محمد حسنین اشرف
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر
صفحات : ۲۲۰
قیمت : ۲۰۰
ناشر : شعبہ اردو، ارینٹل کالج، علامہ اقبال کیمپس، پنجاب یونیورسٹی لاہور
ای میل: [email protected]
فون: ۹۹۲۱۰۸۳۲ - ۰۴۲
ہماری روایت کا حصہ ہے کہ کسی بھی شخص کے اس فانی جہان سے کوچ کرجانے کے بعد اسے یکسر فراموش کردیا جاتا ہے ۔ بہ صورت دیگر کچھ روایتی جملے کہے جاتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب کی برگد سی شخصیت نے سالہا سال ایک بوڑھے شفیق شجر کے مانند اس قوم پر اپنا سایہ کیے رکھا‘‘،’’ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد علمی و ادبی دنیا میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا ہے، جس کا پُر ہونا ناممکن ہے‘‘ وغیرہ۔ اس کے بعد ان کی علمی کاوشوں پر ایک گہری چادر ڈال کر نسل نو کو ان کی شخصیت کے قد و قامت سے واقف کرانے کے لیے اسی قسم کے مضامین بھی لکھ دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ہم تمام بڑی شخصیات کے احسانات کا بوجھ اتارنے کی سعی کرتے ہیں۔ اردو کی علمی ادبی روایت میں اکثر شعرا اور ادیبوں کو پوستھیومس گلوری (posthumous glory)ہی نصیب ہوئی، یعنی بعد از مرگ اعتراف عظمت۔ہم نے شاذ ہی کسی بڑے آدمی کو اس کی زندگی میں پہچانا۔ اعتراف عظمت سے مراد کسی بھی شخص کو کاندھوں پر اٹھا لینا نہیں ہے، بلکہ اس کے کام کو سنجیدگی اور دقت نظر سے دیکھ کر اس کی اہمیت کو محسوس کرنا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عرصہ گزر جاتا ہے، قرطاس پر پھیلی سیاہی پر گرد اپنی دبیز تہ چڑھا کر اسے دھندلا دیتی ہے اور تب کسی کو احساس ہو تو یہ کام الماریوں سے نکل کر میز کی زینت بنتاہے۔
’’ارمغان جمیل جالبی‘‘ کا مطالعہ کرتے وقت یہ احساس دامن گیر نہیں ہوتا کہ یہ کسی شخصیت کے محض قد و قامت اور اس سے مصنف کے تعلق کا بیان ہے۔ اس کتاب کی خوب صورتی یہ ہے کہ اس کا محرک نہ صرف ڈاکٹر مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنا، بلکہ اسی کے توسط سے نسل نو کو ڈاکٹر صاحب کے کام سے متعارف کرانا ہے۔ کتاب کے شروع میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک خاکہ ہے اور ہر بڑے آدمی کی طرح ان کی شخصیت ان کے کام ہی کی طرح دل چسپ ہے۔ اس خاکے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف علمی اور ادبی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے، بلکہ سماج اور اس کے حقائق پر ان کی گہری نظر تھی۔ وہ اپنے گرد و پیش میں قابل لوگوں کو نہ صرف پہچان لیتے، بلکہ ان کو گاہے گاہے تربیت سےگزارنے کا ایک عمل ان کے ہاں جاری رہتا ۔ اسی کا ایک نمونہ ان کا وہ جملہ ہے جو کتاب کے مصنف سے انھوں نے تب کہا جب ایک طے شدہ ملاقات پر وہ بہ وجوہ تاخیر سےپہنچے اور ملاقات ممکن نہ ہوسکی۔ اگلی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے مصنف سے کہا: ’’اس روز میں دانستہ آپ سے نہیں ملا۔ اس طرح میں یہ بتانا چاہتا تھاکہ انسان کی زندگی میں ایک وقت آتا ہےجب دوسرے اس کا انتظار کرتے ہیں۔اس وقت کے آنے سے پہلے اسے دوسروں کا انتظار کرنا ہوتا ہے‘‘۔ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ عکس نہ صرف ان کی ظاہری شخصیت کا تعارف کراتا ہے، بلکہ وہ ان کے علمی کاموں اور اس پر مصنف کی گہری نظر کا بھی شاہد ہے۔ یوں یہ عکس اپنے آپ میں ڈاکٹر صاحب کا ایک مکمل تعارف بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحب اور مصنف کے درمیان خط کتابت بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ اس سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں علم دوستی واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہ ان کی علم دوستی ہی ہے کہ شدید مصروفیت کے باوجود جب مصنف نے ان سے میر سوز کے قلمی مخطوطے کو جانچ کی غرض سے دیکھنے کی درخواست کی تو وہ نہ صرف اپنے کراچی دورے کے دوران میں لائبریری تشریف لے گئے، بلکہ ان مخطوطوں سے متعلق اپنے تاثرات بھی بذریعہ خط بھجوائے۔
کتاب کا دوسرا حصہ، ڈاکٹر صاحب کے علمی کاموں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس حصےمیں ڈاکٹر جمیل جالبی بطور مورخ، نقاد،مترجم، جریدہ نگار، مدون، کلچر شناس اور لغت نویس کے طو ر پر سامنے آتے ہیں۔ یہ امر قاری کے لیے نہایت دل چسپی کا باعث ہوگا کہ ان عناوین کے تحت کیے گئے کام پر تبصرہ نگاری کا کام مختلف طلبا نے کیا ہے، جس سےنسل نو کی عینک سے ڈاکٹر صاحب کے کاموں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے ان کاموں کی دورجدید سے ہم آہنگی نظر آتی ہے۔
’’ارمغان جمیل جالبی‘‘ اردو ادب سے شغف رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک نادر تحفہ ہےجو نہ صرف قاری کو ڈاکٹر جمیل جالبی کے علمی کام کے ایک سفر پر لے کر جاتی ہے، بلکہ کچھ مقامات پر رک کر ان کے کاموں میں موجود کمی بیشی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے، جس سے قاری کو ان کے کام کو زیادہ بہتر انداز میں دیکھنے کا زاویہ ملتا ہے۔
____________