HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

مثبت و منفی: عملی صورتیں

محمد تہامی بشر علوی

 

قانون امتحان و آزمایش کے تحت ہر انسان کے ساتھ اس کے دو قسم کے ساتھی بھی ہوتے ہیں: ایک کو فرشتے کہا جاتا ہے اور دوسرے کو شیطان۔ ہر انسان کے ساتھ یہ دو قوتیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ کل ہم نے سمجھا تھا کہ ہر انسان کے سامنے صورت حال مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی اور اس میں اس نے جو response  دینا ہوتا ہے، وہ بھی مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی بھی۔ اب جو ہر انسان کے ساتھ شیاطین ہیں، وہ اس کو منفی response کی طرف motivate کرتے رہتے ہیں۔ وہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ یہ کسی طرح اس موقع پر منفی response دے۔ اور جو فرشتے ہیں، وہ انسان کو motivate کرتے رہتے ہیں کہ آپ منفی نہیں، بلکہ مثبت رسپانس پیش کریں۔ اب جو فرشتے کی motivation ہے، اس کو ہم ضمیر کی آواز کی صورت میں بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ دل میں برائی کرنے سے پہلے اور بعد ایک آواز پیدا ہوتی رہتی ہے، وہ آواز ہمیں برائی کی طرف نہ جانے کا کہہ رہی ہوتی ہے۔

اسی طرح کسی کی گالی سن کر انسان ایک دم بھڑک اٹھتا ہے، یہ موقع ہوتا ہے جب شیطان انسان کو motivate کر کے منفی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ شیطان کی طرف سے فوراً اس کو اکساوا ملتا ہے کہ ایک گالی کے بدلے میں اسے دس گالیاں دے دے۔انسان ایسے موقع پر شیطان کے اکساوے میں نہ آئے، بلکہ صبر کرے، دماغ سے کام لے، خدا سے اچھائی پر استقامت کی دعا مانگے تو خدا فرشتوں کی مدد اس کے لیے بھیج دیتا ہے۔ وہ فرشتے انسان کو مثبت response پر آنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے لیے گالی کے جواب میں خاموش رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب ہم نے اپنا جائزہ لینا ہے کہ ہم اپنی عملی زندگی میں شیطان کی ترغیب پر عمل کر رہے ہوتے ہیں یا فرشتوں کی۔

 قرآن مجید میں ایک جگہ تعبیر یہ اختیار کی گئی ہے کہ فرشتے اس کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ آپ غمگین نہ ہوں، دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی ایک جہاں اور آنے والا ہے، اس میں تمھیں اس کے بدلے میں بڑا انعام مل جائے گا۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں، غمگین کیوں ہوتے ہیں[1]، تو وہ اس کو یوں ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جو فرشتوں کی اس آواز پر کان دھرتے ہیں۔ ہم ابلیس کے بہکاوے میں زیادہ آ جاتے ہیں اور عملی زندگی میں زیادہ منفی response ہی دیتے ہیں۔

ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک شخص آ کر گالیاں دے رہا ہے، حضرت ابوبکر صدیق خاموش ہیں، اس کے جواب میں کچھ نہیں کہہ رہے۔ تھوڑی دیر گزرتی ہے، کافی دیر وہ سن سن کر ان کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے، لہٰذا انھوں نے بھی جواباً چند سخت کلمات کہے۔ جونہی انہوں نے جواباً سخت کلمات کہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے رخ پھیر کر واپس چلے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے پوچھا: یارسول اللہ،پہلے جب وہ گالیاں دے رہا تھا تو آپ خاموشی سے دیکھ رہے تھے اور جب میں نے سخت جملہ کہا تو آپ وہاں سے چلے گئے، ایسا کیوں ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھیے! جب وہ پہلے آپ کو گالیاں دے رہا تھا تو آپ کی طرف سے فرشتہ پہنچا ہوا تھا، وہ آپ کی طرف سے جواب دے رہا تھا۔ جواب کا مطلب یہ ہے کہ آپ کاجو اجر ہے، وہ محفوظ تھا، اس کے بدلے میں آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا، کوئی منفی قسم کا ردعمل نہیں دیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی نصرت کے لیے ایک فرشتہ بھیج دیا اور اس نے آ کر آپ کو تسلی دی ہے۔ اور آپ کو اس کے بدلے میں اجر مل رہا تھا، لیکن جونہی آپ نے جواب دے دیا تو فرشتہ چلا گیا اور آپ کا جو اجر کا سلسلہ چل پڑا تھا، وہ بھی رک گیا۔ایک مومن کو ہمیشہ کوشش یہ کرنی ہوتی ہے کہ وہ ہر موقع پرمنفی کے بجاے مثبت response پیش کرے۔ عملی زندگی میں،بسا اوقات، تعلق داروں کے منفی رویوں سے تنگ آ کر انسان بد دل ہو جاتاہے۔ وہ بدلے میں منفی رویہ اپنانے لگتا ہے، لیکن ایک مومن کومنفی رویے سے خود کو بچانے میں کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر وہ منفی رویہ اپنانے لگے، چاہے وہ ردعمل ہی کی وجہ سے ہو، یہ آزمایش میں ناکامی ہو گی۔

خدا کا انعام تو اسے اسی وقت ملے گا، جب وہ ایسی صورت حال میں بھی منفی رویہ نہ اپنائے۔ ضروری نہیں کہ آپ منفی لوگوں سے کوئی گہرے مراسم ہی رکھیں۔ وہ اگر شرانگیزی میں بڑھے ہوئے ہیں تو آپ خود کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے کی تدبیر کیجیے۔عملی صورت حال کے مطابق آپ کے لیے جتنا ممکن ہے، اتنا اچھا response دیتے رہیے۔ کوئی آپ کے نقصان کی تدبیر کر رہا ہو تو آپ اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کی تدبیر ضرور کریں۔ لیکن اس کے نقصان کی ترکیب آپ نہیں بنا سکتے، کیونکہ آپ نے خدا کی نظروں میں انعام کا مستحق بننا ہے۔آپ سے دشمنی رکھنے والا کوئی شخص کہیں آپ کے سامنے آ جاتا ہے تو آپ سلام کہہ دیجیے، وہ سلام کہہ دے تو جواب دیجیے۔ ایسا شخص آپ کا کوئی پڑوسی یا تعلق دارہے اور وہ کہیں بیمار ہو گیا ہے تو آپ تیمارداری کر لیجیے، اسے کوئی خوشی ملی ہو تو مبارک باد دے دیجیے۔ اسے غم ملا ہے تو تعزیت کر لیجیے۔ یہ سب کچھ کر کے آپ اس پر احسان نہیں کر رہے۔

اصل میں یہ ایک task ہے جو خدا نے ہمیں دے رکھا ہے۔ ہم اس task کو پورا کر کے اس سے بڑا انعام پانا چاہتے ہیں۔ اس task کو نہ پورا کرنا ہماری اپنی ناکامی ہے۔ تو ہمارا معاملہ ہمارے خدا سے ہے۔ ہم اس کے دیے ہوئے اہداف کو پورا کرتے ہوئے جینا چاہتے ہیں۔ ہم مثبت زندگی گزار کر خدا کو راضی کر کے بڑا انعام پائیں گے۔ یہ سب ہمارے اپنے فائدے کے لیے ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ خدا کو سامنے رکھ کر جینا ہمارے لیے ایک اجنبی تصور بن چکا ہے۔خدا کا تصور ہمارے ذہنوں میں ا ب زندہ شکل میں موجود نہیں ہے۔ ہمارے دلوں میں اس سے انعام پانے کی حقیقی تمنا ہی موجود نہیں۔

’’جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں‘‘، یہی وجہ ہے کہ مومنانہ زندگی جینا ہمارے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ ہم خدا کے بجاے لوگوں کو سامنے رکھ کر زندگی جی رہے ہیں۔ اس انداز سے جینے والا لوگوں کے منفی رویے کے جواب میں منفی رویہ ہی پیش کرے گا۔ وہ ’’اینٹ مارو گے، جواب پتھر آئے گا‘‘ والے منشور پر جیے گا۔ وہ کیوں معاف کرنے اور درگذر کرنے والا انداز اختیار کرے گا ؟ ایسا پاکیزہ عمل تو وہی کر سکے گا جس کی نظر میں خدا اور اس کی رضا اور انعام ہو۔

م  حضرت مسطح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے۔ ایک واقعہ ہوا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں اور حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں۔ ان پہ منافقین نے معاذ اللہ بدکرداری کی تہمت لگا دی۔ بعد میں پھر یہ ہوا کہ کچھ لوگ اس پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔ مثلاً ایک آدمی ہے، اس نے ایک شوشہ چھوڑ دیا کہ ایسا ہوا، دوسرے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ بغیر دیکھے اور بغیر تحقیق کے یقین کر لیتے ہیں، یعنی یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ تحقیق کر لیں کہ یہ واقعہ درست بھی ہوگا یا نہیں۔بس کسی نے کہہ دیا تو آگے پھیلانا شروع ہو جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلانا شروع کردے[2]۔ ایسا کرنا تو بالکل غلط ہے۔ ان چند مخلص لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہو گیا کہ انھوں نے یہ بات سنی تو آگے پھیلانا شروع کر دی اور سارے علاقے میں شور مچ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے پریشان ہوئے کہ میری اہلیہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں ہونے لگ گئیں۔ مسطح حضرت ابوبکر صدیق کے بھانجے تھے اور انھوں نے ان کی پرورش کی تھی۔ بچپن میں بڑی خدمت بھی کی اور ان پر خرچ بھی خوب کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کو اس بات کا بڑا دکھ ہوا کہ جو اتنا عزیز بھانجا ہے، جس کی اتنی خدمت کی، وہ بھی اس تہمت میں شریک ہو گیا ؟ انھوں نے قسم اٹھائی کہ آج کے بعد میں اس پر کبھی خرچ نہیں کروں گا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ رہنمائی فرمائی کہ تم میں سے جو استطاعت رکھنے والے لوگ ہیں، (حضرت ابوبکر صدیق کی طرف اشارہ ہے) یہ ایسی قسمیں نہ کھائیں کہ وہ آیندہ اللہ کی راہ میں نہیں خرچ کریں گے۔اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ آپ مسطح کی راہ میں نہیں خرچ کر رہے، آپ تو خدا کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ جب آپ صدقہ کر رہے ہوتے ہیں تو وہ دیکھنے میں ایک بندہ ہے جس کو آپ دے رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ حقیقت میں آپ خدا کے ہاتھ میں دے رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا کسی کے منفی رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے آپ منفی response کے طور پر اللہ کی راہ میں خرچ ترک نہ کریں، آپ مثبت response کا مظاہرہ کریں، کیونکہ یہ آپ جو کچھ بھی دے رہے ہیں، دراصل اللہ کے ہاتھ میں دے رہے ہوتے ہیں۔

خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مکمل مثبت response سے بھری پڑی ہے۔ خدا کی طرف سے ملے تمام tasks مکمل کر کے وہ کامیابی کے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔اسی طرح انبیا کی پیروی میں کئی لوگوں نے خدائی task پورے کیے۔ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صبح سے شام تک کوئی موقع ایسا نہیں آتا، جس میں ہم منفی response نہ دے رہے ہوں۔ہم نے مثبت response کب دینا ہے ؟ ہم نے فرشتوں کی آواز پر کان کب دھرنے ہیں ؟ ہمیں یہ سب اچھی طرح سوچ کر اپنی زندگی بہترکرنی ہو گی، ورنہ ہم خدائی task پورا کیے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو زندگی کے بارے میں بہت سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کی توفیق دے، اور ہمیں ایسی زندگی جینا نصیب کرے جس پر اس نے بڑے انعام کا وعدہ کر رکھا ہے۔

____________

[1]۔ حٰم السجدہ۴۱: ۳۰۔ ’اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ‘۔

[2]۔ مسلم۱/ ۱۰۔


B