ہے[1]۔

حدیث کے اسالیب سے واقفیت

’’...یہ ضروری ہے کہ حدیث کے طلبہ بار بار کے مطالعے سے اِس زبان کی ایسی مہارت اپنے اندر پیدا کر لیں کہ نہ ’الشيخ والشيخة‘ جیسی چیزوں کو محض زبان ہی کی بنیاد پر رد کر دینے میں اُنھیں کوئی تردد ہو اور نہ ’البکر بالبکر‘ جیسے مشکل اسالیب کو سمجھنے میں وہ کوئی دقت محسوس کریں۔‘‘ (میزان ۶۵)

اس اقتباس میں مصنف نے حدیث کی زبان اور اس کے اسالیب سے گہری واقفیت کی اہمیت دو پہلوؤں سے واضح کی ہے:

پہلا یہ کہ عربی زبان کا اعلیٰ ذوق اور حدیث کے اسالیب کی ممارست، بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب الفاظ کی صحت یا عدم صحت کو جانچنے میں مدد دیتی ہے۔ مصنف نے اس ضمن میں ان روایا ت کا حوالہ دیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے کہ رجم کی سزا قرآن مجید میں ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی:

الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموھما البتة. (المستدرک علی الصحیحین، رقم ۳۵۱۳)
’’بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت اگر زنا کریں تو ان کو لازماً رجم کر دو۔‘‘

اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں مصنف نے اس روایت پر تفصیلی کلام کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے مضمون پر دوسرے پہلوؤں سے جو سنگین اعتراضات پیدا ہوتے ہیں، ان سے قطع نظر اس میں جن الفاظ کو قرآن کی آیت قرار دیا گیا ہے، وہی لفظی اور معنوی لحاظ سے اس قدر رکیک ہیں کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کی نسبت سے قبول ہی نہیں کیا جا سکتا۔ مصنف لکھتے ہیں:

’’...وہ جملہ جسے اِس روایت میں قرآن کی آیت قرار دیا گیا ہے، زبان وبیان کے لحاظ سے اِس قدر پست ہے کہ قرآن کے مخمل میں اِس ٹاٹ کا پیوند لگانا اور اُس کی لاہوتی زبان کے ساتھ اِس کا جوڑ ملانا تو ایک طرف، کسی سلیم المذاق آدمی کے لیے اِسے پیغمبر کا قول قرار دینا بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘ (برہان ۶۱)

کم وبیش اسی اسلوب میں یہ تنقید مولانا اصلاحی نے بھی اس روایت پر کی ہے (تدبر قرآن ۵/ ۳۶۶-  ۳۶۷)۔

روایت کے الفاظ کی رکاکت کو اس کے موضوع ہونے کی نشانی کے طور پر علماے حدیث نے بھی بطور اصول بیان کیا ہے۔ چنانچہ مولانا عبد الحئ لکھنوی لکھتے ہیں:

(أو برکاکة الفاظه) بحیث یعلم العارف باللسان أن مثله لا یصدر عن فصیح اللسان فضلاً عن أن یکون کلام النبي صلی اللہ علیه وسلم، قال ابن دقیق العید: کثیرًا ما یحکمون بذالک باعتبار أمور ترجع إلی المروي وألفاظ الحدیث، وحاصله یرجع إلی أنه حصلت لھم لکثرة محاورة الفاظ النبي صلی اللہ علیه وسلم ھیاة نفسانیة وملکة قویة یعرفون بھا ما یجوز أن یکون من ألفاظ النبوة وما لا یجوز. (ظفر الامانی بشرح مختصر السید الشریف الجرجانی ۴۲۹)
’’حدیث کا موضوع ہونا اس کے الفاظ کی رکاکت سے بھی معلوم ہو جاتا ہے، اور وہ یوں کہ زبان سے واقف یہ جان لیتا ہے کہ ایسا کلام کسی فصیح اللسان کی زبان سے بھی نہیں نکل سکتا، چہ جائیکہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام تصور کیا جائے۔ امام ابن دقیق العید لکھتے ہیں کہ محدثین بہ کثرت حدیث کے مضمون اور اس کے الفاظ سے تعلق رکھنے والے پہلوؤں کی وجہ سے حدیث پر وضع کا حکم لگا دیتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی کثرت ممارست کی وجہ سے محدثین کو ایک خاص نفسی ہیئت اور ایک مضبوط ملکہ حاصل ہو جاتا ہے جس کی بدولت وہ جان لیتے ہیں کہ کس قسم کی تعبیرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو سکتی ہیں اور کس قسم کی نہیں ہو سکتیں۔‘‘

حدیث کے لسانی اسالیب کی ممارست کی اہمیت کا دوسرا پہلو جو مصنف نے واضح کیا ہے، وہ حدیث کے مفہوم کی تعیین سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر مصنف نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی درج ذیل معروف حدیث کا ذکر کیا ہے:

البکر بالبکر جلد مائة ونفي سنة والثیب بالثیب جلد مائة والرجم. (مسلم، رقم ۱۶۹۰)
’’کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ (زنا کرے تو) سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا جائے۔ شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو سو کوڑے لگائے جائیں اور سنگ سار کر دیا جائے۔‘‘

اس جملے کا مفہوم شارحین نے بالعموم یہ بیان کیا ہے کہ کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ زنا کرے تو ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے، جب کہ شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو ان کی سزا سو کوڑے اور سنگ سار کرنا ہے۔ اس تعبیر کے مطابق حدیث میں زنا کی ان صورتوں کا حکم واضح کیا گیا ہے جب دونوں فریقوں کی ازدواجی حیثیت ایک جیسی ہو۔ اگر ایک فریق کنوارا اور دوسرا شادی شدہ ہو تو اس کا حکم قیاساً متعین کیا جائے گا، یعنی کنوارے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے، جب کہ شادی شدہ کو سنگ سار کیا جائے گا۔ مصنف کو اس تفہیم سے اختلاف ہے اور ان کی راے میں یہاں ’البکر بالبکر‘ اور ’الثیب بالثیب‘ کا اسلوب بدکاری کے دو فریقوں کو بیان نہیں کرتا، بلکہ اس کا مدعا یہ بتانا ہے کہ بدکاری کرنے والا مرد ہو یا عورت، ان کی سزا ایک جیسی ہے، یعنی کنوارے مرد کی سزا وہی ہوگی جو کنواری عورت کی ہے اور اسی طرح شادی شدہ مرد اسی سزا کا حق دار ہوگا جو شادی شدہ عورت کی ہے۔ چنانچہ مصنف نے اس جملے کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’...اِس طرح کے مجرموں میں کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہوں گے اور اُنھیں سو کوڑے اور جلا وطنی کی سزا دی جائے گی۔ اِسی طرح شادی شدہ مرد وعورت بھی سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہوں گے اور اُنھیں سو کوڑے اور سنگ ساری کی سزا دی جائے گی۔‘‘ (میزان ۶۱۶)

اس توجیہ کے حق میں ایک قرینہ یہ ہے کہ روایت کے بعض طرق میں حدیث کے الفاظ یوں نقل ہوئے ہیں:

الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد مائة ثم رجم بالحجارة، والبکر جلد مائة ثم نفي سنة. (مسلم، رقم  ۱۶۹۰)
’’شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ہے اور کنوارا مرد کنواری عورت کے ساتھ۔ شادی شدہ کو سو کوڑے لگائے جائیں اور پھر سنگ سار کر دیا جائے، اور کنوارے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور پھر ایک سال کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘

اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل الفاظ یہی ہوں جو اس طریق میں نقل کیے گئے ہیں تو مصنف کی اس راے کا وزن بڑھ جاتا ہے کہ یہاں دراصل زانی مرد اور عورت کا ان کی ازدواجی حیثیت کے لحاظ سے یکساں سزا کا حق دار ہونا بیان کرنا پیش نظر ہے۔

حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنا

’’...نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت ورسالت میں جو کچھ کیا، اُس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیش تر مضامین کا تعلق اُس سے وہی ہے جو کسی چیزکی فرع کا اُس کی اصل سے اور شرح کا متن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اُس کی شرح اور فرع کو سمجھنا، ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ (میزان ۶۵)

 اس اصول کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مصنف نے زانیوں کے رجم ا ور کعب بن اشرف کے قتل کے واقعات، عذاب قبر اور شفاعت کی روایات، ’أمرت أن أقاتل الناس‘ اور ’من بدل دینه فاقتلوہ‘ جیسی احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب میں متعلقہ مقامات پر مصنف نے قرآن کی روشنی میں ان احادیث کی جو تفہیم پیش کی ہے، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

رجم کی سزا سے متعلق مصنف مولانا امین احسن اصلاحی کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ احادیث میں بیان کی جانے والی یہ سزا قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کرتی، بلکہ اس کا ماخذ آیت محاربہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ’محاربہ‘ اور ’فساد فی الارض‘ کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ گویا شادی شدہ زانی کی اصل سزا تو سو کوڑے ہی ہے، جب کہ رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی، یعنی ’فساد فی الارض‘ کی سزا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت بعض مجرموں پر نافذ کی تھی (برہان ۹۱۔ میزان ۴۰-  ۴۱)۔

’ کعب بن اشرف کے قتل کے اقدام کو مصنف اتمام حجت کے اصول کی روشنی پر مبنی قرار دیتے ہیں جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ اس اصول کی رو سے رسول کے براہ راست مخاطبین اللہ کے عذاب کی زد میں ہوتے ہیں اور ان میں سے جو معاندت پر اتر آئیں، انھیں قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کعب بن اشرف چونکہ مسلمانوں کے خلاف قریش کو برانگیختہ کرنے، مسلمانوں کی خواتین کے متعلق عشقیہ شاعری کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے جیسی سازشوں میں ملوث تھا، اس لیے اس کی حیثیت صریحاً ایک معاند کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنیاد پر اسے قتل کرایا تھا (مقامات ۲۷۴۔ میزان ۵۹۹)۔

موت کے وقت مردے کو بشارت یا زجر وتوبیخ اور اسی طرح قبر میں سوال وجواب اور ثواب یا عذاب کی روایات کا ماخذ بھی مصنف نے قرآن مجید میں متعین کیا ہے۔ مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بعد از وفات فوری ثواب یا عذاب کا یہ معاملہ اللہ کے پیغمبروں کے براہ راست مخاطبین کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ ایسے لوگوں پر پیغمبر اتمام حجت کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ثواب وعذاب کو قیامت تک موخر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے مرتے ہی ان کے انعام واکرام یا عذاب کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے (میزان ۱۸۷- ۱۸۹)۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، قیامت کے دن اپنے امتیوں کے حق میں شفاعت کرنے کی احادیث کو مصنف قرآن مجید کی روشنی میں اس شرط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کہ ’’بندے کی طرف سے توبہ واستغفار کے بغیر اس کا کوئی تصور نہیں ہے ‘‘ (میزان ۱۵۰)۔ نیز یہ کہ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ پر صرف انھی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا حق قائم ہوتا ہے جو گناہ کے بعد فوراً نادم ہو کر توبہ کی طرف لپکتے ہیں، اس لیے جو لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ تو نہیں کرتے، لیکن اتنی دیر بھی نہیں کرتے کہ موت کا وقت آپہنچے، ’’یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہو سکتی ہے‘‘ (میزان ۱۵۱)۔

أمرت أن أقاتل الناس‘ کی تشریح قرآن مجید کی روشنی میں کرتے ہوئے مصنف نے واضح کیا ہے کہ یہ دراصل اتمام حجت کے قانون پر مبنی ہے جس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب پر لازم ٹھیرایا تھا کہ وہ اسلام قبول کر لیں، ورنہ انھیں قتل کردیا جائے گا (برہان ۱۴۱-  ۱۴۲)۔

ارتداد اختیار کرنے پر قتل کی سزا کا تناظر بھی مصنف کی راے میں اتمام حجت کا یہی قانون ہے اور اس کا تعلق انھی مشرکین عرب سے ہے جنھیں اصلاً اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ مصنف کا استدلال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حکموں کی اصل جب قرآن مجید میں اس خصوص کے ساتھ موجود ہے تو اس کی اس فرع میں بھی یہ خصوص لازماً برقرار رہنا چاہیے (برہان ۱۴۲-  ۱۴۳)۔

مذکورہ روایات کے علاوہ قرآن اور حدیث کے باہمی تعلق کی ایک دوسری جہت پر مصنف نے مبادی تدبر قرآن کے تحت قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کی بحث کے ضمن میں کیا ہے۔ وہاں زیر بحث سوال یہ ہے کہ کیا حدیث، قرآن کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس کو منسوخ کر سکتی ہے۔ مصنف نے اس بحث میں بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں اور اس کے تابع رکھتے ہوئے سمجھنا ضروری ہے۔ مصنف کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’ ...حدیث سے قرآن کے نسخ اور اُس کی تحدید وتخصیص کا یہ مسئلہ محض سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے۔ اِس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید وتخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اِس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔ قرآن کے بعض اسالیب اور بعض آیات کا موقع ومحل جب لوگ نہیں سمجھ پائے تو اُن سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صحیح نوعیت بھی اُن پر واضح نہیں ہو سکی۔ اِس طرح کی جتنی مثالیں بالعموم پیش کی جاتی ہیں، اُن سب کا معاملہ یہی ہے۔‘‘ (میزان ۳۶)

اس حوالے سے مصنف نے حدیث میں قرآن کی تحدید وتخصیص کی چند معروف مثالوں پر بھی تفصیلی کلام کیا اور قرآن کے ساتھ ان کے تعلق کی درست نوعیت کو واضح کیا ہے۔ اس پر کچھ توضیحات متعلقہ مقام پر پیش کی جائیں گی۔

موقع ومحل

’’ ...حدیث میں جو مضمون بیان ہوا ہے، اُس کے موقع ومحل کو سمجھ کر اُس کا مدعا متعین کیا جائے۔ بات کس وقت کی گئی، کس سلسلے میں کی گئی اور کن لوگوں سے کی گئی، یہ سب چیزیں اگر ملحوظ نہ رکھی جائیں تو نہایت واضح باتیں بھی بسا اوقات لا ینحل معما بن جاتی ہیں۔ فہم حدیث میں اِس اصول کی اہمیت غیر معمولی ہے۔‘‘(میزان ۶۵)

مصنف نے یہاں جس اصول کی وضاحت کی ہے، وہ اصولی طور پر تمام فقہا کے ہاں مسلم ہے اور تمام اہل علم یہ قرار دیتے ہیں کہ حدیث کے فہم میں اس خاص واقعاتی تناظر کو ملحوظ رکھنا بہت اہم ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات ارشاد فرمائی۔ چنانچہ فقہا ومحدثین کے ہاں کسی حدیث کے مدعا ومراد کی تعیین میں اس تناظر کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی آرا میں اس اصول کی رعایت کی بہت عمدہ مثالیں موجود ہیں۔

مثلاً فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں یہ ارشاد فرمایا کہ ’لا یقتل مؤمن بکافر‘، یعنی کسی مسلمان کو کسی کافر کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے (احمد، رقم ۶۶۹۲)۔ جمہور فقہا نے اس کا مفہوم یہ مراد لیا ہے کہ کسی مسلمان کو غیر مسلم کے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا، لیکن امام ابوبکر الجصاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہاں مسلم اور غیر مسلم کے قصاص کے حوالے سے کوئی قانونی حکم بیان نہیں فرما رہے۔ آپ دراصل فتح مکہ کے موقع پر مشرکین کے بڑی تعداد میں مسلمان ہو جانے کے تناظر میں لوگوں کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ ان کے مابین اس سے پہلے قتل اور قصاص کے جو معاملات چلے آ رہے تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ کالعدم ہو چکے ہیں، اس لیے اگر کسی شخص نے حالت کفر میں کسی کو قتل کیا تھا تو اب اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اس کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے (احکام القرآن ۱/ ۱۷۶)۔

اسی طرح ایک حدیث میں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’أنا برئ من کل مسلم مقیم بین أظھر المشرکین‘، یعنی ’’میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے مابین سکونت پذیر ہو‘‘(بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۴۷۱)۔

بعض فقہا نے اس روایت سے یہ اخذ کیا ہے کہ مسلمان کا مشرکین کے مابین سکونت کرنا مطلقاً جائز نہیں، لیکن روایت کے مطابق آپ نے یہ بات اس موقع پر ارشاد فرمائی جب آپ نے بنو خثعم کی طرف ایک سریہ بھیجا۔ ان میں سے کچھ لوگ مسلمان تھے اور حملہ ہونے پر انھوں نے سجدے میں گر کر مسلمانوں سے امان طلب کرنے کی کوشش کی، لیکن لڑائی کی افراتفری میں وہ بھی حملے کی زد میں آ گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کی نصف دیت کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس موقع پر فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان کی حفاظت سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہو۔ گویا آپ کی مراد یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسے غیر مسلم گروہ کے ساتھ مقیم ہے جو مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ ہے تو ان کے خلاف جنگی کارروائی کرتے ہوئے اگر وہ تلوار کی زد میں آ جائے تو اس کی حفاظت یا اس کی دیت ادا کرنے کی کوئی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی (اعلاء السنن ۱۲/ ۶۷۹) ۔

مصنف نے اس اصول کی انطباقی مثال کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پیش کیا ہے کہ حکمرانی کا منصب قریش کے لیے خاص ہے (بخاری، رقم ۶۶۰۶)۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی عہد میں یہ مسئلہ اہل سنت اور خوارج ومعتزلہ کے مابین ایک بڑے کلامی نزاع کا عنوان رہا ہے۔ خوارج غیر قریشی کے خلیفہ بننے کے جواز کے قائل تھے، جب کہ اہل سنت کا استدلال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بنیاد پر خلافت وحکومت، قریش کے ساتھ خاص ہے۔ حتیٰ کہ جب عربوں کے اس منصب کے لیے عملی اعتبار سے نا اہل ہونے کے تناظر میں اہل سنت کے بعض اہل علم، مثلاً قاضی ابوبکر الباقلانی وغیرہ نے ضرورتاً اس شرط کو ساقط کرنے کی راے پیش کی تو اسے بھی خلاف اجماع قرار دے کر اس پر تنقید کی گئی (دیکھیے: مقدمہ ابن خلدون ۱/ ۹۹) ۔

تاہم جب قریش کی خلافت کا عملاً خاتمہ ہو گیا تو اہل علم کو ازسرنو ان احادیث کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ابن حجر وغیرہ نے روایات کے داخلی قرائن کی روشنی میں یہ راے پیش کی کہ قریش کے لیے بیان کیا جانے والا یہ استحقاق مطلق نہیں، بلکہ اہلیت اور عدل وانصاف کے ساتھ مشروط تھا اور ان کا طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہنا اور پھر اس سے محروم کر دیا جانا اس شرط کے عین مطابق ہے (فتح الباری ۲۰/ ۱۵۵) ۔

مصنف کی راے میں یہ ہدایت ابتدا ہی سے ایک خاص تناظر میں دی گئی تھی اور اس کا مدعا کوئی ایسی ہدایت دینا نہیں تھا جس کی پابندی ہمیشہ اور ہر طرح کے حالات میں امت کے لیے لازم ہو۔

احادیث باب پر نظر

’’ ...کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اِس باب کی تمام روایات پیش نظر رکھی جائیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے، لیکن اُسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایاں ہو جاتا ہے۔‘‘ (میزان ۶۶)

یہ حدیث کے فہم اور اس کے مدعا کی تعیین کا ایک واضح اور مسلمہ ضابطہ ہے۔ مصنف نے اس کی وضاحت کے لیے تصویر کی ممانعت سے متعلق وارد احادیث کا حوالہ دیا ہے۔ اہل علم کے ایک طبقے کی راے میں ہر جان دار کی تصویر مطلقاً اس ممانعت کے دائرے میں آتی ہے۔ تاہم مصنف نے اخلاقیات کے مبحث میں ان احادیث کو مشرکانہ تصورات کے پس منظر میں واضح کیا ہے اور اس ضمن میں صحیح بخاری کی اس روایت کا حوالہ دیا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن تصویریں اور مجسمے بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ ان میں اب جان ڈال کر دکھاؤ۔ مصنف کی راے میں مصورین سے کیا جانے والا یہ تقاضا واضح کرتا ہے کہ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اپنے زعم کے مطابق کچھ زندہ اور نافع وضار ہستیوں کی تصویریں بناتے تھے، یعنی ان کی تصویر سازی کا محرک مشرکانہ اوہام وظنون تھے۔ مصنف، تصویر کی ممانعت کے بارے میں وارد تمام احادیث کو اسی نوعیت کی تصاویر سے متعلق قرار دیتے ہیں اور عام تصویروں کو کسی بھی لحاظ سے اس ممانعت میں شامل نہیں سمجھتے (میزان ۲۱۲)۔

احادیث باب کی روشنی میں بات کی درست نوعیت متعین کرنے کی ایک اور مثال عبد الرحمٰن بن زبیر کی بیوی کا واقعہ ہے جس نے اپنے شوہر سے اس بنیاد پر علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ مردانہ صلاحیت سے محروم ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ جب تک وہ اپنے شوہر سے ہم بستر نہ ہو لے، اس سے طلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی (بخاری، رقم ۵۲۶۵)۔ جمہور فقہا نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ ایک شوہر سے تین طلاقیں مل جانے کے بعد عورت جب تک دوسرے شوہر سے نکاح کر کے ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔

مصنف کے نزدیک زیر بحث حدیث کا مدعا ہم بستری کو ایک شرط کے طور پر بیان کرنا نہیں ہے، جیسا کہ عموماً سمجھا گیا ہے۔ وہ اس واقعے سے متعلق مروی تفصیلات سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’ ...عورت نے نکاح کیا ہی اِس مقصد سے تھا کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ چنانچہ طلاق لینے کے لیے اُس نے جب غلط بیانی کرکے دوسرے شوہر کو زن وشو کا تعلق قائم کرنے سے قاصر قرار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پر سرزنش کے لیے اُسے یہ کہہ کر پہلے شوہر کے پاس جانے سے روک دیا کہ اب تم اِس دوسرے شوہر سے لذت اندوز ہونے کے بعد ہی اُس کے پاس جا سکتی ہو۔ یہ بیان شرط نہیں، بلکہ تعلیق بالمحال کا اسلوب ہے۔ لہٰذا یہ روایت اگر کسی چیز کا ثبوت ہے تو حلالہ کی ممانعت کا ثبوت ہے، اِس میں فقہا کے موقف کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے‘‘ (میزان ۴۵۳)۔

عقل ونقل

’’ ...دین کی بنیاد ہی علم وعقل کے مسلمات پر قائم ہے، لہٰذا کوئی چیز اگر اِن مسلمات سے مختلف نظر آتی ہے تو اُس پر بار بار غور کرنا چاہیے۔ یہ کوئی علمی طریقہ نہیں ہے کہ اِس طرح کے مواقع پر آدمی فوراً حدیث کو رد کر کے فارغ ہو جائے یا علم وعقل سے آنکھیں بند کر کے اُس کے کوئی غلط یا مرجوح معنی قبول کر لے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ روایت کو جب صحیح پہلو سے دیکھا گیا تو بارہا کوئی اختلاف باقی نہیں رہا اور بات ہر لحاظ سے واضح ہو گئی۔‘‘(میزان ۶۶)

یہ اصول فہم حدیث سے بھی متعلق ہے اور اس کے ساتھ اخبار آحاد کے رد وقبول کے ضمن میں بیان کیے گئے ایک بنیادی اصول کی بھی مزید توضیح کرتا ہے۔ محولہ بحث میں مصنف نے بیان کیا ہے کہ کوئی خبر واحد جو علم و عقل کے مسلمات سے متعارض ہو، اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ زیر نظر اصول اس میں یہ اہم اضافہ شامل کرتا ہے کہ ایسے مواقع پر روایت کو عجلت میں اور علی الفور رد کر دینے کے بجاے اس پر توقف کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت سی صورتوں میں غور وفکر کے نتیجے میں روایت کا ایسا محل واضح ہو جاتا ہے جس سے عقل ونقل کا ظاہری اختلاف باقی نہیں رہتا۔

مصنف اور مولانا اصلاحی کا روے سخن اس اصول کی وضاحت میں غالباً دور جدید کے بعض ایسے حلقوں کی طرف ہے جو ذخیرۂ حدیث کی وقعت اور تاریخی استناد پر سوال اٹھاتے ہوئے مختلف احادیث کے مضمون پر عقلی اعتراضات وارد کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال قراء ت کے اختلافات بیان کرنے والی روایات ہیں۔ علامہ تمنا عمادی اور بعض دیگر اہل قلم نے ان روایات کو اور ان پر مبنی پورے ذخیرۂ قراء ات کو دشمنان دین کی سازش اور وضع کا نتیجہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد قرآن کے متن کی حفاظت اور قطعیت کو مشکوک بنانا تھا۔

’مصنف کو اگرچہ اس بنیادی موقف سے اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی ایک ہی مستند قراء ت ہے جو تواتر سے ثابت ہے اور اس سے ہٹ کر قرآن کے متن کو مختلف طریقوں سے پڑھنا درست نہیں ہے، تاہم وہ اختلاف قراء ت کی روایات کو علی الاطلاق وضع کا نتیجہ نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی ایک تاریخی توجیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی راے میں عرضۂ اخیرہ کی قراء ت سے پہلے قرآن کے متن کو بعض مقامات پر مختلف طریقوں سے پڑھنے کی گنجایش رکھی گئی تھی جو اگرچہ عرضۂ اخیرہ کی قراء ت کے بعد اصولاً منسوخ کر دی گئیں، لیکن دور اول کے اہل علم قابل اعتماد اخبارآحاد کے ذریعے سے نقل ہونے والی ان مختلف قراءتوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ اسی سے رفتہ رفتہ قراء ات کا ایک مستقل علم وجود میں آ گیا جس سے فقہا ومفسرین کو بھی اعتنا کرنا پڑا اور اخبار آحاد کی حجیت کے موقف کے پیش نظر ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ جس طرح انھوں نے باقی دینی وشرعی امور سے متعلق اخبار آحاد کو قبول کیا ہے، قراء ت کے اختلافات بیان کرنے والی روایات کو بھی قبول کریں (اشراق، جنوری ۲۰۱۵ء، ۳۰- ۳۱)۔

زیر بحث اصول کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سامنے رہنا چاہیے کہ اگرچہ ظاہراً اس کا ذکر عقل ونقل کے مبینہ تعارض کے ضمن میں ہوا ہے، لیکن مصنف کا اصولی رجحان اخبار آحاد اور قرآن مجید کے باہمی تعارض کے باب میں بھی یہی ہے۔ مصنف امام شافعی کے اس موقف سے متفق ہیں کہ حدیث، قرآن کی صرف تبیین کر سکتی ہے، اس کے حکم میں تغیر وتبدل نہیں کر سکتی۔ تاہم امام شافعی قرآن مجید کے عموم میں تخصیص کو اس صورت میں بھی تبیین ہی قرار دیتے ہیں جب ایسی کوئی تخصیص حدیث میں بیان ہوئی ہو، چاہے اس کا کوئی ظاہری قرینہ یا اساس خود قرآن کے حکم میں نہ بتائی جا سکے، جب کہ مصنف کے نزدیک یہ صورت تبیین کے دائرے سے متجاوز ہے اور نسخ وتغییر کے زمرے میں آتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، امام شافعی کے نزدیک خود قرآن میں کسی حکم کی تخصیص کے قرائن واضح نہ ہوں تو بھی تخصیص کو صرف حدیث میں وارد ہونے کی بنا پر قرآن کی مراد تسلیم کرنا ضروری ہے۔ مصنف کے نزدیک اگر ایسی کوئی صورت بالفرض پائی جاتی ہو تو اصولاً اسے تبیین نہیں کہا جا سکتا اور نتیجتاً قبول بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم ایسی کوئی صورت عملاً پائی نہیں جاتی اور تمام مستند احادیث کا تعلق قرآن سے تبیین کے اصول پر واضح کیا جا سکتا ہے۔

اس نقطۂ نظر کے تحت مصنف نے سنت میں بیان ہونے والے تمام ایسے احکام کا ماخذ، جنھیں فقہا واصولیین قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، خود قرآن مجید میں متعین کیا ہے۔ یہ مصنف کے متعین کردہ علمی منہج کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے اور ’’میزان‘‘ میں اسی کے تحت تمام اعتقادی وفقہی نوعیت کے مباحث میں قرآن کے بیانات کے ساتھ احادیث کے تعلق کو واضح کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں مصنف نے متعدد ایسی اخبار آحاد کا ماخذ بھی قرآن مجید میں واضح کیا ہے جنھیں حنفی یا مالکی فقہا قرآن کے ظاہری عموم کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے (تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب ’’قرآن و سنت کا باہمی تعلق: اصولی مواقف کا علمی جائزہ‘‘)۔

___________

۱۔ دیکھیے: مبادی تدبر حدیث، باب ۳، فاران فاؤنڈیشن، لاہور، ۱۹۹۴ء۔

B