حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں متعدد مقامات پر مختلف زاویوں سے یہ بات بیان کی ہے کہ نیکی اور بدی کی اساسات فطرت انسانی میں راسخ ہیں اور انسان شریعت اور مذہب سے مقدم طور پر ان سے شناسا ہوتا ہے۔ ’باب اقتضاء التكليف المجازاة‘ کے زیر عنوان انھوں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال پر جزا وسزا ملنا کیوں ضروری ہے؟ اس ضمن میں انھوں نے چار اسباب بیان کیے ہیں: ایک سبب وہ ساخت ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساخت بذات خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کو انجام دے۔ دوسرا سبب ملاء اعلیٰ کی جہت سے ہے، چنانچہ جب انسان اچھاکام کرتا ہے تو فرشتوں کی جانب سے اس کے لیے مسرت اور سرور کی شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ برا کام کرتا ہے تو ان سے نفرت اور بغض کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ مجازات عمل کا تیسرا سبب شریعت کا نزول ہے جس کی پسندیدگی کا جذبہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چوتھا سبب انبیا کی بعثت او ر ان کی طرف ہونے والی وحی کا مشخص اور ممثل ہو جاناہے ۔ یہ اسباب بیان کر کے انھوں نے لکھا ہے:
...أما المجازاة بالوجهین الأولین ففطرة فطر اللہ الناس علیها ولن تجد لفطرة اللہ تبدیلاً ولیس ذلک إلا في أصول البر والإثم وکلیاتها دون فروعها وحدودها وهذه الفطرة هو الدین الذي لا یختلف باختلاف الإعصار، والأنبیاء کلهم مجمعون علیه... والمؤاخذة علی هذا القدر متحققة قبل بعثة الأنبیاء وبعدها سواء.(۱/ ۲۵)
’’...پہلی دو جہتوں سے مجازات عمل تو عین وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے اور فطرت الہٰی میں تم کسی قسم کی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ لیکن یہ صرف بر و اثم کے اصول وکلیات میں ہوتا ہے، نہ کہ ان کی فروعات و حدود میں، اور یہ فطرت ہی وہ دین ہے جو زمانوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتا اور جس پر تمام انبیاے کرام کا اجماع و اتفاق ہے۔...(دین فطرت کی) اس مقدار پر مواخذہ اور داروگیر انبیا سے قبل بھی ثابت ہے اور ان کی بعثت کے بعد بھی۔‘‘
’’اتفاق الناس علٰي أصول الارتفاقات‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے بیان کیا ہے کہ ارتفاقات، یعنی انسانی سماج کی تشکیل اور اس کی بقا اور تہذیب کے اصول تمام بنی نوع انسان کے مابین ہمیشہ سے مسلم اور متفق علیہ رہے ہیں۔اس اتفاق کا سبب ان کے نزدیک فطرت سلیمہ ہے۔ لکھتے ہیں:
اعلم أن الارتفاقات لا تخلو عنها مدینة من الأقالیم المعمورة ولا أمة من الأمم أهل الأمزجة المعتدلة والأخلاق الفاضلة من لدن آدم علیه السلام إلی یوم القیامة وأصولها مسلمة عند الکل قرنًا بعد قرن وطبقة بعد طبقة لم یزالوا ینکرون علی من عصاها أشد نکیر ویرونها أمورًا بدیهیة من شدة شهرتها، ولا یصدنک عما ذکرنا اختلافهم في صور الارتفاقات وفروعها فاتفقوا مثلاً علی إزالة نتن الموت وستر سوآتهم ثم اختلفوا في الصور، فاختار بعضهم الدفن في الأرض وبعضهم الحرق بالنار واتفقوا علی تشهیر أمر النکاح وتمییزه عن السفاح علی رؤس الأشهاد ثم اختلفوا في الصور، فاختار بعضهم الشهود والإیجاب والقبول والولیمة وبعضهم الدف والغناء ولبس ثیاب فاخرة لا تلبس إلا في الولائم الکبیرة واتفقوا علی زجر الزناة والسراق ثم اختلفوا، فاختار بعضهم الرجم وقطع الید وبعضهم الضرب الألیم والحبس الوجیع والغرامات المنهکة ... ولا ینبغی أن یظن أنهم اتفقوا علی ذلک من غیر شيء بمنزلة الاتفاق علی أن یتغذی بطعام واحد أهل المشارق والمغارب کلهم وهل سفسطة أشد من ذلک؟ بل الفطرة السلیمة حاکمة بأن الناس لم یتفقوا علیها مع اختلاف أمزجتهم وتباعد بلدانهم وتشتت مذاهبهم وأدیانهم إلا لمناسبة فطریة منشعبة من الصورة النوعیة ومن حاجات کثیرة الوقوع یتوارد علیها أفراد النوع ومن أخلاق توجبها الصحة النوعیة في أمزجة الأفراد.(۱/ ۴۸)
’’جاننا چاہیے کہ آباد ممالک کا کوئی شہر یا دنیا کی کوئی قوم جو معتدل مزاج اور اخلاق فاضلہ کی حامل ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک، ان ارتفاقات (یعنی انسانی سماج کی تشکیل اور اس کی بقا اور تہذیب کے اصولوں) سے خالی نہیں ہو سکتی۔ ان ارتفاقات کے اصول سب کے نزدیک نسلاً بعد نسلٍ اور طبقہ در طبقہ مسلم چلے آ رہے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہمیشہ بڑی سختی سے منع کرتے رہے ہیں۔ بنی نوع انسان ان ارتفاقات کی انتہائی شہرت کی بنا پر انھیں بدیہی امور خیال کرتے ہیں۔ ان ارتفاقات کی ظاہری صورتوں اور ان کی جزئیات کے معاملے میں لوگوں کا اختلاف تمھارے لیے ہماری بات کو تسلیم کرنے میں مانع نہ بنے۔ مثلاً مردوں کی بدبودار اور برہنہ لاشوں کو چھپانے پر ساری دنیا کا اتفاق ہے، گو اس کی صورتوں میں ان کا اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مردوں کو زمین میں دفن کرنا پسند کرتے ہیں اور کچھ انھیں جلا دیتے ہیں۔ اسی طرح نکاح کی تشہیر اور لوگوں کے سامنے اس کا اعلان کر کے بدکاری سے اس کو ممتاز کرنے پر بھی انسانوں کا اتفاق ہے۔ پھر اس کی صورتوں میں اختلاف ہے، پس بعض نے گواہوں اور ایجاب وقبول اور ولیمہ کو پسند کیا اور بعض نے دف بجانے اور گانا گانے کو اور ایسے بڑھیا لباس پہننے کو جو صرف شادی بیاہ کی بڑی تقریبات ہی میں پہنے جاتے ہوں۔ زانیوں اور چوروں کو سزا دینے پر بھی اتفاق ہے، لیکن اس کے طریقے میں اختلاف ہے۔ بعض نے سنگ سار کرنے اور ہاتھ کاٹ دینے کا طریقہ اختیار کیا اور بعض نے سخت پٹائی کرنے، تکلیف دہ قید اور کمر توڑ دینے والے جرمانے عائد کرنے کا۔ ... اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ سب لوگ ان چیزوں پر کسی سبب کے بغیر یوں متفق ہو گئے، جیسے اہل مشرق ومغرب سب ایک ہی طرح کا کھانا کھانے پر متفق ہو جائیں۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی احمقانہ بات ہو سکتی ہے؟ بلکہ فطرت سلیمہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ لوگ اپنے مزاجوں کے اختلاف اور اوطان کے باہمی فاصلوں اور ادیان ومذاہب کے اختلاف وتنوع کے باوجود ان امور پر کسی ایسی فطری مناسبت ہی کی وجہ سے متفق ہوئے ہیں جو ان کی صورت نوعیہ سے پھوٹتی ہے۔ اس اتفاق کا سبب وہ حاجات بھی ہیں جو بنی نوع انسان کو بہ کثرت پیش آتی ہیں اور وہ اخلاق بھی جن کو افراد کے مزاج میں پیدا کرنے کا تقاضا ان کی صورت نوعیہ کی صحت کرتی ہے۔‘‘
اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ’مبحث البرّ والإثم‘ کے عنوان کے تحت انھوں نے بیان کیا ہے کہ نیکی کے قوانین اللہ ہی کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں الہام کیے گئے ہیں:
وکما أن الارتفاقات استنبطها أولو الخبرة فاقتدی بهم الناس بشهادة قلوبهم واتفق علیها أهل الأرض أو من یعتد به منهم فکذلک للبر سنن ألهمها اللہ تعالٰی في قلوب المؤیدین بالنور الملکي الغالب علیهم خلق الفطرة بمنزلة ما ألهم في قلوب النحل ما یصلح به معاشها فجروا علیها وأخذوا بها وأرشدوا إلیها وحصوا علیها فاقتدی بهم الناس واتفق علیها أهل الملل جمیعها في أقطار الأرض علی تباعد بلدانهم واختلاف أدیانهم بحکم مناسبة فطریة واقتضاء نوعي ولا یضر ذلک اختلاف صور تلک السنن بعد الاتفاق علی أصولها ولا صدود طائفة مخدجة لو تأمل فیهم أصحاب البصائر لم یشکوا أن مادتهم عصت الصورة النوعیة ولم تمکن لأحکامها وهم في الإنسان کالعضو الزائد من الجسد زواله أجمل له من بقائه.(۱/ ۵۸)
’’اور جس طرح ارتفاقات کو اہل بصیرت نے مستنبط کیا اور لوگوں نے اپنے دلوں کی گواہی کی بنا پر ان کی اقتدا کی اور روے زمین کے سب لوگوں نے یا ان لوگوں نے جن کا کوئی اعتبار ہے، ان پر اتفاق کر لیا، اسی طرح بِرّ(نیکی) کے بھی قوانین ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں الہام کیے ہیں جنھیں نور ملکی کی تائید حاصل ہے اور جن پر فطرت کا رنگ غالب ہے، ایسے ہی جیسے شہد کی مکھیوں کے دلوں میں وہ چیزیں الہام کی گئی ہیں جو ان کی صلاح معاش کے لیے ضروری ہیں۔ پس ان لوگوں نے ان طریقوں کو اختیار کیا، ان پر چلے، دوسروں کی رہنمائی کی اور انھیں ان کے اپنانے کی ترغیب دی، پس لوگوں نے ان کی پیروی کی اور زمین کے تمام اطراف میں، علاقوں کے مابین دوری اور ادیان کے اختلاف کے باوجود، تمام اہل ملل ان پر متفق ہو گئے جس کی وجہ ایک فطری مناسبت اور انسانوں کی نوع کا تقاضا تھا۔ ان طریقوں کے اصولوں پر اتفاق کے بعد ان کی صورتوں میں اختلاف مضر نہیں، اسی طرح کسی ایسے ناقص (فطرت والے) گروہ کا گریز بھی مضر نہیں جن پر اگر اصحاب بصیرت غور کریں تو انھیں کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ ان کا مادہ ہی انسانوں کی صورت نوعیہ کے منافی ہے اور اس کے احکام کے تابع نہیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے، جیسے انسان کے جسم میں کوئی زائد عضو ہو اور جس کو کاٹ دینا اس کے باقی رکھنے سے بہتر ہو۔‘‘
صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی یہی بات بیان کی ہے:
’’...فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اُس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’الَّذِيْ٘ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰي ‘۔ ’’جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی‘‘ (آیت۵۰)۔ مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آجاتا ہے۔ انسان کو بھی اُس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اِس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے، اُس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتاتھا۔ اُس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اِس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اُس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے درپے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ اِن ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا، وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جو محض انسانی فکروکاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اِسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آگئی اور اُس کی بدولت اُس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اِس حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیروشر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیروشر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اِس چیز کا ہر زمانے، ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اِس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالق حکیم ودانا نے اِسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے، اُن کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشان دہی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (تفہیم القرآن۶/ ۳۵۲- ۳۵۳)
اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وحی سے مقدم طور پر فطری رہنمائی کا وجود اکابر علماے امت کے نزدیک اسی طرح مسلم ہے، جیسا کہ جناب جاوید احمد غامدی نے اسے بیان کیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خالق کی معرفت اور خیر و شر کا احساس اور شعور انسان کی فطرت میں مسلم ہے تو وہ کیا ضرورت تھی جسے پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ شروع کیا؟ غامدی صاحب کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیر و شر کے مبادیات کا شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کو براہ راست ودیعت کر رکھا تھا،مگر ان کے لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں انسان کو مزید رہنمائی کی ضرورت تھی۔مزید برآں اشخاص، زمانے اور حالات کے فرق کی وجہ سے ان لوازم و اطلاقات اور جزئیات و تفصیلات میں اختلافا ت کا پیدا ہو جانا قدرتی امر تھا۔ اس اختلاف کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دنیا میں بھیجنے کے بعد وحی کا سلسلہ جاری فرمایا اور اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے ان کی ہدایت کا سامان کیا۔چنانچہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’اخلاقیات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’(فطرت میں ودیعت خیر و شرکے) اِس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اِس کی گنجایش بھی اُس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبرو ں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ اِن پیغمبروں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ انسان اپنے اندر جو کچھ پاتا ہے، یہ ہدایت اُس کی تصدیق کرتی ہے اورانسان کاوجدانی علم، بلکہ تجربی علم، قوانین حیات اور حالات وجود سے استنباط کیا ہوا علم اورعقلی علم ، سب اِس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنا نچہ اخلاق کے فضائل ورذائل اِس کے نتیجے میں پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہو جاتے ہیں۔
روایتوں میں ایک تمثیل کے ذریعے سے یہی بات اِس طرح سمجھائی گئی ہے کہ تم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہو، اُس کے لیے ایک سیدھا راستہ تمھارے سامنے ہے جس کے دو نوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ دونوں میں دروازے کھلے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اندر آجاؤ اورسیدھے چلتے رہو۔ اِس کے باوجود کوئی شخص اگر دائیں بائیں کے دروازوں کا پردہ اٹھانا چاہے تو اوپرسے ایک منادی پکار کرکہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ فرمایا ہے کہ یہ راستہ اسلام ہے، دیواریں اللہ کے حدود ہیں، دروازے اُس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں، اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندۂ مومن کے دل میں ہے اور راستے کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے:
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷ :۹)
’’(لوگو)،حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ یہ ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں، اِس بات کی بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ‘‘ ‘‘ (۲۰۳ - ۲۰۴)
اس اقتباس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک فطرت کو کیا مقام حاصل ہے اور اس کے تقابل میں وحی کی کیا حیثیت ہے۔ فطرت کی ہدایت اور وحی کی ہدایت میں یہی وہ باہمی تعلق ہے جسے امت کے جلیل القدر علما نے بھی بیان کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
أن أصل بعثة الانبیاء وإن کان لتعلیم وجوه العبادات أولا وبالذات لکنه قد تنضم مع ذلک إرادة إخمال الرسوم الفاسدة والحث علی وجوه من الارتفاقات، وذلک قوله صلی اللہ علیه وسلم: ’’بعثت لمحق المعازف‘‘. وقوله علیه الصلاة والسلام: ’’بعثت لأتمم مکارم الأخلاق‘‘. ... والذي أتي به الأنبیاء قاطبة من عند اللہ تعالٰی في هذا الباب هو أن ینظر إلی ما عند القوم من آداب الأکل والشرب واللباس والبناء ووجوه الزینة ومن سنة النکاح وسیرة المتناکحین ومن طرق البیع والشراء ومن وجوه المزاجر عن المعاصي وفصل القضایا ونحو ذلک. فإن کان الواجب بحسب الرأي الکلي منطبقًا علیه فلا معنی لتحویل شيء منه من موضعه ولا العدول عنه إلی غیره بل یجب أن یحث القوم علی الأخذ بما عندهم وأن یصوب رأیهم في ذلک ویرشدوا إلی ما فیه من المصالح وإن لم ینطبق علیه ومست الحاجة إلی تحویل شيء أو إخماله لکونه مفضیًا إلی تأذي بعضهم من بعض أو تعمقًا في لذات الحیاة الدنیا وإعراضًا عن الإحسان أو من المسلیات التي تؤدي إلی إهمال مصالح الدنیا والآخرة ونحو ذلک فلا ینبغي أن یخرج إلی ما یباین مألوفهم بالکلیة بل یحول إلی نظیر ما عندهم.(حجۃ اللہ البالغہ۱/ ۱۰۴)
’’ انبیا کی بعثت اصلاً اور بالذات اگرچہ عبادات کے رسوم اور طریقے سکھانے کے لیے ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ بسااوقات فاسد معاشرتی رسوم کا خاتمہ اور ارتفاقات کی بعض صورتوں پر لوگوں کو آمادہ کرنا بھی بطور مقصد کے شامل ہو جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے کہ مجھے گانے بجانے کے آلات کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہ کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ ... اس باب میں تمام کے تمام انبیا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو طریقہ لے کر آئے، وہ یہ تھا کہ اس قوم کے ہاں کھانے پینے، لباس، تعمیر، زیب و زینت، نکاح اور زوجین کے باہمی معاملات، بیع و شرا کی جو بھی صورتیں موجود ہوں اور گناہوں سے روکنے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کے جو بھی طریقے رائج ہوں، اگر وہ کلی راے کے اعتبار سے عائد ہونے والی ذمہ داری کے موافق ہوں تو ان میں سے کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹانے یا اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اس قوم کو ان کے ہاں رائج طریقوں ہی کی پابندی کی ترغیب دی جائے اور اس معاملے میں ان کی راے کی تصویب کی جائے اور اس میں جو مصالح پائے جاتے ہیں، وہ ان پر واضح کیے جائیں۔ البتہ اگر کوئی چیز اس کے موافق نہ ہو اور اس کو بدلنے یا ختم کر دینے کی ضرورت ہو یا اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کی باہمی اذیت کا سبب بنتی ہے یا دنیا کی لذتوں میں کھو جانے اور احسان کے طریقے سے اعراض کا باعث ہے یا ایسی غفلت پیدا کرتی ہے جس سے دنیا اور آخرت کے مصالح برباد ہو جاتے ہیں تو پھر بھی اس قوم کے مانوس طریقوں سے بالکلیہ باہر نکل جانا درست نہیں، بلکہ اس کو تبدیل کر کے انھی کے ہاں موجود کسی نظیر کو اپنانا چاہیے۔‘‘
مولاناامین احسن اصلاحی نے بیان کیا ہے:
’’انسان انبیاے کرام کی رہنمائی کا محتاج اس وجہ سے نہیں ہوا کہ وہ حق و باطل میں امتیاز یا ان کے شعور سے عاری تھا، بلکہ اس وجہ سے ہوا کہ اس راہ میں اس کو اس کی بعض کمزوریوں کے سبب سے، جن کی وضاحت ہم اس کے محل میں کر چکے ہیں، بہت سے مغالطے پیش آ سکتے تھے، نیز مبادی فطرت کے تمام لوازم اور ان کے سارے مقتضیات کو سمجھنا بھی اس کے لیے ممکن نہیں تھا ، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کے لیے نبی و رسول بھیجے۔ ان نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات چونکہ انھی مبادی پر مبنی ہیں جو انسان کے اندر ودیعت ہیں، اس وجہ سے جو سلیم الطبع تھے ، انھوں نے نبیوں کی ہر بات کو اپنے ہی دل کی آواز سمجھا۔ صرف ان لوگوں نے ان کی مخالفت کی جنھوں نے اپنی فطرت مسخ کر ڈالی تھی، اگرچہ اپنے دلوں کے اندر وہ بھی رسولوں کی صداقت و حقانیت کے معترف رہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۹۴)
مولانا شبیر احمد عثمانی نے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے اور بدء فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اُس کے دل میں بطور تخم ہدایت کے ڈال دی ہے کہ اگر گردوپیش کے احوال اور ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دین حق کو اختیار کرے، کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔ ’’عہدالست‘‘ کے قصہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے اور احادیث صحیحہ میں تصریح ہے کہ ہر بچہ فطرۃ (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے بعدہٗ ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو ’’حُنفاء‘‘ پیدا کیا۔ پھر شیاطین نے اغوا کر کے اُنھیں سیدھے راستہ سے بھٹکا دیا۔ بہرحال دین حق، دین حنیف اور دین قیم وہ ہے کہ اگر انسان کو اُس کی فطرت پر مخلی بالطبع چھوڑ دیا جائے تو اپنی طبیعت سے اُسی کی طرف جھکے۔ تمام انسانوں کی فطرۃ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی بنائی ہے جس میں کوئی تفاوت اور تبدیلی نہیں۔ فرض کرو اگر فرعون یا ابوجہل کی اصلی فطرت میں یہ استعداد اور صلاحیت نہ ہوتی تو اُن کو قبول حق کا مکلف بنانا صحیح نہ ہوتا۔ جیسے اینٹ پتھر یا جانوروں کو شرائع کا مکلف نہیں بنایا۔ فطرت انسانی کی اسی یکسانیت کا یہ اثر ہے کہ دین کے بہت سے اصول مہمہ کو کسی نہ کسی رنگ میں تقریباً سب انسان تسلیم کرتے ہیں، گو اُن پر ٹھیک ٹھیک قائم نہیں رہتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’یعنی اللہ سب کا مالک حاکم، سب سے نرالا، کوئی اُس کے برابر نہیں، کسی کا زور اُس پر نہیں، یہ باتیں سب جانتے ہیں۔ اُس پر چلنا چاہیے۔ ایسے ہی کسی کے جان ومال کو ستانا، ناموس میں عیب لگانا، ہر کوئی برا جانتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کو یاد کرنا، غریب پر ترس کھانا، حق پورا دینا، دغا نہ کرنا، ہر کوئی اچھا جانتا ہے۔ اِس (راستہ) پر چلنا وہ ہی دین سچا ہے۔ (یہ امور فطری تھے، مگر) ان کا بندوبست پیغمبروں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے سکھلا دیا۔‘‘‘‘(تفسیر عثمانی۵۲۸)
__________