HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الفرقان ۲۵: ۴۵- ۶۲ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

اَلَمْ تَرَ اِلٰي رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّﵐ وَلَوْ شَآءَ لَجَعَلَهٗ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيْلًا ٤٥ ثُمَّ قَبَضْنٰهُ اِلَيْنَا قَبْضًا يَّسِيْرًا ٤٦
(لوگو، کس ہستی کو چھوڑ کر اِن بتوں کی پرستش پر جمے ہوئے ہو)؟ تم نے دیکھا نہیں اپنے پروردگار کو کہ کس طرح رات کا سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اُس کو (اِسی طرح)ٹھیرا دیتا[48]۔ پھر( دیکھتے نہیں ہو کہ) ہم نے سورج کو اُس پر دلیل[49]بنایا ہے۔ پھر (اِسی سے) آہستہ آہستہ ہم اُس کو اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔ ۴۵- ۴۶
وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا ٤٧
وہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے پردہ اور اُس میں نیند کو باعث راحت بنایا[50] اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنا دیا[51]۔ ۴۷
وَهُوَ الَّذِيْ٘ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًاۣ بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖﵐ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوْرًا ٤٨ﶫ لِّنُحْيِۦَ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَا٘ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا ٤٩
اوروہی ہے جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔(لوگو، دیکھتے نہیں ہو کہ) ہم آسمان سے پاکیزہ پانی اتارتے ہیں کہ اُس سے شہر کی مردہ زمین میں جان ڈال دیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو اُس سے سیراب کر دیں[52]ب۔ ۴۸- ۴۹
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْاﵠ فَاَبٰ٘ي اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا ٥٠ وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا ٥١ فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا ٥٢
ہم نے اِس قرآن کو اِن کے درمیان طرح طرح سے بیان کیا ہے[53]، (اے پیغمبر)، تاکہ یہ یاددہانی حاصل کریں، مگر اکثر لوگ ناشکری کیے بغیر نہیں رہتے۔ اگر ہم چاہتے تو (اِن کی) ہر بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیج دیتے، (مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ پھر بھی نہ مانتے[54])، اِس لیے تم اِن منکروں کی بات کا دھیان نہ کرو[55] اور اِسی قرآن کے ذریعے سے اِن کے ساتھ جہاد کبیر کرتے رہو[56]۔ ۵۰- ۵۲
وَهُوَ الَّذِيْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّهٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا ٥٣
اور( اِنھیں بتاؤکہ) وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملاکر چھوڑدیا۔ ایک کا پانی میٹھا ہے، پیاس بجھانے والا او ردوسرے کا کھاری ہے، نہایت کڑوا۔ او ردونوں کے درمیان اُس نے ایک پردہ حائل کر دیا اور ایک اٹل رکاوٹ کھڑی کر دی ہے[57]س۔۵۳
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًاﵧ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا ٥٤
اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اُس کے نسب اور سسرال ٹھیرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب بڑی قدرت والا ہے[58]۔ ۵۴
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْﵧ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰي رَبِّهٖ ظَهِيْرًا ٥٥ وَمَا٘ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ٥٦ قُلْ مَا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰي رَبِّهٖ سَبِيْلًا ٥٧ وَتَوَكَّلْ عَلَي الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهٖﵧ وَكَفٰي بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرَا ٥٨ اِۨلَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِﵑ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔلْ بِهٖ خَبِيْرًا ٥٩ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِﵐ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُﵯ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا ٦٠
 لیکن اِن کا حال یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر یہ اُن چیزوں کی بندگی کر رہے ہیں جو اِن کو نہ نفع پہنچا سکتی ہیں، نہ نقصان اور (یہی نہیں)، یہ منکر (تو اب اِس سے آگے) اپنے رب کے حریف بنے ہوئے ہیں[59]۔ ہم نے،(اے پیغمبر)، تم کو بس ایک بشارت دینے والا او رخبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگ رہا ہوں، مگر یہی کہ جو چاہے، وہ اپنے پروردگار تک پہنچنے کی راہ اختیار کر لے۔ تم اُس جیتے پر بھروسا رکھو جو مرنے والا نہیں ہے[60] اور اُس کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو۔ (وہ اِن سے خود سمجھ لے گا)، اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر رہنے کے لیے وہ کافی ہے۔ (وہی) جس نے زمین اور آسمانوں او راُن کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا[61]، پھر اپنے عرش پرمتمکن ہوا[62]۔ وہ رحمٰن ہے[63]، سوتم (اُس کی شان) اُسی سے پوچھو جو اُس کو جاننے والا ہے[64]۔ جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤ تو کہتے ہیں کہ رحمٰن کیا ہے[65]م ؟ کیا ہم اُس کو سجدہ کریں جسے تم سجدہ کرنے کے لیے ہمیں کہہ دو؟ اور اِن کی نفرت کو یہ چیز اور بڑھا دیتی ہے۔ ۵۵- ۶۰
تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا ٦١ وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا ٦٢
 (لوگو، کس سے انحراف کر رہے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ) بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جس نے آسمان میں مضبوط قلعے بنائے [66]اور اُس میں ایک جلتا چراغ اور ایک چمکتا چاند بنایا اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا، اُن کے لیے جو یاددہانی حاصل کرنا چاہیں یا شکرگزار بننا چاہیں[67]۔ ۶۱- ۶۲ 

[48]۔ یہ امتنان کے لیے فرمایا ہے کہ اگر ٹھیرا دیتا تو اندازہ کر سکتے ہو کہ زمین پر زندگی گزارنا تمھارے لیے کس قدر دشوار ہو جاتا۔

[49]۔ اِس لیے کہ وہی رات کی عالم گیر تاریکی سے دنیا کو نکالنے کا باعث بنتا ہے، اُسی طرح جیسے کوئی دلیل راہ بن کر راہ کی تمام منازل کو واضح کر دے۔

[50]۔ آیت میں لفظ ’سُبَاتًا‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے اصل معنی کاٹنے کے ہیں۔ نیند کو ’سُبَات‘ اِس لیے کہا ہے کہ یہ عمل کو منقطع کرتی ہے اور اِس طرح انسان کو راحت اور سکون حاصل کرنے کا موقع بہم پہنچاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے نیند کو دافع کلفت بنا کر تمھارے لیے یہ اہتمام کیا ہے کہ رات کی راحت بخش چادر اوڑھ کر سو جاؤ تاکہ از سر نو زندگی کی سرگرمیوں کے لیے تازہ دم ہو سکو۔

[51]۔ یہ نہایت لطیف اسلوب میں اشارہ کر دیا ہے کہ ہر صبح گویا ایک روز قیامت ہے جس میں تم اُسی طرح اٹھتے ہو، جیسے صبح قیامت کو یک بہ یک موت کی نیند سے جاگ پڑو گے۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ محض ایک لفظ ’نُشُوْر‘ کے استعمال سے اُس نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔

[52]۔ یہ آیتیں جن حقائق کی طرف توجہ دلا رہی ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مطلب یہ ہے کہ غور کرو، کیا یہ دنیا جس کے ہر گوشے میں اتنی حکمتیں اور قدرتیں نمایاں ہیں، بغیر کسی خالق کے وجود میں آگئی ہے؟ یہ سب کچھ محض کسی اندھی بہری علت العلل کا کرشمہ ہے؟ آسمان سے لے کر زمین تک ابر، ہوا، بارش اور انسان وحیوانات کی مایحتاج میں یہ ربط آپ سے آپ پیدا ہو گیا ہے؟ کیا اضداد کی اِس باہمی ہم آہنگی کے مشاہدے کے بعد یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اُس کے اندر مختلف ارادے کار فرما ہیں؟ کیا رحمت وربوبیت کا یہ اہتمام انسان پر رب رحمٰن ورحیم کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتا؟ کیا ہر بارش کے بعد زمین کی از سر نو زندگی اِس حقیقت کی یاددہانی نہیں کررہی ہے کہ جو حکیم وقدیر اپنی قدرت وحکمت کا یہ مشاہدہ برابر کرا رہا ہے، اُس کے لیے لوگوں کے مرنے اور مٹی میں مل جانے کے بعد اُن کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے؟‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۴۷۶)

[53]۔ یعنی اِن کے ہر گروہ اور ہر طبقے کے درمیان گوناگوں اسلوبوں سے حقائق کو بیان کرتے ہوئے سنا دیا ہے تاکہ اِن میں سے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اُس پر حجت پوری نہیں ہوئی۔

[54]۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح قرآن میں بات اتنے مختلف پہلوؤں سے واضح کی گئی ہے کہ ہر گروہ اور ہر طبقے کی رعایت ملحوظ رہی ہے، اُسی طرح ہم اِن کی ہر بستی میں الگ الگ پیغمبر بھی بھیج سکتے تھے ، لیکن اِس سے کیا ہوتا؟ اِس کے بعد بھی یہ اِسی ہٹ دھرمی سے انکار کر دیتے۔ اِس لیے مطمئن رہو، یہ اگر نہیں مان رہے اور الٹا تمھارا مذاق بنا رہے ہیں تو اِس میں تمھاری کوئی خامی نہیں ہے، اِنھی کے فساد مزاج کا قصور ہے۔یہ تمھاری قدر پہچانتے تو کبھی ایسی باتیں نہ کرتے، بلکہ خدا کا شکر ادا کرتے کہ اِن کی سرزمین پر کیسا آفتاب ہدایت طلوع ہوا ہے۔

[55]۔ یہ اُس بات کی طرف اشارہ ہے جو اوپر نقل ہوئی ہے کہ اچھا، یہی ہے جس کو خدا نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آیت میں لفظ ’اِطَاعَة‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ کسی کی بات ماننے اور اُس کا لحاظ کرنے کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ یہاں اِسی مفہوم میں ہے اور ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

[56]۔ یعنی وہی کٹھن جدوجہد جو اِس وقت تم کر رہے ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن حالات میں اور جیسی جاں گسل جدوجہد اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے کر رہے تھے، یہ لفظ اُس کی رعایت سے استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی بڑی تحسین ہے۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آپ جس جہاد کے لیے اصلاً مبعوث ہوئے تھے، وہ تلوار سے نہیں، بلکہ قرآن مجید ہی کے ذریعے سے کیا گیا۔

[57]۔ توحید پر استدلال کے لیے یہ اُس عظیم قدرت وحکمت کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا مشاہدہ ہر اُس جگہ کیا جا سکتا ہے، جہاں دو دریا ملتے ہوں یا کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گر رہا ہو۔ دونوں کی موجیں آپس میں ٹکراتی ہیں، لیکن دونوں کا پانی الگ الگ رہتا ہے۔ ایک غیرمرئی دیوار گویا دونوں کے بیچ میں کھڑی ہو جاتی ہے جسے نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اورنہ وہ موجوں کے ٹکرانے سے ٹوٹتی ہے۔ یہ واقعہ جس قانون کے تحت ہوتا ہے، اُسے سائنس کی زبان میں سطحی تناؤ (surface tension) کا قانون کہا جاتا ہے۔ سمندروں کے بیچ میں میٹھے پانی کے ذخیرے بھی اِسی قانون کے تحت اپنی مٹھاس پر قائم رہتے ہیں۔ یہ اِس بات کی صاف شہادت ہے کہ ایک ہی بالا ترقوت ہے جو دونوں پانیوں کو اِس طرح تھامے رکھتی ہے۔

[58]۔ یعنی ایسی قدرت والا ہے کہ اُس نے پانی سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنائی، پھر اُس کے جوڑے بنائے اور اب اُنھی کو ملا کر ایک طرف بیٹے اور پوتے پیدا کرتا ہے جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں اور دوسری طرف بیٹیاں اور نواسیاں پیدا کرتا ہے جو بہوئیں بن کر دوسرے گھروں میں چلی جاتی ہیں جس سے خاندان اور خاندانوں سے قومیں وجود میں آتی چلی جاتی ہیں۔ یہ انسانی جوڑے بظاہر اضداد ہیں، لیکن اِنھی اضداد کے اندر وابستگی اور پیوستگی اوراُس سے نسبی اور صہری رشتوں کا ظہور اِس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ایک ہی حکیم وقدیر ہے جس کا ارادہ اِس پوری کائنات میں کار فرما ہے اوراُس کے مقابل میں کوئی نہیں جو اِن اضداد کو وابستہ ہونے سے روک دے۔

[59]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰي رَبِّهٖ ظَهِيْرًا ‘۔ اِن میں ’كَافِر‘ اسم جنس کے مفہوم میں ہے اور ’ظَهِيْر‘ کے بعد ’ عَلٰي ‘ نے اُس کے اندر حریف اور مدمقابل کا مفہوم پیدا کر دیا ہے۔

[60]۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو ایک لطیف تعریض اُن مردہ خداؤں پر بھی ہے جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ نقصان۔

[61]۔ چھ دنوں سے خدائی ایام مراد ہیں جن کے طول وعرض کو وہی جانتا ہے۔ ہم اپنی زبان میں اُنھیں چھ ادوار سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ کائنات کا وجود کوئی وقتی حادثہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت وجود میں آئی ہے، لہٰذا کبھی عبث نہیں ہو سکتی۔

[62]۔ یہ خدا کے اقتدار کی تعبیر ہے اور آیت میں ’اسْتَوٰي‘ کے ساتھ ’عَلٰي ‘نے اِس میں تمکن کے معنی پیدا کر دیے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ کائنات کو پیدا کر کے اُس کا خالق بے تعلق نہیں ہو گیا، بلکہ اُس کے تخت حکومت پر متمکن ہے اور اُس کے تمام معاملات اُس کی نگرانی میں انجام پا رہے ہیں۔

[63]۔ آیت میں ’اَلرَّحْمٰنُ‘ تالیف کے لحاظ سے خبر ہے جس کا مبتدا محذوف ہے۔ اِس صفت کی تذکیر سے یہاں جس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ اُس نے اِس کائنات کو اپنی رحمت سے وجود بخشا ہے اور اِسی رحمت کے تقاضے سے ایک دن وہ اِس کو اِس کے حقیقی انجام تک بھی پہنچا دے گا۔ اِس لیے کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل یا کسی رام کی لیلا ہے۔ ہرگز نہیں، یہ ایک متعین مقصد کے تحت وجود میں آئی ہے اور اپنے مقصد تک پہنچ کر رہے گی۔

[64]۔ یعنی خود خدا سے پوچھو، اِس لیے کہ اپنی ذات وصفات کو درحقیقت وہی جانتا ہے۔ لفظ ’خَبِيْر‘ اِس آیت میں بالکل اُسی طرح آیا ہے، جس طرح سورۂ فاطر (۳۵) کی آیت ’وَلَايُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ‘ (۱۴) میں ہے۔ اِس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے اور ’بِهٖ‘ اِسی سے متعلق ہے۔

[65]۔ اسم رحمٰن چونکہ اہل کتاب کے ہاں زیادہ معروف تھا، اِس لیے قریش کے لیڈروں نے یہ نکتہ پیدا کر لیا کہ قرآن میں جگہ جگہ اِسی نام سے خدا کا ذکر اِس لیے کیا جاتا ہے کہ اِس سے اہل کتاب کی مذہبی روایات کو ہم پر مسلط کرنا مقصود ہے۔ یہ جملہ اِسی پس منظر میں کہا گیا ہے۔

[66]۔ اِس سے آسمان کے وہ قلعے اور گڑھیاں مراد ہیں جن میں خدا کے ملائکہ اور کروبیوں کی فوجیں اُن سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت مامور رہتی ہیں جن سے آگے کسی جن یا انسان کو بڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔

[67]۔ مطلب یہ ہے کہ عقل ودل کو بیدار کرنے والی نشانیوں سے تو اِس کائنات کا چپہ چپہ معمور ہے، لیکن اِس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ارادہ چاہیے۔ تم اِسی ارادے کے امتحان کے لیے پیدا کیے گئے ہو، لیکن افسوس کہ ناکام ہو جاتے ہو اور نہ تمھاری عقل اِن نشانیوں سے یاددہانی حاصل کرتی ہے اور نہ دل شکرگزاری کے جذبات سے معمور ہوتا ہے۔

[باقی]

_________

B